باب: اگر کھانے کی چیزیں کافروں کے ملک میں ہاتھ آجائیں
)
Sahi-Bukhari:
One-fifth of Booty to the Cause of Allah (Khumus)
(Chapter: The food gained as war booty in the battlefield)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3155.
حضرت ابن ابی اوفیٰ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ہمیں خیبر کی راتوں میں فاقوں پر فاقے ہونے لگے۔ آخر جس دن خیبر فتح ہوا تو گھریلو گدھے بھی (بطورغنیمت) ملے، چنانچہ ہم نے انھیں ذبح کرکے پکانا شروع کردیا۔ جب ہانڈیوں میں جوش آنے لگا تو رسول اللہ ﷺ کے منادی نے اعلان کیا کہ ہانڈیوں کو الٹ دو اور گدھوں کے گوشت سے کچھ نہ کھاؤ۔ عبداللہ بن ابی اوفیٰ ؓ نے کہا کہ ہمارےخیال کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے اس لیے منع فرمایا کہ ان سے ابھی خمس نہیں نکالا گیا تھا۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ نبی کریم ﷺ نے قطعی طور پر گدھوں کا گوشت حرام قرار دیا ہے۔ راوی حدیث کہتے ہیں کہ میں نےسعید بن جبیر سے پوچھا تو انھوں نے کہا: آپ ﷺ نے قطعی طور پر اسے حرام کردیاتھا۔
تشریح:
1۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مجاہدین کو مال غنیمت سے بقدر ضرورت کھانے پینے کی اجازت ہے البتہ گدھوں کے گوشت سے تو ان کی حرمت کی وجہ سے منع فرمایا۔ اس لیے نہیں کہ گوشت کے لیے قبل از وقت اجازت نہیں لی گئی تھی۔ 2۔ راوی نے حضرت سعید بن جبیر ؓسے اس لیے پوچھا کہ وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خاص شاگرد تھے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے گدھے کے گوشت کی حلت مروی ہے لیکن سعید بن جبیر ؓ کو دیگرصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے اس کی حرمت کے متعلق تحقیق ہو گئی تھی اس لیے انھوں نے یقین کے ساتھ اس کی حرمت کا فتوی دیا۔ اب اس کی حرمت میں کسی کو اختلاف نہیں بلکہ تمام اہل علم اس کی تحریم پر متفق ہیں۔ 3۔ جن اشیاء کا تعلق غذا سے ہے یا جو چیزیں عادت کے طور پر غذا کا فائدہ دیتی ہیں۔ اسی طرح جانوروں کا گھاس اور چاره وغیرہ ان تمام اشیاء کا تقسیم سے پہلے امام وقت کی اجازت کے بغیر لینا جائز ہے جبکہ مقصود ذخیرہ اندوزیاور مالیت بنانا نہ ہو۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3038
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3155
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3155
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3155
تمہید کتاب
غزوہ بدر کے اختتام پر اس قسم کی صورتحال پیداہو گئی کہ جس فریق نے غنیمت کا مال لوٹا وہ اپنے آپ ہی کو اس کا حقدار سمجھنے لگا۔ کچھ لوگ کفار کا تعاقب کرنے والے تھے انھوں نے دعوی کیا کہ ہم بھی مال غنیمت میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ اگر ہم کفار کا تعاقب نہ کرتے تو کفار واپس آکر حملہ کر سکتے تھے جس سے فتح کا شکست میں بدل جانا ممکن تھا کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت پر مامور تھے۔ انھوں نے کہا: ہم بھی اس مال میں برابر کے حصے دار ہیں۔کیونکہ اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت نہ کرتے تو آپ کوکوئی حادثہ پیش آسکتا تھا جو جنگ کا پانسہ پلٹنے میں بنیادی کردار ادا کرتا۔ لیکن جن لوگوں نے مال غنیمت پر قبضہ کیا وہ ایسی باتیں قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے لہٰذا مجاہدین میں کشیدگی کا پیدا ہونا ایک طبعی امر تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے بھی وحی الٰہی کی آمد تک خاموشی اختیار کیےرکھی۔ بالآخراللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا :کہ دوران جنگ میں ملنے والے تمام اموال اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں ان کے متعلق جو فیصلہ ہوگا۔ وہ سب کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ پھر اس کی تفصیل نازل ہوئی، کہ مال غنیمت کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے قرابت داروں،مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے۔(الانفال:8/41)دراصل میدان جنگ میں حاصل ہونے والے مال کی چند قسمیں حسب ذیل ہیں۔1۔مال غنیمت:۔مجاہدین کے قتال کے بعد کفار کی شکست کی صورت میں وہاں سے جو مال حاصل ہو اسے مال غنیمت کہا جاتا ہے۔ یہ پہلی امتوں پر حرام تھا بلکہ آسمان سے آگ آکر اسے جلا دیتی تھی مگر اس امت پر اسے حلال کردیا گیا۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق ایسے مال کے پانچ حصے ہوں گے، جن میں سے چار مجاہدین میں تقسیم ہوں گے اور ایک حصہ اللہ اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرابت داروں ، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے جو بیت المال میں جائے گا۔2۔مال فے:۔اس میں ہر وہ مال شامل ہے جو مسلمانوں کو لڑے ے بغیر مل جائے۔اس کے متعلق قرآنی فیصلہ یہ ہے کہ وہ سارے کا سارا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے۔(اور آپ کے بعد شرعی حاکم کے لیے ہے)اور وہ اپنی صوابدید کے مطابق اسے خرچ کرنے کے مجاز ہیں۔3۔مال سلب:۔ اس سے مراد وہ مال ہے جو ایک مجاہد مقتول دشمن کے جسم سے اتارتا ہے۔ اس کے متعلق شرعی فیصلہ ہے کہ وہ قاتل مجاہد کو دیا جائے لیکن حاکم وقت صوابدیدی اختیاربد ستور باقی رہتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر میں ابوجہل کے سازوسامان کے متعلق موقف اختیار کیا تھا۔4۔ایسی اشیاء جن کا تعلق غذا سے ہو یا ایسی چیز یں جو عموماً غذا کا فائدہ دیتی ہوں۔اسی طرح جانوروں کی گھاس وغیرہ ایسی تمام اشیاء کو تقسیم سے پہلے ہی استعمال کرنے کی اجازت ہوتی ہے ۔ اس میں حاکم وقت سے اجازت لینا ضروری نہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت ایسی احادیث جمع کی ہیں جن کا تعلق مال غنیمت کے خمس سے ہے۔مال غنیمت کے متعلق اس امر پر اتفاق ہے کہ اس کے چار حصے مجاہدین کے لیے ہیں۔ اس سےدو حصے گھوڑے کے لیے اور ایک حصہ مجاہد کے لیے مختص ہوتا ہے۔ اگر کسی کے پاس گھوڑا نہ ہو تو وہ صرف ایک حصے کا حق دار ہے۔ واضح رہے کہ چار حصے ان مجاہدین میں تقسیم کیے جاتے جو جنگ میں شریک ہوتے۔ باقی پانچواں حصہ یعنی خمس کے لیے قرآن کریم نے چھ مصرف بیان کیے ہیں ان میں اللہ کا ذکر تو بطور تبرک ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو حصہ ہے وہ آپ کی گھریلو ضروریات کے لیے مقرر ہوا ۔آپ کی خانگی ضروریات سے جو بچتا اسے جہاد کی ضروریات میں صرف کردیا جاتا۔آپ کی وفات کے بعد یہ مصرف ختم ہوگیا۔ اس خمس کا ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں ، یعنی بنو ہاشم کے لیے تھا۔ آپ کی وفات کے بعد ان کا حصہ بھی ختم ہو گیا۔ اب تین مصرف باقی ہیں۔یعنی یتیموں مسکینوں اور مسافروں کی ضروریات کو پورا کرنا۔ حاکم وقت کو ان کے متعلق بھی اختیار کہ جسے چاہے دے سکتا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی موقف کو اختیار کرکے امام مالک کی تائید کی ہے اور اس کے لیے چار حسب ذیل عنوان قائم کیے ہیں۔