Sahi-Bukhari:
Jizyah and Mawaada'ah
(Chapter: It is permissible to conclude a peace treaty of three days or any other fixed period)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3184.
حضرت براء ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے جب عمرہ کرنے کا ارادہ فرمایا تو مکہ میں داخلے کے لیے اہل مکہ سے اجازت لینے کی خاطرایک آدمی بھیجا تو انھوں نے اس شرط کے ساتھ اجازت دی کہ آپ مکہ میں تین دن سے زیادہ قیام نہیں کریں گے۔ مکہ میں ہتھیار بند داخل ہوں گے اور کسی کو دین اسلام کی دعوت نہیں دیں گے۔ حضرت علی ؓ بن ابی طالب نے ان کے مابین شرائط لکھنا شروع کیں تو مضمون لکھا: یہ وہ صلح نامہ ہے جس پر محمد رسول اللہ ﷺ نے صلح کی ہے۔ مکہ والوں نےکہا: اگر ہمیں یقین ہوکہ آپ اللہ کے رسول ﷺ ہیں تو ہم آپ کو نہ روکتے بلکہ آپ کی بیعت کرلیتے لیکن مضمون اس طرح لکھو: اس شرط پر محمد بن عبداللہ نے صلح کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! میں محمد بن عبداللہ ہوں اور اللہ کی قسم! میں اللہ کا رسول بھی ہوں۔‘‘ آپ تو لکھنا نہیں جانتے تھے اس لیے آپ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا: ’’(لفظ)رسول اللہ مٹادو۔‘‘ حضرت علی ؓ نے عرض کیا: اللہ کی قسم! میں تو اسے ہر گز نہیں مٹاؤں گا۔ آپ نے فرمایا: ’’اچھا وہ (لفظ) مجھے دکھاؤ۔‘‘ حضرت علی ؓنے وہ (لفظ) دکھایا تو نبی کریم ﷺ نے اپنے دست مبارک سے اسے مٹادیا۔ پھر جب آپ مکہ میں داخل ہوئے اور (تین ) دن گزر گئے تو اہل مکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے: اپنے صاحب سے کہیں کہ وہ اب یہاں سے چلے جائیں۔ حضرت علیؓ نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ’’ہاں۔ پھر آپ نے مکہ مکرمہ سے کوچ فرمایا۔
تشریح:
1۔ اس معاہدے میں یہ بھی تحریر تھا کہ اہل مکہ میں سے کوئی بھی آپ کے ساتھ جانے کو تیار ہوا تو آپ اسے مکہ سے باہر نہیں لے جا سکیں گے اور اگر آپ کے ساتھیوں میں سے کوئی شخص مکہ میں رہنا چاہے گا تو آپ اسے نہیں روکیں گے۔ (صحیح البخاري، الصلح، حدیث:2699) بہرحال رسول اللہ ﷺ نے اس صلح نامے کی پاسداری کی۔ 2۔ اس حدیث سے تین دن یا اس سے کم و بیش معین مدت کے لیے صلح کا جواز ثابت ہوا۔ 3۔ حضرت علی ؓ کے انکار سے بظاہر رسول اللہ ﷺ کی مخالفت معلوم ہوتی ہے لیکن حضرت علی ؓ نے قرآئن سے معلوم کر لیا تھا کہ آپ کا یہ امر وجوب کے لیے نہیں۔ حضرت علی ؓ نے ایسا صرف جوش ایمان اور آپ سے محبت کی بنا پر کیا تھا جیسا کہ حضرت عمر ؓ نے حدیث قرطاس سے ایسا سمجھ لیا تھا کہ آپ کا امر وجوب کے لیے نہیں بلکہ وہاں بھی آپ سے خیرخواہی پیش نظر تھی۔ لیکن حضرت عمر ؓ کے معاملے میں بہت شور کیا جاتا ہے جبکہ حضرت علی ؓ کے سلسلے میں نرم گوشہ اختیار کیا جاتا ہے۔ حالانکہ دونوں حضرات کی نیت بخیر تھی۔ اس لیے ایک مقام پر حسن ظن سے کام لینا اور دوسری جگہ بد ظنی کرنا نا انصافی ہے۔
