باب : ذمی یا مسلمان عورتوں کے ضرورت کے وقت بال دیکھنا درست ہے اس طرح ان کا ننگا کرنا بھی جب وہ اللہ کی نافرمانی کریں
)
Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: To search the Dhimmi women if there is necessity)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3081.
حضرت ابو عبدالرحمان سے روایت ہے جو کہ عثمانی ہیں انھوں نے حضرت ابن عطیہ سے کہا جو علوی تھے، میں خوب جانتا ہوں کہ تمہارے صاحب (حضرت علی ؓ) کو کس چیز سے خون بہانے پر جرات ہوئی۔ میں نے خود ان سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ مجھے اور حضرت زبیر ؓ کو نبی کریم ﷺ نے روانہ کیا اور ہدایت فرمائی: ’’جب تم فلاں روضہ پر پہنچو تو وہاں تمھیں ایک عورت ملے گی جسے حاطب بن ابی بلتعہ ؓنے ایک خط دے کر بھیجا ہے۔ ’’چنانچہ جب ہم اس باغ میں پہنچے تو ہم نے اس عورت سے وہ خط لانے کو کہا۔ اس نے جواب دیا کہ مجھے اس (حاطب ؓ) نے کوئی خط نہیں دیا۔ ہم نے اس سے کہا کہ خط خود بخود نکال کرہمارے حوالے کردو بصورت دیگر (تلاشی لینے کے لیے ) تیرے کپڑے اتار دیے جائیں گے۔ اس کے بعد اس نے وہ خط اپنے مقعد ازار سے نکالا۔ آپ ﷺ نے حضرت حاطب کو بلا بھیجا تو انھوں نے عرض کیا: آپ میرے بارے میں جلدی نہ کریں اللہ کی قسم!میں نے کفر کا ارتکاب نہیں کیا بلکہ اسلام سے میری محبت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ مجھے صرف اپنے خاندان کی محبت نے اس اقدام پر مجبور کیا تھا کیونکہ آپ کے اصحاب ؓ میں سے کوئی شخص ایسا نہیں جس کےرشتہ دار وغیرہ مکہ میں نہ ہوں جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ان کے اہل وعیال اور مال واسباب کی حفاظت کراتا ہے لیکن میرا کوئی عزیز نہیں ہے اس لیے میں نے چاہا کہ اہل مکہ پر کوئی احسان کردوں۔ نبی کریم ﷺ نے بھی اس امر کی تصدیق فرمادی لیکن حضرت عمر ؓ کہنے لگے: مجھے چھوڑیے میں اس کا سر قلم کردوں کیونکہ اس نے منافقت کی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تمھیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر پر نظر کرتے ہوئے فرمایا: ’’اب جو چاہو کرو۔‘‘ ابو عبدالرحمان نے کہا: انھیں (حضرت علی ؓ کو) اسی بات نے دلیر کررکھا ہے۔
تشریح:
1۔امام بخاری ؒنے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ ضرورت کے وقت کسی بھی عورت کی تلاشی لینا یا اسے برہنہ کرنا درست ہے۔ خاص طور پر جاسوسی مرد ہو یاعورت جب اس کے برہنہ کرنے میں مصلحت ہویا اس کی ستر پوشی میں فساد کا اندیشہ ہوتو اس کا انکشاف ضروری ہے۔ 2۔قاعدہ ہے کہ ضرورت کے وقت ممنوع چیزیں مباح قرارپاتی ہیں۔ یہ قاعدہ اسی قسم کی احادیث سے ماخوذ ہے۔ ابوعبدالرحمٰن کے کلام میں انتہائی مبالغہ ہے کیونکہ حضر ت علی ؓ کی للہیت اور تقویٰ شعاری سے بعید ہے کہ وہ کسی کا خون ناحق کریں۔ 3۔واضح رہے کہ سلف میں جو لوگ حضرت عثمان ؓ کو حضرت علی ؓ پر فضیلت دیتے تھے انھیں عثمانی اور جو لوگ حضرت علی ؓ کو حضرت عثمان ؓ پربرتری دیتے تھے انھیں علوی کہا جاتا تھا۔ یہ اصطلاح ایک زمانے تک رہی پھر ختم ہوگئی۔ اب خاندانی نسبت کی حد تک ایسا کہا جاتا ہے۔
حضرت ابو عبدالرحمان سے روایت ہے جو کہ عثمانی ہیں انھوں نے حضرت ابن عطیہ سے کہا جو علوی تھے، میں خوب جانتا ہوں کہ تمہارے صاحب (حضرت علی ؓ) کو کس چیز سے خون بہانے پر جرات ہوئی۔ میں نے خود ان سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ مجھے اور حضرت زبیر ؓ کو نبی کریم ﷺ نے روانہ کیا اور ہدایت فرمائی: ’’جب تم فلاں روضہ پر پہنچو تو وہاں تمھیں ایک عورت ملے گی جسے حاطب بن ابی بلتعہ ؓنے ایک خط دے کر بھیجا ہے۔ ’’چنانچہ جب ہم اس باغ میں پہنچے تو ہم نے اس عورت سے وہ خط لانے کو کہا۔ اس نے جواب دیا کہ مجھے اس (حاطب ؓ) نے کوئی خط نہیں دیا۔ ہم نے اس سے کہا کہ خط خود بخود نکال کرہمارے حوالے کردو بصورت دیگر (تلاشی لینے کے لیے ) تیرے کپڑے اتار دیے جائیں گے۔ اس کے بعد اس نے وہ خط اپنے مقعد ازار سے نکالا۔ آپ ﷺ نے حضرت حاطب کو بلا بھیجا تو انھوں نے عرض کیا: آپ میرے بارے میں جلدی نہ کریں اللہ کی قسم!میں نے کفر کا ارتکاب نہیں کیا بلکہ اسلام سے میری محبت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ مجھے صرف اپنے خاندان کی محبت نے اس اقدام پر مجبور کیا تھا کیونکہ آپ کے اصحاب ؓ میں سے کوئی شخص ایسا نہیں جس کےرشتہ دار وغیرہ مکہ میں نہ ہوں جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ان کے اہل وعیال اور مال واسباب کی حفاظت کراتا ہے لیکن میرا کوئی عزیز نہیں ہے اس لیے میں نے چاہا کہ اہل مکہ پر کوئی احسان کردوں۔ نبی کریم ﷺ نے بھی اس امر کی تصدیق فرمادی لیکن حضرت عمر ؓ کہنے لگے: مجھے چھوڑیے میں اس کا سر قلم کردوں کیونکہ اس نے منافقت کی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تمھیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر پر نظر کرتے ہوئے فرمایا: ’’اب جو چاہو کرو۔‘‘ ابو عبدالرحمان نے کہا: انھیں (حضرت علی ؓ کو) اسی بات نے دلیر کررکھا ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔امام بخاری ؒنے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ ضرورت کے وقت کسی بھی عورت کی تلاشی لینا یا اسے برہنہ کرنا درست ہے۔ خاص طور پر جاسوسی مرد ہو یاعورت جب اس کے برہنہ کرنے میں مصلحت ہویا اس کی ستر پوشی میں فساد کا اندیشہ ہوتو اس کا انکشاف ضروری ہے۔ 2۔قاعدہ ہے کہ ضرورت کے وقت ممنوع چیزیں مباح قرارپاتی ہیں۔ یہ قاعدہ اسی قسم کی احادیث سے ماخوذ ہے۔ ابوعبدالرحمٰن کے کلام میں انتہائی مبالغہ ہے کیونکہ حضر ت علی ؓ کی للہیت اور تقویٰ شعاری سے بعید ہے کہ وہ کسی کا خون ناحق کریں۔ 3۔واضح رہے کہ سلف میں جو لوگ حضرت عثمان ؓ کو حضرت علی ؓ پر فضیلت دیتے تھے انھیں عثمانی اور جو لوگ حضرت علی ؓ کو حضرت عثمان ؓ پربرتری دیتے تھے انھیں علوی کہا جاتا تھا۔ یہ اصطلاح ایک زمانے تک رہی پھر ختم ہوگئی۔ اب خاندانی نسبت کی حد تک ایسا کہا جاتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے محمد بن عبداللہ بن حوشب الطائفی نے بیان کیا ‘ ان سے ہشیم نے بیان کیا ‘ انہیں حصین نے خبر دی ‘ انہیں سعد بن عبیدہ نے اور انہیں ابی عبدالرحمن نے اور وہ عثمانی تھے ‘ انہوں نے عطیہ سے کہا ‘ جو علوی تھے ‘ کہ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تمہارے صاحب ( حضرت علی ؓ ) کو کس چیز سے خون بہانے پر جرات ہوئی ‘ میں نے خود ان سے سنا ‘ وہ بیان کرتے تھے کہ مجھے اور زبیر بن عوام ؓ کو نبی کریم ﷺ نے بھیجا ۔ اور ہدایت فرمائی کہ روضہ خاخ پر جب تم پہنچو ‘ تو انہیں ایک عورت ( سارہ نامی ) ملے گی ۔ جسے حاطب ابن بلتعہ ؓ نے ایک خط دے کر بھیجا ہے ( تم وہ خط اس سے لے کر آؤ ) چنانچہ جب ہم اس باغ تک پہنچے ہم نے اس عورت سے کہا خط لا ۔ اس نے کہا کہ حاطب ؓ نے مجھے کوئی خط نہیں دیا ۔ ہم سے اس کہا کہ خط خو د بخود نکال کردے دے ورنہ ( تلاشی کے لئے ) تمہارے کپڑے اتار لئے جائیں گے ۔ تب کہیں اس نے خط اپنے نیفے میں سے نکال کر دیا ۔ ( جب ہم نے وہ خط رسول کریم ﷺ کی خدمت میں پیش کیا ‘ تو ) آپ نے حاطب ؓ کو بلا بھیجا انہوں نے ( حاضر ہوکر ) عرض کیا ۔ حضور ! میرے بارے میں جلدی نہ فرمائیں ! اللہ کی قسم ! میں نے نہ کفر کیا ہے اور نہ میں اسلام سے ہٹا ہوں ‘ صرف اپنے خاندان کی محبت نے اس پر مجبور کیا تھا ۔ آپ ﷺ کے اصحاب ( مہاجرین ) میں کوئی شخص ایسا نہیں جس کے رشتہ دار وغیرہ مکہ میں نہ ہوں ۔ جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ ان کے خاندان والوں اور ان کی جائداد کی حفاظت نہ کراتا ہو ۔ لیکن میرا وہاں کوئی بھی آدمی نہیں ‘ اس لئے میں نے چاہا کہ ان مکہ والوں پر ایک احسان کر دوں ‘ نبی کریم ﷺ نے بھی ان کی بات کی تصدیق فرمائي۔ حضرت عمر ؓ فرمانے لگے مجھے اس کا سر اتارنے دیجيے یہ تو منافق ہوگیا ہے۔ لیکن نبی کریم ﷺ نے فرمایا تمہیں کیا معلوم! اللہ تعالیٰ اہل بدر کے حالات سے خوب واقف تھا اور وہ خود اہل بدر کے بارے میں فرما چکا ہے کہ جو چاہو کرو ۔ ابوعبدالرحمن نے کہا، حضرت علی ؓ کو اسی ارشاد نے (کہ تم جو چاہو کرو، خون ریزی پر) دلیر بنا دیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ابو عبدالرحمن کا کلام مبالغہ ہے۔ حضرت علی ؓ کی خدا ترسی اور پرہیزگاری سے بعید ہے کہ وہ خون ناحق کریں۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ نکالا کہ ضرورت کے وقت عورت کی تلاشی لینا‘ اس کا برہنہ کرنا درست ہے۔ بعض روایتوں میں یہ ہے کہ اس عورت نے وہ خط اپنی چوٹی میں سے نکال کر دیا۔ اس پر حافظ صاحب ؒ فرماتے ہیں: والجمع بینه وبین روایة أخرجته من حجزتها أي مقعد الإذار لأن عقیصتها طویلة بحیث تصل إلی حجزتها فربطته في عقیصتها وغزرته بحجزتها (الخ) یعنی ہر دو روایتوں میں مطابقت یہ ہے کہ اس عورت کے سر کی چوٹی اتنی لمبی تھی کہ وہ ازار بند باندھنے کی جگہ تک لٹکی ہوئی تھی‘ اس عورت نے اس کو چٹیا کے اندر گوندھ کر نیچے مقعد کے پاس ازار میں ٹانک لیا تھا۔ چنانچہ اس جگہ سے نکال کر دیا۔ راویوں نے جیسا دیکھا بیان کر دیا۔ سلف امت میں جو لوگ حضرت عثمان ؓ کو حضرت علی ؓ پر فضیلت دیتے انہیں عثمانی کہتے اور جو حضرت علی ؓ کو حضرت عثمان ؓ پر فضیلت دیتے انہیں علوی کہتے تھے۔ یہ اصطلاح ایک زمانہ تک رہی‘ پھر ختم ہو گئی۔ اہل سنت میں یہ عقیدہ قرار پایا کہ کسی صحابی کو کسی پر فوقیت نہیں دینا چاہئے۔ وہ سب عنداللہ مقبول ہیں‘ ان میں فاضل کون ہے اور مفضول کون‘ یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ یوں خلفائے اربعہ کو حسب ترتیب خلافت اور صحابہ پر فوقیت حاصل ہے‘ پھر عشرہ مبشرہ کو رضي اللہ عنهم أجمعین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sad bin 'Ubaida (RA): Abu Abdur-Rahman who was one of the supporters of Uthman said to Abu Talha who was one of the supporters of Ali, "I perfectly know what encouraged your leader (i.e. 'Ali) to shed blood. I heard him saying: Once the Prophet (ﷺ) sent me and Az-Zubair saying, 'Proceed to such-and-such Ar-Roudah (place) where you will find a lady whom Hatib has given a letter. So when we arrived at Ar-Roudah, we requested the lady to hand over the letter to us. She said, 'Hatib has not given me any letter.' We said to her. 'Take out the letter or else we will strip off your clothes.' So she took it out of her braid. So the Prophet (ﷺ) sent for Hatib, (who came) and said, 'Don't hurry in judging me, for, by Allah, I have not become a disbeliever, and my love to Islam is increasing. (The reason for writing this letter was) that there is none of your companions but has relatives in Makkah who look after their families and property, while I have nobody there, so I wanted to do them some favor (so that they might look after my family and property).' The Prophet (ﷺ) believed him. 'Umar said, 'Allow me to chop off his (i.e. Hatib's) neck as he has done hypocrisy.' The Prophet (ﷺ) said, (to 'Umar), 'Who knows, perhaps Allah has looked at the warriors of Badr and said (to them), 'Do whatever you like, for I have forgiven you.' " 'Abdur-Rahman added, "So this is what encouraged him (i.e. Ali)."