باب : نبی کریم ﷺ کی زرہ‘ عصاء مبارک ‘ آپ ﷺ کی تلوار ‘ پیالہ اورانگوٹھی کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
One-fifth of Booty to the Cause of Allah (Khumus)
(Chapter: The armour of the Prophet saws)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
باب : نبی کریم ﷺ کی زرہ‘ اور آپ کے بعد جو خلیفہ ہوئے انہوں نے یہ چیزیں استعمال کیں ‘ ان کو تقسیم نہیں کیا ‘ اور آپﷺکے موئے مبارک اور نعلین اور برتنوں کا بیان جن کو آپ کے اصحاب وغیرہ نے آپ کی وفات کے بعد ( تاریخی طور پر ) متبرک سمجھا ۔ الغرض من هذه الترجمة تثبيت انه ﷺلم يورث ولابيع موجوده بل ترك بيد من صار اليه للتبرك به ولو كان ميراثا لبيعت ولا قسمت ولهذا قال بعد ذلك مما لم يذكرقسمته(فتخ الباری)اس باب کی غرض اس امر کو ثابت کرنا ہے کہ آپﷺ کا کسی کووارث نہیں بنایا گیا اور نہ آپ کا ترکہ بیچا گیا بلکہ جس کی تحویل میں وہ ترکہ پہنچ گیا تبرک کے لئے اس کے پاس چھوڑ دیا گیا اور اگر آپﷺ کا ترکہ میراث ہوتا تووہ بیچا جاتا اور تقسیم کیا جاتا اسی لئے بعد میں کہا گیا کہ ان چیزوں کا بیان جن کی تقسیم ثابت نہیں۔
3109.
حضر ت انس بن مالک ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کا پیالہ ٹوٹ گیا تو آپ نے ٹوٹی ہوئی جگہ پر چاندی کی تار لگا کر اسے جوڑ لیا تھا۔ (راوی حدیث) حضرت عاصم کہتے ہیں کہ میں نے وہ پیالہ دیکھا اور اس میں پانی بھی پیا ہے۔
تشریح:
1۔ ایک حدیث میں ہے کہ وہ پیالہ بہت بڑا اور عمدہ قسم کاتھا جو بہترین لکڑی سے تیار شدہ تھا۔ (صحیح البخاري، الأشربة، حدیث:5638) اس حدیث کے آخر میں ہے کہ اس میں لوہے کا ٹکڑا تھا۔ حضرت انس ؓنے اس کی جگہ سونے یا چاندی کا کڑا لگانے کاارادہ کیا تو حضرت ابوطلحہ ؓنے انھیں منع کردیا اور فرمایا:اس میں کوئی تبدیلی نہ کرو بلکہ اسی حالت میں رہنے دو جس حالت میں رسول اللہ ﷺ کے پاس تھا، چنانچہ حضرت انس ؓ اسی حالت میں رہنے دیا۔ (صحیح البخاري، الأشربة، حدیث:5638)حضرت حجاج بن حسان کہتے ہیں:ہم ایک مرتبہ حضرت انس ؓ کے پاس تھے انھوں نے ایک برتن منگوایا جسے تین لوہےکے ٹکڑے لگے ہوئے تھے اور اس میں لوہے کا کڑا بھی تھا، اسے آپ نے سیاہ غلاف سے نکالا اور اس میں پانی ڈال کر ہمارے پاس لایا گیا، ہم نے اس سے پانی پیا، اپنے سروں اور مونہوں پر چھڑکا اور رسول اللہ ﷺ پر درود بھی پڑھا۔ (مسند أحمد187/3) 2۔ حافظ ابن حجر ؒنے علامہ قرطبی ؒ کے حوالے سے لکھا ہے:امام بخاری ؒ فرماتے ہیں:میں نے بصرہ میں وہ پیالہ کسی کے پاس دیکھا اور اس سے پانی نوش کیا۔ اس نے وہ پیالہ نضر بن انس کو ملنے والی جائیداد سے آٹھ لاکھ میں خریدا تھا۔ (فتح الباري:124/10) وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ رسول اللہ ﷺ کا یہ پیالہ بھی معدوم ہوگیا یا جنگوں اور فتنوں کی نظر ہوکرضائع ہوگیا۔ 3۔ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی چھوڑی ہوئی اشیاء میں سے کوئی چیز بھی تقسیم نہیں کی گئی بلکہ انھیں تبرک کے طور پر رکھاگیا۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2993
