باب : نبی کریم ﷺ کا یہ فرمانا کہ تمہارے لئے غنیمت کے مال حلال کئے گئے
)
Sahi-Bukhari:
One-fifth of Booty to the Cause of Allah (Khumus)
(Chapter: The statement of the Prophet saws: "Booty has been made legal for you Muslims.")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے تم سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ کیا ہے جس میں سے یہ ( خیبر کی غنیمت ) پہلے ہی دے دی ہے ۔ ‘ ‘ تو یہ غنیمت کا مال ( قرآن کی روسے ) سب لوگوں کا حق ہے مگر آنحضرت ﷺنے بیان فرما دیا کہ کون کون اس کے مستحق ہیں ۔ تشریح : یعنی قرآن مجمل ہے اس کی روسے تو ہر مال غنیمت میں ساری دنیا کے مسلمانوں کا حصہ ہوگا۔ مگر حدیث شریف سے اس کی تشریح ہوگئی کہ ہر لوٹ کا مال ان لوگوں کا حق ہوگا جو لڑے اور لوٹ حاصل کی‘ اس میں سے پانچواں حصہ حاکم وقت مسلمانوں کے عمومی مصالح کے لئے نکال لے گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی اس تقریر سے ان لوگوں کا ردہوا جو صرف قرآن شریف کو عمل کرنے کے لئے کافی سمجھتے ہیں کہ حدیث کی کوئی ضرورت نہیں۔ ایسے لوگ قرآن مجید کے دوست نہیں کہے جاسکتے بلکہ ان کو قرآن مجید کا دشمن نمبر اول سمجھنا چاہئے جس میں صاف کہا گیا ہے وانزلنا اليک الذکر لتبن للناس ( النحل: 44 ) یعنی ہم نے اس کتاب قرآن مجید کو اے رسول! تیری طرف اتارا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اسے اپنی خداداد تشریح کے مطابق پیش کردو۔ آپ کی تشریح وتبیین کا دوسرا نام حدیث ہے۔ جس کے بغیر قرآن مجید اپنے مطلب میں مکمل نہیں کہا جاسکتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح بھی وحی الیٰ ہی کے ذیل میں جووہ۔ وما ينطق عن الھوي ان ھو الا وحي يوحي ( النجم:3,4 ) کے تحت ہے۔ فرق اتنا ہی ہے کہ قرآن مجید وحی جلی اورحدیث نبوی وحی خفی ہے جسے وحی غیر متلو کہا جاتا ہے۔
3124.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’پہلے انبیاء ؑ میں سے ایک نبی نے جہاد کیا، تو انھوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ میرے ساتھ وہ شخص نہ جائے جس نے کسی عورت سے نکاح تو کیا ہولیکن ابھی تک رخصتی نہ ہوئی ہو جبکہ وہ رخصتی کا خواہاں ہو۔ اور نہ وہ شخص جائے جس نے گھر کی چار دیواری تو کی ہو لیکن ابھی تک چھت نہ ڈالی ہو۔ اور نہ وہ شخص ہی جائے جس نے حاملہ بکریاں اور اونٹنیاں خریدی ہوں اور وہ ان کے بچے جننے کا منتظر ہو۔ (یہ کہہ کر) پھر وہ جہاد کے لیے روانہ ہوئے اور ایک گاؤں کے قریب اس وقت پہنچے کہ عصر کا وقت قریب تھا یا ہوچکا تھا۔ انھوں نے آفتاب سے کہا: تو بھی اللہ کا محکوم ہے اور میں بھی اللہ کا تابع فرمان ہوں، پھر یوں دعا کی: اے اللہ! اسے ہمارے لیے غروب ہونے سے روک دے، چنانچہ اسے روک لیا گیا حتیٰ کہ اللہ نے ان کو فتح سے سرفراز فرمایا۔ پھر انھوں نے مال غنیمت کو اکھٹا کیا اور آگ آئی تاکہ اسے کھائے (بھسم کردے) لیکن آگ نے اسے نہ کھایا (نہ جلایا) اس (نبی ؑ) نے کہا کہ تم میں سے کسی نے خیانت کی ہے، لہذا اب ہر قبیلے کا ایک ایک شخص مجھ سے بیعت کرے، چنانچہ ایک شخص کا ہاتھ ان کے ہاتھ سے چپک گیا تو اس (نبی ؑ) نے فرمایا: تیرے قبیلے والوں نے چوری کی ہے۔ اب تمہارے قبیلے کے سب لوگ مجھ سے بیعت کریں۔ پھر دو یا تین آدمیوں کے ہاتھ ان کے ہاتھ سے چپک گئے۔ اس کے بعد نبی نے فرمایا کہ تم نے ہی خیانت کا ارتکاب کیا ہے، چنانچہ وہ سونے کا سرلائے جو گائے کے سرجیسا تھا۔ اس کو انھوں نے رکھا تو آگ نے آکر مال غنیمت کھالیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے مال غنیمت حلال کردیا۔ اس نے ہماری کم زوری اور عاجزی کو دیکھا اس لیے ہماری خاطر مال غنیمت کو حلال قراردے دیا۔‘‘
تشریح:
1۔ یہ نبی حضرت یوشع بن نون ؑ تھے۔ انھوں نے اللہ کے حضور درخواست کی کہ وہ سورج کو چلنے سے روک دے تاکہ وہ بستی کو فتح کرلیں، چنانچہ وہ رکارہاحتی کہ وہ بستی فتح ہوگئی۔ (فتح الباري:268/6) اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ وہ جمعے کا دن تھا۔ اگرسورج نہ رکتا اور غروب ہوجاتا تو ہفتے کا دن شروع ہوجاتا۔ اس دن میں اس کی عظمت کے پیش نظر جنگ کرنا حرام تھا۔ ممکن تھا کہ دشمن کو فوجی مدد پہنچ جاتی اور اسے فتح کرنے میں مشکل پیش آتی۔ 2۔ پہلے انبیاء ؑ کے لیے مال غنیمت سے متعلق یہ ضابطہ تھا کہ وہ مال غنیمت میدان جنگ میں ایک جگہ جمع کردیتے تھے۔ آسمان سے آگ آتی اور اسے کھا جاتی تھی۔ اگر اس میں کسی نے خیانت کی ہوتی تو اس کو آگ نہ کھاتی تھی، نیز قربانیوں کی قبولیت معلوم کرنے کے لیے بھی یہی قاعدہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت پر بہت فضل وکرم فرمایا کہ اس کے لے غنیمتوں کو حلال قراردیا، البتہ مال غنیمت میں خیانت کی سنگینی کو برقراررکھا۔ اس امت کے مسلمانوں کی اللہ کے حضور عاجزی اور مسکینی اس قدر رنگ لائی کہ مال غنیمت ان کے لیے حلال کردیاگیا۔ یہ اس امت کا خاصا ہے جو دوسری امتوں کو نہیں ملا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3008
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3124
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3124
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3124
تمہید کتاب
غزوہ بدر کے اختتام پر اس قسم کی صورتحال پیداہو گئی کہ جس فریق نے غنیمت کا مال لوٹا وہ اپنے آپ ہی کو اس کا حقدار سمجھنے لگا۔ کچھ لوگ کفار کا تعاقب کرنے والے تھے انھوں نے دعوی کیا کہ ہم بھی مال غنیمت میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ اگر ہم کفار کا تعاقب نہ کرتے تو کفار واپس آکر حملہ کر سکتے تھے جس سے فتح کا شکست میں بدل جانا ممکن تھا کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت پر مامور تھے۔ انھوں نے کہا: ہم بھی اس مال میں برابر کے حصے دار ہیں۔کیونکہ اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت نہ کرتے تو آپ کوکوئی حادثہ پیش آسکتا تھا جو جنگ کا پانسہ پلٹنے میں بنیادی کردار ادا کرتا۔ لیکن جن لوگوں نے مال غنیمت پر قبضہ کیا وہ ایسی باتیں قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے لہٰذا مجاہدین میں کشیدگی کا پیدا ہونا ایک طبعی امر تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے بھی وحی الٰہی کی آمد تک خاموشی اختیار کیےرکھی۔ بالآخراللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا :کہ دوران جنگ میں ملنے والے تمام اموال اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں ان کے متعلق جو فیصلہ ہوگا۔ وہ سب کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ پھر اس کی تفصیل نازل ہوئی، کہ مال غنیمت کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے قرابت داروں،مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے۔(الانفال:8/41)دراصل میدان جنگ میں حاصل ہونے والے مال کی چند قسمیں حسب ذیل ہیں۔1۔مال غنیمت:۔مجاہدین کے قتال کے بعد کفار کی شکست کی صورت میں وہاں سے جو مال حاصل ہو اسے مال غنیمت کہا جاتا ہے۔ یہ پہلی امتوں پر حرام تھا بلکہ آسمان سے آگ آکر اسے جلا دیتی تھی مگر اس امت پر اسے حلال کردیا گیا۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق ایسے مال کے پانچ حصے ہوں گے، جن میں سے چار مجاہدین میں تقسیم ہوں گے اور ایک حصہ اللہ اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرابت داروں ، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے جو بیت المال میں جائے گا۔2۔مال فے:۔اس میں ہر وہ مال شامل ہے جو مسلمانوں کو لڑے ے بغیر مل جائے۔اس کے متعلق قرآنی فیصلہ یہ ہے کہ وہ سارے کا سارا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے۔(اور آپ کے بعد شرعی حاکم کے لیے ہے)اور وہ اپنی صوابدید کے مطابق اسے خرچ کرنے کے مجاز ہیں۔3۔مال سلب:۔ اس سے مراد وہ مال ہے جو ایک مجاہد مقتول دشمن کے جسم سے اتارتا ہے۔ اس کے متعلق شرعی فیصلہ ہے کہ وہ قاتل مجاہد کو دیا جائے لیکن حاکم وقت صوابدیدی اختیاربد ستور باقی رہتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر میں ابوجہل کے سازوسامان کے متعلق موقف اختیار کیا تھا۔4۔ایسی اشیاء جن کا تعلق غذا سے ہو یا ایسی چیز یں جو عموماً غذا کا فائدہ دیتی ہوں۔اسی طرح جانوروں کی گھاس وغیرہ ایسی تمام اشیاء کو تقسیم سے پہلے ہی استعمال کرنے کی اجازت ہوتی ہے ۔ اس میں حاکم وقت سے اجازت لینا ضروری نہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت ایسی احادیث جمع کی ہیں جن کا تعلق مال غنیمت کے خمس سے ہے۔مال غنیمت کے متعلق اس امر پر اتفاق ہے کہ اس کے چار حصے مجاہدین کے لیے ہیں۔ اس سےدو حصے گھوڑے کے لیے اور ایک حصہ مجاہد کے لیے مختص ہوتا ہے۔ اگر کسی کے پاس گھوڑا نہ ہو تو وہ صرف ایک حصے کا حق دار ہے۔ واضح رہے کہ چار حصے ان مجاہدین میں تقسیم کیے جاتے جو جنگ میں شریک ہوتے۔ باقی پانچواں حصہ یعنی خمس کے لیے قرآن کریم نے چھ مصرف بیان کیے ہیں ان میں اللہ کا ذکر تو بطور تبرک ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو حصہ ہے وہ آپ کی گھریلو ضروریات کے لیے مقرر ہوا ۔