باب : ذمیوں کی سفارش اور ان سے کیسا معاملہ کیا جائے
)
Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: Can one intercede for the Dhimmi or deal with them?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3053.
حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: جمعرات کا دن !کیا ہے جمعرات کا دن! اس کے بعد وہ اس قدر روئے کہ آنسوؤں سے زمین کی کنکریاں تر ہوگئیں۔ پھر کہنے لگے کہ جمعرات کے دن رسول اللہ ﷺ کی بیماری زیادہ ہو گئی تو آپ نے فرمایا: ’’میرے پاس لکھنے کے لیے کچھ لاؤ تاکہ میں تمھیں ایک تحریر لکھوا دوں، تم اس کے بعد ہر گز گمراہ نہیں ہو گے۔‘‘ لیکن لوگوں نے اختلاف کیا اور نبی کے پاس جھگڑنا مناسب نہیں۔ پھر لوگوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ تو جدائی کی باتیں کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’مجھے چھوڑ دو۔ کیونکہ میں جس حالت میں ہوں وہ اس سے بہتر ہے جس کی جانب تم مجھے بلا رہے ہو۔‘‘ اور آپ نے اپنی وفات کے وقت تین باتوں کی وصیت فرمائی: ’’مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دینا اور قاصدوں کو اسی طرح انعام دینا جس طرح میں دیتا تھا۔‘‘ راوی کہتا ہے کہ میں تیسری بات بھول گیا ہوں۔ مغیرہ بن عبد الرحمٰن نے جزیرہ عرب کے متعلق فرمایا کہ وہ مکہ، مدینہ، یمامہ اور یمن ہے۔ ان کے شاگرد یعقوب نے کہا: اور مقام عرج جہاں سے تہامہ شروع ہوتا ہے۔
حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: جمعرات کا دن !کیا ہے جمعرات کا دن! اس کے بعد وہ اس قدر روئے کہ آنسوؤں سے زمین کی کنکریاں تر ہوگئیں۔ پھر کہنے لگے کہ جمعرات کے دن رسول اللہ ﷺ کی بیماری زیادہ ہو گئی تو آپ نے فرمایا: ’’میرے پاس لکھنے کے لیے کچھ لاؤ تاکہ میں تمھیں ایک تحریر لکھوا دوں، تم اس کے بعد ہر گز گمراہ نہیں ہو گے۔‘‘ لیکن لوگوں نے اختلاف کیا اور نبی کے پاس جھگڑنا مناسب نہیں۔ پھر لوگوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ تو جدائی کی باتیں کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’مجھے چھوڑ دو۔ کیونکہ میں جس حالت میں ہوں وہ اس سے بہتر ہے جس کی جانب تم مجھے بلا رہے ہو۔‘‘ اور آپ نے اپنی وفات کے وقت تین باتوں کی وصیت فرمائی: ’’مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دینا اور قاصدوں کو اسی طرح انعام دینا جس طرح میں دیتا تھا۔‘‘ راوی کہتا ہے کہ میں تیسری بات بھول گیا ہوں۔ مغیرہ بن عبد الرحمٰن نے جزیرہ عرب کے متعلق فرمایا کہ وہ مکہ، مدینہ، یمامہ اور یمن ہے۔ ان کے شاگرد یعقوب نے کہا: اور مقام عرج جہاں سے تہامہ شروع ہوتا ہے۔
ہم سے قبیصہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ ان سے سلیمان احول نے ‘ ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ جمعرات کے دن ‘ اور معلوم ہے جمعرات کا دن کیا ہے ؟ پھر آپ اتنا روئے کہ کنکریاں تک بھیگ گئیں ۔ آخر آپ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کی بیماری میں شدت اسی جمعرات کے دن ہوئی تھی ۔ تو آپ ﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ قلم دوات لاؤ ‘ تاکہ میں تمہارے لئے ایک ایسی کتاب لکھوا جاؤں کہ تم ( میرے بعد اس پر چلتے رہو تو ) کبھی گمراہ نہ ہو سکو اس پر صحابہ میں اختلاف ہوگیا ۔ آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ نبی کے سامنے جھگڑنا مناسب نہیں ہے ۔ صحابہ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ ( بیماری کی شدت سے ) ہیں ۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اچھا ‘ اب مجھے میری حالت پر چھوڑ دو ‘ میں جس حال میں اس وقت ہوں وہ اس سے بہتر ہے جو تم کرانا چاہتے ہو ۔ آخر آپ ﷺ نے اپنی وفات کے وقت تین وصیتیں فرمائی تھیں ۔ یہ مشرکین کو جزیرہ عرب سے باہر کر دینا ۔ دوسرے یہ کہ وفود سے ایسا ہی سلوک کرتے رہنا ‘ جیسے میں کرتا رہا ( ان کی خاطر داری ضیافت وغیرہ ) اور تیسری ہدایت میں بھول گیا ۔ اور یعقوب بن محمد نے بیان کیا کہ میں نے مغیرہ بن عبدالرحمٰن سے جزیرہ عرب کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہا مکہ ‘ مدینہ ‘ یمامہ اوریمن ( کا نام جزیرہ عرب ) ہے ۔ اور یعقوب نے کہا کہ عرج سے تہامہ شروع ہوتا ہے ۔ (عرج مکہ اور مدینہ کے راستے میں ایک منزل کا نام ہے۔)
حدیث حاشیہ:
ہجر کے معنی بیماری کی حالت میں ہذیانی کیفیت کا ہونا۔ آنحضرتﷺ بیماری اور غیر بیماری ہر حالت میں ہذیان سے محفوظ تھے۔ بعض روایتوں میں أهجر استفهموہ ہے۔ یعنی کیا پیغمبر صاحبﷺ کی باتیں ہذیان ہیں؟ آپ سے اچھی طرح پوچھ لو‘ سمجھ لو گویا یہ ان لوگوں کا کلام ہے جو کتاب لکھوانے کے حق میں تھے۔ بعضوں نے کہا یہ کلام حضرت عمر ؓ نے کہا تھا اور قرینہ بھی یہی ہے کیونکہ وہ کتاب لکھے جانے کے مخالف تھے۔ اس صورت میں ہجر کے معنی یہ ہوں گے کہ کیا آپ دنیا کو چھوڑنے والے ہیں؟ یعنی آپ کیا وفات پا جائیں گے۔ حضرت عمر ؓ کو گھبراہٹ اور رنج میں یہ خیال سما گیا تھا کہ آپ کو موت نہیں آ سکتی‘ اس حالت میں کتاب لکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ قسطلانی نے کہا‘ ظاہر یہ ہے کہ آپ حضرت ابوبکر ؓ کی خلافت لکھوانا چاہتے تھے‘ جیسے امام مسلم کی روایت میں ہے کہ آپ نے حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا‘ تو اپنے باپ اور بھائی کو بلا لے۔ میں ڈرتا ہوں کہیں کوئی اور خلافت کی آرزو کرے‘ اللہ اور مسلمان سوائے ابوبکر ؓ کے اور کسی کی خلافت نہیں مانتے۔ وصایائے نبوی میں ایک اہم وصیت یہ تھی کہ جزیرۂ عرب میں سے مشرکین اور یہود و نصاریٰ کو نکال دیا جائے‘ عرب کا ملک طول میں عدن سے عراق تک اور عرض میں جدہ سے شام تک ہے۔ اور اس کو جزیرہ اس لئے فرمایا کہ تین طرف سے سمندر اس کو گھیرے ہوئے ہے۔ یہ وصیت حضرت عمر ؓ نے اپنی خلافت میں پوری کی۔ ملک عرب کو ہر چار جانب سے بحر ہند و بحر قلزم و بحر فارس و بحر حبشہ نے گھیرا ہوا ہے اس لئے اسے جزیرہ کہا گیا ہے۔ حدیث کے جملہ وَلاَ يَنْبَغِي عِنْدَ نَبِيٍّ تَنَازُعٌ پر علامہ قسطلانی ؒ لکھتے ہیں۔ الظاهر انہ من قوله صلی اللہ علیه وسلم لا من قول ابن عباس کما وقع التصریح به في کتاب العلم قال النبي صلی اللہ علیه وسلم قوموا عني ولا ینبغي عندي التنازع انتهی والظاهر أن هذا الكتاب الذي أراده إنما هو في النص على خلافة أبي بكر، لكنهم لما تنازعوا واشتدّ مرضه -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- عدل عن ذلك معوّلاً على ما أصله من استخلافه في الصلاة لتنازعهم واشتد مرضه صلی اللہ علیه وسلم ویدل علیہ ما وعند مسلم عن عائشة أنه -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- قال: "ادعي لي أبا بكر وأخاك أكتب كتابًا فإني أخاف أن يتمنى متمنٍّ ويقول قائل: أنا أولى ويأبى الله والمؤمنون إلا أبا بكر"وعند البزار من حديثها لما اشتد وجعه عليه الصلاة والسلام قال: "ائتوني بدواة وكتف أو قرطاس أكتب لأبي بكر كتابًا لا يختلف الناس عليه" ثم قال: "معاذ الله أن يختلف الناس على أبي بكر" فهذا نص صريح علی تقدیم خلافة أبي بکر۔