کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیوں کر شروع ہوئی
(
باب : ابلیس اور اس کی فوج کا بیان۔
)
Sahi-Bukhari:
Beginning of Creation
(Chapter: The characteristics of Iblis (Satan) and his soldiers)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور مجاہد نے کہا ( سورۃ والصافات میں ) لفظ یقذفون کا معنی پھینکے جاتے ہیں ( اسی سورۃ میں ) دحورا کے معنی دھتکارے ہوئے کے ہیں ۔ اسی سورۃ میں لفظ واصب کا معنی ہمیشہ کا ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ( سورۃ اعراف میں ) لفظ مدحورا کا معنی دھتکارا ہوا ، مردود ( اور سورۃ نساءمیں ) مریدا کا معنی متمرد و شریر کے ہیں ۔ اسی سورۃ میں فلیبتکن بتک سے نکلا ہے ۔ یعنی چیرا ، کاٹا ۔ ( سورۃ بنی اسرائیل میں ) واستفزز کا معنی ان کو ہلکا کردے ۔ اسی سورۃ میں خیل کا معنی سوار اور رجل یعنی پیادے ۔ یعنی رجالہ اس کا مفرد راجل جیسے صحب کا مفرد صاحب اور تجر کا مفرد تاجر اسی سورۃ میں لفظ لاحتنکن کا معنی جڑ سے اکھاڑدوں گا ۔ سورۃ والصافات میں لفظ قرین کے معنی شیطان کے ہیں ۔ تشریح : یہ باب لاکر حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان ملاحدہ کا رد کیا جو شیطان کے وجود کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا نفس ہی شیطان ہے باقی ابلیس کا علےٰحدہ کوئی وجود نہیں ہے۔ قسطلانی نے کہا ابلیس ایک شخص ہے روحانی جو آگ سے پیدا ہوا ہے اور وہ جنوں اور شیطانوں کا باپ ہے۔ جیسے آدم آدمیوں کے باپ تھے۔ بعض نے کہا وہ فرشتوں میں سے تھا۔ خدا کی نافرمانی سے مردود ہوگیا اور جنوں کی فہرست میں داخل کیاگیا۔
3268.
حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ پر جادوکیا گیا تو آپ کو یہ محسوس ہوتا تھا کہ آپ نے کوئی کام کیا ہے، حالانکہ وہ نہ کیا ہوتا تھا۔ پھر آپ نے ایک دن دعا فرمائی، پھر دعافرمائی (خوب دعا فرمائی)۔ اس کے بعد آپ نے (مجھ سے)فرمایا: ’’(عائشہ!) کیا تمھیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آج مجھے ایسی چیز بتائی ہے جس میں میری شفا ہے۔ میرے پاس دو آدمی آئے۔ ان میں سے ایک میرےسر کے پاس اور دوسرا میرےپاؤں کے پاس بیٹھ گیا۔ ایک نے دوسرے سے کہا: انھیں کیا تکلیف ہے؟ اس نے کہا: یہ سحر زدہ ہیں۔ اس نے کہا: ان پر کس نے جادو کیا ہے؟ دوسرے نے کہا: لبید بن اعصم (یہودی) نے۔ اس نے کہا: کس چیز میں جادو کیا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا: کنگھی بالوں اور نرکھجورکے خوشئہ پوست میں۔ اس نے کہا: یہ کہاں رکھا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا: ذروان نامی کنویں میں۔‘‘ اس کے بعد نبی ﷺ کنویں کے پاس تشریف لے گئے اور واپس آکر حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا: ’’وہاں کی کھجوریں شیاطین کے سر کی مانند ہیں۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: کیا آپ نے اسے باہر نکالا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں، اللہ تعالیٰ نے مجھے شفا دے دی ہے اور مجھے اندیشہ ہے کہ اس سے لوگوں میں فساد پھیلے گا۔‘‘ اس کے بعد وہ کنواں بند کر دیا گیا۔
تشریح:
1۔ رسول اللہ ﷺ پر جادوبیویوں کے سلسلے میں ہوا تھا کہ آپ ان کے پاس نہ جا سکیں۔ آپ سمجھتے تھے کہ میں ان سے تعلق قائم کر سکتا ہوں لیکن تعلق قائم نہیں کر سکتے تھے چنانچہ ایک روایت میں ہے اس جادو کے اثر سے آپ کو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپ عورتوں سے صحبت کر رہے ہیں لیکن ایسا نہیں ہوتا تھا۔ (صحیح البخاري، الأدب، حدیث:6063) الغرض اس جادو کا اثر آپ کے خیالات پر ہوا لیکن وحی اور تبلیغ رسالت میں اس کا کوئی اثر نہ ہو سکا۔ اتنا سا جو اثر ہو اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مصلحت تھی۔ ایک روایت میں ہے آپ نے اس جادو کو کنویں سے نکلوایا لیکن رد عمل کے طور پر اس یہودی سے کوئی باز پرس نہ کی کہیں ایسا نہ ہو کہ مسلمان جذبات میں آکر اسے قتل کردیں جبکہ اس روایت میں ہے کہ آپ نے اسے نکالا نہیں تھا۔ ان میں تطبیق کی یہ صورت ممکن ہے کہ اس وقت آپ نے نہیں نکلوایا تھا بعد میں کسی دوسرے وقت اسے نکلوایا اور اس کی تفصیل سے آپ مطلع ہوئے۔ اس کے متعلق مکمل بحث کتاب الطب میں ہو گی۔ 2۔ امام بخاری ؒ کا اس حدیث سے مقصود یہ ہے کہ جادو کی تکمیل میں شیاطین کا ہاتھ ہوتا ہے اور یہ ان کی بری صفات میں سے ہے کہ جادو کے ذریعے سے خاوند اور بیوی کے درمیان اختلاف ڈال دیں۔ نتیجے کے طور پر ان میں تفریق ہو جائے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3145
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3268
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3268
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3268
تمہید کتاب
محدثین کرام نے کتب حدیث کو مضامین کے اعتبار سے مختلف قسموں میں تقسیم کیا ہے جن میں سے ایک"الجامع"ہےاس سے مرادوہ کتاب ہے جس میں مؤلف نے عقائد عبادات ، معاملات، سیرت ، جہاد مناقب ، رقاق ، آداب ، فتن تاریخ اورا حوال آخرت سے متعلقہ احادیث کو ایک خاص ترتیب سے جمع کیا ہو۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی تالیف بھی"الجامع"کہلاتی ہے جس میں مختلف قسم کے علوم و فنون جمع ہیں۔ ان میں سے ایک تاریخ بھی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں سے تاریخ بیان کرنا شروع کی ہے۔ یہ سلسلہ کتاب التفسیر تک چلے گا۔ ہمارے نزدیک کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقل کتاب نہیں بلکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ ہی کا ایک حصہ ہے چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ کی وفات کے ابواب بھی بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے بہر حال اسے آغاز تخلیق سے شروع کیا ہے۔اس کے بعد احادیث انبیاء پھر مناقب وغیرہ بیان ہوں گے اس کے بعد مغازی کا ذکر ہوگا۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے تاریخی حقائق بیان کرنے کے لیے ایک سو ساٹھ احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں بائیس معلق اور باقی ایک سواڑتیس احادیث متصل سند سے مروی ہیں ان مرفوع احادیث میں ترانوے احادیث مکرر اور تریسٹھ خالص ہیں پندرہ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اورتابعین عظام رحمۃ اللہ علیہ سے مروی چالیس آثار بھی ہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث و آثار پر تقریباً سترہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے مختلف تاریخی حقائق پرروشنی ڈالنا مقصود ہے۔اس میں تاریخ کا وہ حصہ بیان کیا گیا ہے جس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی تخلیق سے ہے۔ اس کے بعد حضرات انبیاء کا ذکر ہوگا جسے ایک الگ عنوان سے بیان کیا جائے گا۔ بہر حال آغاز تخلیق اور مخلوقات کے متعلق امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جو احادیث پیش کی ہیں وہ دلچسپ اور معلومات افزا ہیں ان کے متعلق تشریحی فوائد بھی ہم نے بڑی محنت سے مرتب کیےہیں۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ خلوص نیت سے پیش کردہ احادیث اور تشریحی فوائد کا مطالعہ کریں۔ امید ہے کہ یہ مطالعہ آپ کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوگا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قیامت کے دن گروہ محدثین سے اٹھائے اور خدام حدیث کی رفاقت اور ان کا ساتھ نصیب کرے۔آمین۔
