باب : نبی کریم ﷺ کی زرہ‘ عصاء مبارک ‘ آپ ﷺ کی تلوار ‘ پیالہ اورانگوٹھی کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
One-fifth of Booty to the Cause of Allah (Khumus)
(Chapter: The armour of the Prophet saws)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
باب : نبی کریم ﷺ کی زرہ‘ اور آپ کے بعد جو خلیفہ ہوئے انہوں نے یہ چیزیں استعمال کیں ‘ ان کو تقسیم نہیں کیا ‘ اور آپﷺکے موئے مبارک اور نعلین اور برتنوں کا بیان جن کو آپ کے اصحاب وغیرہ نے آپ کی وفات کے بعد ( تاریخی طور پر ) متبرک سمجھا ۔ الغرض من هذه الترجمة تثبيت انه ﷺلم يورث ولابيع موجوده بل ترك بيد من صار اليه للتبرك به ولو كان ميراثا لبيعت ولا قسمت ولهذا قال بعد ذلك مما لم يذكرقسمته(فتخ الباری)اس باب کی غرض اس امر کو ثابت کرنا ہے کہ آپﷺ کا کسی کووارث نہیں بنایا گیا اور نہ آپ کا ترکہ بیچا گیا بلکہ جس کی تحویل میں وہ ترکہ پہنچ گیا تبرک کے لئے اس کے پاس چھوڑ دیا گیا اور اگر آپﷺ کا ترکہ میراث ہوتا تووہ بیچا جاتا اور تقسیم کیا جاتا اسی لئے بعد میں کہا گیا کہ ان چیزوں کا بیان جن کی تقسیم ثابت نہیں۔
3110.
حضرت علی بن حسین (زین العابدین) سے روایت ہے کہ جب ہم حضرت حسین ؓ کی شہادت کے بعد یزید بن معاویہ کے پاس سے مدینہ طیبہ آئے تو انھیں مسور بن مخرمہ ؓ ملے اور کہا کہ اگر آپ کو کوئی ضرورت ہو تو مجھے حکم دیں؟ میں نے ان سے کہا: مجھے کوئی حاجت نہیں۔ حضرت مسور ؓنے کہا: کیا آپ مجھے رسول اللہ ﷺ کی تلوار عنایت فرمائیں گے! مجھے خطرہ ہے مبادا کچھ لوگ آپ سے بہ زور چھین لیں؟ اللہ کی قسم! اگر وہ آپ مجھے دے دیں گے تو جب تک میری جان باقی ہے اسے کوئی شخص چھین نہیں سکے گا۔ (پھر انہوں نے ایک قصہ بیان کیا کہ) حضرت علی ؓنے سیدہ فاطمہ ؓ کی موجودگی میں ابوجہل کی ایک بیٹی کو پیغام نکاح دے دیا تھا تو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ منبر پر لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے، میں ان دنوں بالغ تھا، آپ نے فرمایا: ’’فاطمہ میرا جگر گوشہ ہے، مجھے اندیشہ ہے مبادا وہ اپنے دین کے متعلق کسی فتنے میں مبتلا ہو جائے۔‘‘ پھر آپ نے خاندان بنو عبدشمس والے داماد کاذکرکیا اور اس کی دامادی کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: ’’اس نے مجھ سے جو بات کہی سچی کہی، جو وعدہ کیا تو اسے پورا کیا۔ میں حلال چیز کوحرام نہیں کرتا اور حرام کو حلال نہیں کرتا لیکن اللہ کی قسم! اللہ کے رسول ﷺ کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی کبھی ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں۔‘‘
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2994
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3110
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3110
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3110
تمہید کتاب
غزوہ بدر کے اختتام پر اس قسم کی صورتحال پیداہو گئی کہ جس فریق نے غنیمت کا مال لوٹا وہ اپنے آپ ہی کو اس کا حقدار سمجھنے لگا۔ کچھ لوگ کفار کا تعاقب کرنے والے تھے انھوں نے دعوی کیا کہ ہم بھی مال غنیمت میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ اگر ہم کفار کا تعاقب نہ کرتے تو کفار واپس آکر حملہ کر سکتے تھے جس سے فتح کا شکست میں بدل جانا ممکن تھا کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت پر مامور تھے۔ انھوں نے کہا: ہم بھی اس مال میں برابر کے حصے دار ہیں۔کیونکہ اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت نہ کرتے تو آپ کوکوئی حادثہ پیش آسکتا تھا جو جنگ کا پانسہ پلٹنے میں بنیادی کردار ادا کرتا۔ لیکن جن لوگوں نے مال غنیمت پر قبضہ کیا وہ ایسی باتیں قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے لہٰذا مجاہدین میں کشیدگی کا پیدا ہونا ایک طبعی امر تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے بھی وحی الٰہی کی آمد تک خاموشی اختیار کیےرکھی۔ بالآخراللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا :کہ دوران جنگ میں ملنے والے تمام اموال اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں ان کے متعلق جو فیصلہ ہوگا۔ وہ سب کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ پھر اس کی تفصیل نازل ہوئی، کہ مال غنیمت کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے قرابت داروں،مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے۔(الانفال:8/41)دراصل میدان جنگ میں حاصل ہونے والے مال کی چند قسمیں حسب ذیل ہیں۔1۔مال غنیمت:۔مجاہدین کے قتال کے بعد کفار کی شکست کی صورت میں وہاں سے جو مال حاصل ہو اسے مال غنیمت کہا جاتا ہے۔ یہ پہلی امتوں پر حرام تھا بلکہ آسمان سے آگ آکر اسے جلا دیتی تھی مگر اس امت پر اسے حلال کردیا گیا۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق ایسے مال کے پانچ حصے ہوں گے، جن میں سے چار مجاہدین میں تقسیم ہوں گے اور ایک حصہ اللہ اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرابت داروں ، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے جو بیت المال میں جائے گا۔2۔مال فے:۔اس میں ہر وہ مال شامل ہے جو مسلمانوں کو لڑے ے بغیر مل جائے۔اس کے متعلق قرآنی فیصلہ یہ ہے کہ وہ سارے کا سارا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے۔(اور آپ کے بعد شرعی حاکم کے لیے ہے)اور وہ اپنی صوابدید کے مطابق اسے خرچ کرنے کے مجاز ہیں۔3۔مال سلب:۔ اس سے مراد وہ مال ہے جو ایک مجاہد مقتول دشمن کے جسم سے اتارتا ہے۔ اس کے متعلق شرعی فیصلہ ہے کہ وہ قاتل مجاہد کو دیا جائے لیکن حاکم وقت صوابدیدی اختیاربد ستور باقی رہتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر میں ابوجہل کے سازوسامان کے متعلق موقف اختیار کیا تھا۔4۔ایسی اشیاء جن کا تعلق غذا سے ہو یا ایسی چیز یں جو عموماً غذا کا فائدہ دیتی ہوں۔اسی طرح جانوروں کی گھاس وغیرہ ایسی تمام اشیاء کو تقسیم سے پہلے ہی استعمال کرنے کی اجازت ہوتی ہے ۔ اس میں حاکم وقت سے اجازت لینا ضروری نہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت ایسی احادیث جمع کی ہیں جن کا تعلق مال غنیمت کے خمس سے ہے۔مال غنیمت کے متعلق اس امر پر اتفاق ہے کہ اس کے چار حصے مجاہدین کے لیے ہیں۔ اس سےدو حصے گھوڑے کے لیے اور ایک حصہ مجاہد کے لیے مختص ہوتا ہے۔ اگر کسی کے پاس گھوڑا نہ ہو تو وہ صرف ایک حصے کا حق دار ہے۔ واضح رہے کہ چار حصے ان مجاہدین میں تقسیم کیے جاتے جو جنگ میں شریک ہوتے۔ باقی پانچواں حصہ یعنی خمس کے لیے قرآن کریم نے چھ مصرف بیان کیے ہیں ان میں اللہ کا ذکر تو بطور تبرک ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو حصہ ہے وہ آپ کی گھریلو ضروریات کے لیے مقرر ہوا ۔آپ کی خانگی ضروریات سے جو بچتا اسے جہاد کی ضروریات میں صرف کردیا جاتا۔آپ کی وفات کے بعد یہ مصرف ختم ہوگیا۔ اس خمس کا ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں ، یعنی بنو ہاشم کے لیے تھا۔ آپ کی وفات کے بعد ان کا حصہ بھی ختم ہو گیا۔ اب تین مصرف باقی ہیں۔یعنی یتیموں مسکینوں اور مسافروں کی ضروریات کو پورا کرنا۔ حاکم وقت کو ان کے متعلق بھی اختیار کہ جسے چاہے دے سکتا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی موقف کو اختیار کرکے امام مالک کی تائید کی ہے اور اس کے لیے چار حسب ذیل عنوان قائم کیے ہیں۔