کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیوں کر شروع ہوئی
(
باب : فرشتوں کا بیان۔
)
Sahi-Bukhari:
Beginning of Creation
(Chapter: The reference to angels)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے رسول الہ ﷺسے عرض کیا کہ جبرئیل علیہ السلام کو یہودی فرشتوں میں سے اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ ابن عباس ؓ نے سورۃ والصافات میں بیان کیا کہ لنحن الصافون میں مراد ملائکہ ہیں۔ تشریح : یہودی اپنی جہالت سے جبرئیل علیہ السلام کو اپنا دشمن سمجھتے اور کہتے تھے کہ ہمارے راز کی باتیں وہی آنحضرت ﷺ سے کہہ جاتا ہے یا یہ کہ یہ ہمیشہ عذاب لے کر ہی اترتا ہے۔ اس اثر کو خود امام بخاری نے باب الہجرۃ میں وصل فرمایا ہے۔ لنحن الصافون فرشتوں کی زبان سے نقل کیا کہ ہم قطار باندھنے والے اللہ کی پاکی بیان کرنے والے ہیں۔ اس اثر کو طبرانی نے وصل کیا ہے
3219.
حضرت ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے حضرت جبرئیل ؑ نے ایک قراءت میں قرآن پڑھایا تھا۔ پھر میں ان سے مسلسل مزید قراءتوں کی خواہش کا اظہار کرتا رہا یہاں تک کہ معاملہ سات قراءتوں تک پہنچ گیا۔‘‘
تشریح:
1۔فن قراءت سے ناآشنا لوگ کہتے ہیں کہ قراءت سبعہ خاکم بدہن قراء حضرات کی ’’بدمعاشی‘‘ ہے۔ ہمارے نزدیک فن قراءت کے ساتھ یہ سنگین قسم کا مذاق ہے۔ اس سلسلے میں دوباتوں پر علماء کا اتفاق ہے۔ قرآن کریم کوحروف سبعہ سے پڑھنے کا یہ مطلب نہیں کہ قرآن کریم کے ہر لفظ کو سات طریقوں سے پڑھنا جائز ہے کیونکہ چند ایک کلمات کے علاوہ بیشتر کلمات اس اصول کے تحت نہیں آتے۔ سبعہ احرف سے مراد ان سات قائمہ کی قراءت ہرگز نہیں جو فن قراءت میں مشہور ہوئے ہیں کیونکہ پہلا پہلا شخص جس نے ان سات قر اءتوں کو جمع کرنے کا اہتمام کیا وہ ابن مجاہد ہے جس کا تعلق چوتھی صدی ہجری سے ہے۔ 2۔ واضح رہے کہ قرآن کریم میں کسی بھی قراءت کے مستند ہونے کے لیے درج زیل قاعدہ ہے۔ جو قراءت قواعد عربیہ کے مطابق ہو اگرچہ وہ موافقت بوجہ ہو، مصاحف عثمانیہ میں سے کسی ایک کے مطابق ہو، خواہ یہ مطابقت احتمالاً ہو، نیز وہ متواتر سند سے ثابت ہو۔ اس اصول کے مطابق جو بھی قراءت ہوگی وہ قراء ت سے صحیحہ اور ان احرف سبعہ میں سے ہے جن پر قرآن کریم نازل ہوا۔ مسلمانوں کو اس کا قبول کرنا واجب ہے اور اگرتینوں شرائط میں سے کسی میں خلل آجائے تو وہ قراءت شاذ، ضعیف یا باطل ہوگی۔ (النشر 9/1) حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم کے متن میں تمام قراءت متواترہ کی گنجائش موجود ہے۔ اہل علم جانتے ہیں کہ موجودہ مصاحف کے قرآنی الفاظ رسم عثمانی کے مطابق لکھے گئے ہیں۔ اس رسم الخط کی خوبی یہ ہے کہ اس میں تمام قراءت متواترہ کے پڑھنے کا امکان موجود ہے اور یہ ساری قراءات حضرت عثمان ؓ کے اطراف عالم میں بھیجے ہوئے نسخوں کے رسم الخط میں سما جاتی ہیں۔ 3۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث میں حضرت جبریل ؑ اوران کے مختلف کارناموں کو ثابت کیا ہے، خاص طور پر وحی لانے کے لیے بھی یہی فرشتہ مقررہے جیسا کہ متعدد اورمختلف احادیث سے ثابت ہے، واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3097
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3219
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3219
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3219
تمہید کتاب
