باب: عیدین میں اور مسلمانوں کے ساتھ دعا میں حائضہ عورتیں بھی شریک ہوں اور یہ عورتیں نماز کی جگہ سے ایک طرف ہو کر رہیں۔
)
Sahi-Bukhari:
Menstrual Periods
(Chapter: The participation of menstruating women in the two Eid festivals and in religious gatherings of Muslims and their isolation from the Musalla (prayer place))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
324.
حضرت حفصہ بنت سیرین سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ہم جوان لڑکیوں کو عیدین کے لیے باہر نکلنے سے منع کیا کرتی تھیں۔ ایک عورت آئی اور بنی خلف کے محل میں اتری۔ اس نے اپنی بہن کے واسطے سے یہ حدیث سنائی اور اس کے بہنوئی نے نبی ﷺ کے ہمراہ بارہ غزوات میں شرکت کی تھی اور خود ان کی بہن بھی اپنے شوہر کے ہمراہ چھ غزوات میں شرکت کر چکی تھی۔ اس (بہن) نے بتایا کہ ہم زخمیوں کی مرہم پٹی کیا کرتی تھیں اور مریضوں کی تیمارداری بھی کرتی تھیں۔ میری بہن نے ایک مرتبہ نبی ﷺ سے دریافت کیا: اگر ہم میں سے کسی کے پاس بڑی چادر نہ ہو تو اس کے (نماز عید کے لیے) باہر نہ جانے میں کوئی حرج ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اس کی ساتھی کو چاہئے کہ وہ اسے اپنی چادر کا کچھ حصہ پہنا دے تاکہ وہ مجالس خیر اور مسلمانوں کی دعاؤں میں شریک ہو۔‘‘ پھر جب ام عطیہ ؓ آئیں تو میں نے ان سے دریافت کیا: کیا آپ نے نبی ﷺ سے (ایسا) سنا ہے؟ انھوں نے فرمایا: میرے (ماں) باپ آپ پر فدا ہوں ۔۔ ام عطیہ ؓ جب بھی آپ کا ذکر کرتیں ’’میرے (ماں) باپ آپ پر فدا ہوں‘‘ کے الفاظ ضرور کہتیں ۔۔ ہاں، میں نے آپ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ ’’جوان لڑکیاں، پردہ نشین خواتین (یا فرمایا) پردہ نشین جوان لڑکیاں اور حیض والی عورتیں عیدگاہ جائیں اور مجالس خیر، نیز مسلمانوں کی دعاؤں میں شریک ہوں، البتہ حائضہ عورتیں عیدگاہ سے الگ رہیں۔‘‘ حفصہ بنت سیرین کہتی ہیں: میں نے حضرت ام عطیہ ؓ سے دریافت کیا: آیا حائضہ بھی شریک ہو سکتی ہے؟ انھوں نے فرمایا: (کیوں نہیں؟) کیا حائضہ عورتیں عرفہ میں اور فلاں فلاں جگہ نہیں جاتیں؟
حضرت حفصہ بنت سیرین سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ہم جوان لڑکیوں کو عیدین کے لیے باہر نکلنے سے منع کیا کرتی تھیں۔ ایک عورت آئی اور بنی خلف کے محل میں اتری۔ اس نے اپنی بہن کے واسطے سے یہ حدیث سنائی اور اس کے بہنوئی نے نبی ﷺ کے ہمراہ بارہ غزوات میں شرکت کی تھی اور خود ان کی بہن بھی اپنے شوہر کے ہمراہ چھ غزوات میں شرکت کر چکی تھی۔ اس (بہن) نے بتایا کہ ہم زخمیوں کی مرہم پٹی کیا کرتی تھیں اور مریضوں کی تیمارداری بھی کرتی تھیں۔ میری بہن نے ایک مرتبہ نبی ﷺ سے دریافت کیا: اگر ہم میں سے کسی کے پاس بڑی چادر نہ ہو تو اس کے (نماز عید کے لیے) باہر نہ جانے میں کوئی حرج ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اس کی ساتھی کو چاہئے کہ وہ اسے اپنی چادر کا کچھ حصہ پہنا دے تاکہ وہ مجالس خیر اور مسلمانوں کی دعاؤں میں شریک ہو۔