1۔پانچواں حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مساکین کی ضروریات پورا کرنے کے لیے ہے۔2۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مالک نہیں بلکہ آپ کو صرف تقسیم کرنے کا اختیار تھا۔3۔خمس مسلمانوں کی ضروریات کے لیے ہے۔4۔خمس حاکم وقت کے لیے ہے۔ان سب عنوانات کا ایک ہی مقصد ہے کہ حاکم وقت اپنی صوابدید کے مطابق خرچ کرنے کا مجاز ہے اس خمس کا مالک نہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خمس کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیےپینسٹھ(65)متصل احادیث بیان کی ہیں۔اور ان پر بیس(20) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن کی تفصیل آئندہ بیان ہو گی۔ایک اہم مسئلہ جس کی طرف توجہ دینا ضروری ہے کہ دور نبوی میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین رضا کارانہ طور پر اسے فریضہ سمجھ کر جہاد پر جاتے اور جنگ میں شریک ہو تے تھے اس سلسلے میں سواری اور ہتھیاروں کا اہتمام بھی خود کرتے تھے بلکہ بعض اوقات ذاتی خدمت کے لیے اپنے خرچے پر مزدورساتھ لے جاتے۔ ان خدمات کے عوض ان مجاہدین کو مال غنیمت سے حصہ ملتا تھا مگر دور حاضر میں فوج کا محکمہ ہی الگ ہے۔ اس محکمے میں شامل فوجی باقاعدہ تنخواہ دار ہوتے ہیں۔ ایام جنگ کے علاوہ بھی انھیں تنخواہ ملتی رہتی ہے۔ان کے لیے اسلحہ اور سواری کا اہتمام بھی حکومت کے ذمے ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں عام مسلمانوں پر جہاد کی فرضیت ساقط ہے اور تنخواہ دار ہونے کی وجہ سے ان فوجی اور مجاہدین میں مال غنیمت کی تقسیم کا قصہ بھی ختم ہوا۔امیر جیش یعنی چیف کمانڈر حصہ بھی ختم ہوا کیونکہ وہ بھی سر کاری خزانے سے بھاری تنخواہ وصول کرتا ہے فقراء کی ضرورتوں کو پورا کرنا ویسے ہی اسلامی حکومت کا فریضہ ہوتا ہے۔ ان مسائل میں اجتہاد کی ضرورت ہے کہ موجودہ دور میں ان شرعی نصوص کا انطباق کیسے ہو؟ ضرورت ہے کہ ان جیسے بیسیوں مسائل کے لیے اہل علم پر مشتمل ایک مجلس شوریٰ کا اہتمام کیا جائے۔ کاش کہ مسلک حقہ کی علمبردار جماعت اہل حدیث اس طرف توجہ دے اور جدید مسائل کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے وقت کی ضرورت کے پیش نظر خمس اور جزیے وغیرہ کے متعلق الگ الگ دو بڑے عنوان قائم کیے ہیں۔ حالانکہ ان کا تعلق جہاد ہی سے ہے۔چونکہ خمس اور جزیے کے مسائل کی بہت سی قسمیں ہیں جو تشریح و تفصیل کا تقاضا کرتی ہیں۔ اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی افادیت و اہمیت کے پیش نظر انھیں الگ عنوان کے تحت بیان کیا ہے۔ قارئین سے استدعا ہے کہ وہ ہماری تشریحات کو مد نظر رکھتے ہوئے پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دینی معاملات میں بصیرت عطا فرمائےپھر ان پر عمل کی توفیق دے۔آمین یا رب العالمین ۔
تمہید باب
الجمہور علی جواز اخذ الغائمین من القوت و مایصلح به وکل طعام یعتاد اکله عموماً و کذالک علف الدواب سواءکان قبل القسمة او بعدها باذن الامام و بغیر اذنه ( فتح الباری ) یعنی جمہور کا یہی فتویٰ ہے کہ کھانے پینے کی چیزوں کو غنیمت پانے والے قبل از تقسیم لے اور کھا سکتے ہیں۔ اسی طرح چارا ہے، اسے بھی اپنے جانوروں کو اسی طرح کھلا پلا سکتے ہیں۔
