باب: اس بارے میں کہ جس نے (اپنی عورت کے لیے) حیض کے لیے پاکی میں پہنے جانے والے کپڑوں کے علاوہ کپڑے بنائے۔
)
Sahi-Bukhari:
Menstrual Periods
(Chapter: Whoever kept a special dress for menses besides other dresses for the clean period)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
323.
حضرت ام سلمہ ؓ ہی سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں: میں نبی ﷺ کے ہمراہ ایک چادر میں لیٹی ہوئی تھی کہ مجھے حیض آ گیا۔ میں چپکے سے نکل آئی اور حیض کا لباس پہن لیا۔ آپ نے فرمایا:’’کیا تجھے حیض آ گیا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: جی ہاں! تو آپ نے مجھے بلا لیا اور میں آپ کے ساتھ چادر میں لیٹ گئی۔
تشریح:
شارح بخاری علامہ ابن بطال ؒ لکھتے ہیں کہ اگر کوئی اعتراض کرے کہ یہ توحدیث حضرت عائشہ ؓ سے مروی ایک حدیث کے معارض ہے، جس میں انھوں نےفرمایا ہے:’’ہمارے پاس صرف ایک ہی لباس ہوتا تھا جس میں حیض کے دن بھی گزارتےتھے۔‘‘ اس کاجواب یہ ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے ابتدائے اسلام کا حال بیان فرمایا ہے، جب مسلمانوں پرتنگی اور افلاس کے دن تھے، لیکن جب اس کے بعد فتوحات کا دور آیا اور اموال غنیمت کی بہتات ہوئی تو رہن سہن کے معاملات میں بھی وسعت آگئی اور عورتوں نے لباس میں تنوع اختیارکرلیا، زمانہ طہر کا لباس الگ اورزمانہ حیض میں استعمال کے لیے لباس دوسرا۔ حضرت ام سلمہ ؓ نے حدیث مذکور میں دوسرے خوش عیشی کے وقت کی خبر دی ہے۔ (شرح ابن بطال:449/1) مقصد یہ ہےکہ اگرکوئی عورت ایام حیض کے لیے کوئی مخصوص لباس رکھتی ہے تو یہ عمل قابل اعتراض نہیں اور نہ اسے اسراف میں شامل کیا جاسکتا ہے جس کی شریعت میں ممانعت ہے۔ اسراف ممنوع یہ ہے کہ بے ضرورت یا محض فخرومباہات کے لیے لباس میں تنوع اختیار کیا جائے۔ اگرگنجائش ہو تو ان دنوں الگ لباس کا اہتمام کرنا بہتر ہے۔ بعض حضرات نے ثیابِ حیض سے مراد روئی کی گدی اور لنگوٹ وغیرہ لیا ہے، یعنی قمیص، شلوار اور دوپٹہ تو عورت کا لباس ہے، اگرایام حیض میں گدی اور لنگوٹ وغیرہ کا اضافہ کرلیا جائے تو قابل اعتراض نہیں، لیکن ہمارے نزدیک یہ محل نظر ہے، کیونکہ ان پٹیوں، گدیوں اور لنگوٹ وغیرہ کو لباس کا درجہ دینا صحیح نہیں۔ اسے احتمال بعید کا نام دینا ہی مناسب ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم ابواب میں لکھتے ہیں:’’اس حدیث سے استدلال اس بات پر موقوف ہے کہ ثیاب حیض سے مراد ایسے کپڑے لیے جائیں جو روئی کی گدیوں کے علاوہ پہنے جاتے ہیں۔ روئی کی گدیاں اورپٹیوں کا استعمال تو ایام حیض میں معروف ہے اوراحتمال ہے کہ یہی لباس مراد ہو۔‘‘ ہمارے نزدیک احتمال ہی نہیں، بلکہ حقیقت میں ایساہی ہے کہ حضرت ام سلمہ ؓ نے گدیوں اورلنگوٹ کے علاوہ کوئی دوسرا لباس پہنا تھا جو ایام حیض کے لیے مخصوص تھا۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس لباس کو دیکھ کر فرمایا:’’کیا تجھے حیض آگیاہے؟‘‘ یہ گدیاں اور لنگوٹ تو نظر نہیں آتے کہ انھیں دیکھ کر کوئی شخص حیض کا اندازہ لگالے۔ واللہ أعلم۔
حضرت ام سلمہ ؓ ہی سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں: میں نبی ﷺ کے ہمراہ ایک چادر میں لیٹی ہوئی تھی کہ مجھے حیض آ گیا۔ میں چپکے سے نکل آئی اور حیض کا لباس پہن لیا۔ آپ نے فرمایا:’’کیا تجھے حیض آ گیا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: جی ہاں! تو آپ نے مجھے بلا لیا اور میں آپ کے ساتھ چادر میں لیٹ گئی۔
