باب : رسو ل کریم ﷺ کی بیویوں کے گھروں کا ان کی طرف منسوب کرنا
)
Sahi-Bukhari:
One-fifth of Booty to the Cause of Allah (Khumus)
(Chapter: The houses of the wives of the Prophet saws)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ پاک نے سورہ احزاب میں فرمایا کہ ” تم لوگ (ازواج مطہرات) اپنے گھروں ہی میں عزت سے رہا کرو ‘‘۔ اور (اسی سورۃ میں فرمایا کہ) ” نبی کے گھر میں اس وقت تک نہ داخل ہو ‘ جب تک تمہیں اجازت نہ مل جائے ۔تشریح:مجتہد مطلق امام بخارییہ باب منعقد کر کے بتلانا چاہتے ہیں کہ ابیات و حجرات بنوی آپ کی حیات طیبہ میں جس جس طور پر جن جن بیویوں کو تقسیم تھے۔آپ کی وفات کے بعد وہ اسی طرح رہے ان میں کوئی ورثہ نہیں تقسیم کیا گیا اور یہ اس لئے کہ آنحضرتﷺ خود فرما گئے تھے کہ ہمارا کو ئی ترکہ تقسیم نہیں ہوتا۔گروہ انبیاء میں اللہ کا قانون یہی رہا وہ صرف علم دین کی دولت چھوڑ کر جاتے تھے بہ سلسلہ تذکرہ خمس اس مسئلہ کوبھی بیان کر دیا گیا اور خمس کا تعلق جہاد سے ہے اس لئے ذیلی طور پر یہ مسائل کتاب الجہاد میں مذکور ہوئے۔پہلی آیت میں گھروں کی نسبت بیویوں کی طرف فرمائی‘دوسری آیت میں ان ہی گھروں کو پغمبرﷺ کے گھر فرمایا۔اس سے حضرا امام بخاری نے باب کا مطلب ثابت کیا کہ آنحضرتﷺ کی بیویوں کو جیسے آپ کی وفات کے بعد اپنے خرچہ کا حق تھا ویسے ہی اپنے اپنے حجروں پر بھی ان کا حق تھا اور اس کی وجہ یہ ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو مسلمانوں کی مائیں قرار دیا اور کسی اور سے ان کا نکاح حرام کردیا(وحیدی)
3103.
حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نماز عصر ایسے وقت میں ادا کرتے تھے جبکہ دھوپ ابھی ان کے حجرے سے نہیں نکلی ہوتی تھی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2987
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3103
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3103
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3103
تمہید کتاب
غزوہ بدر کے اختتام پر اس قسم کی صورتحال پیداہو گئی کہ جس فریق نے غنیمت کا مال لوٹا وہ اپنے آپ ہی کو اس کا حقدار سمجھنے لگا۔ کچھ لوگ کفار کا تعاقب کرنے والے تھے انھوں نے دعوی کیا کہ ہم بھی مال غنیمت میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ اگر ہم کفار کا تعاقب نہ کرتے تو کفار واپس آکر حملہ کر سکتے تھے جس سے فتح کا شکست میں بدل جانا ممکن تھا کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت پر مامور تھے۔ انھوں نے کہا: ہم بھی اس مال میں برابر کے حصے دار ہیں۔کیونکہ اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت نہ کرتے تو آپ کوکوئی حادثہ پیش آسکتا تھا جو جنگ کا پانسہ پلٹنے میں بنیادی کردار ادا کرتا۔ لیکن جن لوگوں نے مال غنیمت پر قبضہ کیا وہ ایسی باتیں قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے لہٰذا مجاہدین میں کشیدگی کا پیدا ہونا ایک طبعی امر تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے بھی وحی الٰہی کی آمد تک خاموشی اختیار کیےرکھی۔ بالآخراللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا :کہ دوران جنگ میں ملنے والے تمام اموال اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں ان کے متعلق جو فیصلہ ہوگا۔ وہ سب کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ پھر اس کی تفصیل نازل ہوئی، کہ مال غنیمت کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے قرابت داروں،مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے۔(الانفال:8/41)دراصل میدان جنگ میں حاصل ہونے والے مال کی چند قسمیں حسب ذیل ہیں۔1۔مال غنیمت:۔مجاہدین کے قتال کے بعد کفار کی شکست کی صورت میں وہاں سے جو مال حاصل ہو اسے مال غنیمت کہا جاتا ہے۔ یہ پہلی امتوں پر حرام تھا بلکہ آسمان سے آگ آکر اسے جلا دیتی تھی مگر اس امت پر اسے حلال کردیا گیا۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق ایسے مال کے پانچ حصے ہوں گے، جن میں سے چار مجاہدین میں تقسیم ہوں گے اور ایک حصہ اللہ اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرابت داروں ، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے جو بیت المال میں جائے گا۔