Sahi-Bukhari:
Jizyah and Mawaada'ah
(Chapter: The expelling of the Jews from the Arabian Peninsula)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور حضرت عمر ؓنے کہا کہ نبی کریمﷺ نے ( خیبر کے یہودیوں سے ) فرمایا کہ میں تمہیں اس وقت تک یہاں رہنے دوں گا جب تک اللہ تم کو یہاں رکھے ۔
3168.
حضرت سعید بن جبیر سے روایت ہے، انھوں نے حضرت ابن عباس ؓ کو یہ کہتے سنا: جمعرات کا دن، آہ جمعرات کا دن کیسا (ہیبت ناک ) تھا پھر ر وپڑے یہاں تک کہ آپ نے آنسوؤں سے کنکریاں ترکردیں۔ میں نے عرض کیا: ابن عباس ؓ! جمعرات کا دن کیساتھا؟ فرمایا: رسول اللہ ﷺ کی بیماری سنگین ہوگئی تو آپ نے فرمایا: ’’میرے پاس شانے کی کوئی ہڈی لاؤ میں تمہارے لیے کچھ تحریر کردوں کہ اس کے بعد تم کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔‘‘ اس کے بعدلوگ باہم جھگڑنے لگے، حالانکہ نبی کریم ﷺ کے پاس جھگڑنا نہیں چاہیے تھا۔ لوگوں نے کہا: آپ کو کیاہوگیا ہے؟ کیا آپ دنیا سے ہجرت فرمارہے ہیں؟ اچھی طرح آپ کی بات سمجھو۔ آپ نے فرمایا: ’’تم مجھے چھوڑ دو، میں جس حال میں ہوں وہ اس حال سے اچھا ہے جس کی طرف تم مجھے بلارہے ہو۔‘‘ پھر آپ نے انھیں تین امور کا حکم دیا۔ آپ نے فرمایا: ’’مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دو۔ اور دوسرے ممالک سے آنے والے وفد کو عطایا دو، جیسے میں انھیں عطا یاد کیا کرتا تھا۔‘‘ تیسری بات سے آپ نے سکوت فرمایا یا آپ نے بیان کی لیکن میں بھول گیا۔ سفیان فرماتے ہیں کہ یہ آخری مقولہ سلیمان راوی کاہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ طیبہ ہی میں یہودیوں کو جلاوطن کرنے کی نیت کرلی تھی مگرآپ کی وفات ہوگئی۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی خلافت میں ان کی مسلسل غداریوں اور سازشوں کی وجہ سے انھیں وہاں سے نکال دیا۔
اور حضرت عمر ؓنے کہا کہ نبی کریمﷺ نے ( خیبر کے یہودیوں سے ) فرمایا کہ میں تمہیں اس وقت تک یہاں رہنے دوں گا جب تک اللہ تم کو یہاں رکھے ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت سعید بن جبیر سے روایت ہے، انھوں نے حضرت ابن عباس ؓ کو یہ کہتے سنا: جمعرات کا دن، آہ جمعرات کا دن کیسا (ہیبت ناک ) تھا پھر ر وپڑے یہاں تک کہ آپ نے آنسوؤں سے کنکریاں ترکردیں۔ میں نے عرض کیا: ابن عباس ؓ! جمعرات کا دن کیساتھا؟ فرمایا: رسول اللہ ﷺ کی بیماری سنگین ہوگئی تو آپ نے فرمایا: ’’میرے پاس شانے کی کوئی ہڈی لاؤ میں تمہارے لیے کچھ تحریر کردوں کہ اس کے بعد تم کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔‘‘ اس کے بعدلوگ باہم جھگڑنے لگے، حالانکہ نبی کریم ﷺ کے پاس جھگڑنا نہیں چاہیے تھا۔ لوگوں نے کہا: آپ کو کیاہوگیا ہے؟ کیا آپ دنیا سے ہجرت فرمارہے ہیں؟ اچھی طرح آپ کی بات سمجھو۔ آپ نے فرمایا: ’’تم مجھے چھوڑ دو، میں جس حال میں ہوں وہ اس حال سے اچھا ہے جس کی طرف تم مجھے بلارہے ہو۔‘‘ پھر آپ نے انھیں تین امور کا حکم دیا۔ آپ نے فرمایا: ’’مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دو۔ اور دوسرے ممالک سے آنے والے وفد کو عطایا دو، جیسے میں انھیں عطا یاد کیا کرتا تھا۔‘‘ تیسری بات سے آپ نے سکوت فرمایا یا آپ نے بیان کی لیکن میں بھول گیا۔ سفیان فرماتے ہیں کہ یہ آخری مقولہ سلیمان راوی کاہے۔
حضر ت عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا: "میں تمھیں اس وقت تک رہنے دو ں گا جب تک تمھیں اللہ رکھے گا۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، ان سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے سلیمان احول نے، انہوں نے سعید بن جبیر سے سنا اور انہوں نے ابن عباس ؓ سے سنا آپ نے جمعرات کے دن کا ذکر کرتے ہوئے کہا، تمہیں معلوم ہے کہ جمعرات کا دن، ہائے! یہ کون سا دن ہے؟ اس کے بعد وہ اتنا روئے کہ ان کے آنسووں سے کنکریاں تر ہوگئیں۔ سعید نے کہا میں نے عرض کیا، یا ابوعباس! جمعرات کے دن سے کیا مطلب ہے؟ انہوں نے کہا کہ اسی دن رسول اللہ ﷺ کی تکلیف (مرض الموت) میں شدت پیدا ہوئی تھی اور آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ مجھے (لکھنے کا) ایک کاغذ دے دو تاکہ میں تمہارے لیے ایک ایسی کتاب لکھ جاوں، جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو۔ اس پر لوگوں کا اختلاف ہوگیا۔ پھر آنحضرت ﷺ نے خود ہی فرمایا کہ نبی کی موجودگی میں جھگڑنا غیر مناسب ہے، دوسرے لوگ کہنے لگے، بھلا کیا آنحضرت ﷺ بے کار باتیں فرمائیں گے اچھا، پھر پوچھ لو، یہ سن کر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مجھے میری حالت پر چھوڑ دو، کیوں کہ اس وقت میں جس عالم میں ہوں، وہ اس سے بہتر ہے جس کی طرف تم مجھے بلا رہے ہو۔ اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے تین باتوں کا حکم فرمایا، کہ مشرکوں کو جزیرہ عرب سے نکال دینا اور وفود کے ساتھ اسی طرح خاطر تواضع کا معاملہ کرنا، جس طرح میں کیا کرتا تھا۔ تیسری بات کچھ بھلی سی تھی، یا تو سعید نے اس کو بیان نہ کیا، یا میں بھول گیا۔ سفیان نے کہا یہ جملہ (تیسری بات کچھ بھلی سی تھی) سلیمان احول کا کلام ہے۔ اور یہ تھی کہ اسامہ کا لشکر تیار کردینا، یا نماز کی حفاظت کرنا، یا لونڈی غلاموں سے اچھا سلوک کرنا۔
حدیث حاشیہ:
اهجرالهمزة للاستفهام الإنکاري لأن معنی هجر هذي وإنما جاء من قائله استفها ما للإنکار علی من قال لاتکتبوا أي تترکوا أمر رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم ولا تجعلوہ کأمر من هجر في کلامه لانه صلی اللہ علیه وسلم لایهجر الخ کذا في الطیبي۔یعنی یہاں ہمزہ استفہام انکار کے لیے ہے۔ جس کا مطلب یہ کہ جن لوگوں نے کہا تھا کہ حضور ﷺ کو اب لکھوانے کی تکلیف نہ دو، ان سے کہا گیا کہ حضور ﷺ کو ہذیان نہیں ہوگیا ہے اس لیے آپ ﷺ کو ہذیان والے پر قیاس کرکے ترک نہ کرو۔ آپ سے ہذیان ہو یہ ناممکن ہے۔ اس سلسلہ کی تفصیلی بحث اسی پارہ میں گزرچکی ہے۔ کتاب لکھے جانے پر صحابہ کا احتلاف اس وجہ سے ہوا تھا کہ بعض صحابہ نے کہا کہ آنحضرت کو اس شدت تکلیف میں مزید تکلیف نہ دینی چاہئے۔ بعد میں خود آنحضرت ﷺخاموش ہوگئے۔ جس کا مطلب یہ کہ اگر لکھوانا فرض ہوتا تو آپ کسی کے کہنے سے یہ فرض ترک نہ کرتے، فقط برائے مصلحت ایک بات ذہن میں آئی تھی، بعد میں آپ نے خود اسے ضروری نہیں سمجھا۔ منقول ہے کہ آپ خلافت صدیقی کے بارے میں قطعی فیصلہ لکھ کر جانا چاہتے تھے تاکہ بعد میں اختلاف نہ ہو۔ اسی لیے آپ ﷺنے خود اپنے مرض الموت میں حضرت صدیق اکبر ؓ کے حوالے منبر و محراب فرما دیا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Said bin Jubair (RA): that he heard Ibn 'Abbas (RA) saying, "Thursday! And you know not what Thursday is? After that Ibn 'Abbas (RA) wept till the stones on the ground were soaked with his tears. On that I asked Ibn 'Abbas (RA), "What is (about) Thursday?" He said, "When the condition (i.e. health) of Allah's Apostle (ﷺ) deteriorated, he said, 'Bring me a bone of scapula, so that I may write something for you after which you will never go astray.'The people differed in their opinions although it was improper to differ in front of a prophet, They said, 'What is wrong with him? Do you think he is delirious? Ask him (to understand). The Prophet (ﷺ) replied, 'Leave me as I am in a better state than what you are asking me to do.' Then the Prophet (ﷺ) ordered them to do three things saying, 'Turn out all the pagans from the Arabian Peninsula, show respect to all foreign delegates by giving them gifts as I used to do.' " The sub-narrator added, "The third order was something beneficial which either Ibn 'Abbas (RA) did not mention or he mentioned but I forgot.'