Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: Speaking with an unfamiliar accent)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” ( اللہ کی نشانیوں میں ) تمہاری زبان اوررنگ کا اختلاف بھی ہے‘‘ ۔ اور ( اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ ) ” ہم نے کوئی رسو ل نہیں بھیجا ‘ لیکن یہ کہ وہ اپنی قوم کا ہم زبان ہوتا تھا۔‘‘امام بخاری کا اس باب کے لانے سے یہ مطلب ہے کہ ایک زبان کا سیکھنا اور بولنا درست ہے کیونکہ سب زبانیں اللہ کی طرف سے ہیں۔انگریزی ہندی کا بھی یہی حکم ہے۔اور دوسری آیت میں ہے (وان من امۃ الا خلا فیہا نذیر)تو معلوم ہوا کہ ہر ایک زبان پغمبر کی زبان ہے‘کیونکہ اس قوم میں جو پغمبر آیا ہوگا وہ ان ہی کی زبان بولتا ہوگا ان آیتوں سے یہ ثابت ہوا کہ انگریزی‘ہندی‘مرہٹی‘روسی‘جرمنی زبانیں سیکھنا اور بولنا درست ہے زبانوں کا تعصب انسانی بدبختی کی دلیل ہے‘ہر زبان سے محبت کرنا عین منشائے الٰہی ہے۔لفظ رطانہ راء کی زیر و زبر ے ساتھ غیر عربی میں بولنا۔آیت(وما ارسلنا الخ)میں مصنف کا اشارہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی رسالت اقوام عالم کے لئے ہے اس سلئے بھی ضروری ہوا کہ آپ دنیا کی سا ری زبانوں کی حمایت کریں ان کو خود بذریعہ ترجمان سمجھیں۔ﷺ
3070.
حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے (غزوہ خندق کے وقت)عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! میں نے بکری کا ایک بچہ ذبح کیا ہے اور ایک صاع جو کا آٹا پیسا ہے، لہٰذا آپ خود اور مزید کچھ ساتھی تشریف لے چلیں۔ نبی ﷺ نے بآواز بلند فرمایا: ”اے اہل خندق!آج جابر ؓ نے تمھارے لیے ضیافت تیار کی ہے، آؤ جلدی چلیں۔“
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ تمام زبانیں اللہ کی طرف سے ہیں اوریہ قدرت الٰہی کی نشانیاں ہیں،اس لیے ان کا سیکھنا اور انھیں ذریعہ گفتگو بنانا درست ہے۔زبانوں کے متعلق تعصب رکھنا انسانی بدبختی کی دلیل اور ہرزبان سے محبت رکھنا عین منشائے الٰہی ہے۔دوسری آیت میں اشارہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اقوام عالم کے لیے ہے تو ضروری ہے کہ آپ دنیا کی تمام زبانوں کی حمایت کریں اور انھیں خود یابذریعہ ترجمان سمجھیں۔
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” ( اللہ کی نشانیوں میں ) تمہاری زبان اوررنگ کا اختلاف بھی ہے‘‘ ۔ اور ( اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ ) ” ہم نے کوئی رسو ل نہیں بھیجا ‘ لیکن یہ کہ وہ اپنی قوم کا ہم زبان ہوتا تھا۔‘‘امام بخاری کا اس باب کے لانے سے یہ مطلب ہے کہ ایک زبان کا سیکھنا اور بولنا درست ہے کیونکہ سب زبانیں اللہ کی طرف سے ہیں۔انگریزی ہندی کا بھی یہی حکم ہے۔اور دوسری آیت میں ہے (وان من امۃ الا خلا فیہا نذیر)تو معلوم ہوا کہ ہر ایک زبان پغمبر کی زبان ہے‘کیونکہ اس قوم میں جو پغمبر آیا ہوگا وہ ان ہی کی زبان بولتا ہوگا ان آیتوں سے یہ ثابت ہوا کہ انگریزی‘ہندی‘مرہٹی‘روسی‘جرمنی زبانیں سیکھنا اور بولنا درست ہے زبانوں کا تعصب انسانی بدبختی کی دلیل ہے‘ہر زبان سے محبت کرنا عین منشائے الٰہی ہے۔لفظ رطانہ راء کی زیر و زبر ے ساتھ غیر عربی میں بولنا۔آیت(وما ارسلنا الخ)میں مصنف کا اشارہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی رسالت اقوام عالم کے لئے ہے اس سلئے بھی ضروری ہوا کہ آپ دنیا کی سا ری زبانوں کی حمایت کریں ان کو خود بذریعہ ترجمان سمجھیں۔ﷺ
