Sahi-Bukhari:
Menstrual Periods
(Chapter: Al-Istihadah (bleeding in between the periods is from a blood vessel))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
327.
حضرت عائشہ ؓ زوجہ نبی ﷺ سے روایت ہے کہ حضرت ام حبیبہ ؓ سات سال تک مستحاضہ رہیں۔ انھوں نے اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا تو آپ نے انہیں غسل کرنے کا حکم دیا اور فرمایا: ’’یہ رگ (کا خون) ہے۔‘‘ چنانچہ حضرت ام حبیبہ ؓ ہر نماز کے لیے غسل کرتی تھیں۔
تشریح:
1۔ حجش کی تین صاحبزادیاں تھیں: حضرت ام المومنین زینب ؒ ۔ حضرت ام حبیبہ ؓ زوجہ عبدالرحمان بن عوف اور حضرت حمنہ ؓ اور یہ تینوں استحاضے میں مبتلا تھیں۔ علماء نے ان عورتوں کی تعداد دس لکھی ہے جو رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں مستحاضہ تھیں۔ سنن ابوداود میں حضرت ام حبیبہ ؓ کے متعلق الفاظ بھی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی ختنہ (سالی) اور عبدالرحمان بن عوف کی بیوی تھی۔ ختن کا لفظ زوجہ کے اقارب کے لیے، احماء خاوند کے رشتہ داروں کے لیے اوراصہار دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ 2۔ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ام حبیبہ ؓ سات سال تک مرض استحاضہ میں مبتلارہیں۔ اس سے ابن قاسم نے استدلال کیا ہے کہ اگرمستحاضہ، حیض کے دھوکے میں نماز ترک کردے تو اس کے ذمے قضا نہیں ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اسے اتنی بڑی مدت کی نمازیں لوٹانے کا حکم نہیں دیا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس کا جواب دیاہے کہ سات سال کی مدت کا ذکر توضرور ہوا ہے، مگراس بات کا کیا ثبوت ہے کہ مسئلہ پوچھنے کے وقت سے پہلے یہ مدت گزرچکی تھی۔ (فتح الباری:553/1) صحابیات کے دینی لگاؤ اور عبادات کے اہتمام کے پیش نظر یہ اغلب ہے کہ انھیں استحاضے کا عارضہ لاحق ہوتے ہی مسئلے کی ضرورت پڑی اور اسی وقت دریافت کرلیا ہوگا اس لیے ترک نماز اور اس کی قضا کو ادا کرنے کی نوبت ہی نہیں آئی ہوگی۔3۔ اس حدیث میں ہے کہ حضرت ام حبیبہ ؓ بنت جحش ہر نماز کے وقت غسل کیا کرتی تھیں، لیکن رسول اللہ ﷺ نے مطلق طور پر غسل کا حکم دیا تھا، اس میں بار بار ہرنماز کے لیے غسل کرنے کے متعلق کوئی دلالت نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ انھوں نے کسی قرینے سے ہرنماز کے وقت غسل کا حکم سمجھ لیا ہو۔ امام شافعی ؒ نے فرمایا ککہ اس سلسلے میں رسول اللہ ﷺ نے کوئی حکم نہیں دیا تھا مگرانھوں نے خود ہی ہرنماز کے لیے غسل کرنے کاالتزام کرلیا۔ جمہور کا مذہب بھی یہی ہے کہ متحیرہ کے علاوہ کسی مستحاضہ پر ہر نماز کے وقت غسل ضروری نہیں۔ البتہ وضو کرنا ہر نماز کے لیے ضروری ہے۔ ہاں سنن ابی داود میں سلمان بن کثیر اور یحییٰ بن ابی کثیر(292۔293) کی روایات میں ہر نماز کے لیے غسل کرنے کا حکم ہے، لیکن ان دونوں روایات کی صحت اور ضعف میں اختلاف ہے، تاہم بشرط صحت دونوں قسم کی روایات میں یہ تطبیق دی جاسکتی ہے کہ حکم غسل کو استحباب پر محمول کیاجائے۔ امام طحاوی ؒ نے حدیث ام حبیبہ ؓ کو حدیث فاطمہ بنت ابی حبیش سے منسوخ قراردیا ہے جس میں صرف وضوکا حکم ہے، غسل کا نہیں، تاہم ہمارے نزدیک دونوں طرح کی احادیث میں تطبیق پیداکرنا ہی بہتر ہے، یعنی ام حبیبہ ؓ کی حدیث میں غسل کے متعلق امر نبوی کو استحباب وارشاد پرمحمول کیاجائے۔ واللہ أعلم۔(فتح الباري:554/1)