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3109
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3109
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3109
تمہید کتاب
غزوہ بدر کے اختتام پر اس قسم کی صورتحال پیداہو گئی کہ جس فریق نے غنیمت کا مال لوٹا وہ اپنے آپ ہی کو اس کا حقدار سمجھنے لگا۔ کچھ لوگ کفار کا تعاقب کرنے والے تھے انھوں نے دعوی کیا کہ ہم بھی مال غنیمت میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ اگر ہم کفار کا تعاقب نہ کرتے تو کفار واپس آکر حملہ کر سکتے تھے جس سے فتح کا شکست میں بدل جانا ممکن تھا کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت پر مامور تھے۔ انھوں نے کہا: ہم بھی اس مال میں برابر کے حصے دار ہیں۔کیونکہ اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت نہ کرتے تو آپ کوکوئی حادثہ پیش آسکتا تھا جو جنگ کا پانسہ پلٹنے میں بنیادی کردار ادا کرتا۔ لیکن جن لوگوں نے مال غنیمت پر قبضہ کیا وہ ایسی باتیں قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے لہٰذا مجاہدین میں کشیدگی کا پیدا ہونا ایک طبعی امر تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے بھی وحی الٰہی کی آمد تک خاموشی اختیار کیےرکھی۔ بالآخراللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا :کہ دوران جنگ میں ملنے والے تمام اموال اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں ان کے متعلق جو فیصلہ ہوگا۔ وہ سب کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ پھر اس کی تفصیل نازل ہوئی، کہ مال غنیمت کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے قرابت داروں،مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے۔(الانفال:8/41)دراصل میدان جنگ میں حاصل ہونے والے مال کی چند قسمیں حسب ذیل ہیں۔1۔مال غنیمت:۔مجاہدین کے قتال کے بعد کفار کی شکست کی صورت میں وہاں سے جو مال حاصل ہو اسے مال غنیمت کہا جاتا ہے۔ یہ پہلی امتوں پر حرام تھا بلکہ آسمان سے آگ آکر اسے جلا دیتی تھی مگر اس امت پر اسے حلال کردیا گیا۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق ایسے مال کے پانچ حصے ہوں گے، جن میں سے چار مجاہدین میں تقسیم ہوں گے اور ایک حصہ اللہ اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرابت داروں ، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے جو بیت المال میں جائے گا۔2۔مال فے:۔اس میں ہر وہ مال شامل ہے جو مسلمانوں کو لڑے ے بغیر مل جائے۔اس کے متعلق قرآنی فیصلہ یہ ہے کہ وہ سارے کا سارا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے۔(اور آپ کے بعد شرعی حاکم کے لیے ہے)اور وہ اپنی صوابدید کے مطابق اسے خرچ کرنے کے مجاز ہیں۔3۔مال سلب:۔ اس سے مراد وہ مال ہے جو ایک مجاہد مقتول دشمن کے جسم سے اتارتا ہے۔ اس کے متعلق شرعی فیصلہ ہے کہ وہ قاتل مجاہد کو دیا جائے لیکن حاکم وقت صوابدیدی اختیاربد ستور باقی رہتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر میں ابوجہل کے سازوسامان کے متعلق موقف اختیار کیا تھا۔4۔ایسی اشیاء جن کا تعلق غذا سے ہو یا ایسی چیز یں جو عموماً غذا کا فائدہ دیتی ہوں۔اسی طرح جانوروں کی گھاس وغیرہ ایسی تمام اشیاء کو تقسیم سے پہلے ہی استعمال کرنے کی اجازت ہوتی ہے ۔ اس میں حاکم وقت سے اجازت لینا ضروری نہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت ایسی احادیث جمع کی ہیں جن کا تعلق مال غنیمت کے خمس سے ہے۔مال غنیمت کے متعلق اس امر پر اتفاق ہے کہ اس کے چار حصے مجاہدین کے لیے ہیں۔ اس سےدو حصے گھوڑے کے لیے اور ایک حصہ مجاہد کے لیے مختص ہوتا ہے۔ اگر کسی کے پاس گھوڑا نہ ہو تو وہ صرف ایک حصے کا حق دار ہے۔ واضح رہے کہ چار حصے ان مجاہدین میں تقسیم کیے جاتے جو جنگ میں شریک ہوتے۔ باقی پانچواں حصہ یعنی خمس کے لیے قرآن کریم نے چھ مصرف بیان کیے ہیں ان میں اللہ کا ذکر تو بطور تبرک ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو حصہ ہے وہ آپ کی گھریلو ضروریات کے لیے مقرر ہوا ۔آپ کی خانگی ضروریات سے جو بچتا اسے جہاد کی ضروریات میں صرف کردیا جاتا۔آپ کی وفات کے بعد یہ مصرف ختم ہوگیا۔ اس خمس کا ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں ، یعنی بنو ہاشم کے لیے تھا۔ آپ کی وفات کے بعد ان کا حصہ بھی ختم ہو گیا۔ اب تین مصرف باقی ہیں۔یعنی یتیموں مسکینوں اور مسافروں کی ضروریات کو پورا کرنا۔ حاکم وقت کو ان کے متعلق بھی اختیار کہ جسے چاہے دے سکتا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی موقف کو اختیار کرکے امام مالک کی تائید کی ہے اور اس کے لیے چار حسب ذیل عنوان قائم کیے ہیں۔1۔پانچواں حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مساکین کی ضروریات پورا کرنے کے لیے ہے۔2۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مالک نہیں بلکہ آپ کو صرف تقسیم کرنے کا اختیار تھا۔3۔خمس مسلمانوں کی ضروریات کے لیے ہے۔4۔خمس حاکم وقت کے لیے ہے۔ان سب عنوانات کا ایک ہی مقصد ہے کہ حاکم وقت اپنی صوابدید کے مطابق خرچ کرنے کا مجاز ہے اس خمس کا مالک نہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خمس کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیےپینسٹھ(65)متصل احادیث بیان کی ہیں۔اور ان پر بیس(20) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن کی تفصیل آئندہ بیان ہو گی۔ایک اہم مسئلہ جس کی طرف توجہ دینا ضروری ہے کہ دور نبوی میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین رضا کارانہ طور پر اسے فریضہ سمجھ کر جہاد پر جاتے اور جنگ میں شریک ہو تے تھے اس سلسلے میں سواری اور ہتھیاروں کا اہتمام بھی خود کرتے تھے بلکہ بعض اوقات ذاتی خدمت کے لیے اپنے خرچے پر مزدورساتھ لے جاتے۔ ان خدمات کے عوض ان مجاہدین کو مال غنیمت سے حصہ ملتا تھا مگر دور حاضر میں فوج کا محکمہ ہی الگ ہے۔ اس محکمے میں شامل فوجی باقاعدہ تنخواہ دار ہوتے ہیں۔ ایام جنگ کے علاوہ بھی انھیں تنخواہ ملتی رہتی ہے۔ان کے لیے اسلحہ اور سواری کا اہتمام بھی حکومت کے ذمے ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں عام مسلمانوں پر جہاد کی فرضیت ساقط ہے اور تنخواہ دار ہونے کی وجہ سے ان فوجی اور مجاہدین میں مال غنیمت کی تقسیم کا قصہ بھی ختم ہوا۔امیر جیش یعنی چیف کمانڈر حصہ بھی ختم ہوا کیونکہ وہ بھی سر کاری خزانے سے بھاری تنخواہ وصول کرتا ہے فقراء کی ضرورتوں کو پورا کرنا ویسے ہی اسلامی حکومت کا فریضہ ہوتا ہے۔ ان مسائل میں اجتہاد کی ضرورت ہے کہ موجودہ دور میں ان شرعی نصوص کا انطباق کیسے ہو؟ ضرورت ہے کہ ان جیسے بیسیوں مسائل کے لیے اہل علم پر مشتمل ایک مجلس شوریٰ کا اہتمام کیا جائے۔ کاش کہ مسلک حقہ کی علمبردار جماعت اہل حدیث اس طرف توجہ دے اور جدید مسائل کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے وقت کی ضرورت کے پیش نظر خمس اور جزیے وغیرہ کے متعلق الگ الگ دو بڑے عنوان قائم کیے ہیں۔ حالانکہ ان کا تعلق جہاد ہی سے ہے۔چونکہ خمس اور جزیے کے مسائل کی بہت سی قسمیں ہیں جو تشریح و تفصیل کا تقاضا کرتی ہیں۔ اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی افادیت و اہمیت کے پیش نظر انھیں الگ عنوان کے تحت بیان کیا ہے۔ قارئین سے استدعا ہے کہ وہ ہماری تشریحات کو مد نظر رکھتے ہوئے پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دینی معاملات میں بصیرت عطا فرمائےپھر ان پر عمل کی توفیق دے۔آمین یا رب العالمین ۔
باب : نبی کریم ﷺ کی زرہ‘ اور آپ کے بعد جو خلیفہ ہوئے انہوں نے یہ چیزیں استعمال کیں ‘ ان کو تقسیم نہیں کیا ‘ اور آپﷺکے موئے مبارک اور نعلین اور برتنوں کا بیان جن کو آپ کے اصحاب وغیرہ نے آپ کی وفات کے بعد ( تاریخی طور پر ) متبرک سمجھا ۔ الغرض من هذه الترجمة تثبيت انه ﷺلم يورث ولابيع موجوده بل ترك بيد من صار اليه للتبرك به ولو كان ميراثا لبيعت ولا قسمت ولهذا قال بعد ذلك مما لم يذكرقسمته(فتخ الباری)اس باب کی غرض اس امر کو ثابت کرنا ہے کہ آپﷺ کا کسی کووارث نہیں بنایا گیا اور نہ آپ کا ترکہ بیچا گیا بلکہ جس کی تحویل میں وہ ترکہ پہنچ گیا تبرک کے لئے اس کے پاس چھوڑ دیا گیا اور اگر آپﷺ کا ترکہ میراث ہوتا تووہ بیچا جاتا اور تقسیم کیا جاتا اسی لئے بعد میں کہا گیا کہ ان چیزوں کا بیان جن کی تقسیم ثابت نہیں۔
حدیث ترجمہ:
حضر ت انس بن مالک ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کا پیالہ ٹوٹ گیا تو آپ نے ٹوٹی ہوئی جگہ پر چاندی کی تار لگا کر اسے جوڑ لیا تھا۔ (راوی حدیث) حضرت عاصم کہتے ہیں کہ میں نے وہ پیالہ دیکھا اور اس میں پانی بھی پیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ ایک حدیث میں ہے کہ وہ پیالہ بہت بڑا اور عمدہ قسم کاتھا جو بہترین لکڑی سے تیار شدہ تھا۔ (صحیح البخاري، الأشربة، حدیث:5638) اس حدیث کے آخر میں ہے کہ اس میں لوہے کا ٹکڑا تھا۔ حضرت انس ؓنے اس کی جگہ سونے یا چاندی کا کڑا لگانے کاارادہ کیا تو حضرت ابوطلحہ ؓنے انھیں منع کردیا اور فرمایا:اس میں کوئی تبدیلی نہ کرو بلکہ اسی حالت میں رہنے دو جس حالت میں رسول اللہ ﷺ کے پاس تھا، چنانچہ حضرت انس ؓ اسی حالت میں رہنے دیا۔ (صحیح البخاري، الأشربة، حدیث:5638)حضرت حجاج بن حسان کہتے ہیں:ہم ایک مرتبہ حضرت انس ؓ کے پاس تھے انھوں نے ایک برتن منگوایا جسے تین لوہےکے ٹکڑے لگے ہوئے تھے اور اس میں لوہے کا کڑا بھی تھا، اسے آپ نے سیاہ غلاف سے نکالا اور اس میں پانی ڈال کر ہمارے پاس لایا گیا، ہم نے اس سے پانی پیا، اپنے سروں اور مونہوں پر چھڑکا اور رسول اللہ ﷺ پر درود بھی پڑھا۔ (مسند أحمد187/3) 2۔ حافظ ابن حجر ؒنے علامہ قرطبی ؒ کے حوالے سے لکھا ہے:امام بخاری ؒ فرماتے ہیں:میں نے بصرہ میں وہ پیالہ کسی کے پاس دیکھا اور اس سے پانی نوش کیا۔ اس نے وہ پیالہ نضر بن انس کو ملنے والی جائیداد سے آٹھ لاکھ میں خریدا تھا۔ (فتح الباري:124/10) وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ رسول اللہ ﷺ کا یہ پیالہ بھی معدوم ہوگیا یا جنگوں اور فتنوں کی نظر ہوکرضائع ہوگیا۔ 3۔ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی چھوڑی ہوئی اشیاء میں سے کوئی چیز بھی تقسیم نہیں کی گئی بلکہ انھیں تبرک کے طور پر رکھاگیا۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
ان تمام چیزوں کو آپ کے بعد خلفائے راشدین نے استعمال کیا لیکن ان کی تقسیم منقول نہیں ہے۔ اسی طرح آپ کے موئے مبارک، نعلین اور برتنوں کا حال ہے جن سے آپ کی وفات کے بعد صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین اور غیر صحابہ برکت حاصل کرتے رہے ہیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدان نے بیان کیا‘ ان سے ابو حمزہ نے‘ ان سے عاصم نے‘ ان سے ابن سیرین نے اور ان سے انس بن مالک ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ کا پانی پینے کا پیالہ ٹوٹ گیا تو آپ نے ٹوٹی ہوئی جگہوں کو چاندی کی زنجیروں سے جوڑ والیا۔ عاصم کہتے ہیں کہ میں نے وہ پیالہ دیکھا ہے۔ اور اس میں میں نے پانی بھی پیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
مقصد حضرت اما م کا یہ ہے کہ اگر آپ ﷺ کا ترکہ تقسیم کیا جاتا تو وہ پیالہ تقسیم ہوتا‘ حالانکہ وہ تقسیم نہیں ہوا۔ بلکہ خلفاء اسے یوں ہی بطور تبرک اپنے پاس محفوظ رکھتے چلے آئے۔ اس طرح پچھلی احادیث میں آنحضرت ﷺ کے پرانے جوتوں کا ذکر ہے اور حدیث عائشہ میں آپ کی کملی اور تہبند کا ذکر ہے۔ معلوم ہوا کہ رسول کریم ﷺ کی ترک فرموداہ اشیاءمیں سے کوئی چیز تقسیم نہیں کی گئی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): When the cup of Allah's Apostle (ﷺ) got broken, he fixed it with a silver wire at the crack. (The sub-narrator, 'Asim said, "I saw the cup and drank (water) in it.")