حضرت براء ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے جب عمرہ کرنے کا ارادہ فرمایا تو مکہ میں داخلے کے لیے اہل مکہ سے اجازت لینے کی خاطرایک آدمی بھیجا تو انھوں نے اس شرط کے ساتھ اجازت دی کہ آپ مکہ میں تین دن سے زیادہ قیام نہیں کریں گے۔ مکہ میں ہتھیار بند داخل ہوں گے اور کسی کو دین اسلام کی دعوت نہیں دیں گے۔ حضرت علی ؓ بن ابی طالب نے ان کے مابین شرائط لکھنا شروع کیں تو مضمون لکھا: یہ وہ صلح نامہ ہے جس پر محمد رسول اللہ ﷺ نے صلح کی ہے۔ مکہ والوں نےکہا: اگر ہمیں یقین ہوکہ آپ اللہ کے رسول ﷺ ہیں تو ہم آپ کو نہ روکتے بلکہ آپ کی بیعت کرلیتے لیکن مضمون اس طرح لکھو: اس شرط پر محمد بن عبداللہ نے صلح کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! میں محمد بن عبداللہ ہوں اور اللہ کی قسم! میں اللہ کا رسول بھی ہوں۔‘‘ آپ تو لکھنا نہیں جانتے تھے اس لیے آپ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا: ’’(لفظ)رسول اللہ مٹادو۔‘‘ حضرت علی ؓ نے عرض کیا: اللہ کی قسم! میں تو اسے ہر گز نہیں مٹاؤں گا۔ آپ نے فرمایا: ’’اچھا وہ (لفظ) مجھے دکھاؤ۔‘‘ حضرت علی ؓنے وہ (لفظ) دکھایا تو نبی کریم ﷺ نے اپنے دست مبارک سے اسے مٹادیا۔ پھر جب آپ مکہ میں داخل ہوئے اور (تین ) دن گزر گئے تو اہل مکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے: اپنے صاحب سے کہیں کہ وہ اب یہاں سے چلے جائیں۔ حضرت علیؓ نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ’’ہاں۔ پھر آپ نے مکہ مکرمہ سے کوچ فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ اس معاہدے میں یہ بھی تحریر تھا کہ اہل مکہ میں سے کوئی بھی آپ کے ساتھ جانے کو تیار ہوا تو آپ اسے مکہ سے باہر نہیں لے جا سکیں گے اور اگر آپ کے ساتھیوں میں سے کوئی شخص مکہ میں رہنا چاہے گا تو آپ اسے نہیں روکیں گے۔ (صحیح البخاري، الصلح، حدیث:2699) بہرحال رسول اللہ ﷺ نے اس صلح نامے کی پاسداری کی۔ 2۔ اس حدیث سے تین دن یا اس سے کم و بیش معین مدت کے لیے صلح کا جواز ثابت ہوا۔ 3۔ حضرت علی ؓ کے انکار سے بظاہر رسول اللہ ﷺ کی مخالفت معلوم ہوتی ہے لیکن حضرت علی ؓ نے قرآئن سے معلوم کر لیا تھا کہ آپ کا یہ امر وجوب کے لیے نہیں۔ حضرت علی ؓ نے ایسا صرف جوش ایمان اور آپ سے محبت کی بنا پر کیا تھا جیسا کہ حضرت عمر ؓ نے حدیث قرطاس سے ایسا سمجھ لیا تھا کہ آپ کا امر وجوب کے لیے نہیں بلکہ وہاں بھی آپ سے خیرخواہی پیش نظر تھی۔ لیکن حضرت عمر ؓ کے معاملے میں بہت شور کیا جاتا ہے جبکہ حضرت علی ؓ کے سلسلے میں نرم گوشہ اختیار کیا جاتا ہے۔ حالانکہ دونوں حضرات کی نیت بخیر تھی۔ اس لیے ایک مقام پر حسن ظن سے کام لینا اور دوسری جگہ بد ظنی کرنا نا انصافی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے احمد بن عثمان بن حکیم نے بیان کیا، کہا ہم سے شریح بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن یوسف بن ابی اسحاق نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے براء بن عازب ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے جب عمرہ کرنا چاہا تو آپ نے مکہ میں داخلہ کے لیے مکہ کے لوگوں سے اجازت لینے کے لیے آدمی بھیجا۔ انہوں نے اس شرط کے ساتھ (اجازت دی) کہ مکہ میں تین دن سے زیادہ قیام نہ کریں۔ ہتھیار نیام میں رکھے بغیر داخل نہ ہوں اور (مکہ کے) کسی آدمی کو اپنے ساتھ (مدینہ) نہ لے جائیں (اگر چہ وہ جانا چاہے) انھوں نے بیان کیا کہ پھر ان شرائط کو علی بن ابی طالب ؓ نے لکھنا شروع کیا اور اس طرح ’’یہ محمد اللہ کے رسول کے صلح نامہ کی تحریر ہے۔