باب : مقتول کے جسم پر جو سامان ہو( کپڑے ، ہتھیار وغیرہ )
)
Sahi-Bukhari:
One-fifth of Booty to the Cause of Allah (Khumus)
(Chapter: Khumus from the spoils of a killed infidel)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
وہ سامان تقسیم میں شریک ہوگا نہ اس میں سے خمس لیا جائے گا بلکہ وہ سارا قاتل کو ملے گا اور امام کا ایسا حکم دینے کا بیان
3141.
حضرت عبدالرحمان بن عوف ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ بدر کی لڑائی کے وقت صف بندی میں کھڑا تھا۔ اس دوران میں نے اپنے دائیں بائیں دیکھاتو دو انصاری کم سن لڑکے دکھائی دیے۔ میں نے (اول میں) خواہش کی کہ کاش! میں دو طاقتور اور ان سے زیادہ عمر والوں کے درمیان کھڑا ہوتا۔ اچانک ان میں سے ایک نے میری طرف اشارہ کرکے آہستہ آواز سے پوچھا: اے چچا!تم ابو جہل کو پہچانتے ہو؟، میں نے کہا: ہاں۔ لیکن اے بھتیجے!تجھے اس سے کیا کام ہے؟لڑکے نے جواب دیا: مجھے معلوم ہوا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دیتا ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر وہ مجھے مل جائے تو اس وقت تک میں اس سے جدا نہ ہوں گا جب تک ہم میں سے وہ جس کی قسمت میں پہلے مرنا ہوگا، مرنہ جائے۔ میں نے اس کی جرات پر بڑا تعجب کیا۔ اتنے میں مجھ سے دوسرے نے آہستگی سے دریافت کیا اور اس نے بھی وہی کہا ہے جو پہلے نے کہاتھا۔ ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ مجھے ابو جہل دکھائی دیا جو لوگوں میں ٹہل رہاتھا۔ میں نے (ان دونوں سے) کہا : سنو!وہ ہے جس کے متعلق تم مجھ سے پوچھ رہے تھے۔ یہ سنتے ہی انھوں نے تلواریں سنبھالیں اور اس پر جھپٹ پڑے۔ پھر زبردست حملہ کرکے اسے قتل کردیا۔ اس کے بعد وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو اس کی خبر دی۔ آپ نے دریافت فرمایا: ’’تم میں سے اسے کس نے قتل کیا ہے؟‘‘ ان میں سے ہر ایک نے جواب دیا کہ میں نے اس لعین کو مارا ہے پھر آپ نے پوچھا: ’’کیا تم نے اپنی تلواریں صاف کرلی ہیں؟‘‘ انھوں نے کہا: نہیں۔ پھر آپ نے دونوں تلواروں کو دیکھا اور فرمایا: ’’واقعی تم دونوں نے اسے قتل کیا ہے۔‘‘ اس کا تمام سامان معاذ بن عمرو بن جموح ؓ کو دیا۔ وہ دونوں لڑکے معاذ بن عفراء اور معاذ بن عمرو بن جموح ؓتھے۔ (راوی حدیث) محمد نے کہا کہ یوسف نے صالح سے اور ابراہیم نے اپنے باپ عبدالرحمان بن عوف سے سنا ہے۔
تشریح:
1۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ کے دل میں خیال آیا کہ یہ دونوں بچے ناتجربہ کارہیں۔ معلوم نہیں کہ جنگ کے وقت ٹھہرسکیں یا نہیں۔ اگر بھاگ کھڑے ہوئے تو نہ معلوم اس وقت میرے دل کی کیا کیفیت ہو۔ لیکن ان کے دلوں میں ایمان کا جوش تھا کہ تو کسی بڑے موذی کو ماریں۔ بہر حال وہ اپنے منصوبے میں کامیاب ہوئے۔۔رضی اللہ عنه۔ 2۔ کافر مقتول کا زیر استعمال سازو سامان سلب کہلاتا ہے جس کے بارے میں اختلاف ہے کہ اس سے خمس نکالا جائے گایا نہیں؟ امام بخاری ؒ کا رجحان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابو جہل کے سازوسامان سے کوئی خمس وغیرہ نہیں لیا بلکہ پورے کا پورا قاتل کے حوالے کر دیا اس لیے اس میں خمس نہیں ہو گا۔ دوسرا مختلف فیہ مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی کافر کے قتل میں ایک سے زیادہ افراد شریک ہوں تو اس کا کیا کیا جائے؟ نیز خلیفہ یا کمانڈر کو اس بارے میں تصرف کا حق حاصل ہے کہ نہیں؟ اگر کسی کافر کے قتل میں دو مسلمان برابر کے شریک ہوں تو بالا تفاق سلب ان دونوں میں برابر تقسیم ہوگا۔ اور اگر قرآئن سے یہ ثابت ہو جائے کہ اصل قاتل فلاں ہے باقی معاون ہیں تو پھر اصل قاتل کو سلب دیا جائے گا اور دوسروں کو محروم کردیا جائے گا۔ مثلاً: ایک شخص نے مقتول کو اس حال میں کردیا کہ وہ دفاع کے قابل نہیں رہا اور کسی دوسرے نے آکر اس کی گردن کاٹ دی تو سلب پہلے شخص کو ملے گا۔ 3۔ سلب ازخود قاتل کو مل جائے گا یا یہ معاملہ امام کی صوابدید پر موقوف ہے؟ امام بخاری ؒ نے اس بارے میں کسی حتمی رائے کا اظہار نہیں کیا شاید اس کی وجہ اہل علم کا اختلاف ہے اور اس کی بنیاد زیر بحث حدیث ہے۔ اس میں ہے کہ ابو جہل کو قتل کرنے والے دو بلکہ ابن مسعود ؓ کو ملا کر تین افراد تھے جبکہ آپ نے سلب صرف معاذ بن عمر ؓ کو دیا امام مالک اور احناف کہتے ہیں کہ آپ کا دو کو چھوڑ کر ایک كو دینا اس امرکی دلیل ہے کہ امام کو سلب میں تصرف کا اختیار ہے جبکہ جمہور اہل علم کہتے ہیں کہ اس کا مستحق قاتل ہی ہے امام کی صوابدید پر یہ موقوف نہیں۔ مذکورہ حدیث میں آ پ کا یہ فرمانا۔’’تم دونوں ہی نے اسے قتل کیا ہے۔‘‘ دوسرے کی دلداری کےطور پر ارشاد فرمایا کیونکہ وہ دونوں شریک تو تھے تاہم آپ نے دونوں کی تلواروں سے انداز لگالیا کہ اصل گھائل کرنے والے معاذ ہی ہیں اس لیے ابن مسعود ؓ کو بھی اس میں شریک نہیں کیا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3024
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3141
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3141
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3141
تمہید کتاب
غزوہ بدر کے اختتام پر اس قسم کی صورتحال پیداہو گئی کہ جس فریق نے غنیمت کا مال لوٹا وہ اپنے آپ ہی کو اس کا حقدار سمجھنے لگا۔ کچھ لوگ کفار کا تعاقب کرنے والے تھے انھوں نے دعوی کیا کہ ہم بھی مال غنیمت میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ اگر ہم کفار کا تعاقب نہ کرتے تو کفار واپس آکر حملہ کر سکتے تھے جس سے فتح کا شکست میں بدل جانا ممکن تھا کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت پر مامور تھے۔ انھوں نے کہا: ہم بھی اس مال میں برابر کے حصے دار ہیں۔کیونکہ اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت نہ کرتے تو آپ کوکوئی حادثہ پیش آسکتا تھا جو جنگ کا پانسہ پلٹنے میں بنیادی کردار ادا کرتا۔ لیکن جن لوگوں نے مال غنیمت پر قبضہ کیا وہ ایسی باتیں قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے لہٰذا مجاہدین میں کشیدگی کا پیدا ہونا ایک طبعی امر تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے بھی وحی الٰہی کی آمد تک خاموشی اختیار کیےرکھی۔ بالآخراللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا :کہ دوران جنگ میں ملنے والے تمام اموال اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں ان کے متعلق جو فیصلہ ہوگا۔ وہ سب کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ پھر اس کی تفصیل نازل ہوئی، کہ مال غنیمت کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے قرابت داروں،مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے۔(الانفال:8/41)دراصل میدان جنگ میں حاصل ہونے والے مال کی چند قسمیں حسب ذیل ہیں۔1۔مال غنیمت:۔مجاہدین کے قتال کے بعد کفار کی شکست کی صورت میں وہاں سے جو مال حاصل ہو اسے مال غنیمت کہا جاتا ہے۔ یہ پہلی امتوں پر حرام تھا بلکہ آسمان سے آگ آکر اسے جلا دیتی تھی مگر اس امت پر اسے حلال کردیا گیا۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق ایسے مال کے پانچ حصے ہوں گے، جن میں سے چار مجاہدین میں تقسیم ہوں گے اور ایک حصہ اللہ اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرابت داروں ، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے جو بیت المال میں جائے گا۔2۔مال فے:۔اس میں ہر وہ مال شامل ہے جو مسلمانوں کو لڑے ے بغیر مل جائے۔اس کے متعلق قرآنی فیصلہ یہ ہے کہ وہ سارے کا سارا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے۔(اور آپ کے بعد شرعی حاکم کے لیے ہے)اور وہ اپنی صوابدید کے مطابق اسے خرچ کرنے کے مجاز ہیں۔3۔مال سلب:۔ اس سے مراد وہ مال ہے جو ایک مجاہد مقتول دشمن کے جسم سے اتارتا ہے۔ اس کے متعلق شرعی فیصلہ ہے کہ وہ قاتل مجاہد کو دیا جائے لیکن حاکم وقت صوابدیدی اختیاربد ستور باقی رہتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر میں ابوجہل کے سازوسامان کے متعلق موقف اختیار کیا تھا۔4۔ایسی اشیاء جن کا تعلق غذا سے ہو یا ایسی چیز یں جو عموماً غذا کا فائدہ دیتی ہوں۔اسی طرح جانوروں کی گھاس وغیرہ ایسی تمام اشیاء کو تقسیم سے پہلے ہی استعمال کرنے کی اجازت ہوتی ہے ۔ اس میں حاکم وقت سے اجازت لینا ضروری نہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت ایسی احادیث جمع کی ہیں جن کا تعلق مال غنیمت کے خمس سے ہے۔مال غنیمت کے متعلق اس امر پر اتفاق ہے کہ اس کے چار حصے مجاہدین کے لیے ہیں۔ اس سےدو حصے گھوڑے کے لیے اور ایک حصہ مجاہد کے لیے مختص ہوتا ہے۔ اگر کسی کے پاس گھوڑا نہ ہو تو وہ صرف ایک حصے کا حق دار ہے۔ واضح رہے کہ چار حصے ان مجاہدین میں تقسیم کیے جاتے جو جنگ میں شریک ہوتے۔ باقی پانچواں حصہ یعنی خمس کے لیے قرآن کریم نے چھ مصرف بیان کیے ہیں ان میں اللہ کا ذکر تو بطور تبرک ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو حصہ ہے وہ آپ کی گھریلو ضروریات کے لیے مقرر ہوا ۔آپ کی خانگی ضروریات سے جو بچتا اسے جہاد کی ضروریات میں صرف کردیا جاتا۔آپ کی وفات کے بعد یہ مصرف ختم ہوگیا۔ اس خمس کا ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں ، یعنی بنو ہاشم کے لیے تھا۔ آپ کی وفات کے بعد ان کا حصہ بھی ختم ہو گیا۔ اب تین مصرف باقی ہیں۔یعنی یتیموں مسکینوں اور مسافروں کی ضروریات کو پورا کرنا۔ حاکم وقت کو ان کے متعلق بھی اختیار کہ جسے چاہے دے سکتا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی موقف کو اختیار کرکے امام مالک کی تائید کی ہے اور اس کے لیے چار حسب ذیل عنوان قائم کیے ہیں۔1۔پانچواں حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مساکین کی ضروریات پورا کرنے کے لیے ہے۔2۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مالک نہیں بلکہ آپ کو صرف تقسیم کرنے کا اختیار تھا۔3۔خمس مسلمانوں کی ضروریات کے لیے ہے۔4۔خمس حاکم وقت کے لیے ہے۔ان سب عنوانات کا ایک ہی مقصد ہے کہ حاکم وقت اپنی صوابدید کے مطابق خرچ کرنے کا مجاز ہے اس خمس کا مالک نہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خمس کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیےپینسٹھ(65)متصل احادیث بیان کی ہیں۔اور ان پر بیس(20) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن کی تفصیل آئندہ بیان ہو گی۔ایک اہم مسئلہ جس کی طرف توجہ دینا ضروری ہے کہ دور نبوی میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین رضا کارانہ طور پر اسے فریضہ سمجھ کر جہاد پر جاتے اور جنگ میں شریک ہو تے تھے اس سلسلے میں سواری اور ہتھیاروں کا اہتمام بھی خود کرتے تھے بلکہ بعض اوقات ذاتی خدمت کے لیے اپنے خرچے پر مزدورساتھ لے جاتے۔ ان خدمات کے عوض ان مجاہدین کو مال غنیمت سے حصہ ملتا تھا مگر دور حاضر میں فوج کا محکمہ ہی الگ ہے۔ اس محکمے میں شامل فوجی باقاعدہ تنخواہ دار ہوتے ہیں۔ ایام جنگ کے علاوہ بھی انھیں تنخواہ ملتی رہتی ہے۔ان کے لیے اسلحہ اور سواری کا اہتمام بھی حکومت کے ذمے ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں عام مسلمانوں پر جہاد کی فرضیت ساقط ہے اور تنخواہ دار ہونے کی وجہ سے ان فوجی اور مجاہدین میں مال غنیمت کی تقسیم کا قصہ بھی ختم ہوا۔امیر جیش یعنی چیف کمانڈر حصہ بھی ختم ہوا کیونکہ وہ بھی سر کاری خزانے سے بھاری تنخواہ وصول کرتا ہے فقراء کی ضرورتوں کو پورا کرنا ویسے ہی اسلامی حکومت کا فریضہ ہوتا ہے۔ ان مسائل میں اجتہاد کی ضرورت ہے کہ موجودہ دور میں ان شرعی نصوص کا انطباق کیسے ہو؟ ضرورت ہے کہ ان جیسے بیسیوں مسائل کے لیے اہل علم پر مشتمل ایک مجلس شوریٰ کا اہتمام کیا جائے۔ کاش کہ مسلک حقہ کی علمبردار جماعت اہل حدیث اس طرف توجہ دے اور جدید مسائل کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے وقت کی ضرورت کے پیش نظر خمس اور جزیے وغیرہ کے متعلق الگ الگ دو بڑے عنوان قائم کیے ہیں۔ حالانکہ ان کا تعلق جہاد ہی سے ہے۔چونکہ خمس اور جزیے کے مسائل کی بہت سی قسمیں ہیں جو تشریح و تفصیل کا تقاضا کرتی ہیں۔ اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی افادیت و اہمیت کے پیش نظر انھیں الگ عنوان کے تحت بیان کیا ہے۔ قارئین سے استدعا ہے کہ وہ ہماری تشریحات کو مد نظر رکھتے ہوئے پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دینی معاملات میں بصیرت عطا فرمائےپھر ان پر عمل کی توفیق دے۔آمین یا رب العالمین ۔
وہ سامان تقسیم میں شریک ہوگا نہ اس میں سے خمس لیا جائے گا بلکہ وہ سارا قاتل کو ملے گا اور امام کا ایسا حکم دینے کا بیان
