کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیوں کر شروع ہوئی
(
باب : فرشتوں کا بیان۔
)
Sahi-Bukhari:
Beginning of Creation
(Chapter: The reference to angels)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے رسول الہ ﷺسے عرض کیا کہ جبرئیل علیہ السلام کو یہودی فرشتوں میں سے اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ ابن عباس ؓ نے سورۃ والصافات میں بیان کیا کہ لنحن الصافون میں مراد ملائکہ ہیں۔ تشریح : یہودی اپنی جہالت سے جبرئیل علیہ السلام کو اپنا دشمن سمجھتے اور کہتے تھے کہ ہمارے راز کی باتیں وہی آنحضرت ﷺ سے کہہ جاتا ہے یا یہ کہ یہ ہمیشہ عذاب لے کر ہی اترتا ہے۔ اس اثر کو خود امام بخاری نے باب الہجرۃ میں وصل فرمایا ہے۔ لنحن الصافون فرشتوں کی زبان سے نقل کیا کہ ہم قطار باندھنے والے اللہ کی پاکی بیان کرنے والے ہیں۔ اس اثر کو طبرانی نے وصل کیا ہے
3223.
حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’فرشتے لگاتار ایک د وسرے کے بعد آتے جاتے ہیں۔ کچھ فرشتے رات کو آتے ہیں اور کچھ دن کے وقت اترتے ہیں۔ یہ سب نماز فجر اور نماز عصر میں جمع ہوجاتے ہیں۔ پھر جو فرشتے تم میں رات بھر رہتے ہیں اور وہ اللہ کے حضور جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے، حالانکہ وہ سب کچھ جانتا ہے: تم نے میرے بندوں کو کس حالت پر چھوڑا؟ وہ عرض کرتے ہیں: ہم نے ان کو (فجر کی) نماز پڑھتے ہوئے چھوڑا ہے اور جب ہم ان کے پاس گئے تھے تب بھی وہ نماز (عصر) پڑھ رہے تھے۔‘‘
تشریح:
1۔ فرشتے اپنی ڈیوٹی کے لیے یکے بعد دیگرے آتے جاتے ہیں۔ ایک گروہ آتا ہے تو دوسرا چلا جاتا ہے۔ 2۔ ان تمام احادیث سے امام بخاری ى کی غرض فرشتوں کا وجود ثابت کرنا ہے جن پر ایمان لانا ارکان ایمان میں سے ہے۔ فرشتوں میں حضرت جبرئیل ؑ، حضرت میکائل ؑاور حضرت اسرافیل ؑ زیادہ مشہور ہیں۔ باقی تعداد میں اتنے ہیں کہ انھیں اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ وہ سب اللہ کے عاجز بندے اور اس کی اطاعت گزار ہیں۔ وہ اللہ کی اجازت کے بغیر دم بھی نہیں مارسکتے اور نہ وہ کسی کے لیے نفع ونقصان ہی کے مالک ہیں۔ وہ شب و روز اللہ کی اطاعت اور اس کی عبادت میں مصروف ہیں۔ یہی ان کاکام اور اوڑھنا بچھونا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3101
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3223
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3223
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3223
تمہید کتاب
محدثین کرام نے کتب حدیث کو مضامین کے اعتبار سے مختلف قسموں میں تقسیم کیا ہے جن میں سے ایک"الجامع"ہےاس سے مرادوہ کتاب ہے جس میں مؤلف نے عقائد عبادات ، معاملات، سیرت ، جہاد مناقب ، رقاق ، آداب ، فتن تاریخ اورا حوال آخرت سے متعلقہ احادیث کو ایک خاص ترتیب سے جمع کیا ہو۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی تالیف بھی"الجامع"کہلاتی ہے جس میں مختلف قسم کے علوم و فنون جمع ہیں۔ ان میں سے ایک تاریخ بھی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں سے تاریخ بیان کرنا شروع کی ہے۔ یہ سلسلہ کتاب التفسیر تک چلے گا۔ ہمارے نزدیک کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقل کتاب نہیں بلکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ ہی کا ایک حصہ ہے چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ کی وفات کے ابواب بھی بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے بہر حال اسے آغاز تخلیق سے شروع کیا ہے۔