Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: Al-Ghulul (stealing from the war booty))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ آل رعمران میں فرمایا ” اور جو کوئی خیانت کرے گا وہ قیامت میں اسے لے کر آئے گا ۔ ‘‘
3073.
حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے خطاب کرتے ہوئے خیانت کا ذکر فرمایا: ’’قیامت کے دن میں تم میں سے کسی کو اس حالت میں نہ پاؤں کہ اس کی گردن پر بکری ممیارہی ہو یا اس کی گردن پر گھوڑا ہنہنا رہا ہو۔ اوروہ چلا رہا ہو۔ اللہ کے رسول اللہ ﷺ !میری مدد فرمائیے۔ میں اسے جواب دوں کہ تیرے لیے میں کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا۔ میں نے تجھے اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا۔ اس کی گردن پر اونٹ بلبلا رہا ہو اور وہ کہے : اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! میری مدد فرمائیں، اور میں جواب دوں کہ میں تمھاری کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ میں نے تو اللہ کا حکم تمھیں پہنچا دیا تھا۔ یا اس کی گردن پر سونے چاندی کے ٹکڑے لادے ہوئے ہوں اور وہ مجھ سے کہے۔ اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! میری مدد فرمائیے اور میں اسے کہہ دوں کہ میں تمھاری کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ میں نے تو اللہ کا پیغام پہنچادیا تھا۔ یا اس کی گردن پر کپڑوں کے ٹکڑے حرکت کر رہے ہوں اور وہ کہے۔ اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! میری مدد کیجیے اور میں کہہ دوں۔ اس وقت میرے اختیار میں کچھ نہیں ہے۔ میں نے تجھے اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا۔‘‘ ایوب سختیانی نے بھی ابو حیان سے یہ الفاظ بیان کیے ہیں:’’اس کی گردن پر گھوڑا ہنہنا رہا ہو۔‘‘
تشریح:
1۔ فتح کے بعد میدان جنگ میں جو بھی مال وغیرہ ملے اسے مال غنیمت کہا جاتا ہے۔اسے باضابطہ طور پر امیر لشکر کے پاس جمع کرانا چاہیے۔ اس کے بعد شرعی تقسیم کے تحت وہ مجاہدین کو دیا جائے گا۔ اس مال غنیمت میں خیانت کا مرتکب اللہ کے ہاں بہت بڑا مجرم ہوگا۔ حدیث میں مذکورہ اشیاء بطورتمثیل بیان ہوئی ہیں۔ مال غنیمت سے تو ایک چادر چرانے والے کو بھی جہنمی کہا گیاہے۔ 2۔اس حدیث سے آیت کریمہ کی بھی تفسیر ہوتی ہے۔کہ دنیا میں جو بھی خیانت کی ہوگی قامت کے دن ساری مخلوق کے سامنے اسے اپنے کندھوں پر اٹھا کرلائے گا اور رسول اللہ ﷺ ڈانٹتے ہوئے اسے فرمائیں گے:’’میں تیرے متعلق کسی قسم کااختیار نہیں رکھتا۔ میں نے تجھے اللہ کا پیغام پہنچا دیاتھا۔ اب تیرےلیے کوئی عذرقابل قبول نہیں۔‘‘
الحکم التفصیلی:
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه، وكذا ابن الجارود. وقال الترمذي: " حديث حسن صحيح ") . إسناده: حدثنا القعنبي عن مالك عن هشام بن عروة عن أبيه عن عائشة.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وقد أخرجاه كما يأتي. والحديث في "الموطأً" (1/363) ... بهذا الإسناد.وعنه: أخرجه البيهقي. وأخرجه أحمد (6/202 و 207 و 213 و 231) من طرق أخرى عن هشام... به. وأخرجه الشيخان من طريق الزهري عن أبي سلمة وعروة عنها. وابن الجارود (496) ، وأحمد (6/164) عنه عن عروة وحده. وله عنها طرق أخرى في "الصحيحين " وغيرهما، وهي مخرجة في "الإرواء"(1069)
اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ آل رعمران میں فرمایا ” اور جو کوئی خیانت کرے گا وہ قیامت میں اسے لے کر آئے گا ۔ ‘‘
