باب : مشرکوں سے مال وغیرہ پرصلح کرنا ، لڑائی چھوڑ دینا ، اور جو کوئی عہد پورا نہ کرے اس کا گناہ
)
Sahi-Bukhari:
Jizyah and Mawaada'ah
(Chapter: Making peace with Al-Mushrikun and the reconciliation with them)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ( سورہ انفال میں ) اللہ کا یہ فرمانا کہ ” اگر کافر صلح کی طرف جھکیں تو تو بھی صلح کی طرف جھک جا ‘ ‘ اخیر آیت تک ۔
3173.
حضرت سہل بن ابی حثمہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود بن زید ؓخیبر کی طرف گئے جبکہ ان دنوں یہودیوں سے صلح تھی۔ وہاں پہنچ کر دونوں جداجدا ہوگئے، پھر جب محیصہؓحضرت عبداللہ بن سہل ؓ کے پاس آئے تو دیکھا کہ وہ ا پنے خون میں لت پت ہے، کسی نے ان کو قتل کرڈالا ہے۔ خیر محیصہ ؓ نے انھیں دفن کردیا۔ اسکے بعد وہ مدینہ طیبہ آئے تو عبدالرحمان بن سہل اور محیصہ، حویصہ جو مسعود کے بیٹے تھے نبی کریم ﷺ کے پاس گئے۔ عبدالرحمان نے بات کرنا چاہی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’بڑے کو بات کرنے دو۔‘‘ چونکہ وہ سب سے چھوٹے تھے، اس لیے خاموش ہو گئے۔ تب حویصہ اور محیصہ نے گفتگو کی۔ آپ نے فرمایا: ’’تم قسم اٹھا کر قاتل یا ا پنے ساتھی کے خون کا استحقاق ثابت کرو گے؟‘‘ انھوں نے عرض کیا: ہم کیونکر قسم اٹھا سکتے ہیں جبکہ ہم وہاں موجود نہ تھے اور نہ ہم نہ انھیں دیکھا ہی ہےآپ نے فرمایا: ’’پھر یہودی پچاس قسمیں اٹھا کر اپنی براءت کرلیں گے۔‘‘ انھوں نے عرض کیا: وہ تو کافر ہیں ہم ان کی قسموں کا کیسے اعتبار کریں، چنانچہ نبی کریم ﷺ نے خود اپنے پاس سے ان کی دیت ادا کردی۔
تشریح:
1۔ رسول اللہ ﷺنے اپنی طرف سے مقتول کے ورثاء کو خون بہادے کر خیبر کے یہودیوں سے صلح برقرار رکھی۔ اگرمال دے کسی مصلحت کی بنا پر سابقہ صلح کو برقرار رکھا جاسکتا ہے تو بوقت ضرورت مال دے کر کفار سے صلح بھی کی جاسکتی ہے۔ 2۔مشرکین وکفار کو مال دے کر صلح کرنے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ اس صلح میں مسلمانوں کے لیے بہتری ہو۔ اگراس کے برعکس کفار سے مال لے کر صلح کی جائے تووہ مال جزیے کے مصارف میں خرچ کیا جائے۔ امام بخاری ؒ نے اپنی عادت کے مطابق دیگرمقامات پر ذکر کردہ احادیث سے بدعہدی وغیرہ کی سنگینی کو ثابت کیا ہے۔ عنوان سے ان احادیث کی طرف اشارہ کیا ہے۔ 3۔ اس حدیث سے رسول اللہ ﷺکی امن پسندی، فراخدلی اور صلح جوئی ثابت ہوتی ہے، باوجود یہ کہ مقتول ایک مسلمان تھا جویہودیوں کے علاقے میں قتل ہوا مگررسول اللہﷺنے ان کی حرکت کو نظر انداز کردیا تاکہ امن کی فضا قائم رہے اور کوئی فساد نہ کھڑا ہوجائے۔ جب فریقین کی بات فیصلہ کن مراحل میں پہنچتی نظر نہ آئی تو آپ نے مقتول کے مسلمان ورثاء کو خود بیت المال سے دیت ادا کردی۔ واللہ أعلم۔
یہ آیت کریمہ مشرکین کے ساتھ صلح کی مشروعیت پر دلالت کرتی ہے۔جب صلح مسلمانوں کے حق میں بہتر ہوتو مال دےکر یا لے کرصلح کرنا درست ہے۔امام وقت دونوں صورتوں میں اختیار رکھتاہے۔اور صلح کے نتیجے میں جو مال حاصل ہوگا اسے جذیے کے مصارف میں خرچ کیا جائے گا۔جب مسلمانوں کے ہلاک ہونے یا قید ہونے کا خطرہ ہوتو مال دے کرصلح کرنے میں کوئی ذلت یا رسوائی نہیں بلکہ حکمت عملی کا یہی تقاضا ہے جیسا کہ مسلمان قیدی کو فدیہ دے کر چھڑانا جائز ہے۔
