کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیوں کر شروع ہوئی
(
باب : سورہ رحمن کی اس آیت کی تفسیر کہ سورج اور چاند دونوں حسا ب سے چلتے ہیں ۔
)
Sahi-Bukhari:
Beginning of Creation
(Chapter: Characteristic of the sun and the moon)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
مجاہد نے کہا یعنی چکی کی طرح گھومتے ہیں اور دوسرے لوگوں نے یوں کہا یعنی حساب سے مقررہ منزلوں میں پھرتے ہیں ، زیادہ نہیں بڑھ سکتے ۔ لفظ حسبان حساب کی جمع ہے ۔ جیسے لفظ شہاب کی جمع شہبان ہے اور سورہ والشمس میں جو لفظ ضحاہا آیا ہے ۔ ضحی روشنی کو کہتے ہیں اور سوہ یٰسٓ میں جو آیا ہے کہ سورج چاند کو نہیں پا سکا ، یعنی ایک کی روشنی دوسرے کو ماند نہیں کرسکتی نہ ان کو یہ بات سزاوار ہے اوراسی سورۃ میں جو الفاظ والااللیل سابق النہار ہیں ان کا مطلب یہ کہ دن اور رات ہر ایک دوسرے کے طالب ہوکر لپکے جا رہے ہیں اور اسی سورۃ میں لفظ انسلخ کا معنی یہ ہے کہ دن کو رات سے اور رات کو دن سے ہم نکال لیتے ہیں اور سورہ حاقہ میں جو واہیۃ کا لفظ ہے ۔ وہی کے منی پھٹ جانا اور اسی سورۃ میں جو یہ ہے ﴾ والملک علی ارجائہا﴿ یعنی فرشتے آسمانوں کے کناروں پر ہوں گے جب تک وہ پھٹے گا نہیں ۔ جیسے کہتے ہیں وہ کنویں کے کنارے پر اور سورہ والنازعات میں جو لفظ اغطش اور سورہ انعام میں لفظ جَنَّ ہے ان کے معنی اندھیری کے ہیں ۔ یعنی اندھیاری کی اندھیاری ہوئی اور امام حسن بصری نے کہا کہ سورہ اذالشمس میں کورت کا جو لفظ ہے اس کا معنی یہ ہے جب لپیٹ کر تاریک کر دیا جائے اور سورہ انشقت میں جو وما وسق کا لفظ ہے اس کے معنی جو اکٹھا کرے ۔ اسی سورۃ میں اتسق کا معنی سیدھا ہوا ، اور سورہ فرقان میں بروجا کا لفظ بروج سورج اور چاند کی منزلوں کو کہتے ہیں اور سورہ فاطر میں جو حرور کا لفظ ہے اس کے معنی دھوپ کی گرمی کے ہیں ۔ اور ابن عباس نے کہا ، حرور رات کی گرمی اور سموم دن کی گرمی ۔ اور سورہ فاطر میں جو یولج کا لفظ ہے اس کے معنی لپیٹتا ہے اندر داخل کرتا ہے اور سورہ توبہ میں جو ولیجۃ کا لفظ ہے اس کے معنیٰ اندر گھسا ہوا یعنی راز دار دوست ۔
3204.