(قسطلاني)ظاہر ہے کہ الفاظ قوموا عنی الخ خود آنحضرتﷺ ہی کے فرمودہ ہیں یہ ابن عباس ؓ کے لفظ نہیں ہیں جیسا کہ کتاب العلم میں صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا‘ میرے پاس جھگڑنا مناسب نہیں لہٰذا یہاں سے کھڑے ہو جائو‘ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ جس کتاب کے لکھنے کا آنحضرتﷺ نے ارادہ فرمایا تھا وہ کتاب خلافت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے متعلق آپ لکھنا چاہتے تھے۔ پھر آپ نے لوگوں کے تنازع اور اپنی تکلیف مرض دیکھ کر اس ارادہ کو ترک فرما دیا اور اس لئے بھی کہ آپ اپنی حیات طیبہ ہی میں حضرت صدیق اکبر ؓ کو نماز میں امام بنا کر اپنی گدی ان کے حوالے فرما چکے تھے جیسا کہ مسلم شریف کی روایت عائشہ صدیقہ میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا‘ اپنے والد ابوبکر کو بلا لو اور اپنے بھائی کو بھی تاکہ میں ایک کتاب لکھوا دوں‘ میں ڈرتا ہوں کہ میرے بعد کوئی خلافت کی تمنا لے کر کھڑا ہو اور کہے کہ میں اس کا زیادہ مستحق ہوں‘ حالانکہ اللہ پاک نے اور جملہ ایمان والوں نے اس عظیم خدمت کے لئے ابوبکر ؓ ہی کو منتخب کر لیا ہے اور بزار میں انہی کی روایت سے یوں ہے کہ آپ نے شدت مرض میں فرمایا‘ میرے پاس دوات کاغذ وغیرہ لائو کہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لئے دستاویز لکھوا دوں‘ تاکہ لوگ اس پر اختلاف نہ کریں۔ پھر فرمایا کہ اللہ کی پناہ اس سے کہ لوگ خلافت ابوبکر میں اختلاف کریں۔ پس حضرت صدیق اکبر ؓ کی خلافت پر یہ نص صریح ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Said bin Jubair (RA): Ibn 'Abbas (RA) said, "Thursday! What (great thing) took place on Thursday!" Then he started weeping till his tears wetted the gravels of the ground . Then he said, "On Thursday the illness of Allah's Apostle (ﷺ) was aggravated and he said, "Fetch me writing materials so that I may have something written to you after which you will never go astray." The people (present there) differed in this matter and people should not differ before a prophet. They said, "Allah's Apostle (ﷺ) is seriously sick.' The Prophet (ﷺ) said, "Let me alone, as the state in which I am now, is better than what you are calling me for." The Prophet (ﷺ) on his death-bed, gave three orders saying, "Expel the pagans from the Arabian Peninsula, respect and give gifts to the foreign delegates as you have seen me dealing with them." I forgot the third (order)" (Ya'qub bin Muhammad said, "I asked Al-Mughira bin 'Abdur-Rahman about the Arabian Peninsula and he said, 'It comprises Makkah, Medina, Al-Yama-ma and Yemen." Ya'qub added, "And Al-Arj, the beginning of Tihama.")