باب : خلیفہ اسلام کی طرف سے مردم شماری کرانا(کہتے ہیں کہ یہ مردم شماری جنگ احد یا جنگ خندق یا صلح حدیبیہ کے موقع پر کی گئی ۔)
)
Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: The listing of the people by the Imam)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3060.
حضرت حذیفہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’جتنے لوگ بھی کلمہ اسلام پڑھتے ہیں ان کی مردم شماری کر کے میرے سامنے پیش کرو۔‘‘ چنانچہ ہم نے ایک ہزار پانچ صد مردوں کے نام قلم بند کیے۔ پھر ہم نے (اپنے دل میں) کہا’’ کیا ہم اب بھی (کافروں سے) ڈریں، حالانکہ ہم پندرہ سو کی تعدادمیں ہیں؟ پھر ہم نے اپنی جماعت کو دیکھا کہ ہم اس قدر خوف و ہراس میں مبتلا کر دیے گئے کہ ہم میں سے کوئی مارے خوف کے اکیلا ہی نماز پڑھ لیتا۔ امام اعمش کی روایت میں ہےکہ ہم نے پانچ سو مسلمانوں کی تعداد لکھی۔ اور ابو معاویہ کی روایت ہے کہ وہ تعدادچھ سو سے سات سو تک تھے۔
تشریح:
1۔ حضرت حذیفہ ؓنے یہ بات اس وقت کہی جب حضرت عثمان ؓ کی طرف سے ولید بن عقبہ ؓ کو کوفہ گورنر مقرر کیا گیا اور وہ نماز پڑھنے میں بہت تاخیر کرتے تو تقوی شعار لوگ اول وقت اکیلے ہی نماز ادا کر لیتے ۔ لیکن ہمارے دور میں تو حکمران نماز کا نام ہی نہیں لیتے۔ حضرت حذیفہ ؓ کا مطلب یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں تو ہم ڈیڑھ ہزار ہونے پر نڈر اور بے خوف ہو گئے تھے اب ہزاروں کی تعداد میں ہیں اس کے باوجود حق بات کہنے سے ڈرتے ہیں اور بعض توڈر کے مارے اکیلے ہی نماز پڑھ لیتے ہیں۔ اور منہ سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ واللہ المستعان۔ 2۔تعداد میں اختلاف کی وجہ اس لیے ہے کہ شاید کئی ایک مقامات پر مردم شماری کی گئی ہو۔ بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ ڈیڑھ ہزار سے مراد مرد عورتیں اور بچے سب مسلمان ہیں اور چھ سو سے سات سو تک صرف مرد مراد ہیں۔ اور پانچ سو سے مراد وہ فوجی جوان ہیں جو میدان میں لڑنے والے تھے واللہ اعلم۔ امام بخاری ؒنے اس کو مردم شماری کے جواز کی دلیل بنایا ہے۔
حضرت حذیفہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’جتنے لوگ بھی کلمہ اسلام پڑھتے ہیں ان کی مردم شماری کر کے میرے سامنے پیش کرو۔‘‘ چنانچہ ہم نے ایک ہزار پانچ صد مردوں کے نام قلم بند کیے۔ پھر ہم نے (اپنے دل میں) کہا’’ کیا ہم اب بھی (کافروں سے) ڈریں، حالانکہ ہم پندرہ سو کی تعدادمیں ہیں؟ پھر ہم نے اپنی جماعت کو دیکھا کہ ہم اس قدر خوف و ہراس میں مبتلا کر دیے گئے کہ ہم میں سے کوئی مارے خوف کے اکیلا ہی نماز پڑھ لیتا۔ امام اعمش کی روایت میں ہےکہ ہم نے پانچ سو مسلمانوں کی تعداد لکھی۔ اور ابو معاویہ کی روایت ہے کہ وہ تعدادچھ سو سے سات سو تک تھے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ حضرت حذیفہ ؓنے یہ بات اس وقت کہی جب حضرت عثمان ؓ کی طرف سے ولید بن عقبہ ؓ کو کوفہ گورنر مقرر کیا گیا اور وہ نماز پڑھنے میں بہت تاخیر کرتے تو تقوی شعار لوگ اول وقت اکیلے ہی نماز ادا کر لیتے ۔ لیکن ہمارے دور میں تو حکمران نماز کا نام ہی نہیں لیتے۔ حضرت حذیفہ ؓ کا مطلب یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں تو ہم ڈیڑھ ہزار ہونے پر نڈر اور بے خوف ہو گئے تھے اب ہزاروں کی تعداد میں ہیں اس کے باوجود حق بات کہنے سے ڈرتے ہیں اور بعض توڈر کے مارے اکیلے ہی نماز پڑھ لیتے ہیں۔ اور منہ سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ واللہ المستعان۔ 2۔تعداد میں اختلاف کی وجہ اس لیے ہے کہ شاید کئی ایک مقامات پر مردم شماری کی گئی ہو۔ بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ ڈیڑھ ہزار سے مراد مرد عورتیں اور بچے سب مسلمان ہیں اور چھ سو سے سات سو تک صرف مرد مراد ہیں۔ اور پانچ سو سے مراد وہ فوجی جوان ہیں جو میدان میں لڑنے والے تھے واللہ اعلم۔ امام بخاری ؒنے اس کو مردم شماری کے جواز کی دلیل بنایا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا ‘ ان سے اعمش نے ‘ ان سے ابو وائل نے اوران سے حضرت حذیفہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو لوگ اسلام کا کلمہ پڑھ چکے ہیں ان کے نام لکھ کرمیرے پاس لاؤ ۔ چنانچہ ہم نے ڈیڑھ ہزار مردوں کے نام لکھ کر آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کئے اور ہم نے آنحضرت ﷺ سے عرض کیا ہماری تعداد ڈیڑھ ہزار ہو گئی ہے ۔ اب ہم کوکیا ڈر ہے ۔ لیکن تم دیکھ رہے ہو کہ ( آنحضرت ﷺ کے بعد ) ہم فتنوں میں اس طرح گھر گئے کہ اب مسلمان تنہا نماز پڑھتے ہوئے بھی ڈرنے لگا ہے ۔ ہم سے عبدان نے بیان کیا ‘ ان سے ابو حمزہ نے اور ان سے اعمش نے ( مذکورہ بالاسند کے ساتھ ) کہ ہم نے پانچ سو مسلمانوں کی تعداد لکھی ( ہزار کا ذکر اس روایت میں نہیں ہوا ) اور ابو معاویہ نے ( اپنی روایت میں ) یوں بیا ن کیا ‘ کہ چھ سو سے سات سو تک ۔
حدیث حاشیہ:
ابو معاویہ کی روایت کو امام مسلم اور احمد اور نسائی اور ابن ماجہ نے نکالا ہے۔ وسلك الداودي الشارح طریق الجمع فقال لعلهم کتبوا مرات في مواطن یعنی تعداد میں اختلاف اس لئے ہوا کہ شاید ان لوگوں نے کئی جگہ مردم شماری کی ہو‘ بعض نے یہ بھی کہا کہ ڈیڑھ ہزار سے مراد مرد عورت بچے غلام جو بھی مسلمان ہوئے سب مراد ہیں اور چھ سو سے سات سو تک خاص مرد مراد ہیں اور پانچ سو سے خالص لڑنے والے مراد ہیں۔ وفي الحدیث مشروعیة کتابة دواوین الجیوش وقد یتعین ذالك عند الاحتیاج إلی تمیز من یصلح للمقاتلة بمن لا یصلح (فتح) حذیفہ ؓ کا مطلب یہ تھا کہ آنحضرتﷺ کے عہد مبارک میں تو ہم ڈیڑھ ہزار کا شمار پورے ہونے پر بے ڈر ہو گئے تھے اور اب ہزاروں لاکھوں مسلمان موجود ہیں‘ یہ حق بات کہتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ کوئی کوئی تو ڈر کے مارے اپنی نماز اکیلے پڑھ لیتا ہے اور منہ سے کچھ نہیں نکال سکتا۔ یہ حذیفہ ؓنے اس زمانے میں کہا جب ولید بن عقبہ حضرت عثمان ؓ کی طرف سے کوفہ کا حاکم تھا اور نمازیں اتنی دیر کر کے پڑھتا کہ معاذ اللہ۔ آخر بعض متقی لوگ اوّل وقت نماز پڑھ لیتے پھر جماعت میں بھی اس کے ڈر سے شریک ہو جاتے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Hudhaifa (RA): The Prophet (ﷺ) said (to us), " List the names of those people who have announced that they are Muslims." So, we listed one thousand and five hundred men. Then we wondered, "Should we be afraid (of infidels) although we are one thousand and five hundred in number?" No doubt, we witnessed ourselves being afflicted with such bad trials that one would have to offer the prayer alone in fear.