تمہید باب
قرآن کی صراحت کے مطابق ابلیس جنوں میں سے ہے اسے ابو الشیاطین بھی کہا جاتا ہے۔ اسے آگ سے پیدا کیا گیا اور یہ جنوں اور شیاطین کا باپ ہے جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام انسانوں کے باپ ہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان سے ان ملحدوں کا رد کیا ہے جو شیطان کے وجود کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارا نفس ہی شیطان ہے اس کے علاوہ ابلیس کا کوئی وجود نہیں۔ مذکورہ الفاظ ان آیات کا حصہ ہیں جن میں ابلیس کی بری صفات اور اس کے گندے کردار کا بیان ہے۔
اور مجاہد نے کہا ( سورۃ والصافات میں ) لفظ یقذفون کا معنی پھینکے جاتے ہیں ( اسی سورۃ میں ) دحورا کے معنی دھتکارے ہوئے کے ہیں ۔ اسی سورۃ میں لفظ واصب کا معنی ہمیشہ کا ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ( سورۃ اعراف میں ) لفظ مدحورا کا معنی دھتکارا ہوا ، مردود ( اور سورۃ نساءمیں ) مریدا کا معنی متمرد و شریر کے ہیں ۔ اسی سورۃ میں فلیبتکن بتک سے نکلا ہے ۔ یعنی چیرا ، کاٹا ۔ ( سورۃ بنی اسرائیل میں ) واستفزز کا معنی ان کو ہلکا کردے ۔ اسی سورۃ میں خیل کا معنی سوار اور رجل یعنی پیادے ۔ یعنی رجالہ اس کا مفرد راجل جیسے صحب کا مفرد صاحب اور تجر کا مفرد تاجر اسی سورۃ میں لفظ لاحتنکن کا معنی جڑ سے اکھاڑدوں گا ۔ سورۃ والصافات میں لفظ قرین کے معنی شیطان کے ہیں ۔ تشریح : یہ باب لاکر حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان ملاحدہ کا رد کیا جو شیطان کے وجود کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا نفس ہی شیطان ہے باقی ابلیس کا علےٰحدہ کوئی وجود نہیں ہے۔ قسطلانی نے کہا ابلیس ایک شخص ہے روحانی جو آگ سے پیدا ہوا ہے اور وہ جنوں اور شیطانوں کا باپ ہے۔ جیسے آدم آدمیوں کے باپ تھے۔ بعض نے کہا وہ فرشتوں میں سے تھا۔ خدا کی نافرمانی سے مردود ہوگیا اور جنوں کی فہرست میں داخل کیاگیا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ پر جادوکیا گیا تو آپ کو یہ محسوس ہوتا تھا کہ آپ نے کوئی کام کیا ہے، حالانکہ وہ نہ کیا ہوتا تھا۔ پھر آپ نے ایک دن دعا فرمائی، پھر دعافرمائی (خوب دعا فرمائی)۔ اس کے بعد آپ نے (مجھ سے)فرمایا: ’’(عائشہ!) کیا تمھیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آج مجھے ایسی چیز بتائی ہے جس میں میری شفا ہے۔ میرے پاس دو آدمی آئے۔ ان میں سے ایک میرےسر کے پاس اور دوسرا میرےپاؤں کے پاس بیٹھ گیا۔ ایک نے دوسرے سے کہا: انھیں کیا تکلیف ہے؟ اس نے کہا: یہ سحر زدہ ہیں۔ اس نے کہا: ان پر کس نے جادو کیا ہے؟ دوسرے نے کہا: لبید بن اعصم (یہودی) نے۔ اس نے کہا: کس چیز میں جادو کیا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا: کنگھی بالوں اور نرکھجورکے خوشئہ پوست میں۔ اس نے کہا: یہ کہاں رکھا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا: ذروان نامی کنویں میں۔