حدیث ترجمہ:
حضرت عبدالرحمان بن عوف ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ بدر کی لڑائی کے وقت صف بندی میں کھڑا تھا۔ اس دوران میں نے اپنے دائیں بائیں دیکھاتو دو انصاری کم سن لڑکے دکھائی دیے۔ میں نے (اول میں) خواہش کی کہ کاش! میں دو طاقتور اور ان سے زیادہ عمر والوں کے درمیان کھڑا ہوتا۔ اچانک ان میں سے ایک نے میری طرف اشارہ کرکے آہستہ آواز سے پوچھا: اے چچا!تم ابو جہل کو پہچانتے ہو؟، میں نے کہا: ہاں۔ لیکن اے بھتیجے!تجھے اس سے کیا کام ہے؟لڑکے نے جواب دیا: مجھے معلوم ہوا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دیتا ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر وہ مجھے مل جائے تو اس وقت تک میں اس سے جدا نہ ہوں گا جب تک ہم میں سے وہ جس کی قسمت میں پہلے مرنا ہوگا، مرنہ جائے۔ میں نے اس کی جرات پر بڑا تعجب کیا۔ اتنے میں مجھ سے دوسرے نے آہستگی سے دریافت کیا اور اس نے بھی وہی کہا ہے جو پہلے نے کہاتھا۔ ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ مجھے ابو جہل دکھائی دیا جو لوگوں میں ٹہل رہاتھا۔ میں نے (ان دونوں سے) کہا : سنو!وہ ہے جس کے متعلق تم مجھ سے پوچھ رہے تھے۔ یہ سنتے ہی انھوں نے تلواریں سنبھالیں اور اس پر جھپٹ پڑے۔ پھر زبردست حملہ کرکے اسے قتل کردیا۔ اس کے بعد وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو اس کی خبر دی۔ آپ نے دریافت فرمایا: ’’تم میں سے اسے کس نے قتل کیا ہے؟‘‘ ان میں سے ہر ایک نے جواب دیا کہ میں نے اس لعین کو مارا ہے پھر آپ نے پوچھا: ’’کیا تم نے اپنی تلواریں صاف کرلی ہیں؟‘‘ انھوں نے کہا: نہیں۔ پھر آپ نے دونوں تلواروں کو دیکھا اور فرمایا: ’’واقعی تم دونوں نے اسے قتل کیا ہے۔‘‘ اس کا تمام سامان معاذ بن عمرو بن جموح ؓ کو دیا۔ وہ دونوں لڑکے معاذ بن عفراء اور معاذ بن عمرو بن جموح ؓتھے۔ (راوی حدیث) محمد نے کہا کہ یوسف نے صالح سے اور ابراہیم نے اپنے باپ عبدالرحمان بن عوف سے سنا ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ کے دل میں خیال آیا کہ یہ دونوں بچے ناتجربہ کارہیں۔ معلوم نہیں کہ جنگ کے وقت ٹھہرسکیں یا نہیں۔ اگر بھاگ کھڑے ہوئے تو نہ معلوم اس وقت میرے دل کی کیا کیفیت ہو۔ لیکن ان کے دلوں میں ایمان کا جوش تھا کہ تو کسی بڑے موذی کو ماریں۔ بہر حال وہ اپنے منصوبے میں کامیاب ہوئے۔۔رضی اللہ عنه۔ 2۔ کافر مقتول کا زیر استعمال سازو سامان سلب کہلاتا ہے جس کے بارے میں اختلاف ہے کہ اس سے خمس نکالا جائے گایا نہیں؟ امام بخاری ؒ کا رجحان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابو جہل کے سازوسامان سے کوئی خمس وغیرہ نہیں لیا بلکہ پورے کا پورا قاتل کے حوالے کر دیا اس لیے اس میں خمس نہیں ہو گا۔ دوسرا مختلف فیہ مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی کافر کے قتل میں ایک سے زیادہ افراد شریک ہوں تو اس کا کیا کیا جائے؟ نیز خلیفہ یا کمانڈر کو اس بارے میں تصرف کا حق حاصل ہے کہ نہیں؟ اگر کسی کافر کے قتل میں دو مسلمان برابر کے شریک ہوں تو بالا تفاق سلب ان دونوں میں برابر تقسیم ہوگا۔ اور اگر قرآئن سے یہ ثابت ہو جائے کہ اصل قاتل فلاں ہے باقی معاون ہیں تو پھر اصل قاتل کو سلب دیا جائے گا اور دوسروں کو محروم کردیا جائے گا۔ مثلاً: ایک شخص نے مقتول کو اس حال میں کردیا کہ وہ دفاع کے قابل نہیں رہا اور کسی دوسرے نے آکر اس کی گردن کاٹ دی تو سلب پہلے شخص کو ملے گا۔ 3۔ سلب ازخود قاتل کو مل جائے گا یا یہ معاملہ امام کی صوابدید پر موقوف ہے؟ امام بخاری ؒ نے اس بارے میں کسی حتمی رائے کا اظہار نہیں کیا شاید اس کی وجہ اہل علم کا اختلاف ہے اور اس کی بنیاد زیر بحث حدیث ہے۔ اس میں ہے کہ ابو جہل کو قتل کرنے والے دو بلکہ ابن مسعود ؓ کو ملا کر تین افراد تھے جبکہ آپ نے سلب صرف معاذ بن عمر ؓ کو دیا امام مالک اور احناف کہتے ہیں کہ آپ کا دو کو چھوڑ کر ایک كو دینا اس امرکی دلیل ہے کہ امام کو سلب میں تصرف کا اختیار ہے جبکہ جمہور اہل علم کہتے ہیں کہ اس کا مستحق قاتل ہی ہے امام کی صوابدید پر یہ موقوف نہیں۔ مذکورہ حدیث میں آ پ کا یہ فرمانا۔’’تم دونوں ہی نے اسے قتل کیا ہے۔‘‘ دوسرے کی دلداری کےطور پر ارشاد فرمایا کیونکہ وہ دونوں شریک تو تھے تاہم آپ نے دونوں کی تلواروں سے انداز لگالیا کہ اصل گھائل کرنے والے معاذ ہی ہیں اس لیے ابن مسعود ؓ کو بھی اس میں شریک نہیں کیا۔
ترجمۃ الباب:
جس مسلمان نے کسی کافر کو قتل کیا، وہ اس کے سازوسامان کاخمس نکالے بغیر ہی مالک ہے۔ مقتول کافرکے سامان کے متعلق امام کا حکم کیا درجہ رکھتاہے۔ اس کی وضاحت مقصود ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا ، کہا ہم سے یوسف بن ماجشون نے، ان سے صالح بن ابراہیم بن عبدالرحمن بن عوف نے، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے صالح کے دادا (عبدالرحمن بن عوفص) نے بیان کے کہ بدر کی لڑائی میں، میں صف کے ساتھ کھڑا ہوا تھا۔ میں نے جو دائیں بائیں جانب دیکھا، تو میرے دونوں طرف قبیلہ انصار کے دو نو عمر لڑکے تھے۔ میں نے آرزو کی کاش! میں ان سے زبردست زیادہ عمر والوں کے بیچ میں ہوتا۔ ایک نے میری طرف اشارہ کیا، اور پوچھا چچا! آپ ابوجہل کو بھی پہچانتے ہیں؟ میں نے کہا کہ ہاں! لیکن بیٹے تم لوگوں کو اس سے کیا کام ہے؟ لڑکے نے جواب دیا مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دیتا ہے، اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر مجھے وہ مل گیا تو اس وقت تک میں اس سے جدا نہ ہوں گا جب تک ہم میں سے کوئی جس کی قسمت میں پہلے مرنا ہوگا، مر نہ جائے، مجھے اس پر بڑی حیرت ہوئی۔ پھر دوسرے نے اشارہ کیا اور وہی باتیں اس نے بھی کہیں۔ ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ مجھے ابوجہل دکھائی دیا جو لوگوں میں (کفار کے لشکر میں) گھومتا پھر رہا تھا۔ میں نے ان لڑکوں سے کہا کہ جس کے متعلق تم لوگ مجھ سے پوچھ رہے تھے ، وہ سامنے (پھرتا ہوا نظرآرہا) ہے۔ دونوں نے اپنی تلواریں سنبھالیں اور اس پر جھپٹ پڑے اور حملہ کرکے اسے قتل کر ڈالا۔ اس کے بعد رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کو خبر دی، آنحضرت ﷺ نے پوچھا کہ تم دونوں میں سے کس نے اسے مارا ہے؟ دونوں نوجوانوں نے کہا کہ میں نے قتل کیا ہے۔ اس لیے آپ نے ان سے پوچھا کہ کیا اپنی تلواریں تم نے صاف کرلی ہیں؟ انہوں نے عرض کیا کہ نہیں۔ پھر آنحضرت ﷺ نے دونوں تلواروں کو دیکھا اور فرمایا کہ تم دونوں ہی نے اسے مارا ہے۔ اور اس کا سامان معاذ بن عمرو بن جموح کو ملے گا۔ وہ دونوں نوجوان معاذ بن عفراء اور معاذ بن عمرو بن جموع تھے۔ محمد نے کہا یوسف نے صالح سے سنا اور ابراہیم نے اپنے باپ سے سنا۔