اور ( سورہ انفال میں ) اللہ کا یہ فرمانا کہ ” اگر کافر صلح کی طرف جھکیں تو تو بھی صلح کی طرف جھک جا ‘ ‘ اخیر آیت تک ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت سہل بن ابی حثمہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود بن زید ؓخیبر کی طرف گئے جبکہ ان دنوں یہودیوں سے صلح تھی۔ وہاں پہنچ کر دونوں جداجدا ہوگئے، پھر جب محیصہؓحضرت عبداللہ بن سہل ؓ کے پاس آئے تو دیکھا کہ وہ ا پنے خون میں لت پت ہے، کسی نے ان کو قتل کرڈالا ہے۔ خیر محیصہ ؓ نے انھیں دفن کردیا۔ اسکے بعد وہ مدینہ طیبہ آئے تو عبدالرحمان بن سہل اور محیصہ، حویصہ جو مسعود کے بیٹے تھے نبی کریم ﷺ کے پاس گئے۔ عبدالرحمان نے بات کرنا چاہی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’بڑے کو بات کرنے دو۔‘‘ چونکہ وہ سب سے چھوٹے تھے، اس لیے خاموش ہو گئے۔ تب حویصہ اور محیصہ نے گفتگو کی۔ آپ نے فرمایا: ’’تم قسم اٹھا کر قاتل یا ا پنے ساتھی کے خون کا استحقاق ثابت کرو گے؟‘‘ انھوں نے عرض کیا: ہم کیونکر قسم اٹھا سکتے ہیں جبکہ ہم وہاں موجود نہ تھے اور نہ ہم نہ انھیں دیکھا ہی ہےآپ نے فرمایا: ’’پھر یہودی پچاس قسمیں اٹھا کر اپنی براءت کرلیں گے۔‘‘ انھوں نے عرض کیا: وہ تو کافر ہیں ہم ان کی قسموں کا کیسے اعتبار کریں، چنانچہ نبی کریم ﷺ نے خود اپنے پاس سے ان کی دیت ادا کردی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ رسول اللہ ﷺنے اپنی طرف سے مقتول کے ورثاء کو خون بہادے کر خیبر کے یہودیوں سے صلح برقرار رکھی۔ اگرمال دے کسی مصلحت کی بنا پر سابقہ صلح کو برقرار رکھا جاسکتا ہے تو بوقت ضرورت مال دے کر کفار سے صلح بھی کی جاسکتی ہے۔ 2۔مشرکین وکفار کو مال دے کر صلح کرنے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ اس صلح میں مسلمانوں کے لیے بہتری ہو۔ اگراس کے برعکس کفار سے مال لے کر صلح کی جائے تووہ مال جزیے کے مصارف میں خرچ کیا جائے۔ امام بخاری ؒ نے اپنی عادت کے مطابق دیگرمقامات پر ذکر کردہ احادیث سے بدعہدی وغیرہ کی سنگینی کو ثابت کیا ہے۔ عنوان سے ان احادیث کی طرف اشارہ کیا ہے۔ 3۔ اس حدیث سے رسول اللہ ﷺکی امن پسندی، فراخدلی اور صلح جوئی ثابت ہوتی ہے، باوجود یہ کہ مقتول ایک مسلمان تھا جویہودیوں کے علاقے میں قتل ہوا مگررسول اللہﷺنے ان کی حرکت کو نظر انداز کردیا تاکہ امن کی فضا قائم رہے اور کوئی فساد نہ کھڑا ہوجائے۔ جب فریقین کی بات فیصلہ کن مراحل میں پہنچتی نظر نہ آئی تو آپ نے مقتول کے مسلمان ورثاء کو خود بیت المال سے دیت ادا کردی۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اگر وہ صلح کی طرف مائل ہوں تو آپ بھی اس کے لیے جھک جائیں۔ " جَنَحُوا " کے معنی ہیں: صلح کی درخواست کریں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے بشر بن مفضل نے، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید انصاری نے، ان سے بشیر بن یسار نے اور ان سے سہل بن ابی حثمہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود بن زید ؓ خیبر گئے۔ ان دنوں (خیبر کے یہودیوں سے مسلمانوں کی) صلح تھی۔ پھر دونوں حضرات (خیبرپہنچ کر اپنے اپنے کام کے لیے) جدا ہوگئے۔ اس کے بعد محیصہ ؓ عبداللہ بن سہل ؓ کے پاس آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ خون میں لوٹ رہے ہیں۔ کسی نے ان کو قتل کر ڈالا، خیر محیصہ ؓ نے عبداللہ ؓ کو دفن کر دیا۔ پھر مدینہ آئے، اس کے بعد عبدالرحمن بن سہل (عبداللہ ؓ کے بھائی) اور مسعود کے دونوں صاحبزادے محیصہ اور حویصہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، گفتگو عبدالرحمن ؓ نے شروع کی، تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا، کہ جو تم لوگوں میں عمر میں بڑے ہوں وہ بات کریں۔ عبدالرحمن سب سے کم عمر تھے، وہ چپ ہو گئے۔ اور محیصہ اور حویصہ نے بات شروع کی۔ آپ نے دریافت کیا، کیا تم لوگ اس پر قسم کھا سکتے ہو، کہ جس شخص کو تم قاتل کہہ رہے ہو اس پر تمہارا حق ثابت ہو سکے۔ ان لوگوں نے عرض کیا کہ ہم ایک ایسے معاملے میں کس طرح قسم کھا سکتے ہیں جس کو ہم نے خود اپنی آنکھوں سے نہ دیکھا ہو۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ پھر کیا یہود تمہارے دعوے سے اپنی برات اپنی طرف سے پچاس قس میں کھا کرکے کردیں؟ ان لوگوں نے عرض کیا کہ کفار کی قسموں کا ہم کس طرح اعتبار کر سکتے ہیں۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ نے خود اپنے پاس سے ان کو دیت ادا کردی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب اس سے نکلا کہ آنحضرت ﷺنے اپنے پاس سے دیت ادا کرکے خیبر کے یہودیوں سے صلح قائم رکھی، باب کا یہ ترجمہ جو کوئی عہد کو پورا نہ کرے اس کا گناہ حدیث سے نہیں نکلتا۔ شاید حضرت امام بخاری ؒ کو اس باب میں کوئی حدیث لکھنی منظور تھی اتفاق نہ ہوا یا اس مضمون کی حدیث ان کو ان کی شرط کے مطابق نہ ملی۔ قاتل پر حق ثابت ہونے سے مقتول کے آدمیوں کو دیت دینی ہوگی۔ وہ قاتل اگر قتل کا اقرار کرلے تو قصاص بھی لیا جاسکتاہے۔ یہ قسامت کی صورت ہے۔ اس میں مدعی سے پچاس قسمیں لی جاتی ہیں کہ میرا گمان فلاں شخص پر ہے کہ اسی نے مارا ہے۔ اس سے آنحضرت ﷺکی صلح جوئی، امن پسند پالیسی، فراخدلی بھی ثابت ہوئی، باوجودیکہ مقتول ایک مسلمان تھا جو یہود کے ماحول میں قتل ہوا، مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کی اس حرکت کو نظرانداز فرمادیا، تاکہ امن کی فضا قائم رہے۔ اور کوئی طویل فساد نہ کھڑا ہوجائے، آپ نے مسلمان مقتول کے وارثوں کو خود بیت المال سے دیت ادا فرمادی، ایسے واقعات سے ان لوگوں کو سبق لینا چاہئے جو اسلام کو بزور تلوار پھیلانے کا غلط پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ مذاہب کی دنیا میں صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو بنی نوع انسان کو زیادہ سے زیادہ امن دینے کا حامی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sahl bin Abi Hathma (RA): 'Abdullah bin Sahl and Muhaiyisa bin Mas'ud bin Zaid set out to Khaibar, the inhabitants of which had a peace treaty with the Muslims at that time. They parted and later on Muhaiyisa came upon 'Abdullah bin Sah! and found him murdered agitating in his blood. He buried him and returned to Medina. 'Abdur Rahman bin Sahl, Muhaiyisa and Huwaiuisa, the sons of Mas'ud came to the Prophet (ﷺ) and 'Abdur Rahman intended to talk, but the Prophet (ﷺ) said (to him), "Let the eldest of you speak." as 'Abdur-Rahman was the youngest:. 'Abdur-Rahman kept silent and the other two spoke. The Prophet (ﷺ) said, "If you swear as to who has committed the murder, you will have the right to take your right from the murderer." They said, "How should we swear if we did not witness the murder or see the murderer?" The Prophet (ﷺ) said, "Then the Jews can clear themselves from the charge by taking Alaska (an oath taken by men that it was not they who committed the murder)." The!y said, "How should we believe in the oaths of infidels?" So, the Prophet (ﷺ) himself paid the blood money (of 'Abdullah). (See Hadith No. 36 Vol. 9.)