Sahi-Bukhari:
Belief
(Chapter: Dhulm (wrong) of one kind can be greater or lesser than that of another)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
32.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں: جب یہ آیت اتری: ’’جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہیں کیا وہی لوگ ہیں جن کے لیے امن ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘ تو نبی ﷺ کے صحابہ کرام ؓ نے کہا: (اے اللہ کے رسول!) ہم میں سے کون ایسا ہے جس نے ظلم نہیں کیا؟ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری:’’یقینا شرک ظلم عظیم ہے۔‘‘
تشریح:
1۔ یہ عنوان بھی مرجیہ کی تردید اور ایمان کی کمی بیشی کے لیے ہے کیونکہ آیت کریمہ میں کفرو شرک کو ظلم کا ایک فرد بتایا گیا ہے۔ قرآن و حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ظلم کے مختلف مراتب ہیں کوئی ادنیٰ اور کوئی عظیم ہےاس کا مطلب یہ ہے کہ شرک وکفر میں بھی مراتب تسلیم کرنا پڑیں گے کیونکہ وہ ظلم ہی کے افراد ہیں چونکہ کفر ضد ایمان ہے۔ اس لیے اس کے مراتب خود بخود ثابت ہوگئے۔ کیونکہ اشیاء اپنی ضد سے واضح ہوتی ہیں۔ یہی مقصود عنوان ہے۔ 2۔ آیت کریمہ میں لفظ ظلم عام ہے جو کفرو شرک اور معاصی کو شامل ہے۔ اس لیے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو اشکال پیدا ہوا جو لفظ ظلم سے متعلق ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب کا تعلق لفظ ﴿لَمْ يَلْبِسُوا﴾ سے ہے (لَبْس) کے لغوی معنی اختلاط ہیں اور یہ وہاں ممکن ہوتا ہے جہاں دونوں چیزوں کا ظرف ایک ہو۔ اب ظلم سے مراد اعمال جوارح یعنی معاصی نہیں ہو سکتے کیونکہ معاصی کا محل جوارح ہیں اور ایمان کا محل دل ہے ہاں کفرو شرک اور ایمان کا محل ایک ہے لہٰذا ایمان سے اسی ظلم کا اختلاط ہوگا۔ جو ایمان کے ظرف میں پہنچ سکتا ہو اور کفروشرک کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے۔ 3۔ اس حدیث سے دور حاضر کے معتزلہ (منکرین حدیث) کی بھی تردید ہوتی ہے جو قرآن فہمی کے لیے صرف عربی لغت کو کافی سمجھتے ہیں اور صاحب قرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کو اہمیت نہیں دیتے اگر ان کا یہ دعوی درست ہوتا تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین قرآن مجید کے سمجھنے میں کسی قسم کی الجھن کا شکار نہ ہوتے لہٰذا قرآن کریم کو سمجھنے کے لیے صاحب قرآن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و معمولات کو پیش نظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ یہی وہ بیان ہے جس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے اٹھایا ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ﴾’’پھر اس قرآن کی وضاحت ہمارے ذمے ہے۔‘‘ ( القیامة: 7519)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
32
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
32
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
32
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
32
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وحی کی عظمت وصداقت ثابت کرنے کے بعد ضروری خیال کیا کہ اب اساس دین یعنی ایمان کی وضاحت کی جائے جو عبادات کی صحت وقبولیت کے لیے مدار اور اخروی نجات کے لیے شرط اول ہے۔ چنانچہ کتاب الایمان میں ایمان ہی سے متعلقہ احادیث ہوں گی۔لفظ ایمان امن سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی امن واطمینان ہیں، اسی لغوی معنی کے پیش نظر مومن اسے کہاجاتا ہے جس سے لوگ اپنی جان ومال کے متعلق سکون و اطمینان محسوس کریں۔حدیث میں ہے۔(۔۔۔۔۔مَنْ أَمِنَهُ الْمُؤْمِنُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ )( مسند احمد 2/206۔)"(مومن وہ ہے)جس سے دوسرے مومن اپنی جان و مال کے متعلق بے خوف ہوں۔"اسی طرح یہ تصدق کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ)( المومنون:23۔38۔)"ہم اس کی تصدیق کرنے والے نہیں ہیں۔" کسی کی بات پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسےاپنی تکذیب کی طرف سے مطمئن کرتے ہیں اور اس کی ا مانت ودیانت پر اپنے اعتماد ووثوق کا اظہار کرتے ہیں۔ایمان کی شرعی تعریف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بھی اپنے رب کی طرف سے اصول وراکان اور احکام ومسائل لے کر آئے ہیں ان کی تصدیق کی جائے اور ان کی سچائی کو دل میں بٹھایا جائے۔، پھر زبان سے اس کی تصدیق کا اظہار اور اپنے دیگر اعضاء سے اس کا عملی ثبوت مہیا کیا جائے۔ گویا اس کے لیے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ دل سے تصدیق زبان سے اقرار اور دیگراعضاء سے التزام عمل ومتابعت یہود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت و تصدیق تھی اور منافقین میں بظاہر التزام عمل و متابعت بھی موجود تھا اس کے باوجود مومن نہیں ہیں، لہٰذا تصدیق میں کوتاہی کا مرتکب منافق اور اقرار سے پہلو تہی کفر کا باعث ہے جبکہ عملی کوتا ہی کا مرتکب فاسق ہے۔ اگر انکار کی وجہ سے بدعملی کا شکار ہے تو بھی اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ایسے حالات میں تصدیق واقرار کا کوئی فائدہ نہیں۔سلف صالحین کا نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ ایمان کے متعلق جو آیات واحادیث وارد ہیں ان کی اتباع کو کافی خیال کیا جائے۔ان مباحث کلامیہ کی طرف قطعی التفات نہ کیا جائے جو متاخرین کے"دست ہنر شناس"کا کرشمہ ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ چونکہ سر رشتہ محدثین سے منسلک ہیں، اس لیے انھوں نے ایمان سے متعلق وارد شدہ قرآنی آیات اور احادیث و آثار کے پیش نظر اس موقف کواختیار کیا ہے کہ ایمان بسیط نہیں بلکہ تصدیق قلبی اقرار لسانی اور عمل بدنی سے مرکب ہے۔ تکون کے یہ تینوں زاویے اس قدر لازم ملزوم اور باہم مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو الگ کر دیا جائے تو ایسا حقیقی ایمان باقی نہیں رہتا جس سے اخروی نجات کا حصول ممکن ہو۔ اس کے بعض اجزاء اساسی اور بنیادی ہیں جنھیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ارکان اسلام کے نام سے تعبیر کر کے انہیں اولیت دی ہے اور کچھ اجزاء کمال ہیں جنھیں "امور ایمان" کا عنوان دے کر آخر میں بیان کیا ہے قارئین کرام اس تفصیل کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب الایمان کا مطالعہ کریں۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں: جب یہ آیت اتری: ’’جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہیں کیا وہی لوگ ہیں جن کے لیے امن ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘ تو نبی ﷺ کے صحابہ کرام ؓ نے کہا: (اے اللہ کے رسول!) ہم میں سے کون ایسا ہے جس نے ظلم نہیں کیا؟ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری:’’یقینا شرک ظلم عظیم ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ یہ عنوان بھی مرجیہ کی تردید اور ایمان کی کمی بیشی کے لیے ہے کیونکہ آیت کریمہ میں کفرو شرک کو ظلم کا ایک فرد بتایا گیا ہے۔ قرآن و حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ظلم کے مختلف مراتب ہیں کوئی ادنیٰ اور کوئی عظیم ہےاس کا مطلب یہ ہے کہ شرک وکفر میں بھی مراتب تسلیم کرنا پڑیں گے کیونکہ وہ ظلم ہی کے افراد ہیں چونکہ کفر ضد ایمان ہے۔ اس لیے اس کے مراتب خود بخود ثابت ہوگئے۔ کیونکہ اشیاء اپنی ضد سے واضح ہوتی ہیں۔ یہی مقصود عنوان ہے۔ 2۔ آیت کریمہ میں لفظ ظلم عام ہے جو کفرو شرک اور معاصی کو شامل ہے۔ اس لیے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو اشکال پیدا ہوا جو لفظ ظلم سے متعلق ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب کا تعلق لفظ ﴿لَمْ يَلْبِسُوا﴾ سے ہے (لَبْس) کے لغوی معنی اختلاط ہیں اور یہ وہاں ممکن ہوتا ہے جہاں دونوں چیزوں کا ظرف ایک ہو۔ اب ظلم سے مراد اعمال جوارح یعنی معاصی نہیں ہو سکتے کیونکہ معاصی کا محل جوارح ہیں اور ایمان کا محل دل ہے ہاں کفرو شرک اور ایمان کا محل ایک ہے لہٰذا ایمان سے اسی ظلم کا اختلاط ہوگا۔ جو ایمان کے ظرف میں پہنچ سکتا ہو اور کفروشرک کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے۔ 3۔ اس حدیث سے دور حاضر کے معتزلہ (منکرین حدیث) کی بھی تردید ہوتی ہے جو قرآن فہمی کے لیے صرف عربی لغت کو کافی سمجھتے ہیں اور صاحب قرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کو اہمیت نہیں دیتے اگر ان کا یہ دعوی درست ہوتا تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین قرآن مجید کے سمجھنے میں کسی قسم کی الجھن کا شکار نہ ہوتے لہٰذا قرآن کریم کو سمجھنے کے لیے صاحب قرآن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و معمولات کو پیش نظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ یہی وہ بیان ہے جس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے اٹھایا ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ﴾’’پھر اس قرآن کی وضاحت ہمارے ذمے ہے۔‘‘ ( القیامة: 7519)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہمارے سامنے ابوالولید نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا (دوسری سند) اور امام بخاری نے کہا کہ ہم سے (اسی حدیث کو) بشر نے بیان کیا، ان سے محمد نے، ان سے شعبہ نے، انھوں نے سلیمان سے، انھوں نے علقمہ سے، انھوں نے عبداللہ بن مسعود ؓ سے جب سورہ انعام کی یہ آیت اتری: ’’جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے اپنے ایمان میں گناہوں کی آمیزش نہیں کی۔‘‘ تو آپﷺ کے اصحاب نے کہا یا رسول اللہ! یہ تو بہت ہی مشکل ہے۔ ہم میں کون ایسا ہے جس نے گناہ نہیں کیا۔ تب اللہ پاک نے سورہ لقمان کی یہ آیت اتاری: ’’بے شک شرک بڑا ظلم ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
پوری آیت میں ﴿بِظُلْمٍ﴾ کے آگے ﴿أُولَـٰئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُم مُّهْتَدُونَ﴾ کے الفاظ اور ہیں یعنی امن ان ہی کے لیے ہے اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔ معلوم ہوا کہ جو موحد ہوگا اسے ضرور امن ملے گا گوکتنا ہی گنہگار ہو۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ گناہوں پر بالکل عذاب نہ ہوگا جیسا کہ مرجیہ کہتے ہیں۔ حدیث اور آیت سے ترجمہ باب نکل آیا کہ ایک گناہ دوسرے گناہ سے کم ہوتا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ میں ظالم کا لفظ شرک و کفر و معاصی سب ہی پر عام تھا۔ اسی لیے ان کو اشکال پیدا ہوا۔ جس پر آیت کریمہ سورۃ لقمان والی نازل ہوئی اور بتلایا گیا کہ پچھلی آیت میں ظلم سے شرک مراد ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ جن لوگوں نے ایمان کے ساتھ ظلم عظیم یعنی شرک کا اختلاط نہ کیا۔ ان کے لیے امن ہے۔ یہاں ایمان کی کمی وبیشی بھی ثابت ہوئی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abdullah (RA): When the following Verse was revealed: "It is those who believe and confuse not their belief with wrong (worshipping others besides Allah.)" (6:83), the companions of Allah's Apostle (ﷺ) asked, "Who is amongst us who had not done injustice (wrong)?" Allah revealed: "No doubt, joining others in worship with Allah is a great injustice (wrong) indeed." (31.13)