‘‘ اس کے بعد نبی ﷺ کنویں کے پاس تشریف لے گئے اور واپس آکر حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا: ’’وہاں کی کھجوریں شیاطین کے سر کی مانند ہیں۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: کیا آپ نے اسے باہر نکالا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں، اللہ تعالیٰ نے مجھے شفا دے دی ہے اور مجھے اندیشہ ہے کہ اس سے لوگوں میں فساد پھیلے گا۔‘‘ اس کے بعد وہ کنواں بند کر دیا گیا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ رسول اللہ ﷺ پر جادوبیویوں کے سلسلے میں ہوا تھا کہ آپ ان کے پاس نہ جا سکیں۔ آپ سمجھتے تھے کہ میں ان سے تعلق قائم کر سکتا ہوں لیکن تعلق قائم نہیں کر سکتے تھے چنانچہ ایک روایت میں ہے اس جادو کے اثر سے آپ کو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپ عورتوں سے صحبت کر رہے ہیں لیکن ایسا نہیں ہوتا تھا۔ (صحیح البخاري، الأدب، حدیث:6063) الغرض اس جادو کا اثر آپ کے خیالات پر ہوا لیکن وحی اور تبلیغ رسالت میں اس کا کوئی اثر نہ ہو سکا۔ اتنا سا جو اثر ہو اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مصلحت تھی۔ ایک روایت میں ہے آپ نے اس جادو کو کنویں سے نکلوایا لیکن رد عمل کے طور پر اس یہودی سے کوئی باز پرس نہ کی کہیں ایسا نہ ہو کہ مسلمان جذبات میں آکر اسے قتل کردیں جبکہ اس روایت میں ہے کہ آپ نے اسے نکالا نہیں تھا۔ ان میں تطبیق کی یہ صورت ممکن ہے کہ اس وقت آپ نے نہیں نکلوایا تھا بعد میں کسی دوسرے وقت اسے نکلوایا اور اس کی تفصیل سے آپ مطلع ہوئے۔ اس کے متعلق مکمل بحث کتاب الطب میں ہو گی۔ 2۔ امام بخاری ؒ کا اس حدیث سے مقصود یہ ہے کہ جادو کی تکمیل میں شیاطین کا ہاتھ ہوتا ہے اور یہ ان کی بری صفات میں سے ہے کہ جادو کے ذریعے سے خاوند اور بیوی کے درمیان اختلاف ڈال دیں۔ نتیجے کے طور پر ان میں تفریق ہو جائے۔
ترجمۃ الباب:
مجاہد نے کہا: وَيُقْذَفُونَ اور انھیں پھینکا جاتا ہے۔ دُحُورًا کے معنی ہیں: دھتکارے ہوئے۔ وَاصِبٌ ہمیشہ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: مَّدْحُورًا کے معنی ہیں راندہ ہوا، مردود۔ مَّرِيدًا کے معنی سرکش اور شریر کے ہیں۔ بتكه کے معنی ہیں: اس کو کاٹ ڈالا۔ وَٱسْتَفْزِزْ ہلکا کردے۔ بِخَيْلِكَ اپنے سواروں کو۔ اوررجل کے معنی ہیں پیادے۔ الرجل کا واحد راجل ہے جیسا کہ صحب کا مفرد صاحب ہے اور تجر کا واحد تاجر ہے لَأَحْتَنِكَنَّ میں جڑسے اکھاڑدوں گا۔ قَرِينٌ شیطان۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو عیسیٰ بن یونس نے خبردی، انہیں ہشام نے، انہیں ان کے والد عروہ نے اور ان سے حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ پر (جب آپ ﷺ حدیبیہ سے لوٹے تھے) جادو ہوا تھا۔ اور لیث بن سعد نے بیان کیا کہ مجھے ہشام نے لکھا تھا، انہوں نے اپنے والد سے سنا تھا اور یاد رکھا تھا اور ان سے حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا تھا کہ نبی کریم ﷺ پر جادو کیاگیا تھا۔ آپ کے ذہن میں بات ہوتی تھی کہ فلاں کام میں کررہا ہوں حالانکہ آپ اسے نہ کررہے ہوتے۔ آخر ایک دن آپ نے دعا کی پھر دعا کی کہ اللہ پاک اس جادو کا اثر دفع کرے۔ اس کے بعد آپ نے عائشہ ؓ سے فرمایا کہ تمہیں معلوم بھی ہوا اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ تدبیر بتادی ہے جس میں میری شفا مقدر ہے۔ میرے پاس دو آدمی آئے، ایک تو میرے سر کی طرف بیٹھ گئے اور دوسرا پاوں کی طرف۔ پھر ایک نے دوسرے سے کہا، انہیں بیماری کیا ہے؟ دوسرے آدمی نے جواب دیا کہ ان پر جادو ہوا ہے۔ انہوں نے پوچھا، جادو ان پر کس نے کیا ہے؟ جواب دیا کہ لبید بن اعصم یہودی نے، پوچھا کہ وہ جادو (ٹونا) رکھا کس چیز میں ہے؟ کہا کہ کنگھے میں، کتان میں اور کھجور کے خشک خوشے کے غلاف میں۔ پوچھا، اور یہ چیزیں ہیں کہاں؟ کہا بئر ذوران میں۔ پھر نبی کریم ﷺ وہاں تشریف لے گئے اور واپس آئے تو حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا، وہاں کے کھجور کے درخت ایسے ہیں جیسے شیطان کی کھوپڑی۔ میں نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا، وہ ٹونا آپ نے نکلوایا بھی؟ آپ نے فرمایا کہ نہیں مجھے تو اللہ تعالیٰ نے خود شفا دی اور میں نے اسے اس خیال سے نہیں نکلوایا کہ کہیں اس کی وجہ سے لوگوں میں کوئی جھگڑا کھڑا کردوں۔ اس کے بعد وہ کنواں پاٹ دیاگیا۔
حدیث حاشیہ:
ایک روایت میں ہے کہ اس جادو کے اثر سے آپ کو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ عورتوں سے صحبت کررہے ہیں۔ حالانکہ نہیں۔ غرض اس سحر کا اثر آپ ﷺ کے بعض خیالات پر ہوا۔ باقی وحی اور تبلیغ رسالت میں اس کا کوئی اثر نہ ہوسکا۔ اتنا سا جو اثر ہوا اس میں بھی اللہ پاک کی کچھ مصلحت تھی۔ مدینہ میں بنی زریق کے باغ میں ایک کنواں تھا۔ اس کا نام بئر ذروان تھا۔ اگر آپ اس جادو کو نکلوالتے تو سب میں یہ خبر اڑجاتی تو مسلمان لوگ اس یہودی مردود کو مارڈالتے، معلوم نہیں کیا کیا فسادات کھڑے ہوجاتے۔ دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے اس کو نکلوا کر دیکھا لیکن اس کے کھلوانے کا منتر نہیں کرایا۔ ایک روایت میں ہے کہ اس یہودی نے آنحضرت ﷺ کی مورت موم سے بناکر اس میں سوئیاں گاڑ دی تھیں اور تانت میں گیارہ گرہیں دی تھیں۔ اللہ نے معوذتین کی سورتیں اتاریں، آپ ان کی ایک ایک آیت پڑھتے جاتے تو ایک ایک گرہ کھلتی جاتی۔ اسی طرح جب اس مورت میں سے سوئی نکالتے تو اس کو تکلیف ہوتی، اس کے بعد آرام ہوجاتا۔ (وحیدی) ہردو روایات میں تطبیق یہ ہے کہ اس وقت آپ نے اسے نہیں نکلوایا، بعد میں کسی دوسرے وقت اسے نکلوایا اور اس کی اس تفصیل کو ملاحظہ فرمایا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): Magic was worked on the Prophet (ﷺ) so that he began to fancy that he was doing a thing which he was not actually doing. One day he invoked (Allah) for a long period and then said, "I feel that Allah has inspired me as how to cure myself. Two persons came to me (in my dream) and sat, one by my head and the other by my feet. One of them asked the other, "What is the ailment of this man?" The other replied, 'He has been bewitched" The first asked, 'Who has bewitched him?' The other replied, 'Lubaid bin Al-A'sam.' The first one asked, 'What material has he used?' The other replied, 'A comb, the hair gathered on it, and the outer skin of the pollen of the male date-palm.' The first asked, 'Where is that?' The other replied, 'It is in the well of Dharwan.' " So, the Prophet (ﷺ) went out towards the well and then returned and said to me on his return, "Its date-palms (the date-palms near the well) are like the heads of the devils." I asked, "Did you take out those things with which the magic was worked?" He said, "No, for I have been cured by Allah and I am afraid that this action may spread evil amongst the people." Later on the well was filled up with earth.