موضوعات
قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی
صحيح البخاري: كِتَابُ الجِزْيَةِ (بَابُ المُصَالَحَةِ عَلَى ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ، أَوْ وَقْتٍ مَعْلُومٍ)
حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
3184 . حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ، حَدَّثَنَا شُرَيْحُ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يُوسُفَ بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي البَرَاءُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا أَرَادَ أَنْ يَعْتَمِرَ أَرْسَلَ إِلَى أَهْلِ مَكَّةَ يَسْتَأْذِنُهُمْ لِيَدْخُلَ مَكَّةَ، فَاشْتَرَطُوا عَلَيْهِ أَنْ لاَ يُقِيمَ بِهَا إِلَّا ثَلاَثَ لَيَالٍ، وَلاَ يَدْخُلَهَا إِلَّا بِجُلُبَّانِ السِّلاَحِ، وَلاَ يَدْعُوَ مِنْهُمْ أَحَدًا، قَالَ: فَأَخَذَ يَكْتُبُ الشَّرْطَ بَيْنهُمْ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ فَكَتَبَ هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ، فَقَالُوا: لَوْ عَلِمْنَا أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ لَمْ نَمْنَعْكَ وَلَبَايَعْنَاكَ، وَلكِنِ اكْتُبْ هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، فَقَالَ: «أَنَا وَاللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، وَأَنَا وَاللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ» قَالَ: وَكَانَ لاَ يَكْتُبُ، قَالَ: فَقَالَ لِعَلِيٍّ: «امْحَ رَسُولَ اللَّهِ» فَقَالَ عَلِيٌّ: وَاللَّهِ لاَ أَمْحَاهُ أَبَدًا، قَالَ: «فَأَرِنِيهِ»، قَالَ: فَأَرَاهُ إِيَّاهُ فَمَحَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ، فَلَمَّا دَخَلَ وَمَضَتِ الأَيَّامُ، أَتَوْا عَلِيًّا، فَقَالُوا: مُرْ صَاحِبَكَ فَلْيَرْتَحِلْ، فَذَكَرَ ذَلِكَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «نَعَمْ» ثُمَّ ارْتَحَلَ
صحیح بخاری:
کتاب: جزیہ وغیرہ کے بیان میں
باب : تین دن یا ایک معین مدت کے لیے صلح کرنا
)مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
3184. حضرت براء ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے جب عمرہ کرنے کا ارادہ فرمایا تو مکہ میں داخلے کے لیے اہل مکہ سے اجازت لینے کی خاطرایک آدمی بھیجا تو انھوں نے اس شرط کے ساتھ اجازت دی کہ آپ مکہ میں تین دن سے زیادہ قیام نہیں کریں گے۔ مکہ میں ہتھیار بند داخل ہوں گے اور کسی کو دین اسلام کی دعوت نہیں دیں گے۔ حضرت علی ؓ بن ابی طالب نے ان کے مابین شرائط لکھنا شروع کیں تو مضمون لکھا: یہ وہ صلح نامہ ہے جس پر محمد رسول اللہ ﷺ نے صلح کی ہے۔ مکہ والوں نےکہا: اگر ہمیں یقین ہوکہ آپ اللہ کے رسول ﷺ ہیں تو ہم آپ کو نہ روکتے بلکہ آپ کی بیعت کرلیتے لیکن مضمون اس طرح لکھو: اس شرط پر محمد بن عبداللہ نے صلح کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! میں محمد بن عبداللہ ہوں اور اللہ کی قسم! میں اللہ کا رسول بھی ہوں۔‘‘ آپ تو لکھنا نہیں جانتے تھے اس لیے آپ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا: ’’(لفظ)رسول اللہ مٹادو۔‘‘ حضرت علی ؓ نے عرض کیا: اللہ کی قسم! میں تو اسے ہر گز نہیں مٹاؤں گا۔ آپ نے فرمایا: ’’اچھا وہ (لفظ) مجھے دکھاؤ۔‘‘ حضرت علی ؓنے وہ (لفظ) دکھایا تو نبی کریم ﷺ نے اپنے دست مبارک سے اسے مٹادیا۔ پھر جب آپ مکہ میں داخل ہوئے اور (تین ) دن گزر گئے تو اہل مکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے: اپنے صاحب سے کہیں کہ وہ اب یہاں سے چلے جائیں۔ حضرت علیؓ نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ’’ہاں۔ پھر آپ نے مکہ مکرمہ سے کوچ فرمایا۔