باب : رسو ل کریم ﷺ کی بیویوں کے گھروں کا ان کی طرف منسوب کرنا
)
Sahi-Bukhari:
One-fifth of Booty to the Cause of Allah (Khumus)
(Chapter: The houses of the wives of the Prophet saws)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ پاک نے سورہ احزاب میں فرمایا کہ ” تم لوگ (ازواج مطہرات) اپنے گھروں ہی میں عزت سے رہا کرو ‘‘۔ اور (اسی سورۃ میں فرمایا کہ) ” نبی کے گھر میں اس وقت تک نہ داخل ہو ‘ جب تک تمہیں اجازت نہ مل جائے ۔تشریح:مجتہد مطلق امام بخارییہ باب منعقد کر کے بتلانا چاہتے ہیں کہ ابیات و حجرات بنوی آپ کی حیات طیبہ میں جس جس طور پر جن جن بیویوں کو تقسیم تھے۔آپ کی وفات کے بعد وہ اسی طرح رہے ان میں کوئی ورثہ نہیں تقسیم کیا گیا اور یہ اس لئے کہ آنحضرتﷺ خود فرما گئے تھے کہ ہمارا کو ئی ترکہ تقسیم نہیں ہوتا۔گروہ انبیاء میں اللہ کا قانون یہی رہا وہ صرف علم دین کی دولت چھوڑ کر جاتے تھے بہ سلسلہ تذکرہ خمس اس مسئلہ کوبھی بیان کر دیا گیا اور خمس کا تعلق جہاد سے ہے اس لئے ذیلی طور پر یہ مسائل کتاب الجہاد میں مذکور ہوئے۔پہلی آیت میں گھروں کی نسبت بیویوں کی طرف فرمائی‘دوسری آیت میں ان ہی گھروں کو پغمبرﷺ کے گھر فرمایا۔اس سے حضرا امام بخاری نے باب کا مطلب ثابت کیا کہ آنحضرتﷺ کی بیویوں کو جیسے آپ کی وفات کے بعد اپنے خرچہ کا حق تھا ویسے ہی اپنے اپنے حجروں پر بھی ان کا حق تھا اور اس کی وجہ یہ ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو مسلمانوں کی مائیں قرار دیا اور کسی اور سے ان کا نکاح حرام کردیا(وحیدی)
3105.
نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓنے فرمایا: (ایک دن) رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تھے کہ انھوں نے ایک انسان کی آواز سنی جو حضرت حفصہ ؓ کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت مانگ رہا تھا۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! یہ شخص آپ کے گھر جانے کی اجازت مانگ رہاہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میرا خیال ہے یہ فلاں شخص ہے جو حضر ت حفصہ ؓ کا رضاعی چچا ہے۔‘‘ نیز فرمایا: ’’رضاعت ہر اس چیز کو حرام کردیتی جو نسب حرام کرتا ہے۔‘‘
نوٹ:۔رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کی رہائش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’اس طرف سے شیطانی فتنہ طلوع ہوگا۔‘‘ اس حدیث کو بنیاد بنا کر رافضیوں نے پروپیگنڈا کیا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کا گھر فتنوں کی آما جگاہ تھا حالانکہ انھیں ایسی باتیں کہتے ہوئے شرم آنی چاہیے کیونکہ رسول اللہ ﷺنے اپنے آخری ایام حضرت عائشہ ؓ کے گھر گزارے اور زندگی کے بعد وہ آپ کا مشہد بنا۔ جو کہ اللہ کی طرف سے خیر و برکت کے نزول کا محل ہے۔ ایسی جگہ کو فتنوں کی آما جگاہ کیونکرقرار دیا جا سکتا ہے دراصل صحابہ کرام ؓ سےبغض وعناد کے نتیجے میں ایسی باتیں کہی گئی ہیں۔ امام بخاری ؒ نے دوسرے مقام پر ایک تفصیلی روایت ذکر کی ہےکہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے ایک دفعہ اہل عراق سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو مشرق کی طرف اشارہ کر کے فرماتے ہوئے دیکھا۔ ’’خبردار! فتنہ ادھر سے طلوع ہوگا فتنہ اس طرف سے ظاہر ہوگا جہاں سے شیطان کا سینگ طلوع ہوتا ہے۔‘‘(صحیح البخاري، الفتن، حدیث:7092) مدینہ طیبہ سے عراق مشرق کی طرف پڑتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ فتنوں کی آما جگاہ سر زمین عراق ہے۔ اس میں شک نہیں کہ عراق کا خطہ بڑا ہنگامہ خیز اور فتنہ پرور واقع ہوا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی مذکورہ بالا پیش گوئی کے مطابق یہ منحوس علاقہ اسلام اور اہل اسلام کے خلاف اٹھنے والے فتنوں کی آماجگاہ ہے چنانچہ قوم نوح کے بت وداور سواع وغیرہ عراق ہی میں تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خلاف آگ کا الاؤ تیار کرنے والا نمرودبھی اسی عراق کا فرمانروا تھا۔حضرت عثمان ؓکے خلاف فتنہ بھی عراقی لوگوں نے برپا کیا تھا نواسہ رسول اللہ ﷺ کو شہید کرنے والے بھی عراقی تھے۔ حدیث اور اہل حدیث کے خلاف اہل رائےکے طوفان بھی اسی سر زمین سے اٹھے۔ اب بھی یہ خطہ اس قسم کے فتنوں کی بد ترین مثالیں قائم کیےہوئے ہے ان واقعات و شواہد کے تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کا گھر فتنوں کی آماجگاہ نہیں تھا بلکہ یہ "شرف" سر زمین عراق کو حاصل ہوا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2989
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3105
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3105
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3105
تمہید کتاب
غزوہ بدر کے اختتام پر اس قسم کی صورتحال پیداہو گئی کہ جس فریق نے غنیمت کا مال لوٹا وہ اپنے آپ ہی کو اس کا حقدار سمجھنے لگا۔ کچھ لوگ کفار کا تعاقب کرنے والے تھے انھوں نے دعوی کیا کہ ہم بھی مال غنیمت میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ اگر ہم کفار کا تعاقب نہ کرتے تو کفار واپس آکر حملہ کر سکتے تھے جس سے فتح کا شکست میں بدل جانا ممکن تھا کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت پر مامور تھے۔ انھوں نے کہا: ہم بھی اس مال میں برابر کے حصے دار ہیں۔کیونکہ اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت نہ کرتے تو آپ کوکوئی حادثہ پیش آسکتا تھا جو جنگ کا پانسہ پلٹنے میں بنیادی کردار ادا کرتا۔ لیکن جن لوگوں نے مال غنیمت پر قبضہ کیا وہ ایسی باتیں قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے لہٰذا مجاہدین میں کشیدگی کا پیدا ہونا ایک طبعی امر تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے بھی وحی الٰہی کی آمد تک خاموشی اختیار کیےرکھی۔ بالآخراللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا :کہ دوران جنگ میں ملنے والے تمام اموال اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں ان کے متعلق جو فیصلہ ہوگا۔ وہ سب کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ پھر اس کی تفصیل نازل ہوئی، کہ مال غنیمت کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے قرابت داروں،مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے۔(الانفال:8/41)دراصل میدان جنگ میں حاصل ہونے والے مال کی چند قسمیں حسب ذیل ہیں۔1۔مال غنیمت:۔مجاہدین کے قتال کے بعد کفار کی شکست کی صورت میں وہاں سے جو مال حاصل ہو اسے مال غنیمت کہا جاتا ہے۔ یہ پہلی امتوں پر حرام تھا بلکہ آسمان سے آگ آکر اسے جلا دیتی تھی مگر اس امت پر اسے حلال کردیا گیا۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق ایسے مال کے پانچ حصے ہوں گے، جن میں سے چار مجاہدین میں تقسیم ہوں گے اور ایک حصہ اللہ اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرابت داروں ، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے جو بیت المال میں جائے گا۔2۔مال فے:۔اس میں ہر وہ مال شامل ہے جو مسلمانوں کو لڑے ے بغیر مل جائے۔اس کے متعلق قرآنی فیصلہ یہ ہے کہ وہ سارے کا سارا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے۔(اور آپ کے بعد شرعی حاکم کے لیے ہے)اور وہ اپنی صوابدید کے مطابق اسے خرچ کرنے کے مجاز ہیں۔3۔مال سلب:۔ اس سے مراد وہ مال ہے جو ایک مجاہد مقتول دشمن کے جسم سے اتارتا ہے۔ اس کے متعلق شرعی فیصلہ ہے کہ وہ قاتل مجاہد کو دیا جائے لیکن حاکم وقت صوابدیدی اختیاربد ستور باقی رہتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر میں ابوجہل کے سازوسامان کے متعلق موقف اختیار کیا تھا۔4۔ایسی اشیاء جن کا تعلق غذا سے ہو یا ایسی چیز یں جو عموماً غذا کا فائدہ دیتی ہوں۔اسی طرح جانوروں کی گھاس وغیرہ ایسی تمام اشیاء کو تقسیم سے پہلے ہی استعمال کرنے کی اجازت ہوتی ہے ۔ اس میں حاکم وقت سے اجازت لینا ضروری نہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت ایسی احادیث جمع کی ہیں جن کا تعلق مال غنیمت کے خمس سے ہے۔مال غنیمت کے متعلق اس امر پر اتفاق ہے کہ اس کے چار حصے مجاہدین کے لیے ہیں۔ اس سےدو حصے گھوڑے کے لیے اور ایک حصہ مجاہد کے لیے مختص ہوتا ہے۔ اگر کسی کے پاس گھوڑا نہ ہو تو وہ صرف ایک حصے کا حق دار ہے۔ واضح رہے کہ چار حصے ان مجاہدین میں تقسیم کیے جاتے جو جنگ میں شریک ہوتے۔ باقی پانچواں حصہ یعنی خمس کے لیے قرآن کریم نے چھ مصرف بیان کیے ہیں ان میں اللہ کا ذکر تو بطور تبرک ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو حصہ ہے وہ آپ کی گھریلو ضروریات کے لیے مقرر ہوا ۔آپ کی خانگی ضروریات سے جو بچتا اسے جہاد کی ضروریات میں صرف کردیا جاتا۔آپ کی وفات کے بعد یہ مصرف ختم ہوگیا۔ اس خمس کا ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں ، یعنی بنو ہاشم کے لیے تھا۔ آپ کی وفات کے بعد ان کا حصہ بھی ختم ہو گیا۔ اب تین مصرف باقی ہیں۔یعنی یتیموں مسکینوں اور مسافروں کی ضروریات کو پورا کرنا۔ حاکم وقت کو ان کے متعلق بھی اختیار کہ جسے چاہے دے سکتا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی موقف کو اختیار کرکے امام مالک کی تائید کی ہے اور اس کے لیے چار حسب ذیل عنوان قائم کیے ہیں۔1۔پانچواں حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مساکین کی ضروریات پورا کرنے کے لیے ہے۔2۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مالک نہیں بلکہ آپ کو صرف تقسیم کرنے کا اختیار تھا۔3۔خمس مسلمانوں کی ضروریات کے لیے ہے۔4۔خمس حاکم وقت کے لیے ہے۔ان سب عنوانات کا ایک ہی مقصد ہے کہ حاکم وقت اپنی صوابدید کے مطابق خرچ کرنے کا مجاز ہے اس خمس کا مالک نہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خمس کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیےپینسٹھ(65)متصل احادیث بیان کی ہیں۔اور ان پر بیس(20) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن کی تفصیل آئندہ بیان ہو گی۔ایک اہم مسئلہ جس کی طرف توجہ دینا ضروری ہے کہ دور نبوی میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین رضا کارانہ طور پر اسے فریضہ سمجھ کر جہاد پر جاتے اور جنگ میں شریک ہو تے تھے اس سلسلے میں سواری اور ہتھیاروں کا اہتمام بھی خود کرتے تھے بلکہ بعض اوقات ذاتی خدمت کے لیے اپنے خرچے پر مزدورساتھ لے جاتے۔ ان خدمات کے عوض ان مجاہدین کو مال غنیمت سے حصہ ملتا تھا مگر دور حاضر میں فوج کا محکمہ ہی الگ ہے۔ اس محکمے میں شامل فوجی باقاعدہ تنخواہ دار ہوتے ہیں۔ ایام جنگ کے علاوہ بھی انھیں تنخواہ ملتی رہتی ہے۔ان کے لیے اسلحہ اور سواری کا اہتمام بھی حکومت کے ذمے ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں عام مسلمانوں پر جہاد کی فرضیت ساقط ہے اور تنخواہ دار ہونے کی وجہ سے ان فوجی اور مجاہدین میں مال غنیمت کی تقسیم کا قصہ بھی ختم ہوا۔امیر جیش یعنی چیف کمانڈر حصہ بھی ختم ہوا کیونکہ وہ بھی سر کاری خزانے سے بھاری تنخواہ وصول کرتا ہے فقراء کی ضرورتوں کو پورا کرنا ویسے ہی اسلامی حکومت کا فریضہ ہوتا ہے۔ ان مسائل میں اجتہاد کی ضرورت ہے کہ موجودہ دور میں ان شرعی نصوص کا انطباق کیسے ہو؟ ضرورت ہے کہ ان جیسے بیسیوں مسائل کے لیے اہل علم پر مشتمل ایک مجلس شوریٰ کا اہتمام کیا جائے۔ کاش کہ مسلک حقہ کی علمبردار جماعت اہل حدیث اس طرف توجہ دے اور جدید مسائل کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے وقت کی ضرورت کے پیش نظر خمس اور جزیے وغیرہ کے متعلق الگ الگ دو بڑے عنوان قائم کیے ہیں۔ حالانکہ ان کا تعلق جہاد ہی سے ہے۔چونکہ خمس اور جزیے کے مسائل کی بہت سی قسمیں ہیں جو تشریح و تفصیل کا تقاضا کرتی ہیں۔ اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی افادیت و اہمیت کے پیش نظر انھیں الگ عنوان کے تحت بیان کیا ہے۔ قارئین سے استدعا ہے کہ وہ ہماری تشریحات کو مد نظر رکھتے ہوئے پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دینی معاملات میں بصیرت عطا فرمائےپھر ان پر عمل کی توفیق دے۔آمین یا رب العالمین ۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ قرآنی آیات میں گھروں کی نسبت ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کی طرف ہے جیسا کہ پیش کرو پہلی آیت میں ہے اور ان کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھی ہے جیسا کہ دوسری آیت کریمہ میں ہے تو کیا یہ نسبت ملکیت کی وجہ سے ہے یا نسبت ان میں ٹھہرنے کی بنا پرہے۔ اس اختلاف کی طرف امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اشارہ کیا ہے۔اس کی وضاحت ہم آئندہ کریں گے۔باذن اللہ تعالیٰ۔
اور اللہ پاک نے سورہ احزاب میں فرمایا کہ ” تم لوگ (ازواج مطہرات) اپنے گھروں ہی میں عزت سے رہا کرو ‘‘۔ اور (اسی سورۃ میں فرمایا کہ) ” نبی کے گھر میں اس وقت تک نہ داخل ہو ‘ جب تک تمہیں اجازت نہ مل جائے ۔تشریح:مجتہد مطلق امام بخارییہ باب منعقد کر کے بتلانا چاہتے ہیں کہ ابیات و حجرات بنوی آپ کی حیات طیبہ میں جس جس طور پر جن جن بیویوں کو تقسیم تھے۔آپ کی وفات کے بعد وہ اسی طرح رہے ان میں کوئی ورثہ نہیں تقسیم کیا گیا اور یہ اس لئے کہ آنحضرتﷺ خود فرما گئے تھے کہ ہمارا کو ئی ترکہ تقسیم نہیں ہوتا۔گروہ انبیاء میں اللہ کا قانون یہی رہا وہ صرف علم دین کی دولت چھوڑ کر جاتے تھے بہ سلسلہ تذکرہ خمس اس مسئلہ کوبھی بیان کر دیا گیا اور خمس کا تعلق جہاد سے ہے اس لئے ذیلی طور پر یہ مسائل کتاب الجہاد میں مذکور ہوئے۔پہلی آیت میں گھروں کی نسبت بیویوں کی طرف فرمائی‘دوسری آیت میں ان ہی گھروں کو پغمبرﷺ کے گھر فرمایا۔اس سے حضرا امام بخاری نے باب کا مطلب ثابت کیا کہ آنحضرتﷺ کی بیویوں کو جیسے آپ کی وفات کے بعد اپنے خرچہ کا حق تھا ویسے ہی اپنے اپنے حجروں پر بھی ان کا حق تھا اور اس کی وجہ یہ ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو مسلمانوں کی مائیں قرار دیا اور کسی اور سے ان کا نکاح حرام کردیا(وحیدی)
حدیث ترجمہ:
نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓنے فرمایا: (ایک دن) رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تھے کہ انھوں نے ایک انسان کی آواز سنی جو حضرت حفصہ ؓ کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت مانگ رہا تھا۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! یہ شخص آپ کے گھر جانے کی اجازت مانگ رہاہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میرا خیال ہے یہ فلاں شخص ہے جو حضر ت حفصہ ؓ کا رضاعی چچا ہے۔‘‘ نیز فرمایا: ’’رضاعت ہر اس چیز کو حرام کردیتی جو نسب حرام کرتا ہے۔‘‘
