باب : اس بات کی دلیل کہ پانچواں حصہ مسلمانوں کی ضرورتوں کے لئے ہے
)
Sahi-Bukhari:
One-fifth of Booty to the Cause of Allah (Khumus)
(Chapter: Khumus is to be used for the needs of the Muslims)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
وہ واقعہ ہے کہ ہوازن کی قوم نے اپنے دودھ ناطے کی وجہ سے جو آنحضرت ﷺ کے ساتھ تھا ‘ آپ سے درخواست کی ‘ ان کے مال قیدی واپس ہوں تو آپ نے لوگوں سے معاف کرایا کہ اپنا حق چھوڑدو اور یہ بھی دلیل ہے کہ آپ ﷺ لوگوں کو اس مال میں سے دینے کا وعدہ کرتے جو بلا جنگ ہاتھ آیا تھا اور خمس میں سے انعام دینے کا اور یہ بھی دلیل ہے کہ آپ نے خمس میں سے انصار کو دیا اور جابر ؓ کو خیبر کی کھجور دی ۔
3131.
حضرت مروان بن حکیم اور حضرت مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس جب ہوازن کے لوگ مسلمان ہوکر آئے اور آپ سے درخواست کی کہ ان کے مال اور قیدی انھیں واپس کردیں تو آپ نے ان سے فرمایا: ’’مجھے وہ بات پسند ہے جو سچی ہو۔ تم دو چیزوں میں سے ایک چیز اختیار کرسکتے ہو: قیدی یا مال مویشی۔ میں نے اس سلسلے میں بہت انتظار کیا۔‘‘ رسول اللہ ﷺ نے واقعی تقریباً دس دن تک طائف سے واپسی پر ان کا انتظار کیا تھا۔ جب ان پر یہ امر واضح ہوگیا کہ رسول اللہ ﷺ ان کو صرف ایک ہی چیز واپس کریں گے تو انھوں نے عرض کیا: ہم اپنے قیدیوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ مسلمانوں میں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی اس کے شایان شان تعریف کی۔ اس کے بعد فرمایا: ’’أمابعد، تمہارے یہ بھائی تائب ہوکر آئے ہیں اور میرا خیال ہے کہ میں ان کے قیدی انھیں واپس کردوں۔ جو کوئی خوشی سے یہ کرنا چاہے تو کر لے اور جو کوئی تم میں سے یہ پسند کرے کہ اپنے حصے پر قائم رہے حتیٰ کہ ہم اس کو اس پہلے مال فے سے جو اللہ ہمیں عطا فرمائے گا، حصہ دیں گے تو وہ اس طرح کرلے۔‘‘ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے ر سول ﷺ! ہم خوشی دلی سے انھیں قیدی واپس کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہمیں معلوم نہیں ہوسکا کہ تم میں سے کس نے اجازت دی ہے اور کس نے اجازت نہیں دی، اس لیے تم واپس چلے جاؤ حتیٰ کہ تمہارے سردار تمہاری بات ہم تک پہنچائیں۔‘‘ چنانچہ وہ لوگ واپس ہوئے اور ان کے نمائندوں نے ان سے گفتگو کی، پھر انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اطلاع دی کہ وہ سب خوش ہیں اور خوش دلی سے انھوں نے اجازت دے دی ہے۔ بس اتنا واقعہ ہے جو ہوازن کے قیدیوں کے متعلق ہم تک پہنچاہے۔
تشریح:
1۔ رسول اللہ ﷺکو سب سے پہلے دودھ پلانے والی حلیمہ سعدیہ ہوازن قبیلے سے تھیں ہوازن والوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی کہ آپ ان عورتوں پر احسان کیجیے جن کا آپ نے دودھ پیا ہے ہے۔ اسی بناپر رسول اللہ ﷺ نے ہوازن والوں کو بھائی قرار دیا اور مجاہدین سے فرمایا:’’وہ اپنے حصے کے غلام اور لونڈیاں آزاد کریں اور ان کو واپس کردیں۔‘‘ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ 2۔ امام بخاری ؒ نے اس سے ثابت کیا ہے کہ خمس کا مصرف امام کی صوابدید پر موقوف ہے کیونکہ آپ نے فرمایا:’’ہم پہلے پہلے مال فے سے جو اللہ ہمیں عطا فرمائےگا۔ اس میں سے اس کو حصہ دیں گے۔‘‘ ان الفاظ کا ظاہری مفہوم یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد مال خمس ہے جو مسلمانوں کی ضروریات کے لیے صرف ہوگا۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3015
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3131
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3131
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3131
تمہید کتاب