حضرت ابو مسعود ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’سورج اورچاند کسی کے مرنے یا کسی کے پیدا ہونے کی وجہ سے بے نور نہیں ہوتے بلکہ یہ تواللہ کی نشانیوں میں سے دونشانیوں ہیں۔ جب تم انھیں اس حالت میں دیکھو تو نماز پڑھو۔‘‘
تشریح:
1۔ ان تمام احادیث میں کسی نہ کسی حوالے سے سورج اور چاند کا ذکر آیاہے اس لیے امام بخاری ؒ نے انھیں بیان فرمایاہے۔ چونکہ یہ تمام انقلابات قدرت الٰہی کے تحت ہوتے رہتے ہیں لہٰذا ایسے مواقع پر خصوصیت کے ساتھ اللہ کو یاد کرنا نماز پڑھنا اور صدقہ و خیرات کرنا ایمان کی ترقی کا باعث ہے۔ 2۔ دور حاضر میں چاند اور سورج کے گرہن کی جو وجہ بیان کی جاتی ہے کہ سورج اور چاند کے درمیان زمین حائل ہو جاتی ہے وہ شان قدرت ہی کا مظاہرہ ہے لہٰذا قرآن و حدیث میں کہیں بھی تضاد اور اختلاف نہیں ہے دراصل اللہ تعالیٰ انھیں بے نور کر کے اہل دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ اگر ایسی فرمانبردار اور تابع فرمان مخلوق کو بے نور کیا جا سکتا ہے تو انسان جو سراسر نا فرمانی اور طغیانی میں مصروف ہیں انھیں بھی کسی وقت صفحہ ہستی سے مٹایا جا سکتا ہے۔ دوسرا سبق یہ ہے کہ یہ دونوں اس قابل نہیں کہ انھیں معبود کا درجہ دیا جائے اور انھیں سجدہ کیا جائے بلکہ سجدے کے لائق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جس نے انھیں پیدا فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ﴾ ’’تم سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو بلکہ صرف اللہ کو سجدہ کرو جس نے انھیں پیدا کیا ہے اگر تمھیں اس کی عبادت کرنا منظور ہے۔‘‘ (حم السجدة:37)مقصد یہ ہے کہ سورج اور چاند دونوں عروج و زوال سے دوچار ہوتے رہتے ہیں وہ الٰہ نہیں ہو سکتے لہٰذا تم اگر فی الواقع اللہ کی عبادت کرنا چاہتے ہو تو براہ راست اللہ کی عبادت کرو جو ان کا خالق اور مالک ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3082
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3204
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3204
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3204
تمہید کتاب
محدثین کرام نے کتب حدیث کو مضامین کے اعتبار سے مختلف قسموں میں تقسیم کیا ہے جن میں سے ایک"الجامع"ہےاس سے مرادوہ کتاب ہے جس میں مؤلف نے عقائد عبادات ، معاملات، سیرت ، جہاد مناقب ، رقاق ، آداب ، فتن تاریخ اورا حوال آخرت سے متعلقہ احادیث کو ایک خاص ترتیب سے جمع کیا ہو۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی تالیف بھی"الجامع"کہلاتی ہے جس میں مختلف قسم کے علوم و فنون جمع ہیں۔ ان میں سے ایک تاریخ بھی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں سے تاریخ بیان کرنا شروع کی ہے۔ یہ سلسلہ کتاب التفسیر تک چلے گا۔ ہمارے نزدیک کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقل کتاب نہیں بلکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ ہی کا ایک حصہ ہے چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ کی وفات کے ابواب بھی بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے بہر حال اسے آغاز تخلیق سے شروع کیا ہے۔