حدیث حاشیہ:
ہوا یہ تھا کہ معاذ بن عمرو بن جموح نے اس مردود کو بے دم کیا تھا تو اصل قاتل وہی ہوئے، انہی کو آپ نے ابوجہل کا سامان دلایا اور معاذ بن عفراء کا دل خوش کرنے کے لیے آپ نے یوں فرمایا کہ تم دونوں نے مارا ہے۔ عبدالرحمن بن عوف ؓنے خیال کیا کہ یہ بچے ناتجربہ کار ہیں، معلوم نہیں جنگ کے وقت ٹھہرسکتے ہیں یا نہیں، اگر یہ بھاگے تو معلوم نہیں میرے دل کی بھی کیا حالت ہو، ان کو یہ معلوم نہ تھا کہ یہ دونوں پیشہ شجاعت کے شیر اور بوڑھوں سے بھی زیادہ دلیر ہیں، ان انصاری بچوں نے لوگوں سے ابوجہل مردود کا حال سنا تھا کہ اس نے آنحضرت ﷺ کو کیسی کیسی اےذائیں دی تھیں۔ چونکہ یہ مدینہ والے تھے لہٰذا ابوجہل کی صورت نہیں پہچانتے تھے۔ ایمان کا جوش ان کے دلوں میں تھا، انہوں نے یہ چاہا کہ ماریں تو بڑے موذی کو ماریں، اسی مردود کا کام تمام کریں۔ جس میں وہ کامیاب ہوئے۔ رضي اللہ عنهم أجمعین بعض روایتوں میں ابوجہل کے قاتل معاذ اور معوذ عفرا کے بیٹے بتلائے گئے ہیں۔ اور ابن مسعود ؓ کو بھی شامل کیاگیا ہے۔ احتمال ہے کہ یہ لوگ بھی بعد میں شریک قتل ہوگئے ہوں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdur-Rahman bin 'Auf (RA): While I was standing in the row on the day (of the battle) of Badr, I looked to my right and my left and saw two young Ansari boys, and I wished I had been stronger than they. One of them called my attention saying, "O Uncle! Do you know Abu Jahl?" I said, "Yes, What do you want from him, O my nephew?" He said, "I have been informed that he abuses Allah's Apostle. By Him in Whose Hands my life is, if I should see him, then my body will not leave his body till either of us meet his fate." I was astonished at that talk. Then the other boy called my attention saying the same as the other had said. After a while I saw Abu Jahl walking amongst the people. I said (to the boys), "Look! This is the man you asked me about." So, both of them attacked him with their swords and struck him to death and returned to Allah'S Apostle (ﷺ) to inform him of that. Allah's Apostle (ﷺ) asked, "Which of you has killed him?" Each of them said, "I Have killed him." Allah's Apostle (ﷺ) asked, "Have you cleaned your swords?" They said, "No. " He then looked at their swords and said, "No doubt, you both have killed him and the spoils of the deceased will be given to Muadh bin Amr bin Al-Jamuh." The two boys were Muadh bin 'Afra and Muadh bin Amr bin Al-Jamuh.