2۔مال فے:۔اس میں ہر وہ مال شامل ہے جو مسلمانوں کو لڑے ے بغیر مل جائے۔اس کے متعلق قرآنی فیصلہ یہ ہے کہ وہ سارے کا سارا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے۔(اور آپ کے بعد شرعی حاکم کے لیے ہے)اور وہ اپنی صوابدید کے مطابق اسے خرچ کرنے کے مجاز ہیں۔3۔مال سلب:۔ اس سے مراد وہ مال ہے جو ایک مجاہد مقتول دشمن کے جسم سے اتارتا ہے۔ اس کے متعلق شرعی فیصلہ ہے کہ وہ قاتل مجاہد کو دیا جائے لیکن حاکم وقت صوابدیدی اختیاربد ستور باقی رہتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر میں ابوجہل کے سازوسامان کے متعلق موقف اختیار کیا تھا۔4۔ایسی اشیاء جن کا تعلق غذا سے ہو یا ایسی چیز یں جو عموماً غذا کا فائدہ دیتی ہوں۔اسی طرح جانوروں کی گھاس وغیرہ ایسی تمام اشیاء کو تقسیم سے پہلے ہی استعمال کرنے کی اجازت ہوتی ہے ۔ اس میں حاکم وقت سے اجازت لینا ضروری نہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت ایسی احادیث جمع کی ہیں جن کا تعلق مال غنیمت کے خمس سے ہے۔مال غنیمت کے متعلق اس امر پر اتفاق ہے کہ اس کے چار حصے مجاہدین کے لیے ہیں۔ اس سےدو حصے گھوڑے کے لیے اور ایک حصہ مجاہد کے لیے مختص ہوتا ہے۔ اگر کسی کے پاس گھوڑا نہ ہو تو وہ صرف ایک حصے کا حق دار ہے۔ واضح رہے کہ چار حصے ان مجاہدین میں تقسیم کیے جاتے جو جنگ میں شریک ہوتے۔ باقی پانچواں حصہ یعنی خمس کے لیے قرآن کریم نے چھ مصرف بیان کیے ہیں ان میں اللہ کا ذکر تو بطور تبرک ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو حصہ ہے وہ آپ کی گھریلو ضروریات کے لیے مقرر ہوا ۔آپ کی خانگی ضروریات سے جو بچتا اسے جہاد کی ضروریات میں صرف کردیا جاتا۔آپ کی وفات کے بعد یہ مصرف ختم ہوگیا۔ اس خمس کا ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں ، یعنی بنو ہاشم کے لیے تھا۔ آپ کی وفات کے بعد ان کا حصہ بھی ختم ہو گیا۔ اب تین مصرف باقی ہیں۔یعنی یتیموں مسکینوں اور مسافروں کی ضروریات کو پورا کرنا۔ حاکم وقت کو ان کے متعلق بھی اختیار کہ جسے چاہے دے سکتا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی موقف کو اختیار کرکے امام مالک کی تائید کی ہے اور اس کے لیے چار حسب ذیل عنوان قائم کیے ہیں۔1۔پانچواں حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مساکین کی ضروریات پورا کرنے کے لیے ہے۔2۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مالک نہیں بلکہ آپ کو صرف تقسیم کرنے کا اختیار تھا۔3۔خمس مسلمانوں کی ضروریات کے لیے ہے۔4۔خمس حاکم وقت کے لیے ہے۔ان سب عنوانات کا ایک ہی مقصد ہے کہ حاکم وقت اپنی صوابدید کے مطابق خرچ کرنے کا مجاز ہے اس خمس کا مالک نہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خمس کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیےپینسٹھ(65)متصل احادیث بیان کی ہیں۔اور ان پر بیس(20) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن کی تفصیل آئندہ بیان ہو گی۔ایک اہم مسئلہ جس کی طرف توجہ دینا ضروری ہے کہ دور نبوی میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین رضا کارانہ طور پر اسے فریضہ سمجھ کر جہاد پر جاتے اور جنگ میں شریک ہو تے تھے اس سلسلے میں سواری اور ہتھیاروں کا اہتمام بھی خود کرتے تھے بلکہ بعض اوقات ذاتی خدمت کے لیے اپنے خرچے پر مزدورساتھ لے جاتے۔ ان خدمات کے عوض ان مجاہدین کو مال غنیمت سے حصہ ملتا تھا مگر دور حاضر میں فوج کا محکمہ ہی الگ ہے۔ اس محکمے میں شامل فوجی باقاعدہ تنخواہ دار ہوتے ہیں۔ ایام جنگ کے علاوہ بھی انھیں تنخواہ ملتی رہتی ہے۔ان کے لیے اسلحہ اور سواری کا اہتمام بھی حکومت کے ذمے ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں عام مسلمانوں پر جہاد کی فرضیت ساقط ہے اور تنخواہ دار ہونے کی وجہ سے ان فوجی اور مجاہدین میں مال غنیمت کی تقسیم کا قصہ بھی ختم ہوا۔امیر جیش یعنی چیف کمانڈر حصہ بھی ختم ہوا کیونکہ وہ بھی سر کاری خزانے سے بھاری تنخواہ وصول کرتا ہے فقراء کی ضرورتوں کو پورا کرنا ویسے ہی اسلامی حکومت کا فریضہ ہوتا ہے۔ ان مسائل میں اجتہاد کی ضرورت ہے کہ موجودہ دور میں ان شرعی نصوص کا انطباق کیسے ہو؟ ضرورت ہے کہ ان جیسے بیسیوں مسائل کے لیے اہل علم پر مشتمل ایک مجلس شوریٰ کا اہتمام کیا جائے۔ کاش کہ مسلک حقہ کی علمبردار جماعت اہل حدیث اس طرف توجہ دے اور جدید مسائل کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے وقت کی ضرورت کے پیش نظر خمس اور جزیے وغیرہ کے متعلق الگ الگ دو بڑے عنوان قائم کیے ہیں۔ حالانکہ ان کا تعلق جہاد ہی سے ہے۔چونکہ خمس اور جزیے کے مسائل کی بہت سی قسمیں ہیں جو تشریح و تفصیل کا تقاضا کرتی ہیں۔ اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی افادیت و اہمیت کے پیش نظر انھیں الگ عنوان کے تحت بیان کیا ہے۔ قارئین سے استدعا ہے کہ وہ ہماری تشریحات کو مد نظر رکھتے ہوئے پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دینی معاملات میں بصیرت عطا فرمائےپھر ان پر عمل کی توفیق دے۔آمین یا رب العالمین ۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ قرآنی آیات میں گھروں کی نسبت ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کی طرف ہے جیسا کہ پیش کرو پہلی آیت میں ہے اور ان کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھی ہے جیسا کہ دوسری آیت کریمہ میں ہے تو کیا یہ نسبت ملکیت کی وجہ سے ہے یا نسبت ان میں ٹھہرنے کی بنا پرہے۔ اس اختلاف کی طرف امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اشارہ کیا ہے۔اس کی وضاحت ہم آئندہ کریں گے۔باذن اللہ تعالیٰ۔
اور اللہ پاک نے سورہ احزاب میں فرمایا کہ ” تم لوگ (ازواج مطہرات) اپنے گھروں ہی میں عزت سے رہا کرو ‘‘۔ اور (اسی سورۃ میں فرمایا کہ) ” نبی کے گھر میں اس وقت تک نہ داخل ہو ‘ جب تک تمہیں اجازت نہ مل جائے ۔تشریح:مجتہد مطلق امام بخارییہ باب منعقد کر کے بتلانا چاہتے ہیں کہ ابیات و حجرات بنوی آپ کی حیات طیبہ میں جس جس طور پر جن جن بیویوں کو تقسیم تھے۔آپ کی وفات کے بعد وہ اسی طرح رہے ان میں کوئی ورثہ نہیں تقسیم کیا گیا اور یہ اس لئے کہ آنحضرتﷺ خود فرما گئے تھے کہ ہمارا کو ئی ترکہ تقسیم نہیں ہوتا۔گروہ انبیاء میں اللہ کا قانون یہی رہا وہ صرف علم دین کی دولت چھوڑ کر جاتے تھے بہ سلسلہ تذکرہ خمس اس مسئلہ کوبھی بیان کر دیا گیا اور خمس کا تعلق جہاد سے ہے اس لئے ذیلی طور پر یہ مسائل کتاب الجہاد میں مذکور ہوئے۔پہلی آیت میں گھروں کی نسبت بیویوں کی طرف فرمائی‘دوسری آیت میں ان ہی گھروں کو پغمبرﷺ کے گھر فرمایا۔اس سے حضرا امام بخاری نے باب کا مطلب ثابت کیا کہ آنحضرتﷺ کی بیویوں کو جیسے آپ کی وفات کے بعد اپنے خرچہ کا حق تھا ویسے ہی اپنے اپنے حجروں پر بھی ان کا حق تھا اور اس کی وجہ یہ ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو مسلمانوں کی مائیں قرار دیا اور کسی اور سے ان کا نکاح حرام کردیا(وحیدی)
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نماز عصر ایسے وقت میں ادا کرتے تھے جبکہ دھوپ ابھی ان کے حجرے سے نہیں نکلی ہوتی تھی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور(اے نبی کریمﷺ کی بیویو!)تم اپنے گھروں میں ہی ٹھری رہو۔ "نیزارشاد فرمایا: "(اے ایمان والو!) تم نبی مکرم(ﷺ ) کے گھروں میں اجازت کے بغیر نہ جاؤ۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابراہیم بن منذر نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے انس بن عیاض نے بیان کیا‘ ان سے ہشام نے بیان کیا‘ ان سے ان کے باپ نے بیان کیا‘ اور ان سے عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب عصر کی نماز پڑھتے تو دھوپ ابھی ان کے حجرے میں باقی رہتی رہتی تھی۔
حدیث حاشیہ:
حضرت عائشہ ؓ کی طرف حجرہ کو منسوب کیا گیا‘ اسی سے باب کا مطلب ثابت ہوا۔ یہ حدیث کتاب المواقیت میں بھی گزر چکی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aisha (RA): That Allah's Apostle (ﷺ) used to offer the 'Asr prayer while the sun was still shining in her Hujra (i.e. her dwelling place).