نوٹ:۔رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کی رہائش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’اس طرف سے شیطانی فتنہ طلوع ہوگا۔‘‘ اس حدیث کو بنیاد بنا کر رافضیوں نے پروپیگنڈا کیا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کا گھر فتنوں کی آما جگاہ تھا حالانکہ انھیں ایسی باتیں کہتے ہوئے شرم آنی چاہیے کیونکہ رسول اللہ ﷺنے اپنے آخری ایام حضرت عائشہ ؓ کے گھر گزارے اور زندگی کے بعد وہ آپ کا مشہد بنا۔ جو کہ اللہ کی طرف سے خیر و برکت کے نزول کا محل ہے۔ ایسی جگہ کو فتنوں کی آما جگاہ کیونکرقرار دیا جا سکتا ہے دراصل صحابہ کرام ؓ سےبغض وعناد کے نتیجے میں ایسی باتیں کہی گئی ہیں۔ امام بخاری ؒ نے دوسرے مقام پر ایک تفصیلی روایت ذکر کی ہےکہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے ایک دفعہ اہل عراق سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو مشرق کی طرف اشارہ کر کے فرماتے ہوئے دیکھا۔ ’’خبردار! فتنہ ادھر سے طلوع ہوگا فتنہ اس طرف سے ظاہر ہوگا جہاں سے شیطان کا سینگ طلوع ہوتا ہے۔‘‘(صحیح البخاري، الفتن، حدیث:7092) مدینہ طیبہ سے عراق مشرق کی طرف پڑتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ فتنوں کی آما جگاہ سر زمین عراق ہے۔ اس میں شک نہیں کہ عراق کا خطہ بڑا ہنگامہ خیز اور فتنہ پرور واقع ہوا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی مذکورہ بالا پیش گوئی کے مطابق یہ منحوس علاقہ اسلام اور اہل اسلام کے خلاف اٹھنے والے فتنوں کی آماجگاہ ہے چنانچہ قوم نوح کے بت وداور سواع وغیرہ عراق ہی میں تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خلاف آگ کا الاؤ تیار کرنے والا نمرودبھی اسی عراق کا فرمانروا تھا۔حضرت عثمان ؓکے خلاف فتنہ بھی عراقی لوگوں نے برپا کیا تھا نواسہ رسول اللہ ﷺ کو شہید کرنے والے بھی عراقی تھے۔ حدیث اور اہل حدیث کے خلاف اہل رائےکے طوفان بھی اسی سر زمین سے اٹھے۔ اب بھی یہ خطہ اس قسم کے فتنوں کی بد ترین مثالیں قائم کیےہوئے ہے ان واقعات و شواہد کے تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کا گھر فتنوں کی آماجگاہ نہیں تھا بلکہ یہ "شرف" سر زمین عراق کو حاصل ہوا ہے۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور(اے نبی کریمﷺ کی بیویو!)تم اپنے گھروں میں ہی ٹھری رہو۔ "نیزارشاد فرمایا: "(اے ایمان والو!) تم نبی مکرم(ﷺ ) کے گھروں میں اجازت کے بغیر نہ جاؤ۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا‘ کہا ہم کو امام مالک بن انس نے خبر دی‘ انہیں عبداللہ بن ابی بکر نے‘ انہیں عمرہ بنت عبدالرحمٰن نے اور انہیں عائشہ ؓ نے خبر دی کہ رسو ل کریم ﷺ ان کے گھر میں موجود تھے۔ اچانک انہوں نے سنا کہ کوئی صاحب حفصہ ؓ کے گھر میں اندر آنے کی اجازت مانگ رہے ہیں۔ (عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ) میں نے عرض کیا یارسول اللہ! آپ دیکھتے نہیں، یہ شخص گھر میں جانے کی اجازت مانگ رہا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے اس پر فرمایا کہ میرا خیال ہے یہ فلاں صاحب ہیں، حفصہ ؓ کے رضاعی چچا! رضاعت بھی ان تمام چیزوں کوحرام کردیتی ہے جنہیں ولادت حرام کرتی ہے۔
حدیث حاشیہ:
اس میں بھی گھر کو حضرت حفصہ ؓ کی طرف منسوب کیا گیا۔ جس سے باب کا مطلب ثابت ہوا کہ کسی بچے نے اپنی چچی کا دودھ پیا ہے تو چچا رضاعی باپ ہوگا۔ اور چچا کے لڑکے لڑکیاں رضاعی بھائی بہن ہوں گے۔ ان سے پردہ بھی نہیں ہے۔ کیونکہ رضاعت سے یہ سب محرم بن جاتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Amra bint Abdur-Rahman (RA): 'Aisha (RA), the wife of the Prophet (ﷺ) told her that once Allah's Apostle (ﷺ) was with her and she heard somebody asking permission to enter Hafsa's house. She said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! This man is asking permission to enter your house." Allah's Apostle (ﷺ) replied, "I think he is so-and-so (meaning the foster uncle of Hafsah (RA)). What is rendered illegal because of blood relations, is also rendered illegal because of the corresponding foster-relations."