اس کے بعد احادیث انبیاء پھر مناقب وغیرہ بیان ہوں گے اس کے بعد مغازی کا ذکر ہوگا۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے تاریخی حقائق بیان کرنے کے لیے ایک سو ساٹھ احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں بائیس معلق اور باقی ایک سواڑتیس احادیث متصل سند سے مروی ہیں ان مرفوع احادیث میں ترانوے احادیث مکرر اور تریسٹھ خالص ہیں پندرہ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اورتابعین عظام رحمۃ اللہ علیہ سے مروی چالیس آثار بھی ہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث و آثار پر تقریباً سترہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے مختلف تاریخی حقائق پرروشنی ڈالنا مقصود ہے۔اس میں تاریخ کا وہ حصہ بیان کیا گیا ہے جس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی تخلیق سے ہے۔ اس کے بعد حضرات انبیاء کا ذکر ہوگا جسے ایک الگ عنوان سے بیان کیا جائے گا۔ بہر حال آغاز تخلیق اور مخلوقات کے متعلق امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جو احادیث پیش کی ہیں وہ دلچسپ اور معلومات افزا ہیں ان کے متعلق تشریحی فوائد بھی ہم نے بڑی محنت سے مرتب کیےہیں۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ خلوص نیت سے پیش کردہ احادیث اور تشریحی فوائد کا مطالعہ کریں۔ امید ہے کہ یہ مطالعہ آپ کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوگا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قیامت کے دن گروہ محدثین سے اٹھائے اور خدام حدیث کی رفاقت اور ان کا ساتھ نصیب کرے۔آمین۔
تمہید باب
ارشاد باری تعالیٰ؛"سورج اور چاند ایک مقررہ حساب سے چل رہے ہیں۔"(الرحمٰن:55۔5)اس آیت کریمہ میں سورج اور چاند کی صفت حسبان بیان کی گئی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی جو تفسیر بیان کی ہے وہ دو طرح سے ہے۔(ا)سورج اور چاند دونوں اپنے مقرر شدہ پروگرام کے خلاف نہیں کرتے جیسے چکی اپنے مقررہ دور کے خلاف چکر نہیں لگاتی بلکہ اس کی سلاخ سے قرب و بعد مقرر ہے۔ اس کے خلاف اس کا گھومنا ممکن ہی نہیں ۔(ب)ان کی منازل طے شدہ ہیں وہ مقررہ حساب سے اپنی منازل میں چلتے ہیں۔اس سے تجاوز نہیں کرتے ۔ بہر حال سورج اور چاند کا ایک مقررہ رفتار اور طے شدہ اندازے سے چلنا پھر اس میں ایک لخطے لمحے کی بھی تاخیر نہ ہونا انسان کے لیے ایک بہت بڑی نعمت ہے سورج سےدن اور رات ادل بدل کر آتے رہتے ہیں۔موسموں میں بتدریج تبدیلی آتی ہے نمازوں کے اوقات کا تعلق بھی سورج سے ہے نیز فصلوں کے پکنے کا انحصار بھی سورج پر ہے۔ چاند سے ہمیں روشنی ملتی ہے۔ ہم مہینوں اور سالوں کا حساب رکھتے ہیں پھر سورج اور زمین کے درمیان ایسا مناسب فاصلہ رکھا گیا ہے کہ اس میں کمی بیشی سے اس زمین پر انسان اور دوسرے حیوانات کی زندگی ممکن ہے۔ یہ سب فائدے اس صورت میں حاصل ہو رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان بڑے بڑے گروں کو ایسے طبعی قوانین میں جکڑ رکھا ہے۔ جس سے وہ ادھر اُدھر ہو ہی نہیں سکتے اور اپنے مقررہ رفتار سے ہر وقت محو گردش رہتے ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سورج اور چاند کی مناسبت سے چند ایک دوسرے الفاظ کی بھی لغوی تشریح کی ہے۔