غزوہ بدر کے اختتام پر اس قسم کی صورتحال پیداہو گئی کہ جس فریق نے غنیمت کا مال لوٹا وہ اپنے آپ ہی کو اس کا حقدار سمجھنے لگا۔ کچھ لوگ کفار کا تعاقب کرنے والے تھے انھوں نے دعوی کیا کہ ہم بھی مال غنیمت میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ اگر ہم کفار کا تعاقب نہ کرتے تو کفار واپس آکر حملہ کر سکتے تھے جس سے فتح کا شکست میں بدل جانا ممکن تھا کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت پر مامور تھے۔ انھوں نے کہا: ہم بھی اس مال میں برابر کے حصے دار ہیں۔کیونکہ اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت نہ کرتے تو آپ کوکوئی حادثہ پیش آسکتا تھا جو جنگ کا پانسہ پلٹنے میں بنیادی کردار ادا کرتا۔ لیکن جن لوگوں نے مال غنیمت پر قبضہ کیا وہ ایسی باتیں قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے لہٰذا مجاہدین میں کشیدگی کا پیدا ہونا ایک طبعی امر تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے بھی وحی الٰہی کی آمد تک خاموشی اختیار کیےرکھی۔ بالآخراللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا :کہ دوران جنگ میں ملنے والے تمام اموال اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں ان کے متعلق جو فیصلہ ہوگا۔ وہ سب کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ پھر اس کی تفصیل نازل ہوئی، کہ مال غنیمت کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے قرابت داروں،مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے۔(الانفال:8/41)دراصل میدان جنگ میں حاصل ہونے والے مال کی چند قسمیں حسب ذیل ہیں۔1۔مال غنیمت:۔مجاہدین کے قتال کے بعد کفار کی شکست کی صورت میں وہاں سے جو مال حاصل ہو اسے مال غنیمت کہا جاتا ہے۔ یہ پہلی امتوں پر حرام تھا بلکہ آسمان سے آگ آکر اسے جلا دیتی تھی مگر اس امت پر اسے حلال کردیا گیا۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق ایسے مال کے پانچ حصے ہوں گے، جن میں سے چار مجاہدین میں تقسیم ہوں گے اور ایک حصہ اللہ اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرابت داروں ، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے جو بیت المال میں جائے گا۔2۔مال فے:۔اس میں ہر وہ مال شامل ہے جو مسلمانوں کو لڑے ے بغیر مل جائے۔اس کے متعلق قرآنی فیصلہ یہ ہے کہ وہ سارے کا سارا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے۔(اور آپ کے بعد شرعی حاکم کے لیے ہے)اور وہ اپنی صوابدید کے مطابق اسے خرچ کرنے کے مجاز ہیں۔3۔مال سلب:۔ اس سے مراد وہ مال ہے جو ایک مجاہد مقتول دشمن کے جسم سے اتارتا ہے۔ اس کے متعلق شرعی فیصلہ ہے کہ وہ قاتل مجاہد کو دیا جائے لیکن حاکم وقت صوابدیدی اختیاربد ستور باقی رہتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر میں ابوجہل کے سازوسامان کے متعلق موقف اختیار کیا تھا۔4۔ایسی اشیاء جن کا تعلق غذا سے ہو یا ایسی چیز یں جو عموماً غذا کا فائدہ دیتی ہوں۔اسی طرح جانوروں کی گھاس وغیرہ ایسی تمام اشیاء کو تقسیم سے پہلے ہی استعمال کرنے کی اجازت ہوتی ہے ۔ اس میں حاکم وقت سے اجازت لینا ضروری نہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت ایسی احادیث جمع کی ہیں جن کا تعلق مال غنیمت کے خمس سے ہے۔مال غنیمت کے متعلق اس امر پر اتفاق ہے کہ اس کے چار حصے مجاہدین کے لیے ہیں۔ اس سےدو حصے گھوڑے کے لیے اور ایک حصہ مجاہد کے لیے مختص ہوتا ہے۔ اگر کسی کے پاس گھوڑا نہ ہو تو وہ صرف ایک حصے کا حق دار ہے۔ واضح رہے کہ چار حصے ان مجاہدین میں تقسیم کیے جاتے جو جنگ میں شریک ہوتے۔ باقی پانچواں حصہ یعنی خمس کے لیے قرآن کریم نے چھ مصرف بیان کیے ہیں ان میں اللہ کا ذکر تو بطور تبرک ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو حصہ ہے وہ آپ کی گھریلو ضروریات کے لیے مقرر ہوا ۔