محدثین کرام نے کتب حدیث کو مضامین کے اعتبار سے مختلف قسموں میں تقسیم کیا ہے جن میں سے ایک"الجامع"ہےاس سے مرادوہ کتاب ہے جس میں مؤلف نے عقائد عبادات ، معاملات، سیرت ، جہاد مناقب ، رقاق ، آداب ، فتن تاریخ اورا حوال آخرت سے متعلقہ احادیث کو ایک خاص ترتیب سے جمع کیا ہو۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی تالیف بھی"الجامع"کہلاتی ہے جس میں مختلف قسم کے علوم و فنون جمع ہیں۔ ان میں سے ایک تاریخ بھی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں سے تاریخ بیان کرنا شروع کی ہے۔ یہ سلسلہ کتاب التفسیر تک چلے گا۔ ہمارے نزدیک کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقل کتاب نہیں بلکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ ہی کا ایک حصہ ہے چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ کی وفات کے ابواب بھی بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے بہر حال اسے آغاز تخلیق سے شروع کیا ہے۔اس کے بعد احادیث انبیاء پھر مناقب وغیرہ بیان ہوں گے اس کے بعد مغازی کا ذکر ہوگا۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے تاریخی حقائق بیان کرنے کے لیے ایک سو ساٹھ احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں بائیس معلق اور باقی ایک سواڑتیس احادیث متصل سند سے مروی ہیں ان مرفوع احادیث میں ترانوے احادیث مکرر اور تریسٹھ خالص ہیں پندرہ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اورتابعین عظام رحمۃ اللہ علیہ سے مروی چالیس آثار بھی ہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث و آثار پر تقریباً سترہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے مختلف تاریخی حقائق پرروشنی ڈالنا مقصود ہے۔اس میں تاریخ کا وہ حصہ بیان کیا گیا ہے جس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی تخلیق سے ہے۔ اس کے بعد حضرات انبیاء کا ذکر ہوگا جسے ایک الگ عنوان سے بیان کیا جائے گا۔ بہر حال آغاز تخلیق اور مخلوقات کے متعلق امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جو احادیث پیش کی ہیں وہ دلچسپ اور معلومات افزا ہیں ان کے متعلق تشریحی فوائد بھی ہم نے بڑی محنت سے مرتب کیےہیں۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ خلوص نیت سے پیش کردہ احادیث اور تشریحی فوائد کا مطالعہ کریں۔ امید ہے کہ یہ مطالعہ آپ کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوگا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قیامت کے دن گروہ محدثین سے اٹھائے اور خدام حدیث کی رفاقت اور ان کا ساتھ نصیب کرے۔آمین۔
تمہید باب
اس عنوان کے تحت جتنی بھی احادیث لائی گئی ہیں وہ سب اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ فرشتے موجود ہیں اور ان کاثبوت ہے۔یہی اس عنوان کی غرض ہے۔اللہ تعالیٰ نے انھیں نور سے پیدا کیا ہے۔انھیں لطیف جسم دیاگیا ہے اور انھیں ہر قسم کی شکل اختیار کرنے کی قدرت ہے۔ان کا مسکن آسمان ہے۔اللہ کے فرشتوں پر ایمان لانا اصول ایمان میں سے ہے۔ان کا انکار کفر ہے۔یہودی اپنی جہالت کی بنا پر حضرت جبریل علیہ السلام کو اپنا دشمن سمجھتے تھے کہ یہ ہماری راز کی باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتاتا ہے اور ہمیشہ عذاب ہی لے کر آتا ہے۔عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اثر کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے(کتاب احادیث الانبیاء حدیث:3329) میں اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اثر کو طبری نے اپنی تفسیر(133/23) میں متصل سند سے بیان کیاہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے رسول الہ ﷺسے عرض کیا کہ جبرئیل علیہ السلام کو یہودی فرشتوں میں سے اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ ابن عباس ؓ نے سورۃ والصافات میں بیان کیا کہ لنحن الصافون میں مراد ملائکہ ہیں۔ تشریح : یہودی اپنی جہالت سے جبرئیل علیہ السلام کو اپنا دشمن سمجھتے اور کہتے تھے کہ ہمارے راز کی باتیں وہی آنحضرت ﷺ سے کہہ جاتا ہے یا یہ کہ یہ ہمیشہ عذاب لے کر ہی اترتا ہے۔ اس اثر کو خود امام بخاری نے باب الہجرۃ میں وصل فرمایا ہے۔ لنحن الصافون فرشتوں کی زبان سے نقل کیا کہ ہم قطار باندھنے والے اللہ کی پاکی بیان کرنے والے ہیں۔ اس اثر کو طبرانی نے وصل کیا ہے
