باب : خلیفہ المسلمین کے پاس غیر لوگ جو تحائف بھیجیں ان کا بانٹ دینا اور ان میں سے جو لوگ موجود نہ ہوں ان کا حصہ چھپا کر محفوظ رکھنا
)
Sahi-Bukhari:
One-fifth of Booty to the Cause of Allah (Khumus)
(Chapter: The share of those who are nor present at the time (of distribution))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3127.
حضرت عبداللہ بن ابو ملیکہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ریشمی، جبے بطور ہدیہ بھیجے گئے جن میں سونے کے بٹن لگے ہوئےتھے۔ آپ نے وہ اپنے پاس موجود صحابہ کرام ؓ میں تقسیم کردیے اور ان میں سے ایک جبہ حضرت مخرمہ بن نوفل ؓ کے لیے الگ کررکھا۔ وہ آئے اور ان کے ہمراہ ان کا بیٹا مسور بن مخرمہ ؓ بھی تھا۔ وہ دروازے پر کھڑے ہوگئے اور اپنے بیٹے سے کہا کہ آپ ﷺ کومیری خاطر بلا لائے۔ نبی کریم ﷺ نے ان کی آواز سنی تو ایک جبہ لے کر باہر تشریف لائے اور سونے کے بٹنوں سمیت وہ جبہ مخرمہ ؓکے آگے رکھ دیا اور فرمایا: ’’اے مخرمہ! میں نے یہ تمہارے لیے چھپا رکھا تھا۔ اے مخرمہ! میں نے تمہارے لیے یہ چھپا کررکھ لیا تھا۔ ’’حضرت مخرمہ ؓ ذرا تیز طبیعت کے آدمی تھے۔ ابن علیہ نے یہ حدیث ایوب کے واسطے سے (مرسل ہی) بیان کی ہے۔ اور حاتم بن وردان نے کہا: ہم سے ایوب نے، ان سے ابن ابوملیکہ نے، ان سے حضرت مسور ؓنے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے پاس کچھ جبے آئے۔ ۔ ۔ ابن ابو ملیکہ سے روایت کرنے میں لیث بن سعد نے ایوب کی متابعت کی ہے۔
تشریح:
1۔ ریشمی جبوں کا مذکورہ ہدیہ مشرکین کی طرف سے آیاتھا جو رسول اللہ ﷺ کے لیے حلال تھا۔ مال فے کی طرح اس قسم کے تحائف کی تقسیم بھی رسول اللہ ﷺ کی صوابدید پر موقوف تھی۔ آپ نے جسے چاہا عطا کردیا اور جسے چاہا اسے دوسروں پر ترجیح دےدی۔ لیکن اس قسم کے تحائف کاتبادلہ رسول اللہ ﷺ کے بعد دوسرے حکمرانوں کے لیے جائز نہیں کیونکہ انھیں یہ ہدایا بطور رشوت دیئے جاتےہیں۔ 2۔ حضرت مخرمہ ؓ کی طبیعت میں کچھ تیزی تھی۔ وہ جلد غصے میں آجاتے تھے، اس لیے رسول اللہ ﷺ انھیں جبے کی خوبصورتی بتارہے تھے کہ تاکہ وہ خوش خوش واپس جائیں اور تنگ مزاجی کا مظاہرہ نہ کریں۔ (عمدة القاري:457/10) 3۔شارح بخاری ابن منیر ؒ کہتے ہیں:اس عنوان سے ان لوگوں کی تردید مقصود ہے جن کا دعویٰ ہے کہ ہدیہ صرف ان لوگوں کے لیے ہوتا ہے جو مجلس میں موجود ہوں دوسروں کے لیے نہیں ہوتا۔ (فتح الباري:272/6)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3011
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3127
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3127
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3127
تمہید کتاب
غزوہ بدر کے اختتام پر اس قسم کی صورتحال پیداہو گئی کہ جس فریق نے غنیمت کا مال لوٹا وہ اپنے آپ ہی کو اس کا حقدار سمجھنے لگا۔ کچھ لوگ کفار کا تعاقب کرنے والے تھے انھوں نے دعوی کیا کہ ہم بھی مال غنیمت میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ اگر ہم کفار کا تعاقب نہ کرتے تو کفار واپس آکر حملہ کر سکتے تھے جس سے فتح کا شکست میں بدل جانا ممکن تھا کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت پر مامور تھے۔ انھوں نے کہا: ہم بھی اس مال میں برابر کے حصے دار ہیں۔کیونکہ اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت نہ کرتے تو آپ کوکوئی حادثہ پیش آسکتا تھا جو جنگ کا پانسہ پلٹنے میں بنیادی کردار ادا کرتا۔ لیکن جن لوگوں نے مال غنیمت پر قبضہ کیا وہ ایسی باتیں قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے لہٰذا مجاہدین میں کشیدگی کا پیدا ہونا ایک طبعی امر تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے بھی وحی الٰہی کی آمد تک خاموشی اختیار کیےرکھی۔ بالآخراللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا :کہ دوران جنگ میں ملنے والے تمام اموال اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں ان کے متعلق جو فیصلہ ہوگا۔ وہ سب کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ پھر اس کی تفصیل نازل ہوئی، کہ مال غنیمت کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے قرابت داروں،مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے۔(الانفال:8/41)دراصل میدان جنگ میں حاصل ہونے والے مال کی چند قسمیں حسب ذیل ہیں۔1۔مال غنیمت:۔مجاہدین کے قتال کے بعد کفار کی شکست کی صورت میں وہاں سے جو مال حاصل ہو اسے مال غنیمت کہا جاتا ہے۔ یہ پہلی امتوں پر حرام تھا بلکہ آسمان سے آگ آکر اسے جلا دیتی تھی مگر اس امت پر اسے حلال کردیا گیا۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق ایسے مال کے پانچ حصے ہوں گے، جن میں سے چار مجاہدین میں تقسیم ہوں گے اور ایک حصہ اللہ اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرابت داروں ، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے جو بیت المال میں جائے گا۔2۔مال فے:۔اس میں ہر وہ مال شامل ہے جو مسلمانوں کو لڑے ے بغیر مل جائے۔اس کے متعلق قرآنی فیصلہ یہ ہے کہ وہ سارے کا سارا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے۔(اور آپ کے بعد شرعی حاکم کے لیے ہے)اور وہ اپنی صوابدید کے مطابق اسے خرچ کرنے کے مجاز ہیں۔3۔مال سلب:۔ اس سے مراد وہ مال ہے جو ایک مجاہد مقتول دشمن کے جسم سے اتارتا ہے۔ اس کے متعلق شرعی فیصلہ ہے کہ وہ قاتل مجاہد کو دیا جائے لیکن حاکم وقت صوابدیدی اختیاربد ستور باقی رہتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر میں ابوجہل کے سازوسامان کے متعلق موقف اختیار کیا تھا۔4۔ایسی اشیاء جن کا تعلق غذا سے ہو یا ایسی چیز یں جو عموماً غذا کا فائدہ دیتی ہوں۔اسی طرح جانوروں کی گھاس وغیرہ ایسی تمام اشیاء کو تقسیم سے پہلے ہی استعمال کرنے کی اجازت ہوتی ہے ۔ اس میں حاکم وقت سے اجازت لینا ضروری نہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت ایسی احادیث جمع کی ہیں جن کا تعلق مال غنیمت کے خمس سے ہے۔مال غنیمت کے متعلق اس امر پر اتفاق ہے کہ اس کے چار حصے مجاہدین کے لیے ہیں۔ اس سےدو حصے گھوڑے کے لیے اور ایک حصہ مجاہد کے لیے مختص ہوتا ہے۔ اگر کسی کے پاس گھوڑا نہ ہو تو وہ صرف ایک حصے کا حق دار ہے۔ واضح رہے کہ چار حصے ان مجاہدین میں تقسیم کیے جاتے جو جنگ میں شریک ہوتے۔ باقی پانچواں حصہ یعنی خمس کے لیے قرآن کریم نے چھ مصرف بیان کیے ہیں ان میں اللہ کا ذکر تو بطور تبرک ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو حصہ ہے وہ آپ کی گھریلو ضروریات کے لیے مقرر ہوا ۔آپ کی خانگی ضروریات سے جو بچتا اسے جہاد کی ضروریات میں صرف کردیا جاتا۔آپ کی وفات کے بعد یہ مصرف ختم ہوگیا۔ اس خمس کا ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں ، یعنی بنو ہاشم کے لیے تھا۔ آپ کی وفات کے بعد ان کا حصہ بھی ختم ہو گیا۔ اب تین مصرف باقی ہیں۔یعنی یتیموں مسکینوں اور مسافروں کی ضروریات کو پورا کرنا۔ حاکم وقت کو ان کے متعلق بھی اختیار کہ جسے چاہے دے سکتا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی موقف کو اختیار کرکے امام مالک کی تائید کی ہے اور اس کے لیے چار حسب ذیل عنوان قائم کیے ہیں۔1۔پانچواں حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مساکین کی ضروریات پورا کرنے کے لیے ہے۔2۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مالک نہیں بلکہ آپ کو صرف تقسیم کرنے کا اختیار تھا۔3۔خمس مسلمانوں کی ضروریات کے لیے ہے۔4۔خمس حاکم وقت کے لیے ہے۔ان سب عنوانات کا ایک ہی مقصد ہے کہ حاکم وقت اپنی صوابدید کے مطابق خرچ کرنے کا مجاز ہے اس خمس کا مالک نہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خمس کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیےپینسٹھ(65)متصل احادیث بیان کی ہیں۔اور ان پر بیس(20) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن کی تفصیل آئندہ بیان ہو گی۔ایک اہم مسئلہ جس کی طرف توجہ دینا ضروری ہے کہ دور نبوی میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین رضا کارانہ طور پر اسے فریضہ سمجھ کر جہاد پر جاتے اور جنگ میں شریک ہو تے تھے اس سلسلے میں سواری اور ہتھیاروں کا اہتمام بھی خود کرتے تھے بلکہ بعض اوقات ذاتی خدمت کے لیے اپنے خرچے پر مزدورساتھ لے جاتے۔ ان خدمات کے عوض ان مجاہدین کو مال غنیمت سے حصہ ملتا تھا مگر دور حاضر میں فوج کا محکمہ ہی الگ ہے۔ اس محکمے میں شامل فوجی باقاعدہ تنخواہ دار ہوتے ہیں۔ ایام جنگ کے علاوہ بھی انھیں تنخواہ ملتی رہتی ہے۔ان کے لیے اسلحہ اور سواری کا اہتمام بھی حکومت کے ذمے ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں عام مسلمانوں پر جہاد کی فرضیت ساقط ہے اور تنخواہ دار ہونے کی وجہ سے ان فوجی اور مجاہدین میں مال غنیمت کی تقسیم کا قصہ بھی ختم ہوا۔امیر جیش یعنی چیف کمانڈر حصہ بھی ختم ہوا کیونکہ وہ بھی سر کاری خزانے سے بھاری تنخواہ وصول کرتا ہے فقراء کی ضرورتوں کو پورا کرنا ویسے ہی اسلامی حکومت کا فریضہ ہوتا ہے۔ ان مسائل میں اجتہاد کی ضرورت ہے کہ موجودہ دور میں ان شرعی نصوص کا انطباق کیسے ہو؟ ضرورت ہے کہ ان جیسے بیسیوں مسائل کے لیے اہل علم پر مشتمل ایک مجلس شوریٰ کا اہتمام کیا جائے۔ کاش کہ مسلک حقہ کی علمبردار جماعت اہل حدیث اس طرف توجہ دے اور جدید مسائل کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے وقت کی ضرورت کے پیش نظر خمس اور جزیے وغیرہ کے متعلق الگ الگ دو بڑے عنوان قائم کیے ہیں۔ حالانکہ ان کا تعلق جہاد ہی سے ہے۔چونکہ خمس اور جزیے کے مسائل کی بہت سی قسمیں ہیں جو تشریح و تفصیل کا تقاضا کرتی ہیں۔ اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی افادیت و اہمیت کے پیش نظر انھیں الگ عنوان کے تحت بیان کیا ہے۔ قارئین سے استدعا ہے کہ وہ ہماری تشریحات کو مد نظر رکھتے ہوئے پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دینی معاملات میں بصیرت عطا فرمائےپھر ان پر عمل کی توفیق دے۔آمین یا رب العالمین ۔
حضرت عبداللہ بن ابو ملیکہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ریشمی، جبے بطور ہدیہ بھیجے گئے جن میں سونے کے بٹن لگے ہوئےتھے۔ آپ نے وہ اپنے پاس موجود صحابہ کرام ؓ میں تقسیم کردیے اور ان میں سے ایک جبہ حضرت مخرمہ بن نوفل ؓ کے لیے الگ کررکھا۔ وہ آئے اور ان کے ہمراہ ان کا بیٹا مسور بن مخرمہ ؓ بھی تھا۔ وہ دروازے پر کھڑے ہوگئے اور اپنے بیٹے سے کہا کہ آپ ﷺ کومیری خاطر بلا لائے۔ نبی کریم ﷺ نے ان کی آواز سنی تو ایک جبہ لے کر باہر تشریف لائے اور سونے کے بٹنوں سمیت وہ جبہ مخرمہ ؓکے آگے رکھ دیا اور فرمایا: ’’اے مخرمہ! میں نے یہ تمہارے لیے چھپا رکھا تھا۔ اے مخرمہ! میں نے تمہارے لیے یہ چھپا کررکھ لیا تھا۔ ’’حضرت مخرمہ ؓ ذرا تیز طبیعت کے آدمی تھے۔ ابن علیہ نے یہ حدیث ایوب کے واسطے سے (مرسل ہی) بیان کی ہے۔ اور حاتم بن وردان نے کہا: ہم سے ایوب نے، ان سے ابن ابوملیکہ نے، ان سے حضرت مسور ؓنے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے پاس کچھ جبے آئے۔ ۔ ۔ ابن ابو ملیکہ سے روایت کرنے میں لیث بن سعد نے ایوب کی متابعت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ ریشمی جبوں کا مذکورہ ہدیہ مشرکین کی طرف سے آیاتھا جو رسول اللہ ﷺ کے لیے حلال تھا۔ مال فے کی طرح اس قسم کے تحائف کی تقسیم بھی رسول اللہ ﷺ کی صوابدید پر موقوف تھی۔ آپ نے جسے چاہا عطا کردیا اور جسے چاہا اسے دوسروں پر ترجیح دےدی۔ لیکن اس قسم کے تحائف کاتبادلہ رسول اللہ ﷺ کے بعد دوسرے حکمرانوں کے لیے جائز نہیں کیونکہ انھیں یہ ہدایا بطور رشوت دیئے جاتےہیں۔ 2۔ حضرت مخرمہ ؓ کی طبیعت میں کچھ تیزی تھی۔ وہ جلد غصے میں آجاتے تھے، اس لیے رسول اللہ ﷺ انھیں جبے کی خوبصورتی بتارہے تھے کہ تاکہ وہ خوش خوش واپس جائیں اور تنگ مزاجی کا مظاہرہ نہ کریں۔ (عمدة القاري:457/10) 3۔شارح بخاری ابن منیر ؒ کہتے ہیں:اس عنوان سے ان لوگوں کی تردید مقصود ہے جن کا دعویٰ ہے کہ ہدیہ صرف ان لوگوں کے لیے ہوتا ہے جو مجلس میں موجود ہوں دوسروں کے لیے نہیں ہوتا۔ (فتح الباري:272/6)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ‘ ان سے ایوب سختیانی نے اور ان سے عبداللہ بن ابی ملیکہ نے کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں دیبا کی کچھ قبائیں تحفہ کے طور پر آئی تھیں ۔ جن میں سونے کی گھنڈیاں لگی ہوئی تھیں‘ انہیں آنحضرت ﷺ نے اپنے چند اصحاب میں تقسیم فرما دیا اور ایک قبا مخرمہ بن نوفل ؓ کے لئے رکھ لی۔ پھر مخرمہ ؓ آئے اور ان کے ساتھ ان کے صاحبزادے مسور بن مخرمہ ؓ بھی تھے۔ آپ دروازے پر کھڑے ہو گئے اور کہا کہ میرا نام لے کر نبی کریم ﷺ کو بلالا۔ آنحضرت ﷺ نے ان کی آواز سنی تو قباء لے کر باہر تشریف لائے اور اس کی گھنڈیاں ان کے سامنے کر دیں۔ پھر فرمایا ابو مسور! یہ قباء میں نے تمہارے لئے چھپا کر رکھ لی تھی۔ مخرمہ ؓ ذرا تیز طبیعت کے آدمی تھے۔ ابن علیہ نے ایوب کے واسطے سے یہ حدیث (مرسلاً ہی) روایت کی ہے۔ اور حاتم بن وردان نے بیان کیا کہ ہم سے ایوب نے بیان کیا‘ ان سے ابن ابی ملیکہ نے ان سے مسور ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ کے یہاں کچھ قبائیں آئیں تھیں‘ اس روایت کی متابعت لیث نے ابن ابی ملیکہ سے کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
حاتم بن وردان کی روایت کو خود امام بخاری ؒنے ''باب شهادة الأعمی'' میں وصل کیا ہے۔ مخرمہ ؓ میں طبعی غصہ تھا۔ جلدی سے گرم ہوجاتے جیسے اکثر تنگ مزاج لوگ ہوتے ہیں۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امام یا بادشاہ اسلام کو کافر لوگ جو تحفے تحائف بھیجیں ان کا لینا امام کو درست ہے۔ اور اس کو اختیار ہے کہ جو چاہے خود رکھے جو چاہے جس کو دے‘ اغیار کے تحائف قبول کرنا بھی اس سے ثابت ہوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Abu Mulaika (RA): Some silken cloaks with golden buttons were presented to the Prophet. He distributed them amongst his companions and kept one for Makhrama, bin Naufal. Later on Makhrama came along with his son Al-Miswar bin Makhrama, and stood up at the gate and said (to his son). "Call him (i.e. the Prophet) to me." The Prophet (ﷺ) heard his voice, took a silken cloak and brought it to him, placing those golden buttons in front of him saying, "O Abu-al-Miswar! I have kept this aside for you! O Abu-al Miswar! I have kept this aside for you!" Makhrama was a bad-tempered man.