حضرت عائشہ ؓ زوجہ نبی ﷺ سے روایت ہے کہ حضرت ام حبیبہ ؓ سات سال تک مستحاضہ رہیں۔ انھوں نے اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا تو آپ نے انہیں غسل کرنے کا حکم دیا اور فرمایا: ’’یہ رگ (کا خون) ہے۔‘‘ چنانچہ حضرت ام حبیبہ ؓ ہر نماز کے لیے غسل کرتی تھیں۔
حدیث حاشیہ:
1۔ حجش کی تین صاحبزادیاں تھیں: حضرت ام المومنین زینب ؒ ۔ حضرت ام حبیبہ ؓ زوجہ عبدالرحمان بن عوف اور حضرت حمنہ ؓ اور یہ تینوں استحاضے میں مبتلا تھیں۔ علماء نے ان عورتوں کی تعداد دس لکھی ہے جو رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں مستحاضہ تھیں۔ سنن ابوداود میں حضرت ام حبیبہ ؓ کے متعلق الفاظ بھی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی ختنہ (سالی) اور عبدالرحمان بن عوف کی بیوی تھی۔ ختن کا لفظ زوجہ کے اقارب کے لیے، احماء خاوند کے رشتہ داروں کے لیے اوراصہار دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ 2۔ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ام حبیبہ ؓ سات سال تک مرض استحاضہ میں مبتلارہیں۔ اس سے ابن قاسم نے استدلال کیا ہے کہ اگرمستحاضہ، حیض کے دھوکے میں نماز ترک کردے تو اس کے ذمے قضا نہیں ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اسے اتنی بڑی مدت کی نمازیں لوٹانے کا حکم نہیں دیا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس کا جواب دیاہے کہ سات سال کی مدت کا ذکر توضرور ہوا ہے، مگراس بات کا کیا ثبوت ہے کہ مسئلہ پوچھنے کے وقت سے پہلے یہ مدت گزرچکی تھی۔ (فتح الباری:553/1) صحابیات کے دینی لگاؤ اور عبادات کے اہتمام کے پیش نظر یہ اغلب ہے کہ انھیں استحاضے کا عارضہ لاحق ہوتے ہی مسئلے کی ضرورت پڑی اور اسی وقت دریافت کرلیا ہوگا اس لیے ترک نماز اور اس کی قضا کو ادا کرنے کی نوبت ہی نہیں آئی ہوگی۔3۔ اس حدیث میں ہے کہ حضرت ام حبیبہ ؓ بنت جحش ہر نماز کے وقت غسل کیا کرتی تھیں، لیکن رسول اللہ ﷺ نے مطلق طور پر غسل کا حکم دیا تھا، اس میں بار بار ہرنماز کے لیے غسل کرنے کے متعلق کوئی دلالت نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ انھوں نے کسی قرینے سے ہرنماز کے وقت غسل کا حکم سمجھ لیا ہو۔ امام شافعی ؒ نے فرمایا ککہ اس سلسلے میں رسول اللہ ﷺ نے کوئی حکم نہیں دیا تھا مگرانھوں نے خود ہی ہرنماز کے لیے غسل کرنے کاالتزام کرلیا۔ جمہور کا مذہب بھی یہی ہے کہ متحیرہ کے علاوہ کسی مستحاضہ پر ہر نماز کے وقت غسل ضروری نہیں۔ البتہ وضو کرنا ہر نماز کے لیے ضروری ہے۔ ہاں سنن ابی داود میں سلمان بن کثیر اور یحییٰ بن ابی کثیر(292۔293) کی روایات میں ہر نماز کے لیے غسل کرنے کا حکم ہے، لیکن ان دونوں روایات کی صحت اور ضعف میں اختلاف ہے، تاہم بشرط صحت دونوں قسم کی روایات میں یہ تطبیق دی جاسکتی ہے کہ حکم غسل کو استحباب پر محمول کیاجائے۔ امام طحاوی ؒ نے حدیث ام حبیبہ ؓ کو حدیث فاطمہ بنت ابی حبیش سے منسوخ قراردیا ہے جس میں صرف وضوکا حکم ہے، غسل کا نہیں، تاہم ہمارے نزدیک دونوں طرح کی احادیث میں تطبیق پیداکرنا ہی بہتر ہے، یعنی ام حبیبہ ؓ کی حدیث میں غسل کے متعلق امر نبوی کو استحباب وارشاد پرمحمول کیاجائے۔ واللہ أعلم۔(فتح الباري:554/1)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابراہیم بن منذر حزامی نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے معن بن عیسیٰ نے بیان کیا، انھوں نے ایوب بن ابی ذئب سے، انھوں نے ابن شہاب سے، انھوں نے عروہ اور عمرہ سے، انھوں نے حضرت عائشہ ؓ سے ( جو آنحضرت ﷺ کی بیوی ہیں ) کہ ام حبیبہ سات سال تک مستحاضہ رہیں۔ انھوں نے نبی کریم ﷺ سے اس کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے انھیں غسل کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ یہ رگ ( کی وجہ سے بیماری ) ہے۔ پس ام حبیبہ ہر نماز کے لیے غسل کرتی تھیں۔
حدیث حاشیہ:
استحاضہ والی عورت کے لیے ہرنماز کے وقت غسل کرناواجب نہیں ہے۔ یہاں حضرت ام حبیبہ ؓ کے غسل کا ذکر ہے جو وہ ہر نمازکے لیے کیا کرتی تھیں۔ سویہ ان کی خود اپنی مرضی سے تھا۔حضرت امام شافعی ؒ فرماتے ہیں: ''وَلَا أَشُكُّ - إنْ شَاءَ اللَّهُ - أَنَّ غُسْلَهَا كَانَ تَطَوُّعًا غَيْرَ مَا أُمِرَتْ بِهِ، وَذَلِكَ وَاسِعٌ لَهَا. وَكَذَا قَالَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ وَاللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ وَغَيْرُهُمَا، وَمَا ذَهَبَ إلَيْهِ الْجُمْهُورُ مِنْ عَدَمِ وُجُوبِ الِاغْتِسَالِ إلَّا لَإِدْبَارِ الْحَيْضَةِ هُوَ الْحَقُّ، لِفَقْدِ الدَّلِيلِ الصَّحِيحِ الَّذِي تَقُومُ بِهِ الْحُجَّةُ۔''(نیل الأوطار: 302/1)’’ان شاءاللہ مجھ کو قطعاً شک نہیں ہے کہ حضرت ام حبیبہ کا یہ ہرنماز کے لیے غسل کرنا محض ان کی اپنی خوشی سے بطور نفل کے تھا جمہور کا مذہب حق یہی ہے کہ صرف حیض کے خاتمہ پر ایک ہی غسل واجب ہے۔ اس کے خلاف جو روایات ہیں جن سے ہرنماز کے لیے وجوب غسل ثابت ہوتا ہے وہ قابل حجت نہیں ہیں۔‘‘ حضرت علامہ شوکانی ؒ فرماتے ہیں: ''وَجَمِيعُ الْأَحَادِيثِ الَّتِي فِيهَا إيجَابُ الْغُسْلِ لِكُلِّ صَلَاةٍ قَدْ ذَكَرَ الْمُصَنِّفُ بَعْضَهَا فِي هَذَا الْبَابِ، وَأَكْثَرُهَا يَأْتِي فِي أَبْوَابِ الْحَيْضِ وَكُلُّ وَاحِدٍ مِنْهَا لَا يَخْلُو عَنْ مَقَالٍ۔''(نیل الأوطار: 302/1)’’ یعنی وہ جملہ احادیث جن سے ہر نماز کے لیے غسل واجب معلوم ہوتا ہے ان سب کی سند اعتراضات سے خالی نہیں ہیں۔‘‘ پھر ''الدین یسر'' ( کہ دین آسان ہے ) کے تحت بھی ہر نماز کے لیے نیا غسل کرنا کس قدر باعث تکلیف ہے۔ خاص کر عورت ذات کے لیے بے حد مشکل ہے۔ اس لیے: ﴿ لایکلف اللہ نفسا إلا وسعها ﴾''وَقَدْ جَمَعَ بَعْضُهُمْ بَيْنَ الْأَحَادِيثِ بِحَمْلِ أَحَادِيثِ الْغُسْلِ لِكُلِّ صَلَاةٍ عَلَى الِاسْتِحْبَابِ''(نیل الأوطار: 302/1)’’یعنی بعض حضرات نے جملہ احادیث میں تطبیق دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہر نماز کے لیے غسل کرنے کی احادیث میں استحباباً کہا گیا ہے۔‘‘ یعنی یہ غسل مستحب ہوگا، واجب نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): (The wife of the Prophet (ﷺ)) Um Habiba got bleeding in between the periods for seven years. She asked Allah's Apostle (ﷺ) about it. He ordered her to take a bath (after the termination of actual periods) and added that it was (from) a blood vessel. So she used to take a bath for every prayer.