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے حضرت جبرئیل ؑ نے ایک قراءت میں قرآن پڑھایا تھا۔ پھر میں ان سے مسلسل مزید قراءتوں کی خواہش کا اظہار کرتا رہا یہاں تک کہ معاملہ سات قراءتوں تک پہنچ گیا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔فن قراءت سے ناآشنا لوگ کہتے ہیں کہ قراءت سبعہ خاکم بدہن قراء حضرات کی ’’بدمعاشی‘‘ ہے۔ ہمارے نزدیک فن قراءت کے ساتھ یہ سنگین قسم کا مذاق ہے۔ اس سلسلے میں دوباتوں پر علماء کا اتفاق ہے۔ قرآن کریم کوحروف سبعہ سے پڑھنے کا یہ مطلب نہیں کہ قرآن کریم کے ہر لفظ کو سات طریقوں سے پڑھنا جائز ہے کیونکہ چند ایک کلمات کے علاوہ بیشتر کلمات اس اصول کے تحت نہیں آتے۔ سبعہ احرف سے مراد ان سات قائمہ کی قراءت ہرگز نہیں جو فن قراءت میں مشہور ہوئے ہیں کیونکہ پہلا پہلا شخص جس نے ان سات قر اءتوں کو جمع کرنے کا اہتمام کیا وہ ابن مجاہد ہے جس کا تعلق چوتھی صدی ہجری سے ہے۔ 2۔ واضح رہے کہ قرآن کریم میں کسی بھی قراءت کے مستند ہونے کے لیے درج زیل قاعدہ ہے۔ جو قراءت قواعد عربیہ کے مطابق ہو اگرچہ وہ موافقت بوجہ ہو، مصاحف عثمانیہ میں سے کسی ایک کے مطابق ہو، خواہ یہ مطابقت احتمالاً ہو، نیز وہ متواتر سند سے ثابت ہو۔ اس اصول کے مطابق جو بھی قراءت ہوگی وہ قراء ت سے صحیحہ اور ان احرف سبعہ میں سے ہے جن پر قرآن کریم نازل ہوا۔ مسلمانوں کو اس کا قبول کرنا واجب ہے اور اگرتینوں شرائط میں سے کسی میں خلل آجائے تو وہ قراءت شاذ، ضعیف یا باطل ہوگی۔ (النشر 9/1) حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم کے متن میں تمام قراءت متواترہ کی گنجائش موجود ہے۔ اہل علم جانتے ہیں کہ موجودہ مصاحف کے قرآنی الفاظ رسم عثمانی کے مطابق لکھے گئے ہیں۔ اس رسم الخط کی خوبی یہ ہے کہ اس میں تمام قراءت متواترہ کے پڑھنے کا امکان موجود ہے اور یہ ساری قراءات حضرت عثمان ؓ کے اطراف عالم میں بھیجے ہوئے نسخوں کے رسم الخط میں سما جاتی ہیں۔ 3۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث میں حضرت جبریل ؑ اوران کے مختلف کارناموں کو ثابت کیا ہے، خاص طور پر وحی لانے کے لیے بھی یہی فرشتہ مقررہے جیسا کہ متعدد اورمختلف احادیث سے ثابت ہے، واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حضرت انس بن مالک ؓبیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ فرشتوں میں سے حضرت جبرئیلؑ یہودیوں کے دشمن ہیں۔حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: آیت کریمہ"ہم تو صف باندھنے والے ہیں۔ "سے مراد فرشتے ہیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن ابی ادریس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، ان سے یونس بن یزید نے، ان سے ابن شہاب زبیری نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، جبرئیل ؑ نے قرآن مجید مجھے (عرب کے) ایک ہی محاورے کے مطابق پڑھ کر سکھایا تھا، لیکن میں اس میں برابر اضافہ کی خواہش کااظہار کرتا رہا، تا آنکہ عرب کے سات محاوروں پر اس کا نزول ہوا۔
حدیث حاشیہ:
قرآن مجید کے سات قراتوں پر اشارہ ہے۔ جن کا تفصیلی ثبوت صحیح روایات و احادیث سے ہے۔ جیسا کہ ہر زبان میں مختلف مقامات کی زبان کا اختلاف ہوتا ہے۔ عرب میں ہر قبیلہ ایک الگ دنیا میں رہتا تھا، جن میں محاورے بلکہ زیر، زبر تک کے فرق کو انتہائی درجے میں ملحوظ رکھا جاتا تھا، مقصد یہ ہے کہ قرآن مجید اگرچہ ایک ہی ہے۔ لیکن قرات کے اعتبار سے خود اللہ پاک نے اس کی سات قراتیں قرار دیں ہیں۔ اس حدیث کے یہاں لانے سے حضرت جبرئیل ؑ کا وجود اور ان کے مختلف کارنامے بیان کرنا مقصود ہے۔ خاص طور پر وحی لانے کے لیے یہی مشہور فرشتہ مقرر ہے۔ جیسا کہ مختلف آیات و احادیث سے ثابت ہے۔ قرآن مجید کی قرات سبعہ پر امت کا اتفاق ہے۔ متداول اور مشہور قرات یہی ہے جو امن میں معمول ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, " Gabriel (ؑ) read the Qur'an to me in one way (i.e. dialect) and I continued asking him to read it in different ways till he read it in seven different ways."