آپ کی خانگی ضروریات سے جو بچتا اسے جہاد کی ضروریات میں صرف کردیا جاتا۔آپ کی وفات کے بعد یہ مصرف ختم ہوگیا۔ اس خمس کا ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں ، یعنی بنو ہاشم کے لیے تھا۔ آپ کی وفات کے بعد ان کا حصہ بھی ختم ہو گیا۔ اب تین مصرف باقی ہیں۔یعنی یتیموں مسکینوں اور مسافروں کی ضروریات کو پورا کرنا۔ حاکم وقت کو ان کے متعلق بھی اختیار کہ جسے چاہے دے سکتا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی موقف کو اختیار کرکے امام مالک کی تائید کی ہے اور اس کے لیے چار حسب ذیل عنوان قائم کیے ہیں۔1۔پانچواں حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مساکین کی ضروریات پورا کرنے کے لیے ہے۔2۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مالک نہیں بلکہ آپ کو صرف تقسیم کرنے کا اختیار تھا۔3۔خمس مسلمانوں کی ضروریات کے لیے ہے۔4۔خمس حاکم وقت کے لیے ہے۔ان سب عنوانات کا ایک ہی مقصد ہے کہ حاکم وقت اپنی صوابدید کے مطابق خرچ کرنے کا مجاز ہے اس خمس کا مالک نہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خمس کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیےپینسٹھ(65)متصل احادیث بیان کی ہیں۔اور ان پر بیس(20) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن کی تفصیل آئندہ بیان ہو گی۔ایک اہم مسئلہ جس کی طرف توجہ دینا ضروری ہے کہ دور نبوی میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین رضا کارانہ طور پر اسے فریضہ سمجھ کر جہاد پر جاتے اور جنگ میں شریک ہو تے تھے اس سلسلے میں سواری اور ہتھیاروں کا اہتمام بھی خود کرتے تھے بلکہ بعض اوقات ذاتی خدمت کے لیے اپنے خرچے پر مزدورساتھ لے جاتے۔ ان خدمات کے عوض ان مجاہدین کو مال غنیمت سے حصہ ملتا تھا مگر دور حاضر میں فوج کا محکمہ ہی الگ ہے۔ اس محکمے میں شامل فوجی باقاعدہ تنخواہ دار ہوتے ہیں۔ ایام جنگ کے علاوہ بھی انھیں تنخواہ ملتی رہتی ہے۔ان کے لیے اسلحہ اور سواری کا اہتمام بھی حکومت کے ذمے ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں عام مسلمانوں پر جہاد کی فرضیت ساقط ہے اور تنخواہ دار ہونے کی وجہ سے ان فوجی اور مجاہدین میں مال غنیمت کی تقسیم کا قصہ بھی ختم ہوا۔امیر جیش یعنی چیف کمانڈر حصہ بھی ختم ہوا کیونکہ وہ بھی سر کاری خزانے سے بھاری تنخواہ وصول کرتا ہے فقراء کی ضرورتوں کو پورا کرنا ویسے ہی اسلامی حکومت کا فریضہ ہوتا ہے۔ ان مسائل میں اجتہاد کی ضرورت ہے کہ موجودہ دور میں ان شرعی نصوص کا انطباق کیسے ہو؟ ضرورت ہے کہ ان جیسے بیسیوں مسائل کے لیے اہل علم پر مشتمل ایک مجلس شوریٰ کا اہتمام کیا جائے۔ کاش کہ مسلک حقہ کی علمبردار جماعت اہل حدیث اس طرف توجہ دے اور جدید مسائل کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے وقت کی ضرورت کے پیش نظر خمس اور جزیے وغیرہ کے متعلق الگ الگ دو بڑے عنوان قائم کیے ہیں۔ حالانکہ ان کا تعلق جہاد ہی سے ہے۔