‘‘ پھر جب ام عطیہ ؓ آئیں تو میں نے ان سے دریافت کیا: کیا آپ نے نبی ﷺ سے (ایسا) سنا ہے؟ انھوں نے فرمایا: میرے (ماں) باپ آپ پر فدا ہوں ۔۔ ام عطیہ ؓ جب بھی آپ کا ذکر کرتیں ’’میرے (ماں) باپ آپ پر فدا ہوں‘‘ کے الفاظ ضرور کہتیں ۔۔ ہاں، میں نے آپ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ ’’جوان لڑکیاں، پردہ نشین خواتین (یا فرمایا) پردہ نشین جوان لڑکیاں اور حیض والی عورتیں عیدگاہ جائیں اور مجالس خیر، نیز مسلمانوں کی دعاؤں میں شریک ہوں، البتہ حائضہ عورتیں عیدگاہ سے الگ رہیں۔‘‘ حفصہ بنت سیرین کہتی ہیں: میں نے حضرت ام عطیہ ؓ سے دریافت کیا: آیا حائضہ بھی شریک ہو سکتی ہے؟ انھوں نے فرمایا: (کیوں نہیں؟) کیا حائضہ عورتیں عرفہ میں اور فلاں فلاں جگہ نہیں جاتیں؟
ہم سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب ثقفی نے ایوب سختیانی سے، وہ حفصہ بنت سیرین سے، انھوں نے فرمایا کہ ہم اپنی کنواری جوان بچیوں کو عیدگاہ جانے سے روکتی تھیں، پھر ایک عورت آئی اور بنی خلف کے محل میں اتریں اور انھوں نے اپنی بہن ( ام عطیہ ) کے حوالہ سے بیان کیا، جن کے شوہر نبی ﷺ کے ساتھ بارہ لڑائیوں میں شریک ہوئے تھے اور خود ان کی اپنی بہن اپنے شوہر کے ساتھ چھ جنگوں میں گئی تھیں۔ انھوں نے بیان کیا کہ ہم زخمیوں کی مرہم پٹی کیا کرتی تھیں اور مریضوں کی خبر گیری بھی کرتی تھیں۔ میری بہن نے ایک مرتبہ نبی ﷺ سے پوچھا کہ اگر ہم میں سے کسی کے پاس چادر نہ ہو تو کیا اس کے لیے اس میں کوئی حرج ہے کہ وہ ( نماز عید کے لیے ) باہر نہ نکلے۔ آپ نے فرمایا: اس کی ساتھی عورت کو چاہیے کہ اپنی چادر کا کچھ حصہ اسے بھی اڑھا دے، پھر وہ خیر کے مواقع پر اور مسلمانوں کی دعاؤں میں شریک ہوں، ( یعنی عیدگاہ جائیں ) پھر جب ام عطیہ ؓ آئیں تو میں نے ان سے بھی یہی سوال کیا۔ انھوں نے فرمایا: میرا باپ آپ پر فدا ہو، ہاں آپ ﷺ نے یہ فرمایا تھا۔ اور ام عطیہ جب بھی آنحضرت ﷺ کا ذکر کرتیں تو یہ ضرور فرماتیں کہ میرا باپ آپ ﷺ پر فدا ہو۔ ( انھوں نے کہا ) میں نے آپ کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ جوان لڑکیاں، پردہ والیاں اور حائضہ عورتیں بھی باہر نکلیں اور مواقع خیر میں اور مسلمانوں کی دعاؤں میں شریک ہوں اور حائضہ عورت جائے نماز سے دور رہے۔ حفصہ کہتی ہیں: میں نے پوچھا کیا حائضہ بھی؟ تو انھوں نے فرمایا کہ وہ عرفات میں اور فلاں فلاں جگہ نہیں جاتی۔ یعنی جب وہ ان جملہ مقدس مقامات میں جاتی ہیں تو پھر عیدگاہ کیوں نہ جائیں۔
حدیث حاشیہ:
اجتماع عیدین میں عورتیں ضرور شریک ہوں: اجتماع عیدین میں عورتوں کے شریک ہونے کی اس قدر تاکید ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حائضہ عورتوں تک کے لیے تاکید فرمائی کہ وہ بھی اس ملی اجتماع میں شریک ہوکر دعاؤں میں حصہ لیں اور حالت حیض کی وجہ سے جائے نماز سے دوررہیں، ان مستورات کے لیے جن کے پاس اوڑھنے کے لیے چادربھی نہیں، آپ نے اس اجتماع سے پیچھے رہ جانے کی اجازت نہیں دی، بلکہ فرمایاکہ اس کی ساتھ والی دوسری عورتوں کو چاہئیے کہ اس کے لیے اوڑھنی کا انتظام کردیں۔ روایت مذکورہ میں یہاں تک تفصیل موجود ہے کہ حضرت حفصہ ؒ نے تعجب کے ساتھ ام عطیہ ؓ سے کہا کہ حیض والی عورتیں کس طرح نکلیں گی، جب کہ وہ نجاست حیض میں ہیں۔ اس پر حضرت ام عطیہ نے فرمایا کہ حیض والی عورتیں حج کے دنوں میں آخر عرفات میں ٹھہرتی ہیں، مزدلفہ میں رہتی ہیں، منیٰ میں کنکریاں مارتی ہیں، یہ سب مقدس مقامات ہیں، جس طرح وہ وہاں جاتی ہیں، اسی طرح عیدگاہ بھی جائیں۔ بخاری شریف کی اس حدیث کے علاوہ اور بھی بہت سی واضح احادیث اس سلسلہ میں موجود ہیں۔ جن سب کا ذکر موجب تطویل ہوگا۔ مگرتعجب ہے فقہائے احناف پر جنھوں نے اپنے فرضی شکوک واوہام کی بنا پر صراحتاً اللہ کے رسول ﷺ کے اس فرمان عالی شان کے خلاف فتویٰ دیا ہے۔ مناسب ہوگا کہ فقہائے احناف کا فتویٰ صاحب ایضاح البخاری کے لفظوں میں پیش کردیا جائے، چنانچہ آپ فرماتے ہیں: ’’اب عیدگاہ کا حکم بدل گیا ہے، پہلے عیدگاہ مسجد کی شکل میں نہ ہوتی تھی، اس لیے حائضہ اور جنبی کو بھی اندر جانے کی اجازت تھی، اب عیدگاہیں مکمل مسجد کی صورت میں ہوتی ہیں، اس لیے ان کا حکم بعینہ مسجد کا حکم ہے۔ اسی طرح دورِحاضر میں عورتوں کو عیدگاہ کی نماز میں شرکت سے بھی روکا گیا ہے۔ صدراول میں اول تو اتنا اندیشہ فتنہ وفساد کا نہیں تھا، دوسرے یہ کہ اسلام کی شان و شوکت ظاہر کرنے کے لیے ضروری تھا، مرد وعورت سب مل کر عیدکی نماز میں شرکت کریں۔ اب فتنہ کا بھی زیادہ اندیشہ ہے اور اظہارشان وشوکت کی بھی ضرورت نہیں، اس لیے روکا جائے گا۔ متاخرین کا یہی فیصلہ ہے۔ إلی آخره‘‘(إیضاح البخاري، جز11،ص: 129) منصف مزاج ناظرین اندازہ فرماسکیں گے کہ کس جرات کے ساتھ احادیث صحیحہ کے خلاف فتویٰ دیا جارہا ہے، جس کا اگر گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے تو یہ نتیجہ بھی نکل سکتا ہے کہ اگرعیدگاہ کھلے میدان میں ہو اور اس کی تعمیر مسجد جیسی نہ ہو اور پر دے کا انتظام اتنا بہتر کردیا جائے کہ فتنہ وفساد کا مطلق کوئی خوف نہ ہو اور اس اجتماع مرد وزن سے اسلام کی شان وشوکت بھی مقصود ہو تو پھر عورتوں کا عید کے اجتماع میں شرکت کرناجائز ہوگا۔ الحمد للہ کہ جماعت اہل حدیث کے ہاں اکثر یہ تمام چیزیں پائی جاتی ہیں۔ وہ بیشتر کھلے میدانوں میں عمدہ انتظامات کے ساتھ مع اپنے اہل وعیال عیدین کی نمازیں ادا کرتے ہیں اور اسلامی شان وشوکت کا مظاہرہ کرتے ہیں، ان کی عیدگاہوں میں کبھی فتنہ وفساد کا نام تک بھی نہیں آیا۔ برخلاف اس کے ہمارے بہت سے بھائیوں کی عورتیں میلوں عرسوں میں بلاحجاب شریک ہوتی ہیں اور وہاں نت نئے فسادات ہوتے رہتے ہیں۔ مگر ہمارے محترم فقہائے عظام وہاں عورتوں کی شرکت پر اس قدر غیظ وغضب کا اظہار کبھی نہیں فرماتے جس قدر اجتماع عیدین میں مستورات کی شرکت پر ان کی فقاہت کی باریکیاں مخالفانہ منظرعام پر آجاتی ہیں۔ پھر یہ بھی تو غورطلب چیز ہے کہ آنحضرت ﷺ کی جملہ مستورات، اصحاب کرام، انصار و مہاجرین کی مستورات درجہ شرافت میں جملہ مستورات امت سے افضل ہیں، پھر بھی وہ شریک عیدین ہوا کرتی تھیں۔ جیسا کہ خود فقہائے احناف کو تسلیم ہے۔ ہماری مستورات توبہرحال ان سے کمترہیں، وہ اگر با پردہ شریک ہوں گی تو کیوں کر فتنہ وفساد کی آگ بھڑکنے لگے گی یا ان کی عزت و آبرو پر کون سا حرف آجائے گا۔ کیا وہ قرن اوّل کی صحابیات سے بھی زیادہ عزت رکھتی ہیں؟ باقی رہا حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا ارشاد : ''لورأی رسول اللہ ﷺ ما أحدث النساءالخ'' ’’ کہ اگر رسول اللہ ﷺ آج عورتوں کے نوپیداحالات کو دیکھتے تو ان کو عیدگاہ سے منع کردیتے۔‘‘ یہ حضرت عائشہ ؓ کی ذاتی رائے ہے جو اس وقت کے حالات کے پیش نظر تھی، اور ظاہر ہے کہ ان کی اس رائے سے حدیث نبوی کو ٹھکرایا نہیں جاسکتا۔ پھر یہ بیان لفظ ''لو'' ( اگر ) کے ساتھ ہے جس کا مطلب یہ کہ ارشاد نبوی آج بھی اپنی حالت پر واجب العمل ہے۔ خلاصہ یہ کہ عیدگاہ میں پردہ کے ساتھ عورتوں کا شریک ہونا سنت ہے۔ وباللہ التوفیق۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aiyub (RA): Hafsah (RA) said, 'We used to forbid our young women to go out for the two 'Id prayers. A woman came and stayed at the palace of Bani Khalaf and she narrated about her sister whose husband took part in twelve holy battles along with the Prophet (ﷺ) and her sister was with her husband in six (out of these twelve). She (the woman's sister) said, "We used to treat the wounded, look after the patients and once I asked the Prophet, 'Is there any harm for any of us to stay at home if she doesn't have a veil?' He said, 'She should cover herself with the veil of her companion and should participate in the good deeds and in the religious gathering of the Muslims.' When Um 'Atiya came I asked her whether she had heard it from the Prophet. She replied, "Yes. May my father be sacrificed for him (the Prophet)! (Whenever she mentioned the Prophet (ﷺ) she used to say, 'May my father be sacrificed for him) I have heard the Prophet (ﷺ) saying, 'The unmarried young virgins and the mature girl who stay often screened or the young unmarried virgins who often stay screened and the menstruating women should come out and participate in the good deeds as well as the religious gathering of the faithful believers but the menstruating women should keep away from the Musalla (praying place).' “Hafsah (RA) asked Um 'Atiya surprisingly, "Do you say the menstruating women?" She replied, "Doesn't a menstruating woman attend 'Arafat (Hajj) and such and such (other deeds)?"