حدیث ترجمہ:
حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے (غزوہ خندق کے وقت)عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! میں نے بکری کا ایک بچہ ذبح کیا ہے اور ایک صاع جو کا آٹا پیسا ہے، لہٰذا آپ خود اور مزید کچھ ساتھی تشریف لے چلیں۔ نبی ﷺ نے بآواز بلند فرمایا: ”اے اہل خندق!آج جابر ؓ نے تمھارے لیے ضیافت تیار کی ہے، آؤ جلدی چلیں۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "تمھارے رنگ اور زبانوں کے اختلاف میں بھی قدرت کی نشانی ہے۔ "
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی قوم کی زبان میں (وہ اپنی قوم کی زبان بولتا تھا)۔ "
فائدہ:امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ تمام زبانیں اللہ کی طرف سے ہیں اور یہ قدرت الٰہی کی نشانیاں ہیں۔ اس لیے ان کا سیکھنا اور انھیں ذریعہ گفتگو بنانا درست ہے۔ زبانوں کے متعلق تعصب رکھنا انسانی بد نیتی کی دلیل اور ہر انسان سے محبت رکھنا عین منشائے الٰہی ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمرو بن علی فلاس نے بیان کیا، کہا ہم سے ابو عاصم نے بیان کیا، انہیں حنظلہ بن ابی سفیان نے خبر دی، انہیں سعید بن میناء نے خبر دی، کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ ؓ سے سنا۔ آپ نے بیان کیا، کہ میں نے (جنگ خندق میں آنحضرت ﷺ کو بھوکا پا کر چپکے سے) عرض کیا یا رسول اللہ! ہم نے ایک چھوٹا سابکری کا بچہ ذبح کیا ہے۔ اور ایک صاع جو کا آٹا پکوایا ہے۔ اس لئے آپ دو چار آدمیوں کو ساتھ لے کر تشریف لائیں۔ لیکن آنحضرت ﷺ نے بآواز بلند فرمایا اے خندق کھودنے والو! جابر ؓنے دعوت کا کھانا تیار کر لیا ہے۔ آؤ چلو، جلدی چلو۔
حدیث حاشیہ:
لفظ سوراً فارسی ہے جو آپ نے استعمال فرمایا، اسی سے ترجمۃ الباب ثابت ہوا۔ فسادات انسانی میں ایک بڑا فساد خطرناک فساد لسانی تعصب بھی ہے۔ حالانکہ جملہ زبانیں اللہ پاک ہی کی پیدا کردہ ہیں۔ اسلام نے سختی کے ساتھ اس تعصب کا مقابلہ کیا ہے۔ آج کے دور میں زبانوں پر بھی دنیا میں بڑے بڑے فساد برپا ہیں جو سب انسانی جہالت و ضلالت و کج روی کے نتائج ہیں۔ جو لوگ کسی بھی زبان سے تعصب برتتے ہیں ان کی یہ انتہائی حماقت ہے۔ لفظ سوراً سے دعوت کا کھانا مراد ہے یہ فارسی لفظ ہے۔ حضرت امام ؒ نے اس حدیث کے ضعف پر بھی اشارہ فرمایا ہے جس میں مذکور ہے کہ دوزخی لوگ فارسی زبان بولیں گے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir bin Abdullah (RA): I said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! We have slaughtered a young sheep of ours and have ground one Sa of barley. So, I invite you along with some persons." So, the Prophet (ﷺ) said in a loud voice, "O the people of the Trench! Jabir had prepared "Sur" so come along."