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے خطاب کرتے ہوئے خیانت کا ذکر فرمایا: ’’قیامت کے دن میں تم میں سے کسی کو اس حالت میں نہ پاؤں کہ اس کی گردن پر بکری ممیارہی ہو یا اس کی گردن پر گھوڑا ہنہنا رہا ہو۔ اوروہ چلا رہا ہو۔ اللہ کے رسول اللہ ﷺ !میری مدد فرمائیے۔ میں اسے جواب دوں کہ تیرے لیے میں کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا۔ میں نے تجھے اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا۔ اس کی گردن پر اونٹ بلبلا رہا ہو اور وہ کہے : اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! میری مدد فرمائیں، اور میں جواب دوں کہ میں تمھاری کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ میں نے تو اللہ کا حکم تمھیں پہنچا دیا تھا۔ یا اس کی گردن پر سونے چاندی کے ٹکڑے لادے ہوئے ہوں اور وہ مجھ سے کہے۔ اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! میری مدد فرمائیے اور میں اسے کہہ دوں کہ میں تمھاری کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ میں نے تو اللہ کا پیغام پہنچادیا تھا۔ یا اس کی گردن پر کپڑوں کے ٹکڑے حرکت کر رہے ہوں اور وہ کہے۔ اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! میری مدد کیجیے اور میں کہہ دوں۔ اس وقت میرے اختیار میں کچھ نہیں ہے۔ میں نے تجھے اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا۔‘‘ ایوب سختیانی نے بھی ابو حیان سے یہ الفاظ بیان کیے ہیں:’’اس کی گردن پر گھوڑا ہنہنا رہا ہو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ فتح کے بعد میدان جنگ میں جو بھی مال وغیرہ ملے اسے مال غنیمت کہا جاتا ہے۔اسے باضابطہ طور پر امیر لشکر کے پاس جمع کرانا چاہیے۔ اس کے بعد شرعی تقسیم کے تحت وہ مجاہدین کو دیا جائے گا۔ اس مال غنیمت میں خیانت کا مرتکب اللہ کے ہاں بہت بڑا مجرم ہوگا۔ حدیث میں مذکورہ اشیاء بطورتمثیل بیان ہوئی ہیں۔ مال غنیمت سے تو ایک چادر چرانے والے کو بھی جہنمی کہا گیاہے۔ 2۔اس حدیث سے آیت کریمہ کی بھی تفسیر ہوتی ہے۔کہ دنیا میں جو بھی خیانت کی ہوگی قامت کے دن ساری مخلوق کے سامنے اسے اپنے کندھوں پر اٹھا کرلائے گا اور رسول اللہ ﷺ ڈانٹتے ہوئے اسے فرمائیں گے:’’میں تیرے متعلق کسی قسم کااختیار نہیں رکھتا۔ میں نے تجھے اللہ کا پیغام پہنچا دیاتھا۔ اب تیرےلیے کوئی عذرقابل قبول نہیں۔‘‘
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور جو کوئی خیانت کرے گا وہ قیامت کے دن اس خیانت سمیت آئے گا۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا ‘ ان سے ابو حیان نے بیان کیا ‘ ان سے ابو زرعہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے ابو ہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ہمیں خطاب فرمایا اور غلول ( خیانت ) کا ذکر فرمایا ‘ اس جرم کی ہولناکی کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ میں تم میں کسی کو بھی قیامت کے دن اس حالت میں نہ پاؤں کہ اس کی گردن پر بکری لدی ہوئی ہو اور وہ چلا رہی ہو یا اس کی گردن پر گھوڑا لدا ہوا ہوا ور وہ چلا رہا ہو اور وہ شخص مجھ سے کہے کہ یا رسول اللہ ! میری مدد فرمائیے ۔ لیکن میں یہ جواب دے دوں کہ میں تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتا ۔ میں تو ( خدا کا پیغام ) تم تک پہنچا چکا تھا ۔ اور اس کی گردن پر اونٹ لدا ہوا ہو اور چلا رہا ہواور وہ شخص کہے کہ یا رسول اللہ ! میری مدد فرئیے ۔ لیکن میں یہ جواب دے دوں کہ میں تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتا ‘ میں خدا کا پیغام تمہیں پہنچا چکا تھا ‘ یا ( وہ اس حال میں آئے کہ ) وہ اپنی گردن پر سونا ‘ چاندی ‘ اسباب لادے ہوئے ہو اور وہ مجھ سے کہے ‘ یا رسول اللہ ! میری مدد فرمایئے ‘ لیکن میں اس سے یہ کہہ دوں کہ میں تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتا ‘ میں اللہ تعالیٰ کا پیغام تمہیں پہنچا چکا تھا ۔ یا اس کی گردن پر کپڑے کے ٹکڑے ہو اسے حرکت کر رہے ہوں اور وہ کہے کہ یا رسول اللہ ! میری مدد کیجئے اور میں کہہ دوں کہ میں تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتا ‘ میں تو ( خدا کا پیغام ) پہلے ہی پہنچا چکا تھا ۔ اور ایوب سختیانی نے بھی ابو حیان سے روایت کیا ہے گھوڑا لادے دیکھوں جو ہنہنا رہا ہو ۔
حدیث حاشیہ:
فتح اسلام کے بعد میدان جنگ میں جو بھی اموال ملیں وہ سب مال غنیمت کہلاتا ہے۔ اسے باضابطہ امیر اسلام کے ہاں جمع کرنا ہو گا۔ بعد میں شرعی تقسیم کے تحت وہ مال دیا جائے گا۔ اس میں خیانت کرنے والا عنداللہ بہت بڑا مجرم ہے جیسا کہ حدیث ہذا میں بیان ہوا ہے۔ بکری‘ گھوڑا‘ اونٹ یہ سب چیزیں تمثیل کے طور پر بیان کی گئی ہیں۔ روایت میں اموال غنیمت میں سے ایک چادر کے چرانے والے کو بھی دوزخی کہا گیا ہے۔ چنانچہ وہ حدیث آگے مذکور ہے۔ قال المھلب ھذا الحدیث وعید لمن أنفذہ اللہ علیه من أهل المعاصي ویحتمل أن یکون الحمل المذکور لا بد منه عقوبة له بذالك لیفتضح علی رؤوس الأشهاد و أما بعد ذلك فإلی اللہ الأمر في تعذیبه أو العفو عنه وقال غیره هذا الحدیث یفسر قوله عز و جل﴿یَاْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ﴾ أي یأت به حاملا له علی رقبته (فتح) یعنی اس حدیث میں وعید ہے اہل معاصی کے لئے۔ احتمال ہے کہ یہ اٹھانا بطور عذاب اس کے لئے ضروری ہو‘ تاکہ وہ سب کے سامنے ذلیل ہو‘ بعد میں اللہ کو اختیار ہے چاہے اسے عذاب کرے‘ چاہے معاف کرے۔ یہ حدیث آیت کریمہ ﴿یَاْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ﴾(آل عمران:161) کی تفسیر بھی ہے کہ وہ عاصی اس خیانت کو قیامت کے دن اپنی گردن پر اٹھا کر لائے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) got up amongst us and mentioned Al Ghulul, emphasized its magnitude and declared that it was a great sin saying, "Don't commit Ghulul for I should not like to see anyone amongst you on the Day of Ressurection, carrying over his neck a sheep that will be bleating, or carrying over his neck a horse that will be neighing. Such a man will be saying: 'O Allah's Apostle (ﷺ) ! Intercede with Allah for me,' and I will reply, 'I can't help you, for I have conveyed Allah's Message to you Nor should I like to see a man carrying over his neck, a camel that will be grunting. Such a man will say, 'O Allah's Apostle (ﷺ) ! Intercede with Allah for me, and I will say, 'I can't help you for I have conveyed Allah's Message to you,' or one carrying over his neck gold and silver and saying, 'O Allah's Apostle (ﷺ) ! Intercede with Allah for me,' and I will say, 'I can't help you for I have conveyed Allah's Message to you,' or one carrying clothes that will be fluttering, and the man will say, 'O Allah's Apostle (ﷺ) ! Intercede with Allah for me.' And I will say, 'I can't help you, for I have conveyed Allah's Message to you."