حدیث حاشیہ:
شارح بخاری علامہ ابن بطال ؒ لکھتے ہیں کہ اگر کوئی اعتراض کرے کہ یہ توحدیث حضرت عائشہ ؓ سے مروی ایک حدیث کے معارض ہے، جس میں انھوں نےفرمایا ہے:’’ہمارے پاس صرف ایک ہی لباس ہوتا تھا جس میں حیض کے دن بھی گزارتےتھے۔‘‘ اس کاجواب یہ ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے ابتدائے اسلام کا حال بیان فرمایا ہے، جب مسلمانوں پرتنگی اور افلاس کے دن تھے، لیکن جب اس کے بعد فتوحات کا دور آیا اور اموال غنیمت کی بہتات ہوئی تو رہن سہن کے معاملات میں بھی وسعت آگئی اور عورتوں نے لباس میں تنوع اختیارکرلیا، زمانہ طہر کا لباس الگ اورزمانہ حیض میں استعمال کے لیے لباس دوسرا۔ حضرت ام سلمہ ؓ نے حدیث مذکور میں دوسرے خوش عیشی کے وقت کی خبر دی ہے۔ (شرح ابن بطال:449/1) مقصد یہ ہےکہ اگرکوئی عورت ایام حیض کے لیے کوئی مخصوص لباس رکھتی ہے تو یہ عمل قابل اعتراض نہیں اور نہ اسے اسراف میں شامل کیا جاسکتا ہے جس کی شریعت میں ممانعت ہے۔ اسراف ممنوع یہ ہے کہ بے ضرورت یا محض فخرومباہات کے لیے لباس میں تنوع اختیار کیا جائے۔ اگرگنجائش ہو تو ان دنوں الگ لباس کا اہتمام کرنا بہتر ہے۔ بعض حضرات نے ثیابِ حیض سے مراد روئی کی گدی اور لنگوٹ وغیرہ لیا ہے، یعنی قمیص، شلوار اور دوپٹہ تو عورت کا لباس ہے، اگرایام حیض میں گدی اور لنگوٹ وغیرہ کا اضافہ کرلیا جائے تو قابل اعتراض نہیں، لیکن ہمارے نزدیک یہ محل نظر ہے، کیونکہ ان پٹیوں، گدیوں اور لنگوٹ وغیرہ کو لباس کا درجہ دینا صحیح نہیں۔ اسے احتمال بعید کا نام دینا ہی مناسب ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم ابواب میں لکھتے ہیں:’’اس حدیث سے استدلال اس بات پر موقوف ہے کہ ثیاب حیض سے مراد ایسے کپڑے لیے جائیں جو روئی کی گدیوں کے علاوہ پہنے جاتے ہیں۔ روئی کی گدیاں اورپٹیوں کا استعمال تو ایام حیض میں معروف ہے اوراحتمال ہے کہ یہی لباس مراد ہو۔‘‘ ہمارے نزدیک احتمال ہی نہیں، بلکہ حقیقت میں ایساہی ہے کہ حضرت ام سلمہ ؓ نے گدیوں اورلنگوٹ کے علاوہ کوئی دوسرا لباس پہنا تھا جو ایام حیض کے لیے مخصوص تھا۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس لباس کو دیکھ کر فرمایا:’’کیا تجھے حیض آگیاہے؟‘‘ یہ گدیاں اور لنگوٹ تو نظر نہیں آتے کہ انھیں دیکھ کر کوئی شخص حیض کا اندازہ لگالے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام دستوائی نے یحییٰ بن ابی کثیر سے، وہ ابوسلمہ سے، وہ زینب بنت ابی سلمہ سے، وہ ام سلمہ سے، انھوں نے بتلایا کہ میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک چادر میں لیٹی ہوئی تھی کہ مجھے حیض آ گیا، میں چپکے سے چلی گئی اور حیض کے کپڑے بدل لیے، آپ نے پوچھا کیا تجھ کو حیض آ گیا ہے۔ میں نے کہا، جی ہاں! پھر مجھے آپ نے بلا لیا اور میں آپ کے ساتھ چادر میں لیٹ گئی۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ حیض کے لیے عورت کو علیحدہ کپڑے بنانے مناسب ہیں اور طہر کے لیے علیحدہ تاکہ ان کو سہولت ہوسکے، یہ اسراف میں داخل نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Um Salama (RA): While I was lying with the Prophet (ﷺ) under a woolen sheet, I got my menses. I slipped away and put on the clothes for menses. The Prophet (ﷺ) said, "Have you got your menses?" I replied, "Yes." He called me and I slept with him under the woolen sheet.