باب: اس بارے میں کہ حائضہ بیت اللہ کے طواف کے علاوہ حج کے باقی ارکان پورا کرے گی۔
)
Sahi-Bukhari:
Menstrual Periods
(Chapter: A menstruating women should perform all the ceremonies of Hajj except the Tawaf around the Ka'bah)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
ابراہیم نے کہا کہ آیت پڑھنے میں کوئی حرج نہیں اور حضرت عبداللہ بن عباس ؓجنبی کے لیے قرآن مجید پڑھنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ اور نبی ﷺ ہر وقت اللہ کا ذکر کیا کرتے تھے۔ امام عطیہ نے فرمایا ہمیں حکم ہوتا تھا کہ ہم حیض والی عورتوں کو بھی ( عید کے دن ) باہر نکالیں۔ پس وہ مردوں کے ساتھ تکبیر کہتیں اور دعا کرتیں۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ ان سے ابوسفیان نے بیان کیا کہ ہرقل نے نبی کریم ﷺ کے گرامی نامہ کو طلب کیا اور اسے پڑھا۔ اس میں لکھا ہوا تھا۔ شروع کرتا ہوں میں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔ اور اے کتاب والو! ایک ایسے کلمہ کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے کہ ہم خدا کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں اور اس کا کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے قول مسلمون تک۔ عطاء نے جابر کے حوالہ سے بیان کیا کہ حضرت عائشہ ؓ کو ( حج میں ) حیض آ گیا تو آپ نے تمام مناسک پورے کئے سوائے بیت اللہ کے طواف کے اور آپ نماز بھی نہیں پڑھتی تھیں اور حکم نے کہا میں جنبی ہونے کے باوجود ذبح کرتا ہوں جب کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جس ذبیحہ پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اسے نہ کھاؤ۔اس لیے حکم کی مراد بھی ذبح کرنے میں اللہ کے ذکر کوجنبی ہونے کی حالت میں کرنا ہے۔
305.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ بایں حالت نکلے کہ ہم حج کے علاوہ کسی چیز کا ذکر نہ کرتے تھے۔ جب ہم مقام سرف پر پہنچے تو مجھے حیض آ گیا۔ نبی ﷺ میرے پاس تشریف لائے تو میں رو رہی تھی۔ آپ نے پوچھا: ’’تم کیوں رو رہی ہو؟‘‘ میں نے عرض کیا: کاش میں امسال حج کا ارادہ ہی نہ کرتی۔ آپ نے فرمایا: ’’شاید تمہیں حیض آ گیا ہے؟‘‘ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ’’اسے تو اللہ تعالیٰ نے تمام بناتِ آدم پر لکھ دیا ہے، اس لیے تم وہ تمام افعال کرتی رہو جو حاجی کرتا ہے، البتہ بیت اللہ کا طواف نہیں کرنا تاآنکہ تم پاک ہو جاؤ۔‘‘
ابراہیم نے کہا کہ آیت پڑھنے میں کوئی حرج نہیں اور حضرت عبداللہ بن عباس ؓجنبی کے لیے قرآن مجید پڑھنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ اور نبی ﷺ ہر وقت اللہ کا ذکر کیا کرتے تھے۔ امام عطیہ نے فرمایا ہمیں حکم ہوتا تھا کہ ہم حیض والی عورتوں کو بھی ( عید کے دن ) باہر نکالیں۔ پس وہ مردوں کے ساتھ تکبیر کہتیں اور دعا کرتیں۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ ان سے ابوسفیان نے بیان کیا کہ ہرقل نے نبی کریم ﷺ کے گرامی نامہ کو طلب کیا اور اسے پڑھا۔ اس میں لکھا ہوا تھا۔ شروع کرتا ہوں میں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔ اور اے کتاب والو! ایک ایسے کلمہ کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے کہ ہم خدا کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں اور اس کا کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے قول مسلمون تک۔ عطاء نے جابر کے حوالہ سے بیان کیا کہ حضرت عائشہ ؓ کو ( حج میں ) حیض آ گیا تو آپ نے تمام مناسک پورے کئے سوائے بیت اللہ کے طواف کے اور آپ نماز بھی نہیں پڑھتی تھیں اور حکم نے کہا میں جنبی ہونے کے باوجود ذبح کرتا ہوں جب کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جس ذبیحہ پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اسے نہ کھاؤ۔اس لیے حکم کی مراد بھی ذبح کرنے میں اللہ کے ذکر کوجنبی ہونے کی حالت میں کرنا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ بایں حالت نکلے کہ ہم حج کے علاوہ کسی چیز کا ذکر نہ کرتے تھے۔ جب ہم مقام سرف پر پہنچے تو مجھے حیض آ گیا۔ نبی ﷺ میرے پاس تشریف لائے تو میں رو رہی تھی۔ آپ نے پوچھا: ’’تم کیوں رو رہی ہو؟‘‘ میں نے عرض کیا: کاش میں امسال حج کا ارادہ ہی نہ کرتی۔ آپ نے فرمایا: ’’شاید تمہیں حیض آ گیا ہے؟‘‘ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ’’اسے تو اللہ تعالیٰ نے تمام بناتِ آدم پر لکھ دیا ہے، اس لیے تم وہ تمام افعال کرتی رہو جو حاجی کرتا ہے، البتہ بیت اللہ کا طواف نہیں کرنا تاآنکہ تم پاک ہو جاؤ۔‘‘
ابراہیم (نخعی) نے فرمایا: حائضہ عورت کے لیے آیت پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ جنبی کے لیے قرآن کریم پڑھنے میں کوئی حرج نہیں خیال کرتے تھے۔ نبی ﷺ اپنے تمام اوقات میں اللہ کا ذکر کیا کرتے تھے۔ حضرت ام عطیہ ؓ فرماتی ہیں: عید کے دن حائضہ عورتوں کو بھی باہر نکلنے کا حکم ہوتا تھا۔ وہ بھی مردوں کی طرح تکبیرات پڑھتی تھیں اور دعا کرتی تھیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: انہیں حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ ہرقل نے نبی ﷺ کا نامہ مبارک طلب کیا اور اسے پڑھایا، اس میں لکھا تھا: "شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان انتہائی رحم کرنے والا ہے: اے اہل کتاب! ایک ایسے کلمے کی طرف آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائین ۔۔ الآیۃ۔" حضرت عطاء حضرت جابر ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ کو (حج میں) حیض آ گیا تو انہوں نے بیت اللہ کے طواف کے سوا دیگر تمام مناسکِ حج پورے کیے اور وہ نماز بھی نہیں پڑھتی تھیں۔ حضرت حکم نے کہا: میں جنبی ہونے کے باوجود جانور ذبح کر لیتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "تم اس ذبیحت کو نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو۔"
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی سلمہ نے بیان کیا، انھوں نے عبدالرحمن بن قاسم سے، انھوں نے قاسم بن محمد سے، وہ حضرت عائشہ ؓ سے، آپ نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کے لیے اس طرح نکلے کہ ہماری زبانوں پر حج کے علاوہ اور کوئی ذکر ہی نہ تھا۔ جب ہم مقام سرف پہنچے تو مجھے حیض آ گیا۔ (اس غم سے) میں رو رہی تھی کہ نبی ﷺ تشریف لائے، آپ نے پوچھا کہ کیوں رو رہی ہو؟ میں نے کہا کاش! میں اس سال حج کا ارادہ ہی نہ کرتی۔ آپ نے فرمایا: شاید تمہیں حیض آ گیا ہے۔ میں نے کہا جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: یہ چیز تو اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں کے لیے مقرر کر دی ہے۔ اس لیے تم جب تک پاک نہ ہو جاؤ طواف بیت اللہ کے علاوہ حاجیوں کی طرح تمام کام انجام دو۔