1۔پانچواں حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مساکین کی ضروریات پورا کرنے کے لیے ہے۔2۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مالک نہیں بلکہ آپ کو صرف تقسیم کرنے کا اختیار تھا۔3۔خمس مسلمانوں کی ضروریات کے لیے ہے۔4۔خمس حاکم وقت کے لیے ہے۔ان سب عنوانات کا ایک ہی مقصد ہے کہ حاکم وقت اپنی صوابدید کے مطابق خرچ کرنے کا مجاز ہے اس خمس کا مالک نہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خمس کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیےپینسٹھ(65)متصل احادیث بیان کی ہیں۔اور ان پر بیس(20) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن کی تفصیل آئندہ بیان ہو گی۔ایک اہم مسئلہ جس کی طرف توجہ دینا ضروری ہے کہ دور نبوی میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین رضا کارانہ طور پر اسے فریضہ سمجھ کر جہاد پر جاتے اور جنگ میں شریک ہو تے تھے اس سلسلے میں سواری اور ہتھیاروں کا اہتمام بھی خود کرتے تھے بلکہ بعض اوقات ذاتی خدمت کے لیے اپنے خرچے پر مزدورساتھ لے جاتے۔ ان خدمات کے عوض ان مجاہدین کو مال غنیمت سے حصہ ملتا تھا مگر دور حاضر میں فوج کا محکمہ ہی الگ ہے۔ اس محکمے میں شامل فوجی باقاعدہ تنخواہ دار ہوتے ہیں۔ ایام جنگ کے علاوہ بھی انھیں تنخواہ ملتی رہتی ہے۔ان کے لیے اسلحہ اور سواری کا اہتمام بھی حکومت کے ذمے ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں عام مسلمانوں پر جہاد کی فرضیت ساقط ہے اور تنخواہ دار ہونے کی وجہ سے ان فوجی اور مجاہدین میں مال غنیمت کی تقسیم کا قصہ بھی ختم ہوا۔امیر جیش یعنی چیف کمانڈر حصہ بھی ختم ہوا کیونکہ وہ بھی سر کاری خزانے سے بھاری تنخواہ وصول کرتا ہے فقراء کی ضرورتوں کو پورا کرنا ویسے ہی اسلامی حکومت کا فریضہ ہوتا ہے۔ ان مسائل میں اجتہاد کی ضرورت ہے کہ موجودہ دور میں ان شرعی نصوص کا انطباق کیسے ہو؟ ضرورت ہے کہ ان جیسے بیسیوں مسائل کے لیے اہل علم پر مشتمل ایک مجلس شوریٰ کا اہتمام کیا جائے۔ کاش کہ مسلک حقہ کی علمبردار جماعت اہل حدیث اس طرف توجہ دے اور جدید مسائل کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے وقت کی ضرورت کے پیش نظر خمس اور جزیے وغیرہ کے متعلق الگ الگ دو بڑے عنوان قائم کیے ہیں۔ حالانکہ ان کا تعلق جہاد ہی سے ہے۔چونکہ خمس اور جزیے کے مسائل کی بہت سی قسمیں ہیں جو تشریح و تفصیل کا تقاضا کرتی ہیں۔ اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی افادیت و اہمیت کے پیش نظر انھیں الگ عنوان کے تحت بیان کیا ہے۔ قارئین سے استدعا ہے کہ وہ ہماری تشریحات کو مد نظر رکھتے ہوئے پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دینی معاملات میں بصیرت عطا فرمائےپھر ان پر عمل کی توفیق دے۔آمین یا رب العالمین ۔
باب : نبی کریم ﷺ کی زرہ‘ اور آپ کے بعد جو خلیفہ ہوئے انہوں نے یہ چیزیں استعمال کیں ‘ ان کو تقسیم نہیں کیا ‘ اور آپﷺکے موئے مبارک اور نعلین اور برتنوں کا بیان جن کو آپ کے اصحاب وغیرہ نے آپ کی وفات کے بعد ( تاریخی طور پر ) متبرک سمجھا ۔ الغرض من هذه الترجمة تثبيت انه ﷺلم يورث ولابيع موجوده بل ترك بيد من صار اليه للتبرك به ولو كان ميراثا لبيعت ولا قسمت ولهذا قال بعد ذلك مما لم يذكرقسمته(فتخ الباری)اس باب کی غرض اس امر کو ثابت کرنا ہے کہ آپﷺ کا کسی کووارث نہیں بنایا گیا اور نہ آپ کا ترکہ بیچا گیا بلکہ جس کی تحویل میں وہ ترکہ پہنچ گیا تبرک کے لئے اس کے پاس چھوڑ دیا گیا اور اگر آپﷺ کا ترکہ میراث ہوتا تووہ بیچا جاتا اور تقسیم کیا جاتا اسی لئے بعد میں کہا گیا کہ ان چیزوں کا بیان جن کی تقسیم ثابت نہیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت علی بن حسین (زین العابدین) سے روایت ہے کہ جب ہم حضرت حسین ؓ کی شہادت کے بعد یزید بن معاویہ کے پاس سے مدینہ طیبہ آئے تو انھیں مسور بن مخرمہ ؓ ملے اور کہا کہ اگر آپ کو کوئی ضرورت ہو تو مجھے حکم دیں؟ میں نے ان سے کہا: مجھے کوئی حاجت نہیں۔ حضرت مسور ؓنے کہا: کیا آپ مجھے رسول اللہ ﷺ کی تلوار عنایت فرمائیں گے! مجھے خطرہ ہے مبادا کچھ لوگ آپ سے بہ زور چھین لیں؟ اللہ کی قسم! اگر وہ آپ مجھے دے دیں گے تو جب تک میری جان باقی ہے اسے کوئی شخص چھین نہیں سکے گا۔ (پھر انہوں نے ایک قصہ بیان کیا کہ) حضرت علی ؓنے سیدہ فاطمہ ؓ کی موجودگی میں ابوجہل کی ایک بیٹی کو پیغام نکاح دے دیا تھا تو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ منبر پر لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے، میں ان دنوں بالغ تھا، آپ نے فرمایا: ’’فاطمہ میرا جگر گوشہ ہے، مجھے اندیشہ ہے مبادا وہ اپنے دین کے متعلق کسی فتنے میں مبتلا ہو جائے۔‘‘ پھر آپ نے خاندان بنو عبدشمس والے داماد کاذکرکیا اور اس کی دامادی کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: ’’اس نے مجھ سے جو بات کہی سچی کہی، جو وعدہ کیا تو اسے پورا کیا۔ میں حلال چیز کوحرام نہیں کرتا اور حرام کو حلال نہیں کرتا لیکن اللہ کی قسم! اللہ کے رسول ﷺ کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی کبھی ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں۔‘‘
ان تمام چیزوں کو آپ کے بعد خلفائے راشدین نے استعمال کیا لیکن ان کی تقسیم منقول نہیں ہے۔ اسی طرح آپ کے موئے مبارک، نعلین اور برتنوں کا حال ہے جن سے آپ کی وفات کے بعد صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین اور غیر صحابہ برکت حاصل کرتے رہے ہیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے سعید بن محمد جرمی نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے میرے والد نے بیا ن کیا، ان سے ولید بن کثیر نے، ان سے محمد بن عمرو بن حلحلہ ڈولی نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے علی بن حسین (زین العابدین ؓ) نے بیان کیا کہ جب ہم سب حضرات حسین بن علی ؓ کی شہادت کے بعد یزید بن معاویہ ؓ کے یہاں سے مدینہ منورہ تشریف لائے تو مسو ر بن مخرمہ ؓ نے آپ سے ملاقات کی‘ اور کہا اگر آپ کو کوئی ضرورت ہو تو مجھے حکم فر ما دیجئے۔ (حضرت زین العابدین نے بیان کیا کہ) میں نے کہا‘ مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے۔ پھر مسور ؓنے کہا تو کیا آپ مجھے رسو ل اللہ ﷺ کی تلوار عنایت فرمائیں گے ؟ کیونکہ مجھے خوف ہے کہ کچھ لوگ (بنو امیہ) اسے آپ سے نہ چھین لیں اور خدا کی قسم! اگر وہ تلوار آپ مجھے عنایت فر دیں تو کوئی شخص بھی جب تک میری جان باقی ہے اسے چھین نہیں سکے گا۔ پھر مسور ؓ نے ایک قصہ بیان کیا کہ علی بن ابی طالب ؓ نے حضرت فاطمہ ؓ کی موجودگی میں ابو جہل کی ایک بیٹی (جمیلہ نامی ؓ) کو پیغام نکاح دے دیا تھا۔ میں نے خود سنا کہ اسی مسئلہ پر رسو ل اللہ ﷺ نے اپنے اسی منبر پر کھڑے ہو کر صحابہ کو خطاب فرمایا۔ میں اس وقت بالغ تھا۔ آپ ﷺ نے خطبہ میں فرمایا کہ فاطمہ ؓ مجھ سے ہے۔ اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ (اس رشتہ کی وجہ سے) کسی گناہ میں نہ پڑجائے کہ اپنے دین میں وہ کسی فتنہ میں مبتلا ہو۔ اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے خاندان بنی عبد شمس کے ایک اپنے داماد (عاص بن ربیع) کا ذکر کیا اوردامادی سے متعلق آ پ نے ان کی تعریف کی‘ آپ نے فرمایا کہ انہوں نے مجھ سے جوبات کہی سچ کہی‘ جو وعدہ کیا‘ اسے پورا کیا۔ میں کسی حلال (یعنی نکاح ثانی) کو حرام نہیں کرسکتا اور نہ کسی حرام کو حلال بناتا ہوں‘ لیکن اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک ساتھ جمع نہیں ہوں گی۔