آپ کی خانگی ضروریات سے جو بچتا اسے جہاد کی ضروریات میں صرف کردیا جاتا۔آپ کی وفات کے بعد یہ مصرف ختم ہوگیا۔ اس خمس کا ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں ، یعنی بنو ہاشم کے لیے تھا۔ آپ کی وفات کے بعد ان کا حصہ بھی ختم ہو گیا۔ اب تین مصرف باقی ہیں۔یعنی یتیموں مسکینوں اور مسافروں کی ضروریات کو پورا کرنا۔ حاکم وقت کو ان کے متعلق بھی اختیار کہ جسے چاہے دے سکتا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی موقف کو اختیار کرکے امام مالک کی تائید کی ہے اور اس کے لیے چار حسب ذیل عنوان قائم کیے ہیں۔1۔پانچواں حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مساکین کی ضروریات پورا کرنے کے لیے ہے۔2۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مالک نہیں بلکہ آپ کو صرف تقسیم کرنے کا اختیار تھا۔3۔خمس مسلمانوں کی ضروریات کے لیے ہے۔4۔خمس حاکم وقت کے لیے ہے۔ان سب عنوانات کا ایک ہی مقصد ہے کہ حاکم وقت اپنی صوابدید کے مطابق خرچ کرنے کا مجاز ہے اس خمس کا مالک نہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خمس کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیےپینسٹھ(65)متصل احادیث بیان کی ہیں۔اور ان پر بیس(20) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن کی تفصیل آئندہ بیان ہو گی۔ایک اہم مسئلہ جس کی طرف توجہ دینا ضروری ہے کہ دور نبوی میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین رضا کارانہ طور پر اسے فریضہ سمجھ کر جہاد پر جاتے اور جنگ میں شریک ہو تے تھے اس سلسلے میں سواری اور ہتھیاروں کا اہتمام بھی خود کرتے تھے بلکہ بعض اوقات ذاتی خدمت کے لیے اپنے خرچے پر مزدورساتھ لے جاتے۔ ان خدمات کے عوض ان مجاہدین کو مال غنیمت سے حصہ ملتا تھا مگر دور حاضر میں فوج کا محکمہ ہی الگ ہے۔ اس محکمے میں شامل فوجی باقاعدہ تنخواہ دار ہوتے ہیں۔ ایام جنگ کے علاوہ بھی انھیں تنخواہ ملتی رہتی ہے۔ان کے لیے اسلحہ اور سواری کا اہتمام بھی حکومت کے ذمے ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں عام مسلمانوں پر جہاد کی فرضیت ساقط ہے اور تنخواہ دار ہونے کی وجہ سے ان فوجی اور مجاہدین میں مال غنیمت کی تقسیم کا قصہ بھی ختم ہوا۔امیر جیش یعنی چیف کمانڈر حصہ بھی ختم ہوا کیونکہ وہ بھی سر کاری خزانے سے بھاری تنخواہ وصول کرتا ہے فقراء کی ضرورتوں کو پورا کرنا ویسے ہی اسلامی حکومت کا فریضہ ہوتا ہے۔ ان مسائل میں اجتہاد کی ضرورت ہے کہ موجودہ دور میں ان شرعی نصوص کا انطباق کیسے ہو؟ ضرورت ہے کہ ان جیسے بیسیوں مسائل کے لیے اہل علم پر مشتمل ایک مجلس شوریٰ کا اہتمام کیا جائے۔ کاش کہ مسلک حقہ کی علمبردار جماعت اہل حدیث اس طرف توجہ دے اور جدید مسائل کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے وقت کی ضرورت کے پیش نظر خمس اور جزیے وغیرہ کے متعلق الگ الگ دو بڑے عنوان قائم کیے ہیں۔ حالانکہ ان کا تعلق جہاد ہی سے ہے۔چونکہ خمس اور جزیے کے مسائل کی بہت سی قسمیں ہیں جو تشریح و تفصیل کا تقاضا کرتی ہیں۔ اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی افادیت و اہمیت کے پیش نظر انھیں الگ عنوان کے تحت بیان کیا ہے۔ قارئین سے استدعا ہے کہ وہ ہماری تشریحات کو مد نظر رکھتے ہوئے پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دینی معاملات میں بصیرت عطا فرمائےپھر ان پر عمل کی توفیق دے۔آمین یا رب العالمین ۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا تھا خمس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ضروریات کے لیے ہے یہاں ذکر کیا گیا کہ خمس مسلمانوں کی ضروریات کے لیے ہے۔آئندہ ایک باب ان الفاظ میں قائم کریں گے خمس امام کے لیے ہے۔ ان میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ قرآنی نص کے مطابق خمس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے پھرآپ کے بعد مسلمانوں کا جو نگران ہو گا اس کے لیے ہے وہ اس میں اسی طرح تصرف کرنا مجاز ہو گا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے۔ اس عنوان میں ہے کہ خمس مسلمانوں کی ضرورت کے لیے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے متولی ہیں اور آپ جس قدر چاہیں اپنی ضروریات کے لیے رکھ لیں باقی مسلمانوں کی ضروریا ت میں صرف کردیں اس طرح آپ کے بعد آنےو الے خلفاء اور امراء کریں گے کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں کے امور کے متولی ہیں بہرحال معنی کے اعتبار سے ان عنوانات میں کوئی تضاد نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ضروریات بھی دراصل اہل اسلام کی ضروریات ہیں اس میں تصرف کا حق آپ کو بھی ہے اور آپ کے بعد آنے والے حکمرانوں کو بھی ہے واللہ اعلم۔
وہ واقعہ ہے کہ ہوازن کی قوم نے اپنے دودھ ناطے کی وجہ سے جو آنحضرت ﷺ کے ساتھ تھا ‘ آپ سے درخواست کی ‘ ان کے مال قیدی واپس ہوں تو آپ نے لوگوں سے معاف کرایا کہ اپنا حق چھوڑدو اور یہ بھی دلیل ہے کہ آپ ﷺ لوگوں کو اس مال میں سے دینے کا وعدہ کرتے جو بلا جنگ ہاتھ آیا تھا اور خمس میں سے انعام دینے کا اور یہ بھی دلیل ہے کہ آپ نے خمس میں سے انصار کو دیا اور جابر ؓ کو خیبر کی کھجور دی ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت مروان بن حکیم اور حضرت مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس جب ہوازن کے لوگ مسلمان ہوکر آئے اور آپ سے درخواست کی کہ ان کے مال اور قیدی انھیں واپس کردیں تو آپ نے ان سے فرمایا: ’’مجھے وہ بات پسند ہے جو سچی ہو۔ تم دو چیزوں میں سے ایک چیز اختیار کرسکتے ہو: قیدی یا مال مویشی۔ میں نے اس سلسلے میں بہت انتظار کیا۔‘‘ رسول اللہ ﷺ نے واقعی تقریباً دس دن تک طائف سے واپسی پر ان کا انتظار کیا تھا۔ جب ان پر یہ امر واضح ہوگیا کہ رسول اللہ ﷺ ان کو صرف ایک ہی چیز واپس کریں گے تو انھوں نے عرض کیا: ہم اپنے قیدیوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ مسلمانوں میں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی اس کے شایان شان تعریف کی۔ اس کے بعد فرمایا: ’’أمابعد، تمہارے یہ بھائی تائب ہوکر آئے ہیں اور میرا خیال ہے کہ میں ان کے قیدی انھیں واپس کردوں۔ جو کوئی خوشی سے یہ کرنا چاہے تو کر لے اور جو کوئی تم میں سے یہ پسند کرے کہ اپنے حصے پر قائم رہے حتیٰ کہ ہم اس کو اس پہلے مال فے سے جو اللہ ہمیں عطا فرمائے گا، حصہ دیں گے تو وہ اس طرح کرلے۔‘‘ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے ر سول ﷺ! ہم خوشی دلی سے انھیں قیدی واپس کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہمیں معلوم نہیں ہوسکا کہ تم میں سے کس نے اجازت دی ہے اور کس نے اجازت نہیں دی، اس لیے تم واپس چلے جاؤ حتیٰ کہ تمہارے سردار تمہاری بات ہم تک پہنچائیں۔‘‘ چنانچہ وہ لوگ واپس ہوئے اور ان کے نمائندوں نے ان سے گفتگو کی، پھر انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اطلاع دی کہ وہ سب خوش ہیں اور خوش دلی سے انھوں نے اجازت دے دی ہے۔ بس اتنا واقعہ ہے جو ہوازن کے قیدیوں کے متعلق ہم تک پہنچاہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ رسول اللہ ﷺکو سب سے پہلے دودھ پلانے والی حلیمہ سعدیہ ہوازن قبیلے سے تھیں ہوازن والوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی کہ آپ ان عورتوں پر احسان کیجیے جن کا آپ نے دودھ پیا ہے ہے۔ اسی بناپر رسول اللہ ﷺ نے ہوازن والوں کو بھائی قرار دیا اور مجاہدین سے فرمایا:’’وہ اپنے حصے کے غلام اور لونڈیاں آزاد کریں اور ان کو واپس کردیں۔