حدیث حاشیہ:
سید المحدثین حضرت امام بخاری ؒ کا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ حائضہ اور جنبی کے لیے قرآن کریم کی تلاوت کی اجازت ہے۔ جیسا کہ حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب مبارک پوری مرحوم ؒ فرماتے ہیں:'' اعلم أن البخاري عقد بابا في صحیحه یدل علی أنه قائل بجواز قراءة القرآن للجنب والحائض۔''( تحفة الأحوذي، جلد:1، ص: 124 ) حضرت امام بخاری ؒ کی نظر میں کوئی صحیح روایت ایسی نہیں ہے جس میں جنبی اور حائضہ کو قراءت سے روکا گیا ہو۔ گو اس سلسلے میں متعدد روایات ہیں اور بعض کی متعدد محدثین نے تصحیح کی ہے، لیکن صحیح یہی ہے کہ کوئی صحیح روایت اس سلسلہ میں نہیں ہے۔ جیسا کہ صاحب ایضاح البخاری نے جزء11، ص: 94 پر تحریر فرمایا ہے: درجہ حسن تک کی روایات توموجود ہیں، البتہ ان تمام روایات کا قدر مشترک یہی ہے کہ جنبی کو قراءت قرآن کی اجازت نہیں ہے۔ لیکن چونکہ حضرت امام بخاری ؒ کی نظر میں کوئی روایت درجہ صحت تک پہنچی ہوئی نہیں ہے۔ اس لیے انھوں نے جنبی اور حائضہ کے لیے قراءت قرآن کو جائز رکھا ہے۔ ائمہ فقہاء میں سے حضرت امام مالک ؒ سے دوروایتیں ہیں: ایک میں جنبی اور حائضہ ہردو کوقراء ت کی اجازت ہے اور طبری ؒ، ابن منذر ؒ اور بعض حضرات سے بھی یہ اجازت منقول ہے۔ حضرت مولانا مبارک پوری قدس سرہ فرماتے ہیں: ''تمسك البخاري ومن قال بالجواز غیرہ کالطبري وابن المنذر و داود بعموم حدیث کان یذکر اللہ علی کل أحیانه لأن الذکر أعم أن یکون بالقرآن أوبغیرہ الخ''(تحفة الأحوذي، ج:1، ص: 124) ’’یعنی حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کے علاوہ دیگر مجوزین نے حدیث یذکراللہ علی کل احیانہ ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہرحال میں اللہ کا ذکر فرماتے تھے ) سے استدلال کیا ہے۔ اس لیے کہ ذکرمیں تلاوت قرآن بھی داخل ہے۔‘‘ مگرجمہور کا مذہب مختار یہی ہے کہ جنبی اور حائضہ کو قراء ت قرآن جائز نہیں۔ تفصیل کے لیے تحفۃ الاحوذی کا مقام مذکورہ مطالعہ کیاجائے۔ صاحب ایضاح البخاری فرماتے ہیں کہ درحقیقت ان اختلافات کا بنیادی منشاء اسلام کا وہ توسع ہے جس کے لیے آنحضور ﷺ نے اپنی حیات میں بھی فرمایا تھا اور ایسے ہی اختلافات کے متعلق آپ نے خوش ہو کر پیشین گوئی کی تھی کہ میری امت کا اختلاف باعث رحمت ہوگا۔ (إیضاح البخاري: ج2، ص: 32) (امت کا اختلاف باعث رحمت ہونے کی حدیث صحیح نہیں)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): We set out with the Prophet (ﷺ) for Hajj and when we reached Sarif I got my menses. When the Prophet (ﷺ) came to me, I was weeping. He asked, "Why are you weeping?" I said, "I wish if I had not performed Hajj this year." He asked, "May be that you got your menses?" I replied, "Yes." He then said, "This is the thing which Allah has ordained for all the daughters of Adam. So do what all the pilgrims do except that you do not perform the Tawaf round the Ka’bah till you are clean."