حدیث حاشیہ:
وَأَنَا أَتَخَوَّفُ أَنْ تُفْتَنَ فِي دِينِهَا سے مراد یہ کہ علی ؓدوسری بیوی لائیں اور حضرت فاطمہ ؓسوکن پنے کی عداوت سے جوہر عورت کے دل میں ہوتی ہے‘ کسی گناہ میں مبتلا ہو جائیں۔ مثلاً خاوند کو ستائیں‘ ان کی نافرمانی کریں یا سوکن کو برا بھلا کہہ بیٹھیں۔ دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ علی ؓ کا نکاح ثانی یوں ممکن ہے کہ وہ میری بیٹی کو طلاق دے دیں اور ابو جہل کی بیٹی سے نکاح کرلیں۔ جب حضرت علی ؓنے آپ کا یہ ارشاد سنا تو فوراً یہ ارادہ ترک کیا اور جب تک حضرت فاطمہ ؓ زندہ رہیں انہوں نے دوسری بیوی نہیں کی۔ قسطلانی ؒنے کہا آپ کے ارشاد سے یہ معلوم ہوا کہ پیغمبر کی بیٹی اور عدواللہ کی بیٹی میں جمع کرنا حرام ہے۔ مسوربن مخرمہ ؓنے یہ قصہ اس لئے بیان کیا کہ حضرت زین العابدین کی فضیلت معلوم ہو کہ وہ کس کے پوتے ہیں۔ حضرت فاطمہ زہرا ؓکے‘ جن کے لئے آنحضرت ﷺنے حضرت علی ؓ پر عتاب فرمایا اور جن کو آنحضرت ﷺ نے اپنے بدن کا ایک ٹکڑا قرار دیا۔ اس سے حضرت فاطمہ ؓ کی بڑی فضیلت ثابت ہوئی۔ وفي الفتح قال الکرماني مناسبة ذکر المسورلقصة خطبة بنت أبي جهل عند طلبه للسیف من جھة أن رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم کا ن یحترز عما یوجب وقوع التکدیر بین الأقرباء فکذالك ینبغي أن تعطیني السیف حتیٰ لا یحصل بینك وبین أقربائك کدورة بسببه یعنی مسور رضی اللہ عنہ نے بنت ابوجہل کی منگنی کا قصہ اس لئے بیان کیا جبکہ انہوں نے حضرت زین العابدین سے تلوار کا سوال کیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسی چیزوں سے پرہیز فرمایا کرتے تھے جن سے اقراباء میں باہمی کدورت پیداہو۔ پس مناسب ہے کہ آپ یہ تلوار مجھ کو دے دیں تاکہ آپ کے اقرباء میں اس کی وجہ سے آپ سے کدورت نہ پیداہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ali bin Al-Husain (RA): That when they reached Madinah after returning from Yazid bin Mu'awaiya after the martyrdom of Husain bin 'Ali (may Allah bestow His Mercy upon him), Al-Miswar bin Makhrama met him and said to him, "Do you have any need you may order me to satisfy?" 'Ali said, "No." Al-Miswar said, Will you give me the sword of Allah's Apostle (ﷺ) for I am afraid that people may take it from you by force? By Allah, if you give it to me, they will never be able to take it till I die." When Ali bin Abu Talib demanded the hand of the daughter of Abi Jahal to be his wife besides Fatima, I heard Allah's Apostle (ﷺ) on his pulpit delivering a sermon in this connection before the people, and I had then attained my age of puberty. Allah's Apostle (ﷺ) said, "Fatima is from me, and I am afraid she will be subjected to trials in her religion (because of jealousy)." The Prophet (ﷺ) then mentioned one of his son-in-law who was from the tribe of 'Abu Shams, and he praised him as a good son-in-law, saying, "Whatever he said was the truth, and he promised me and fulfilled his promise. I do not make a legal thing illegal, nor do I make an illegal thing legal, but by Allah, the daughter of Allah's Apostle (ﷺ) and the daughter of the enemy of Allah, (i.e. Abu Jahl) can never get together (as the wives of one man) (See Hadith No. 76, Vo. 5).