اس کے بعد احادیث انبیاء پھر مناقب وغیرہ بیان ہوں گے اس کے بعد مغازی کا ذکر ہوگا۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے تاریخی حقائق بیان کرنے کے لیے ایک سو ساٹھ احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں بائیس معلق اور باقی ایک سواڑتیس احادیث متصل سند سے مروی ہیں ان مرفوع احادیث میں ترانوے احادیث مکرر اور تریسٹھ خالص ہیں پندرہ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اورتابعین عظام رحمۃ اللہ علیہ سے مروی چالیس آثار بھی ہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث و آثار پر تقریباً سترہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے مختلف تاریخی حقائق پرروشنی ڈالنا مقصود ہے۔اس میں تاریخ کا وہ حصہ بیان کیا گیا ہے جس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی تخلیق سے ہے۔ اس کے بعد حضرات انبیاء کا ذکر ہوگا جسے ایک الگ عنوان سے بیان کیا جائے گا۔ بہر حال آغاز تخلیق اور مخلوقات کے متعلق امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جو احادیث پیش کی ہیں وہ دلچسپ اور معلومات افزا ہیں ان کے متعلق تشریحی فوائد بھی ہم نے بڑی محنت سے مرتب کیےہیں۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ خلوص نیت سے پیش کردہ احادیث اور تشریحی فوائد کا مطالعہ کریں۔ امید ہے کہ یہ مطالعہ آپ کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوگا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قیامت کے دن گروہ محدثین سے اٹھائے اور خدام حدیث کی رفاقت اور ان کا ساتھ نصیب کرے۔آمین۔
تمہید باب
اس عنوان کے تحت جتنی بھی احادیث لائی گئی ہیں وہ سب اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ فرشتے موجود ہیں اور ان کاثبوت ہے۔یہی اس عنوان کی غرض ہے۔اللہ تعالیٰ نے انھیں نور سے پیدا کیا ہے۔انھیں لطیف جسم دیاگیا ہے اور انھیں ہر قسم کی شکل اختیار کرنے کی قدرت ہے۔ان کا مسکن آسمان ہے۔اللہ کے فرشتوں پر ایمان لانا اصول ایمان میں سے ہے۔ان کا انکار کفر ہے۔یہودی اپنی جہالت کی بنا پر حضرت جبریل علیہ السلام کو اپنا دشمن سمجھتے تھے کہ یہ ہماری راز کی باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتاتا ہے اور ہمیشہ عذاب ہی لے کر آتا ہے۔عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اثر کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے(کتاب احادیث الانبیاء حدیث:3329) میں اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اثر کو طبری نے اپنی تفسیر(133/23) میں متصل سند سے بیان کیاہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے رسول الہ ﷺسے عرض کیا کہ جبرئیل علیہ السلام کو یہودی فرشتوں میں سے اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ ابن عباس ؓ نے سورۃ والصافات میں بیان کیا کہ لنحن الصافون میں مراد ملائکہ ہیں۔ تشریح : یہودی اپنی جہالت سے جبرئیل علیہ السلام کو اپنا دشمن سمجھتے اور کہتے تھے کہ ہمارے راز کی باتیں وہی آنحضرت ﷺ سے کہہ جاتا ہے یا یہ کہ یہ ہمیشہ عذاب لے کر ہی اترتا ہے۔ اس اثر کو خود امام بخاری نے باب الہجرۃ میں وصل فرمایا ہے۔ لنحن الصافون فرشتوں کی زبان سے نقل کیا کہ ہم قطار باندھنے والے اللہ کی پاکی بیان کرنے والے ہیں۔ اس اثر کو طبرانی نے وصل کیا ہے
