باب : آنحضرت ﷺ نے جن کافروں کو امان دی ( اپنے ذمہ میں لیا ) ان کے امان کو قائم رکھنے کی وصیت کرنا
)
Sahi-Bukhari:
Jizyah and Mawaada'ah
(Chapter: The advice to take care of non-Muslims who have a covenant of Allah's Messenger saws)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
ذمہ کہتے ہیں عہد اور اقرار کو ، اور ” ال ‘ ‘ کا لفظ جو قرآن میں آیا ہے اس کے معنے رشتہ داری کے ہیں ۔
3162.
حضرت جویریہ بن قدامہ تمیمی سے روایت ہے کہ ہم نے حضرت عمر ؓ سے عرض کیا: امیر المومنین! آپ ہمیں کوئی وصیت کریں تو انھوں نے فرمایا: میں تمھیں اللہ کے عہد کی وصیت کرتا ہوں (کہ اس کو پورا کرو) کیونکہ وہ تمہارے نبی کا عہد اورتمہارے بال بچوں کا رزق ہے۔
تشریح:
اہل ذمہ سے ان کی حفاظت کے عوض جوجزیہ حاصل ہوتا ہے، وہ مسلمانوں میں تقسیم ہوتا ہے اور ان کی ضروریات پر صرف ہوتا ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺنے اہل ذمہ سے جو عہد و پیمان کیا تھا اسے خوش اسلوبی سے پوراکرنا ضروری تھا۔ ایک روایت میں ہے:’’انھیں ان کی ہمت سے زیادہ تکلیف نہ دو۔‘‘ (صحیح البخاري، الجنائز ، حدیث:1392) اس روایت کا تقاضا ہے کہ اہل ذمہ سے جزیہ اتنا ہی وصول کیا جائے جس کی وہ طاقت رکھتے ہوں۔ (فتح الباري:322/6)
مشرکین کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:(لَا يَرْقُبُونَ فِي مُؤْمِنٍ إِلًّا وَلَا ذِمَّةً)"وہ کسی مومن کے معاملے میں کسی قرابت کا لحاظ رکھتے ہیں نہ کسی عہد کا پاس کرتے ہیں۔"(التوبہ 9/10)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کریمہ میں آنے والے دولفظوں کی لغوی تشریح کی ہے یعنی آپ اس امر کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ اہل ذمہ کو ذمی اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے عہد اور امان میں داخل ہوجاتے ہیں۔
ذمہ کہتے ہیں عہد اور اقرار کو ، اور ” ال ‘ ‘ کا لفظ جو قرآن میں آیا ہے اس کے معنے رشتہ داری کے ہیں ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت جویریہ بن قدامہ تمیمی سے روایت ہے کہ ہم نے حضرت عمر ؓ سے عرض کیا: امیر المومنین! آپ ہمیں کوئی وصیت کریں تو انھوں نے فرمایا: میں تمھیں اللہ کے عہد کی وصیت کرتا ہوں (کہ اس کو پورا کرو) کیونکہ وہ تمہارے نبی کا عہد اورتمہارے بال بچوں کا رزق ہے۔
حدیث حاشیہ:
اہل ذمہ سے ان کی حفاظت کے عوض جوجزیہ حاصل ہوتا ہے، وہ مسلمانوں میں تقسیم ہوتا ہے اور ان کی ضروریات پر صرف ہوتا ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺنے اہل ذمہ سے جو عہد و پیمان کیا تھا اسے خوش اسلوبی سے پوراکرنا ضروری تھا۔ ایک روایت میں ہے:’’انھیں ان کی ہمت سے زیادہ تکلیف نہ دو۔‘‘ (صحیح البخاري، الجنائز ، حدیث:1392) اس روایت کا تقاضا ہے کہ اہل ذمہ سے جزیہ اتنا ہی وصول کیا جائے جس کی وہ طاقت رکھتے ہوں۔ (فتح الباري:322/6)
ترجمۃ الباب:
ذمة, کے معنی عہد اورال کے معنی قرابت کے ہیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوجمرہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے جویریہ بن قدامہ تمیمی سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عمر بن خطاب ؓ سے سنا تھا، (جب وہ زخمی ہوئے) آپ سے ہم نے عرض کیا تھا کہ ہمیں کوئی وصیت کیجئے! تو آپ نے فرمایا کہ میں تمہیں اللہ تعالیٰ کے عہد کی (جو تم نے ذمیوں سے کیا ہے) وصیت کرتا ہوں (کہ اس کی حفاظت میں کوتاہی نہ کرنا) کیوں کہ وہ تمہارے نبی کا ذمہ ہے اور تمہارے گھر والوں کی روزی ہے (کہ جزیہ کے روپیہ سے تمہارے بال بچوں کی گزران ہوتی ہے)۔
حدیث حاشیہ:
امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروق ؓ کی یہ وہ عالی شان وصیت ہے جس پر اسلام ہمیشہ نازاں رہے گا۔ اس سے ظاہر ہے کہ اسلامی جہاد کا منشاء غیرمسلم اقوام کو مٹانا یا ستانا ہرگز نہیں ہے۔ پھر بھی کچھ متعصب لوگوں نے جہاد کے سلسلہ میں اسلام کو ہدف ملامت بنایا ہے۔ جن کے جواب میں خطیب الاسلام حضرت مولانا عبدالرؤف صاحب جھنڈانگری ناظم جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر نيپال نے ایک تفصیلی مقالہ مرحمت فرمایا ہے۔ جسے ہم مولانا کے شکریہ کے ساتھ یہاں درج کرتے ہیں۔ جس کے مطالعہ سے ناظرین بخاری شریف کی معلومات میں بیش از بیش اضافہ ہوگا۔ مولانا تحریر فرماتے ہیں۔ ’’جہاد کے مفہوم سے بے خبری پر اہل یوروپ مستشرقین یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جہاد غیرمسلموں کو زبردستی مسلمان بنانے کا نام ہے۔ اگرچہ ان غیرمسلموں نے مسلمانوں پر کوئی زیادتی اور ان کے ساتھ کوئی دشمنی نہ کی ہو، لیکن اہل یوروپ سراسر کذب و افتراءسے کام لیتے ہیں۔ کیوں کہ ادنیٰ تامل سے یہ اعتراض غلط اور باطل ثابت ہوجاتا ہے۔ سورۃ انفال و سورۃ بقرہ میں یہ تفصیل موجود ہے۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دین کے اندر زبردستی نہیں ہے۔ اصل میں قرآن کریم میں کفار و مشرکین اور یہود و نصاریٰ کے ساتھ جنگ و قتال کی جو آیات ہیں ان سے ناواقفوں کو سرسری مطالعہ سے یہ غلط فہمی پیدا ہوتی ہے کہ اسلام تمام مذاہب کا دشمن ہے، مگر یہ غلط فہمی ان آیات کے پس منظر سے ناواقفیت کے سبب پیدا ہوگئی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ غیرمسلموں کی دو قسمیں ہے، ایک وہ جو اسلام اور مسلمانوں کے معاند اور ان کے دشمن ہیں، دوسرے وہ جن کو مسلمانوں سے کوئی مخاصمت اور دشمنی نہیں ہے ان دونوں کے لیے احکام جدا جدا ہیں۔ جو غیرمسلم مسلمانوں کے دشمن اور درپے آزار نہیں ہیں ان کا حکم جدا ہے۔ ان کے ساتھ دنیاوی تعلقات اور حسن سلوک کی ممانعت نہیں ہے۔ ارشاد ہے۔ ﴿لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ (8) إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ﴾(الممتحنة:8,9)”یعنی جو لوگ تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کرتے اور جنہوں نے تم کو تمہارے گھروں سے نہیں نکالا، ان کے ساتھ احسان و سلوک اور عدل و انصاف کا برتاؤ کرنے سے اللہ تم کو منع نہیں کرتا۔ اللہ تو صرف انہی لوگوں سے دوستی کرنے سے منع کرتا ہے جو دین کے بارے میں تم سے لڑے اور جنہوں نے تم کو تمہارے گھروں سے نکالا۔ اور تمہارے نکالنے میں مخالفوں کی مدد کی، جو ایسے لوگوں سے دوستی رکھے گا، وہ ظالموں میں سے ہوگا۔“ اور جو غیرمسلم مسلمانوں سے عداوت رکھتے ہیں اور ان کو مٹانے، جلانے اور برباد کرنے کے درپے رہتے ہیں ان سے دوستی قطعاً حرام ہے اور ان کے قتل کے جواب میں قتل و قتال کے احکام موجود ہیں۔ لیکن ایسی جنگ میں بھی ظلم و زیادتی کی ممانعت موجود ہے۔ ارشاد ہے۔ ﴿وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ﴾اور جو تم سے لڑیں تم بھی اللہ کے راستے میں ان سے لڑو، مگر کسی قسم کی زیادتی نہ کرو، اللہ زیادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے جہاد کے متعلق جو تفصیل لکھی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ دشمن سے جہاد تلوار، اسلحہ کے ذریعہ صرف اسی وقت ضروری ہے جبکہ مسلمانوں پر کفار زیادتی و دشمنی کا کھلم کھلا رویہ اختیار کئے ہوئے ہوں۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے "مجموعہ رسائل تحت قتال الکفار'' میں صراحت کی ہے کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے لااکراہ فی الدین دین میں زبردستی نہیں ہے۔ فلوکان الکافر یقتل حتیٰ یسلم لکان هذا أعظم الإِکراہ علی الدین۔ پس اگر مسئلہ شرعی یہ ہو کہ جب کافر مسلمان نہ ہو تو اس کو قتل کردیا جائے تو مذہب پر جبر و اکراہ کی اس سے بڑی شکل اور کیا ہے؟ اسلام کا مقصد محض کافروں کو قتل کرڈالنا اور ان کے اموال و جائیداد کو حاصل کرلینا نہیں ہے بلکہ جہاد کا مطلب استیلاءاسلام ہے جو دین حق ہے اور دراصل حقیقتاً دین و دنیا کا اعتدال و توازن اسلام کے نظام میں مضمر ہے۔ اس کو تمام عالم میں عام کرنا مقصود ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے ﴿الَّذِينَ آمَنُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُوا أَوْلِيَاءَ الشَّيْطَانِ إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا اسی معنی میں دوسری جگہ ارشاد ہے وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ فَإِنِ انْتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ﴾(البقرة:193) یعنی اور ان سے جہاد کرو، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہ جائے (اور دین اللہ ہی کا ہوجائے) پس اگر وہ باز آجائیں، تو پھر زیادتی نہیں کرنا ہے مگر ظالموں پر۔ اگر اسلام کا مقصد محض قتال کفار ہوتا تو پھر عورتوں، بچوں، بوڑھوں، معذوروں اور گوشہ گیر فقیروں کو قتال کے حکم سے کیوں مستثنیٰ کیا جاتا؟ کیوں کہ علت کفر تو سب میں مشترک ہے۔ حالانکہ حضور اکرم ﷺ کا فرمان حضرت جابرؓ سے اسی طرح مروی ہے کہ «لَا تَقْتُلُوا ذُرِّيَّةً وَلَا عَسِيفًا ولاشیخا فانیا ولاطفلا صغیراً ولا امراة»یعنی چھوٹے بچوں، بیگار میں پکڑے ہوئے مزدوروں، کمزوروں اور بڈھوں، نابالغ لڑکوں اور عورتوں کو قتل نہ کرو۔(السیاسة الشرعیة، ص: 51۔ و مؤطا معه مسویٰ، جلد ثانی، ص:132) اسی طرح امیرالمؤمنین حضرت ابوبکرص نے امیر لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ سے فرمایاتھا کہ دیکھو خیانت نہ کرنا، فریب نہ کرنا اور دشمن کا ہاتھ پاؤں مت کاٹنا، چھوٹے بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو قتل نہ کرنا اور ان لوگوں کو کچھ نہ کہنا جنہوں نے اپنی زندگی عبادت گاہوں، گرجاگھروں میں وقف کردی ہے۔ (صدیق اکبر مؤلفہ مولانا سعید احمد اکبرآبادی، بحوالہ طبری، ص329) شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ اگر کفرکا اقتدار وجہ فتنہ بن جائے تو فتنہ کو ختم کرنے کے لیے قتال ضروری ہے ورنہ نہیں۔ فرماتے ہیں۔ فمن لم یمنع المسلمین من اقامۃ الدین الاسلام لم یکن مضرۃ کفرہ الاعلی نفسہ(السیاسة الشرعیة ابن تیمیة، ص:59) جزیہ بھی اسلام کے اقتدار و بالادستی کو تسلیم کرنے کی غرض سے ہے، ورنہ محض تحصیل خراج و جزیہ اسلام کا ہرگز مقصد نہ تھا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے خراسان کے عامل جراح بن عبداللہ کو اس لیے معطل کردیا کہ انہوں نے جزیہ کو کم دیکھ کر نومسلموں سے کہا کہ تم لوگ اس لیے اسلام لے آئے ہو کہ جزیہ سے بچ جاؤ۔ یہ بات حضرت عمر بن عبدالعزیز تک پہنچی تو عامل کو معزول کرتے ہوئے ایک سنہرا مقولہ تحریر فرمایا کہ ’’حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں دعوت حق کے لیے بھیجے گئے تھے۔ آپ خراج و جزیہ کے محصل بناکر نہیں بھیجے گئے تھے ۔‘‘ (البدایة والنهایة، جلد تاسع، ص188) ’’بہرحال اسلام کا مقصد حصول اقتدار و استیلاءصرف اس لیے ہے تاکہ دین و دنیا میں اعتدال و توازن اور امن و امان قائم رہے اور نظام اسلام کے ذریعہ اقوام عالم کو سکون قلب اور امن و استقلال کے ساتھ زندگی گزارنے کے مواقع حاصل ہوں۔‘‘
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Juwairiya bin Qudama At-Tamimi (RA): We said to 'Umar bin Al-Khattab (RA), Jo Chief of the believers! Advise us." He said, "I advise you to fulfill Allah's Convention (made with the Dhimmis) as it is the convention of your Prophet (ﷺ) and the source of the livelihood of your dependents (i.e. the taxes from the Dhimmis.) "