مجاہد نے کہا یعنی چکی کی طرح گھومتے ہیں اور دوسرے لوگوں نے یوں کہا یعنی حساب سے مقررہ منزلوں میں پھرتے ہیں ، زیادہ نہیں بڑھ سکتے ۔ لفظ حسبان حساب کی جمع ہے ۔ جیسے لفظ شہاب کی جمع شہبان ہے اور سورہ والشمس میں جو لفظ ضحاہا آیا ہے ۔ ضحی روشنی کو کہتے ہیں اور سوہ یٰسٓ میں جو آیا ہے کہ سورج چاند کو نہیں پا سکا ، یعنی ایک کی روشنی دوسرے کو ماند نہیں کرسکتی نہ ان کو یہ بات سزاوار ہے اوراسی سورۃ میں جو الفاظ والااللیل سابق النہار ہیں ان کا مطلب یہ کہ دن اور رات ہر ایک دوسرے کے طالب ہوکر لپکے جا رہے ہیں اور اسی سورۃ میں لفظ انسلخ کا معنی یہ ہے کہ دن کو رات سے اور رات کو دن سے ہم نکال لیتے ہیں اور سورہ حاقہ میں جو واہیۃ کا لفظ ہے ۔ وہی کے منی پھٹ جانا اور اسی سورۃ میں جو یہ ہے ﴾ والملک علی ارجائہا﴿ یعنی فرشتے آسمانوں کے کناروں پر ہوں گے جب تک وہ پھٹے گا نہیں ۔ جیسے کہتے ہیں وہ کنویں کے کنارے پر اور سورہ والنازعات میں جو لفظ اغطش اور سورہ انعام میں لفظ جَنَّ ہے ان کے معنی اندھیری کے ہیں ۔ یعنی اندھیاری کی اندھیاری ہوئی اور امام حسن بصری نے کہا کہ سورہ اذالشمس میں کورت کا جو لفظ ہے اس کا معنی یہ ہے جب لپیٹ کر تاریک کر دیا جائے اور سورہ انشقت میں جو وما وسق کا لفظ ہے اس کے معنی جو اکٹھا کرے ۔ اسی سورۃ میں اتسق کا معنی سیدھا ہوا ، اور سورہ فرقان میں بروجا کا لفظ بروج سورج اور چاند کی منزلوں کو کہتے ہیں اور سورہ فاطر میں جو حرور کا لفظ ہے اس کے معنی دھوپ کی گرمی کے ہیں ۔ اور ابن عباس نے کہا ، حرور رات کی گرمی اور سموم دن کی گرمی ۔ اور سورہ فاطر میں جو یولج کا لفظ ہے اس کے معنی لپیٹتا ہے اندر داخل کرتا ہے اور سورہ توبہ میں جو ولیجۃ کا لفظ ہے اس کے معنیٰ اندر گھسا ہوا یعنی راز دار دوست ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو مسعود ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’سورج اورچاند کسی کے مرنے یا کسی کے پیدا ہونے کی وجہ سے بے نور نہیں ہوتے بلکہ یہ تواللہ کی نشانیوں میں سے دونشانیوں ہیں۔ جب تم انھیں اس حالت میں دیکھو تو نماز پڑھو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ ان تمام احادیث میں کسی نہ کسی حوالے سے سورج اور چاند کا ذکر آیاہے اس لیے امام بخاری ؒ نے انھیں بیان فرمایاہے۔ چونکہ یہ تمام انقلابات قدرت الٰہی کے تحت ہوتے رہتے ہیں لہٰذا ایسے مواقع پر خصوصیت کے ساتھ اللہ کو یاد کرنا نماز پڑھنا اور صدقہ و خیرات کرنا ایمان کی ترقی کا باعث ہے۔ 2۔ دور حاضر میں چاند اور سورج کے گرہن کی جو وجہ بیان کی جاتی ہے کہ سورج اور چاند کے درمیان زمین حائل ہو جاتی ہے وہ شان قدرت ہی کا مظاہرہ ہے لہٰذا قرآن و حدیث میں کہیں بھی تضاد اور اختلاف نہیں ہے دراصل اللہ تعالیٰ انھیں بے نور کر کے اہل دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ اگر ایسی فرمانبردار اور تابع فرمان مخلوق کو بے نور کیا جا سکتا ہے تو انسان جو سراسر نا فرمانی اور طغیانی میں مصروف ہیں انھیں بھی کسی وقت صفحہ ہستی سے مٹایا جا سکتا ہے۔ دوسرا سبق یہ ہے کہ یہ دونوں اس قابل نہیں کہ انھیں معبود کا درجہ دیا جائے اور انھیں سجدہ کیا جائے بلکہ سجدے کے لائق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جس نے انھیں پیدا فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ﴾ ’’تم سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو بلکہ صرف اللہ کو سجدہ کرو جس نے انھیں پیدا کیا ہے اگر تمھیں اس کی عبادت کرنا منظور ہے۔‘‘ (حم السجدة:37)مقصد یہ ہے کہ سورج اور چاند دونوں عروج و زوال سے دوچار ہوتے رہتے ہیں وہ الٰہ نہیں ہو سکتے لہٰذا تم اگر فی الواقع اللہ کی عبادت کرنا چاہتے ہو تو براہ راست اللہ کی عبادت کرو جو ان کا خالق اور مالک ہے۔