حضرت ابن ابی اوفیٰ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ہمیں خیبر کی راتوں میں فاقوں پر فاقے ہونے لگے۔ آخر جس دن خیبر فتح ہوا تو گھریلو گدھے بھی (بطورغنیمت) ملے، چنانچہ ہم نے انھیں ذبح کرکے پکانا شروع کردیا۔ جب ہانڈیوں میں جوش آنے لگا تو رسول اللہ ﷺ کے منادی نے اعلان کیا کہ ہانڈیوں کو الٹ دو اور گدھوں کے گوشت سے کچھ نہ کھاؤ۔ عبداللہ بن ابی اوفیٰ ؓ نے کہا کہ ہمارےخیال کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے اس لیے منع فرمایا کہ ان سے ابھی خمس نہیں نکالا گیا تھا۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ نبی کریم ﷺ نے قطعی طور پر گدھوں کا گوشت حرام قرار دیا ہے۔ راوی حدیث کہتے ہیں کہ میں نےسعید بن جبیر سے پوچھا تو انھوں نے کہا: آپ ﷺ نے قطعی طور پر اسے حرام کردیاتھا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مجاہدین کو مال غنیمت سے بقدر ضرورت کھانے پینے کی اجازت ہے البتہ گدھوں کے گوشت سے تو ان کی حرمت کی وجہ سے منع فرمایا۔ اس لیے نہیں کہ گوشت کے لیے قبل از وقت اجازت نہیں لی گئی تھی۔ 2۔ راوی نے حضرت سعید بن جبیر ؓسے اس لیے پوچھا کہ وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خاص شاگرد تھے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے گدھے کے گوشت کی حلت مروی ہے لیکن سعید بن جبیر ؓ کو دیگرصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے اس کی حرمت کے متعلق تحقیق ہو گئی تھی اس لیے انھوں نے یقین کے ساتھ اس کی حرمت کا فتوی دیا۔ اب اس کی حرمت میں کسی کو اختلاف نہیں بلکہ تمام اہل علم اس کی تحریم پر متفق ہیں۔ 3۔ جن اشیاء کا تعلق غذا سے ہے یا جو چیزیں عادت کے طور پر غذا کا فائدہ دیتی ہیں۔ اسی طرح جانوروں کا گھاس اور چاره وغیرہ ان تمام اشیاء کا تقسیم سے پہلے امام وقت کی اجازت کے بغیر لینا جائز ہے جبکہ مقصود ذخیرہ اندوزیاور مالیت بنانا نہ ہو۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، ان سے شیبانی نے بیان کیا، کہا میں نے ابن ابی اوفیٰ ؓ سے سنا، آپ بیان کرتے تھے کہ جنگ خیبر کے موقع پر فاقوں پر فاقے ہونے لگے۔ آخر جس دن خیبر فتح ہوا ت(مال غنیمت میں) گھریلو گدھے بھی ہمیں ملے۔ چنانچہ انہیں ذبح کرکے (پکانا شروع کردیا گیا) جب ہانڈیوں میں جوش آنے لگا تو رسول اللہ ﷺ کے منادی نے اعلان کیا کہ ہانڈیوں کو الٹ دو اور گھریلو گدھے کے گوشت میں سے کچھ نہ کھاو۔ عبداللہ بن ابی اوفیٰ ؓ نے بیان کیا کہ بعض لوگوں نے اس پر کہا کہ غالباً آنحضرت ﷺ نے اس لیے روک دیا ہے کہ ابھی تک اس میں سے خمس نہیں نکالا گیا تھا۔ لیکن بعض دوسرے صحابہ نے کہا کہ آنحضرت ﷺ نے گدھے کا گوشت قطعی طور پر حرام قرار دیا ہے۔ (شیبانی نے بیان کیا کہ) میں نے سعید بن جبیر ؓ سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ آنحضرت ﷺ نے اسے قطعی طور پر حرام کر دیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abi Aufa (RA): We were afflicted with hunger during the besiege of Khaibar, and when it was the day of (the battle of) Khaibar, we slaughtered the donkeys and when the pots got boiling (with their meat). Allah's Apostle (ﷺ) made an announcement that all the pots should be upset and that nobody should eat anything of the meat of the donkeys. We thought that the Prophet (ﷺ) prohibited that because the Khumus had not been taken out of the booty (i.e. donkeys); other people said, "He prohibited eating them for ever." The sub-narrator added, "I asked Said bin Jubair (RA) who said, 'He has made the eating of donkeys' meat illegal for ever.")