‘‘ مکہ والوں نے کہا کہ اگر ہم جان لیتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو پھر آپ کو روکتے ہی نہیں بلکہ آپ پر ایمان لاتے، اس لیے تمہیں یوں لکھنا چاہئے، ’’یہ محمد بن عبداللہ کی صلح نامہ کی تحریر ہے۔‘‘ اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا، اللہ گواہ ہے کہ میں محمد بن عبداللہ ہوں اور اللہ گواہ ہے کہ میں اللہ کا رسول بھی ہوں۔ آنحضرت ﷺ لکھنا نہیں جانتے تھے۔ راوی نے بیان کیا کہ آپ ﷺ نے علی ؓ سے عرض کیا کہ خدا کی قسم! یہ لفظ تو میں کبھی نہ مٹاوں گا، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ پھر مجھے دکھلاو، راوی نے بیان کیا کہ علی ؓ نے آنحضرت ﷺ کو وہ لفظ دکھایا۔ اور آپ ﷺ نے خود اپنے ہاتھ سے اسے مٹا دیا۔ پھر جب آنحضرت ﷺ مکہ تشریف لے گئے اور (تین) دن گزر گئے تو قریش حضرت علی ؓ کے پاس آئے اور کہا کہ اب اپنے ساتھی سے کہو کہ اب یہاں سے چلے جائیں (علی ؓ نے بیان کیا کہ) میں نے اس کا ذکر آنحضرت ﷺ سے کیا تو آپ نے فرمایا کہ ہاں، چنانچہ آپ وہاں سے روانہ ہو گئے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت علیؓ کا انکار حکم عدولی اور مخالفت کے طور پر نہ تھا۔ بلکہ آنحضرت ﷺ کی محبت اور خیرخواہی اور جوش ایمان کی وجہ سے تھا۔ اس لیے کوئی گناہ حضرت علی ؓ پر نہ ہوا۔ یہاں سے شیعہ حضرات کو سبق لینا چاہئے کہ جیسے حضرت علی ؓ نے محض محبت کی وجہ سے آنحضرت ﷺ کے فرمانے کے خلاف کیا، ویسا ہی حضرت عمر ؓ نے بھی قصہ قرطاس میں آنحضرت ﷺ کی تکلیف کے خیال سے لکھے جانے میں مخالفت کی۔ دونوں کی نیت بخیر تھی۔ کار پاکاں از قیاس خود مگیر ایک جگہ حسن ظن کرنا، دوسری جگہ بدظنی صریح انصاف سے بعید ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Bara (RA): When the Prophet (ﷺ) intended to perform the 'Umra he sent a person to the people of Makkah asking their permission to enter Makkah. They stipulated that he would not stay for more than three days and would not enter it except with sheathed arms and would not preach (Islam) to any of them. So Ali bin Abi-Talib started writing the treaty between them. He wrote, "This is what Muhammad, Apostle of Allah (ﷺ) has agreed to." The (Makkahns) said, "If we knew that you (Muhammad) are the Apostle of Allah (ﷺ) , then we would not have prevented you and would have followed you. But write, 'This is what Muhammad bin 'Abdullah has agreed to..' " On that Allah's Apostle (ﷺ) said, "By Allah, I am Muhammad bin 'Abdullah, and, by Allah, I am Apostle (ﷺ) of 'Allah." Allah's Apostle (ﷺ) used not to write; so he asked 'Ali to erase the expression of Apostle of Allah (ﷺ) . On that 'Ali said, "By Allah I will never erase it." Allah's Apostle (ﷺ) said (to 'Ali), "Let me see the paper." When 'Ali showed him the paper, the Prophet (ﷺ) erased the expression with his own hand. When Allah's Apostle (ﷺ) had entered Makkah and three days had elapsed, the Makkahns came to 'Ali and said, "Let your friend (i.e. the Prophet) quit Makkah." Ali informed Allah's Apostle (ﷺ) about it and Allah's Apostle (ﷺ) said, "Yes," and then he departed.