‘‘ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ 2۔ امام بخاری ؒ نے اس سے ثابت کیا ہے کہ خمس کا مصرف امام کی صوابدید پر موقوف ہے کیونکہ آپ نے فرمایا:’’ہم پہلے پہلے مال فے سے جو اللہ ہمیں عطا فرمائےگا۔ اس میں سے اس کو حصہ دیں گے۔‘‘ ان الفاظ کا ظاہری مفہوم یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد مال خمس ہے جو مسلمانوں کی ضروریات کے لیے صرف ہوگا۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
نیز قبیلہ ہوازن کا اپنے دودھ کے رشتے کی بنا پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے(اپنے مال اور قیدی واپس کرنے کی) درخواست کرنا، آپ کو لوگوں سے معاف کرانا کہ اپنا حق چھوڑ دو، نیز نبی کریم ﷺکا لوگوں سے وعدہ کرنا کہ آپ مال خمس س ان کو بھی دیں گے، اس کے علاوہ آپ نے جو انصار کو اور جابر بن عبداللہ ؓ کو خیبر کی کھجوروں سے عطا فرمایا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے لیث نے بیا ن کیا ‘ کہا کہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا ‘ ان سے ابن شہاب نے بیان کیا کہ عروہ کہتے تھے کہ مروان بن حکم اور مسور بن مخرمہ ؓ نے انہیں خبر دی کہ جب ہوازن کا وفد رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے مالوں اور قیدیوں کی واپسی کا سوال کیا ‘ تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا ‘ کہ سچی بات مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔ ان دونوں چیزوں میں سے تم ایک ہی واپس لے سکتے ہو۔ اپنے قیدی واپس لے لو یا پھر مال لے لو‘ اور میں نے تمہارا انتظار بھی کیا۔ آنحضرت ﷺ نے تقریباً دس دن تک طائف سے واپسی پر ان کا انتظار کیا اور جب یہ بات ان پر واضح ہوگئی کہ آنحضرت ﷺ ان کی صرف ایک ہی چیز (قیدی یا مال) واپس کر سکتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ہم اپنے قیدی ہی واپس لینا چاہتے ہیں۔ اب آنحضرت ﷺ نے مسلمانوں کو خطاب فرمایا‘ آپ ﷺ نے اللہ کی شان کے مطابق حمد و ثنا کرنے کے بعد فرمایا‘ أما بعد! تمہارے یہ بھائی اب ہمارے پاس توبہ کر کے آئے ہیں اور میں مناسب سمجھتا ہوں کہ ان کے قیدی انہیں واپس کر دیئے جائیں۔ اسی لئے جو شخص اپنی خوشی سے غنیمت کے اپنے حصے کے (قیدی) واپس کرنا چاہے وہ کر دے اور جوشخص چاہتا ہو کہ اس کا حصہ باقی رہے اور ہمیں جب اس کے بعد سب سے پہلی غنیمت ملے تو اس میں سے اس کے حصے کی ادائیگی کردی جائے تو وہ بھی اپنے قیدی واپس کردے‘ (اور جب ہمیں دوسرے غنیمت ملے گی تو اس کاحصہ ادا کردیا جائے گا) اس پرصحابہ کرام ؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ! ہم اپنی خوشی سے انہیں اپنے حصے واپس کردیتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا لیکن ہمیں یہ معلوم نہ ہوسکا کہ کن لوگوں نے اپنی خوشی سے اجازت دی اور کن لوگوں نے نہیں دی ہے۔ اس لئے سب لوگ (اپنے خیموں میں) واپس چلے جائیں اور تمہارے سردار لوگ تمہاری بات ہمارے سامنے آ کر بیان کریں۔ سب لوگ واپس چلے گئے اور ان کے سرداروں نے اس مسئلہ پر گفتگو کی اور پھر آنحضرت ﷺ کو آکر خبر دی کہ سب لوگ خوشی سے اجازت دیتے ہیں۔ یہی وہ خبر ہے جو ہوازن کے قیدیوں کے سلسلے میں ہمیں معلوم ہوئی ہے۔
حدیث حاشیہ:
قوم ہوازن میں آپ ﷺ کی اولین دایہ حلیمہ سعدیہ تھیں۔ ابن اسحاق نے مغازی میں نکالا کہ ہوازن والوں نے آنحضرت ﷺ سے یوں عرض کیا تھا آپ ان عورتوں پر احسان کیجئے جن کا آپ نے دودھ پیا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے اسی بنا پر ہوازن والوں کو بھائی قرار دیا اور مجاہدین سے فرمایا کہ وہ اپنے اپنے حصہ کے لونڈی غلام ان کو واپس کردیں‘ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ اس حدیث میں کئی ایک تمدنی امور بھی بتلائے گئے ہیں جن میں اقوام میں نمائندگی کا اصول بھی ہے جسے اسلام نے سکھایا ہے اسی اصول پر موجودہ جمہوری طرز حکومت وجود میں آیا ہے۔ اس روایت کی سندمیں مروان بن حکم کا بھی نام آیا ہے‘ اس پر مولانا وحید الزمان مرحوم فرماتے ہیں: مروان نے نہ آنحضرت ﷺ سے سنا ہے‘ نہ آپ ﷺ کی صحبت اٹھائی ہے۔ اس کے اعمال بہت خراب تھے اور اسی وجہ سے لوگوں نے حضرت امام بخاری پر طعن کیا ہے کہا مروان سے روایت کرتے ہیں۔ حالانکہ حضرت امام بخاری ؒ نے اکیلے مروان سے روایت نہیں کی‘ بلکہ مسور بن مخرمہ ؓ کے ساتھ‘ جوصحابی ہیں‘ روایت کی ہے اور اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض برے شخص حدیث کی روایت میں سچا اور با احتیاط ہوتا ہے تو محدثین اس سے روایت کرتے ہیں۔ اور کوئی شخص بہت نیک اور صالح ہوتاہے لیکن وہ عبادت یا دوسرے علم میں مصروف رہنے کہ وجہ سے حدیث کے الفاظ اور متن کا خوب خیال نہیں رکھتا‘ تومحدثین اس سے روایت نہیں کرتے یا اس کی روایت کو ضعیف جانتے ہیں۔ ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ مجتہدین عظام میں کچھ حضرات توایسے ہیں جن کا طریقہ کار استخراج و استنباط مسائل اجتہاد کے طریق پر تھا۔ کچھ فقہ اور حدیث ہر دو کے جامع تھے۔ بہر حال حضرت امام بخاری ؒ اپنی جگہ پر مجتہد مطلق ہیں۔ اگر وہ کسی جگہ مروان جیسے لوگوں کی مرویات نقل کرتے ہیں تو ان کے ساتھ کسی اور معتبر شاہد کو بھی پیش کردیتے ہیں۔ جو ان کے کمال احتیاط کی دلیل ہے اور اس بنا پر ان پر طعن کرنا محض تعصب اور کورباطنی کا ثبوت دینا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Marwan bin Al-Hakim and Miswar bin Makhrama (RA): When the Hawazin delegation came to Allah's Apostle (ﷺ) after they had embraced Islam and requested him to return their properties and war prisoners to them, Allah's Apostle (ﷺ) said, "To me the best talk is the truest, so you may choose either of two things; the war prisoners or the wealth, for I have delayed their distribution." Allah's Apostle (ﷺ) had waited for them for over ten days when he returned from Ta'if. So, when those people came to know that Allah's Apostle (ﷺ) was not going to return to them except one of the two things the said, "We choose our war Prisoners 'Allah's Apostle (ﷺ) stood up amongst the Muslims, and after glorifying Allah as He deserved, he said, "Now then, these brothers of yours have come to us with repentance, and I see it logical that I should return their captives to them, so whoever of you likes to do that as a favor then he can do it, and whoever amongst you likes to stick to his share, let him give up his prisoners and we will compensate him from the very first Fai' (i.e. war booty received without fight) which Allah will give us." On that, all the people said. 'O Allah's Apostles We have agreed willingly to do so (return the captives)" Then Allah's Apostle (ﷺ) said to them "I do not know who amongst you has agreed to this and who has not. You should return and let your leaders inform me of your agreement." The people returned and their leaders spoke to them, and then came to Allah's Apostle (ﷺ) and said, "All the people have agreed willingly to do so and have given the permission to return the war prisoners (without Compensation)" (Az-Zuhri, the sub-narrator states) This is what has been related to us about the captives of Hawazin.