ترجمۃ الباب:
بِحُسْبَانٍ کی تفسیر کرتے ہوئے مجاہد نے کہا کہ سورج اور چاند چکی کی طرح گردش کرتے ہیں۔ مجاہد کے علاوہ دوسروں نے کہا ہے کہ حُسْبَانٍ سے مراد حساب اور منازل ہیں۔ یہ دونوں ان منازل سے تجاوز نہیں کرتے۔ لفظ حُسْبَانٍ حساب کی جمع ہے جیسا کہ شِهَابٌ کی جمع شُهْبَان ہے۔ ضُحَاهَااس کے معنی روشنی کے ہیں۔ قرآن میں ہے کہ"سورج، چاند کو نہیں پاسکتا، یعنی ایک کی روشنی دوسرے کو ماند نہیں کرسکتی۔ یہ بات ان کے شایان شان نہیں ہے۔ سَابِقُ النَّهَارِ کےمعنی ہیں کہ دونوں جلدی جلدی ایک دوسرے کاپیچھا کرتے ہیں۔ نَسْلَخُ کے معنی ہیں کہ ہم دن کو رات سے اور رات کو دن سے نکالتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک چلتا رہتا ہے۔ وَاهِيَةٌ وھی کے معنی پھٹ جانا ہیں۔ أَرْجَائِهَا کے معنی ہیں کہ جوحصہ نہیں پھٹے گا وہ اس کے دونوں کناروں پر ہوگا جیسا کہ تم کہتے ہو۔ عليٰ ارجاء البشر وہ کنویں کے کنارے پر ہے۔ أَغْطَشَ اورجن کے معنی وہ تاریک ہوگیا ہیں۔ امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے کہاہے: كُوِّرَتْ کے معنی جب سورج لپیٹ کرتاریک کردیاجائے گا۔ وَاللَّيْلِ وَمَا وَسَقَجو جانوروں کو جمع کرتی ہے اور اتَّسَقَ کے معنی ہیں: سیدھا ہوا۔ بُرُوجًا سورج اور چاند کی منازل۔ الْحَرُورُ "دن میں دھوپ کے وقت جو لوچلتی ہے"وہ حَرُورہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور جناب روبہ کہتے ہیں کہ حَرُوررات کی گرمی کو اور سَمُومٍ دن کی گرمی کی کہا جاتا ہے۔ يُولِجُ کے معنی يُكَوِّرُیعنی لپیٹتا ہے، داخل کرتا ہے۔ وَلِيجَةً ہر وہ چیز جسے تو دوسری چیز میں داخل کرے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے اسماعیل ابی خالد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے قیس بن ابی حازم نے بیان کیا اور ان سے ابومسعود انصاری ؓ نے بیان کیا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا، سورج اور چاند میں کسی کی موت یا حیات پر گرہن نہیں لگتا۔ بلکہ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے نشانی ہیں اس لیے جب تم ان میں گرہن دیکھو تو نماز پڑھو۔
حدیث حاشیہ:
ان جملہ احادیث میں کسی نہ کسی طرح سے چاند اور سورج کا ذکر آیا ہے اس لیے ان کو یہاں نقل کیاگیا۔ ان کے بارے میں جو کچھ زبان رسالت مآب ﷺ سے منقول ہوا اس سے آگے بڑھ کر بولنا مسلمان کے لیے روا نہیں ہے۔ آج کے حالات نے چاند اور سورج کے وجود کو مزید واضح کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا کہ ﴿لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ﴾(حم السجدہ:37) یعنی چاند سورج کو سجدہ نہ کرو، یہ تو اللہ پاک کی پیدا کی ہوئی مخلوق ہیں۔ سجدہ کرنے کے قابل صرف اللہ ہے جس نے ان سب کو وجود بخشا ہے۔ چاند میں جانے کے دعویداروں نے جو کچھ بتلایا ہے اس سے بھی قرآن پاک کی تصدیق ہوتی ہے کہ چاند بھی دیگر مخلوقات کی طرح ایک مخلوق ہے وہ کوئی دیوی دیوتا یا مافوق المخلوق کوئی اور چیز نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Mas'ud (RA): The Prophet (ﷺ) said, "the sun and the moon do not eclipse because of the death or life of someone, but they are two signs amongst the Signs of Allah. So, if you see them, offer the Prayer (of eclipse)."