چونکہ خمس اور جزیے کے مسائل کی بہت سی قسمیں ہیں جو تشریح و تفصیل کا تقاضا کرتی ہیں۔ اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی افادیت و اہمیت کے پیش نظر انھیں الگ عنوان کے تحت بیان کیا ہے۔ قارئین سے استدعا ہے کہ وہ ہماری تشریحات کو مد نظر رکھتے ہوئے پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دینی معاملات میں بصیرت عطا فرمائےپھر ان پر عمل کی توفیق دے۔آمین یا رب العالمین ۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ہےکہ قرآن کریم مجمل ہے،اس کے مطابق تو مال غنیمت میں تمام مسلمانوں کا حصہ ہوگا مگرحدیث نے اس کی وضاحت کردی کہ مال غنیمت صرف ان لوگوں کا حق ہے جو براہ راست جنگ میں شریک ہوئے ہوں،پھر اس مال غنیمت میں سے حاکم وقت پانچواں حصہ مسلمانوں کی اجتماعی ضروریات کے لیے الگ رکھ لے گا اور وہ اپنی صوابدید کے مطابق اسے خرچ کرے گا۔قرآن کریم نے بھی منصب نبوت ان الفاظ میں بیان کیا ہے:(وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ)"اور ہم نے اس ذکر(قرآن) کو آپ کی طرف اتاراہے تاکہ آپ لوگوں کے لیے کھول کر بیان کردین جو کچھ ان کی طرف اتارا گیا ہے۔"(النحل:44/16)اس تشریح وتبیین کا دوسرا نام حدیث ہے جس کے بغیر قرآن کی تشریحات نہیں ہوسکتیں۔اور یہ تشریحات نبوی بھی وحی الٰہی پر مبنی ہیں۔صرف قرآنی وحی اور اس وحی میں فرق یہ ہے کہ قرآن مجید وحی جلی اور حدیث وحی خفی ہے۔اس موضوع پر ہماری تالیف"حجیت حدیث" کا مطالعہ مفید رہے گا جسے دارالسلام نے شائع کیا ہے ۔اس میں منکرین حدیث کے اعتراضات کا شافی جواب دیا گیاہے۔
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے تم سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ کیا ہے جس میں سے یہ ( خیبر کی غنیمت ) پہلے ہی دے دی ہے ۔ ‘ ‘ تو یہ غنیمت کا مال ( قرآن کی روسے ) سب لوگوں کا حق ہے مگر آنحضرت ﷺنے بیان فرما دیا کہ کون کون اس کے مستحق ہیں ۔ تشریح : یعنی قرآن مجمل ہے اس کی روسے تو ہر مال غنیمت میں ساری دنیا کے مسلمانوں کا حصہ ہوگا۔ مگر حدیث شریف سے اس کی تشریح ہوگئی کہ ہر لوٹ کا مال ان لوگوں کا حق ہوگا جو لڑے اور لوٹ حاصل کی‘ اس میں سے پانچواں حصہ حاکم وقت مسلمانوں کے عمومی مصالح کے لئے نکال لے گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی اس تقریر سے ان لوگوں کا ردہوا جو صرف قرآن شریف کو عمل کرنے کے لئے کافی سمجھتے ہیں کہ حدیث کی کوئی ضرورت نہیں۔ ایسے لوگ قرآن مجید کے دوست نہیں کہے جاسکتے بلکہ ان کو قرآن مجید کا دشمن نمبر اول سمجھنا چاہئے جس میں صاف کہا گیا ہے وانزلنا اليک الذکر لتبن للناس ( النحل: 44 ) یعنی ہم نے اس کتاب قرآن مجید کو اے رسول! تیری طرف اتارا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اسے اپنی خداداد تشریح کے مطابق پیش کردو۔ آپ کی تشریح وتبیین کا دوسرا نام حدیث ہے۔ جس کے بغیر قرآن مجید اپنے مطلب میں مکمل نہیں کہا جاسکتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح بھی وحی الیٰ ہی کے ذیل میں جووہ۔ وما ينطق عن الھوي ان ھو الا وحي يوحي ( النجم:3,4 ) کے تحت ہے۔ فرق اتنا ہی ہے کہ قرآن مجید وحی جلی اورحدیث نبوی وحی خفی ہے جسے وحی غیر متلو کہا جاتا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’پہلے انبیاء ؑ میں سے ایک نبی نے جہاد کیا، تو انھوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ میرے ساتھ وہ شخص نہ جائے جس نے کسی عورت سے نکاح تو کیا ہولیکن ابھی تک رخصتی نہ ہوئی ہو جبکہ وہ رخصتی کا خواہاں ہو۔ اور نہ وہ شخص جائے جس نے گھر کی چار دیواری تو کی ہو لیکن ابھی تک چھت نہ ڈالی ہو۔ اور نہ وہ شخص ہی جائے جس نے حاملہ بکریاں اور اونٹنیاں خریدی ہوں اور وہ ان کے بچے جننے کا منتظر ہو۔ (یہ کہہ کر) پھر وہ جہاد کے لیے روانہ ہوئے اور ایک گاؤں کے قریب اس وقت پہنچے کہ عصر کا وقت قریب تھا یا ہوچکا تھا۔ انھوں نے آفتاب سے کہا: تو بھی اللہ کا محکوم ہے اور میں بھی اللہ کا تابع فرمان ہوں، پھر یوں دعا کی: اے اللہ! اسے ہمارے لیے غروب ہونے سے روک دے، چنانچہ اسے روک لیا گیا حتیٰ کہ اللہ نے ان کو فتح سے سرفراز فرمایا۔ پھر انھوں نے مال غنیمت کو اکھٹا کیا اور آگ آئی تاکہ اسے کھائے (بھسم کردے) لیکن آگ نے اسے نہ کھایا (نہ جلایا) اس (نبی ؑ) نے کہا کہ تم میں سے کسی نے خیانت کی ہے، لہذا اب ہر قبیلے کا ایک ایک شخص مجھ سے بیعت کرے، چنانچہ ایک شخص کا ہاتھ ان کے ہاتھ سے چپک گیا تو اس (نبی ؑ) نے فرمایا: تیرے قبیلے والوں نے چوری کی ہے۔ اب تمہارے قبیلے کے سب لوگ مجھ سے بیعت کریں۔ پھر دو یا تین آدمیوں کے ہاتھ ان کے ہاتھ سے چپک گئے۔ اس کے بعد نبی نے فرمایا کہ تم نے ہی خیانت کا ارتکاب کیا ہے، چنانچہ وہ سونے کا سرلائے جو گائے کے سرجیسا تھا۔ اس کو انھوں نے رکھا تو آگ نے آکر مال غنیمت کھالیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے مال غنیمت حلال کردیا۔ اس نے ہماری کم زوری اور عاجزی کو دیکھا اس لیے ہماری خاطر مال غنیمت کو حلال قراردے دیا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ یہ نبی حضرت یوشع بن نون ؑ تھے۔ انھوں نے اللہ کے حضور درخواست کی کہ وہ سورج کو چلنے سے روک دے تاکہ وہ بستی کو فتح کرلیں، چنانچہ وہ رکارہاحتی کہ وہ بستی فتح ہوگئی۔ (فتح الباري:268/6) اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ وہ جمعے کا دن تھا۔ اگرسورج نہ رکتا اور غروب ہوجاتا تو ہفتے کا دن شروع ہوجاتا۔ اس دن میں اس کی عظمت کے پیش نظر جنگ کرنا حرام تھا۔ ممکن تھا کہ دشمن کو فوجی مدد پہنچ جاتی اور اسے فتح کرنے میں مشکل پیش آتی۔ 2۔ پہلے انبیاء ؑ کے لیے مال غنیمت سے متعلق یہ ضابطہ تھا کہ وہ مال غنیمت میدان جنگ میں ایک جگہ جمع کردیتے تھے۔ آسمان سے آگ آتی اور اسے کھا جاتی تھی۔ اگر اس میں کسی نے خیانت کی ہوتی تو اس کو آگ نہ کھاتی تھی، نیز قربانیوں کی قبولیت معلوم کرنے کے لیے بھی یہی قاعدہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت پر بہت فضل وکرم فرمایا کہ اس کے لے غنیمتوں کو حلال قراردیا، البتہ مال غنیمت میں خیانت کی سنگینی کو برقراررکھا۔ اس امت کے مسلمانوں کی اللہ کے حضور عاجزی اور مسکینی اس قدر رنگ لائی کہ مال غنیمت ان کے لیے حلال کردیاگیا۔ یہ اس امت کا خاصا ہے جو دوسری امتوں کو نہیں ملا۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ نے تم سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ کیا ہے جو تم حاصل کروگے۔ "(قرآن کی رو سے) یہ سب لوگوں کے لیے ہیں لیکن رسول اللہﷺنے بیان فرمایا ہے(کہ کون کون اس کے حقدار ہیں)۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن علاء نے بیا ن کیا ‘ کہا ہم سے عبداللہ بن مبارک نے بیان کیا ‘ ان سے معمر نے ‘ ان سے ہمام بن منبہ نے اور ان سے ابو ہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ‘ نبی اسرائیل کے پیغمبروں میں سے ایک نبی (یوشع ؑ) نے غزوہ کرنے کا ارادہ کیا تو اپنی قوم سے کہا کہ میرے ساتھ کوئی ایسا شخص جس نے ابھی نئی شادی کی ہو اور بیوی کے ساتھ رات بھی نہ گزاری ہو اور وہ رات گزارنا چاہتا ہو اور وہ شخص جس نے گھر بنایا ہو اور ابھی اس کی چھت نہ پاٹ سکا ہو اور وہ شخص جس نے حاملہ بکری یا حاملہ اونٹنیاں خریدی ہوں اور اسے ان کے بچے جننے کا انتظار ہو تو (ایسے لوگوں میں سے کوئی بھی) ہمارے ساتھ جہاد میں نہ چلے۔ پھر انہوں نے جہاد کیا ‘ اور جب اس آبادی (اریحا) سے قریب ہوئے تو عصر کا وقت ہو گیا یا اس کے قریب وقت ہوا ۔ انہوں نے سورج سے فرمایا کہ تو بھی خدا کا تابع فرمان ہے اور میں بھی اس کا تابع فرمان ہوں ۔ اے اللہ ! ہمارے لئے اسے اپنی جگہ پر روک دے ۔ چنانچہ سورج رک گیا ‘ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں فتح عنایت فرمائی ۔ پھر انہوں نے اموال غنیمت کو جمع کیا اور آگ اسے جلانے کے لئے آئی لیکن جلا نہ سکی ‘ اس نبی نے فرمایا کہ تم میں سے کسی نے مال غنیمت میں چوری کی ہے ۔ اس لئے ہر قبیلہ کا ایک آدمی آ کر میرے ہاتھ پر بیعت کرے (جب بیعت کرنے لگے تو) ایک قبیلہ کے شخص کا ہاتھ ان کے ہاتھ سے چمٹ گیا ۔ انہوں نے فرمایا ‘ کہ چوری تمہارے قبیلہ ہی والوں نے کی ہے۔ اب تمہارے قبیلے کے سب لوگ آئیں اور بیعت کریں ۔ چنانچہ اس قبیلے کے دو تین آدمیوں کا ہاتھ اس طرح ان کے ہاتھ سے چمٹ گیا ‘ تو آپ نے فرمایا کہ چوری تمہیں لوگوں نے کی ہے ۔ ( آخر چوری مان لی گئی) اور وہ لوگ گائے کے سر کی طرح سونے کا ایک سر لائے (جو غنیمت میں سے چرا لیا گیا تھا) اور اسے مال غنیمت میں رکھ دیا ‘ تب آگ آئی اور اسے جلا گئی ‘ پھر غنیمت اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے جائز قرار دے دی ‘ ہماری کمزوری اور عاجزی کو دیکھا۔ اسلئے ہمارے واسطے حلال قرار دے دی۔
حدیث حاشیہ:
حدیث میں اسرائیل نبی یوشع ؑ کا ذکر ہے جو جہاد کو نکلے تھے کہ نماز عصر کا وقت ہوگیا۔ انہوں نے دعا کی‘ اللہ نے ان کی دعا کو قبول ک، یہی وہ چیز ہے جسے معجزہ کہا جاتا ہے۔ جس کا ہونا حق ہے پہلے زمانے میں اموال غنیمت مجاہدین کے لئے حلال نہ تھا بلکہ آسمان سے آگ آتی اوراسے جلادیتی جو عند اللہ قبولیت کی دلیل ہوتی تھی۔ اموال غنیمت میں خیانت کرنا پہلے بھی گناہ عظیم تھا اور اب بھی یہی حکم ہے۔ مگر امت مسلمہ کے لئے اللہ نے اموال غنیمت کو حلال کردیا ہے۔ وہ شریعت کے حکم کے مطابق تقسیم ہوں گے۔ کم طاقتی اور عاجزی سے یہ مراد ہے کہ مسلمان مفلس اور نادار تھے اور خدا کی بارگاہ میں عاجزی اور فروتنی سے حاضر ہوتے تھے پروردگار کو ان کی عاجزی پسند آئی اور یہ سرفرازی ہوئی کہ غنیمت کے مال ان کے لئے حلال کردیئے گئے۔ ہم ان بے وقوف پادریوں سے پوچھتے ہیں جو غنیمت کا مال لینا بڑا عیب جانتے ہیں کہ تمہارے مذہب والے نصاریٰ تو دوسروں کے ملک کے ملک اور خزانے ہضم کرجاتے ہیں۔ ڈکار تک نہیں لیتے۔ جس ملک کو فتح کرتے ہیں وہاں سب معزز کاموں پر اپنی قوم والوں کو مامور کرتے ہیں‘ اہل ملک کا ذرا لحاظ نہیں رکھتے پھر یہ لوٹ نہیں تو کیا ہے۔ لوٹ سے بھی بدتر ہے۔ لوٹ تو گھڑی بھر ہوتی ہے۔ اور ظلمی انتظام تو صدہا برس تک ہوتا رہتا ہے۔ معاذ اللہ! انجیل شریف کی وہی مثال ہے کہ اپنی آنکھ کا تو شہتیر نہیں دیکھتے اور دوسرے کی آنکھ کا تنکا دیکھتے ہیں۔ (وحیدی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "A prophet amongst the prophets carried out a holy military expedition, so he said to his followers, 'Anyone who has married a woman and wants to consummate the marriage, and has not done so yet, should not accompany me; nor should a man who has built a house but has not completed its roof; nor a man who has sheep or shecamels and is waiting for the birth of their young ones.' So, the prophet carried out the expedition and when he reached that town at the time or nearly at the time of the 'Asr prayer, he said to the sun, 'O sun! You are under Allah's Order and I am under Allah's Order O Allah! Stop it (i.e. the sun) from setting.' It was stopped till Allah made him victorious. Then he collected the booty and the fire came to burn it, but it did not burn it. He said (to his men), 'Some of you have stolen something from the booty. So one man from every tribe should give me a pledge of allegiance by shaking hands with me.' (They did so and) the hand of a man got stuck over the hand of their prophet. Then that prophet said (to the man), 'The theft has been committed by your people. So all the persons of your tribe should give me the pledge of allegiance by shaking hands with me.' The hands of two or three men got stuck over the hand of their prophet and he said, "You have committed the theft.' Then they brought a head of gold like the head of a cow and put it there, and the fire came and consumed the booty. The Prophet (ﷺ) added: Then Allah saw our weakness and disability, so he made booty legal for us."