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’فرشتے لگاتار ایک د وسرے کے بعد آتے جاتے ہیں۔ کچھ فرشتے رات کو آتے ہیں اور کچھ دن کے وقت اترتے ہیں۔ یہ سب نماز فجر اور نماز عصر میں جمع ہوجاتے ہیں۔ پھر جو فرشتے تم میں رات بھر رہتے ہیں اور وہ اللہ کے حضور جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے، حالانکہ وہ سب کچھ جانتا ہے: تم نے میرے بندوں کو کس حالت پر چھوڑا؟ وہ عرض کرتے ہیں: ہم نے ان کو (فجر کی) نماز پڑھتے ہوئے چھوڑا ہے اور جب ہم ان کے پاس گئے تھے تب بھی وہ نماز (عصر) پڑھ رہے تھے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ فرشتے اپنی ڈیوٹی کے لیے یکے بعد دیگرے آتے جاتے ہیں۔ ایک گروہ آتا ہے تو دوسرا چلا جاتا ہے۔ 2۔ ان تمام احادیث سے امام بخاری ى کی غرض فرشتوں کا وجود ثابت کرنا ہے جن پر ایمان لانا ارکان ایمان میں سے ہے۔ فرشتوں میں حضرت جبرئیل ؑ، حضرت میکائل ؑاور حضرت اسرافیل ؑ زیادہ مشہور ہیں۔ باقی تعداد میں اتنے ہیں کہ انھیں اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ وہ سب اللہ کے عاجز بندے اور اس کی اطاعت گزار ہیں۔ وہ اللہ کی اجازت کے بغیر دم بھی نہیں مارسکتے اور نہ وہ کسی کے لیے نفع ونقصان ہی کے مالک ہیں۔ وہ شب و روز اللہ کی اطاعت اور اس کی عبادت میں مصروف ہیں۔ یہی ان کاکام اور اوڑھنا بچھونا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حضرت انس بن مالک ؓبیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ فرشتوں میں سے حضرت جبرئیلؑ یہودیوں کے دشمن ہیں۔حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: آیت کریمہ"ہم تو صف باندھنے والے ہیں۔ "سے مراد فرشتے ہیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ فرشتے آگے پیچھے زمین پر آتے جاتے رہتے ہیں، کچھ فرشتے رات کے ہیں اور کچھ دن کے اور یہ سب فجر اور عصر کی نماز میں جمع ہو جاتے ہیں۔ پھر وہ فرشتے جو تمہارے یہاں رات میں رہے۔ اللہ کے حضور میں جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان سے دریافت فرماتا ہے....حالانکہ وہ سب سے زیادہ جاننے والا ہے.... کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا، وہ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ جب ہم نے انہیں چھوڑا تو وہ (فجر کی) نماز پڑھ رہے تھے۔ اور اسی طرح جب ہم ان کے یہاں گئے تھے، جب بھی وہ (عصر) کی نماز پڑھ رہے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ان جملہ احادیث کے لانے سے مجتہد مطلق حضرت امام بخاری ؒ کی غرض فرشتوں کا وجود ثابت کرنا ہے۔ جن پر ایمان لانا ارکان ایمان سے ہے۔ فرشتوں میں حضرت جبرئیل، میکائیل، اسرافیل ؑ زیادہ مشہور ہیں۔ باقی ان کی تعداد اتنی ہے جسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، وہ سب اللہ کے بندے ہیں، اللہ کے فرمانبردار ہیں۔ اس کی اجازت بغیر وہ دم بھی نہیں مارسکتے نہ وہ کسی نفع نقصان کے مالک ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "Angels keep on descending from and ascending to the Heaven in turn, some at night and some by daytime, and all of them assemble together at the time of the Fajr and 'Asr prayers. Then those who have stayed with you over-night, ascent unto Allah Who asks them, and He knows the answer better than they, "How have you left My slaves?" They reply, "We have left them praying as we found them praying." If anyone of you says "Amin" (during the Prayer at the end of the recitation of Surat-al-Faitiha), and the angels in Heaven say the same, and the two sayings coincide, all his past sins will be forgiven."