کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیوں کر شروع ہوئی
(
باب : ابلیس اور اس کی فوج کا بیان۔
)
Sahi-Bukhari:
Beginning of Creation
(Chapter: The characteristics of Iblis (Satan) and his soldiers)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور مجاہد نے کہا ( سورۃ والصافات میں ) لفظ یقذفون کا معنی پھینکے جاتے ہیں ( اسی سورۃ میں ) دحورا کے معنی دھتکارے ہوئے کے ہیں ۔ اسی سورۃ میں لفظ واصب کا معنی ہمیشہ کا ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ( سورۃ اعراف میں ) لفظ مدحورا کا معنی دھتکارا ہوا ، مردود ( اور سورۃ نساءمیں ) مریدا کا معنی متمرد و شریر کے ہیں ۔ اسی سورۃ میں فلیبتکن بتک سے نکلا ہے ۔ یعنی چیرا ، کاٹا ۔ ( سورۃ بنی اسرائیل میں ) واستفزز کا معنی ان کو ہلکا کردے ۔ اسی سورۃ میں خیل کا معنی سوار اور رجل یعنی پیادے ۔ یعنی رجالہ اس کا مفرد راجل جیسے صحب کا مفرد صاحب اور تجر کا مفرد تاجر اسی سورۃ میں لفظ لاحتنکن کا معنی جڑ سے اکھاڑدوں گا ۔ سورۃ والصافات میں لفظ قرین کے معنی شیطان کے ہیں ۔ تشریح : یہ باب لاکر حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان ملاحدہ کا رد کیا جو شیطان کے وجود کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا نفس ہی شیطان ہے باقی ابلیس کا علےٰحدہ کوئی وجود نہیں ہے۔ قسطلانی نے کہا ابلیس ایک شخص ہے روحانی جو آگ سے پیدا ہوا ہے اور وہ جنوں اور شیطانوں کا باپ ہے۔ جیسے آدم آدمیوں کے باپ تھے۔ بعض نے کہا وہ فرشتوں میں سے تھا۔ خدا کی نافرمانی سے مردود ہوگیا اور جنوں کی فہرست میں داخل کیاگیا۔
3290.
حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: جب غزوہ احد میں مشرکین شکست خوردہ ہوئے تو ابلیس نے چلا کر کہا: اللہ کے بندو! اپنے پیچھے والوں کی خبر لو۔ آگے والے پچھلوں پر ٹوٹ پڑے اور آپس میں الجھ گئے۔ اس دوران میں حضرت حذیفہ ؓنے دیکھاکہ ان کے والد حضرت یمان ؓبھی پیچھے تھے۔ انھوں نے کہا: اللہ کے بندو!یہ میرے والد ہیں، یہ میرے والد ہیں، لیکن اللہ کی قسم! مسلمان نہ رکے حتیٰ کہ انھوں نے ان کو قتل کردیا۔ حضرت حذیفہ ؓنے صرف اتنا کہا: اللہ تمھیں معاف کرے (یہ تم نے کیاکیا ہے؟) حضرت عروہ فرماتے ہیں: پھر حضرت حذیفہ ہمیشہ (آخری دم تک اپنے والد کے قاتلوں کے لیے) دعائے خیر کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ سے جاملے۔
تشریح:
1۔ ابلیس لعین کا یہ مقصد تھا کہ مسلمانوں کو غلط فہمی میں مبتلا کرکے انھیں آپس میں لڑادے، چنانچہ اگلے لوگوں نے پچھلوں کو مشرک سمجھتے ہوئے ان پر حملہ کردیا اور وہ آپس میں الجھ کررہ گئے۔ اس بھگدڑ کے نتیجے میں حضرت یمان ؓقتل کردیے گئے۔ 2۔ بہرحال یہ ابلیس کا ایک فریب تھا، جس میں وہ کامیاب ہوا جو کہ شدت کی جنگ تھی۔ مسلمان غلط فہمی کا شکار ہوگئے تھے، اس لیے اس غلطی میں حضرت حذیفہ ؓ کے والد گرامی قتل ہوگئے۔ حضرت حذیفہ ؓ نے اپنے باپ کے قاتلوں کو معاف کردیا اور ہمیشہ ان کے لیے دعا اور استغفار کرتے رہے۔ اگرہمارے جیسا کوئی ہوتا تو ایسے موقع پر ہنگامہ کھڑا کردیتا لیکن یہ صحابہ کرام ؓ کی عظمت تھی کہ وہ مشکل حالات میں بھی آپے سے باہر نہیں ہوتے تھے۔۔۔ رضوان اللہ عنھم أجمعین ۔۔۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3165
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3290
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3290
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3290
تمہید کتاب
محدثین کرام نے کتب حدیث کو مضامین کے اعتبار سے مختلف قسموں میں تقسیم کیا ہے جن میں سے ایک"الجامع"ہےاس سے مرادوہ کتاب ہے جس میں مؤلف نے عقائد عبادات ، معاملات، سیرت ، جہاد مناقب ، رقاق ، آداب ، فتن تاریخ اورا حوال آخرت سے متعلقہ احادیث کو ایک خاص ترتیب سے جمع کیا ہو۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی تالیف بھی"الجامع"کہلاتی ہے جس میں مختلف قسم کے علوم و فنون جمع ہیں۔ ان میں سے ایک تاریخ بھی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں سے تاریخ بیان کرنا شروع کی ہے۔ یہ سلسلہ کتاب التفسیر تک چلے گا۔ ہمارے نزدیک کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقل کتاب نہیں بلکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ ہی کا ایک حصہ ہے چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ کی وفات کے ابواب بھی بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے بہر حال اسے آغاز تخلیق سے شروع کیا ہے۔اس کے بعد احادیث انبیاء پھر مناقب وغیرہ بیان ہوں گے اس کے بعد مغازی کا ذکر ہوگا۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے تاریخی حقائق بیان کرنے کے لیے ایک سو ساٹھ احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں بائیس معلق اور باقی ایک سواڑتیس احادیث متصل سند سے مروی ہیں ان مرفوع احادیث میں ترانوے احادیث مکرر اور تریسٹھ خالص ہیں پندرہ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اورتابعین عظام رحمۃ اللہ علیہ سے مروی چالیس آثار بھی ہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث و آثار پر تقریباً سترہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے مختلف تاریخی حقائق پرروشنی ڈالنا مقصود ہے۔اس میں تاریخ کا وہ حصہ بیان کیا گیا ہے جس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی تخلیق سے ہے۔ اس کے بعد حضرات انبیاء کا ذکر ہوگا جسے ایک الگ عنوان سے بیان کیا جائے گا۔ بہر حال آغاز تخلیق اور مخلوقات کے متعلق امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جو احادیث پیش کی ہیں وہ دلچسپ اور معلومات افزا ہیں ان کے متعلق تشریحی فوائد بھی ہم نے بڑی محنت سے مرتب کیےہیں۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ خلوص نیت سے پیش کردہ احادیث اور تشریحی فوائد کا مطالعہ کریں۔ امید ہے کہ یہ مطالعہ آپ کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوگا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قیامت کے دن گروہ محدثین سے اٹھائے اور خدام حدیث کی رفاقت اور ان کا ساتھ نصیب کرے۔آمین۔
تمہید باب
قرآن کی صراحت کے مطابق ابلیس جنوں میں سے ہے اسے ابو الشیاطین بھی کہا جاتا ہے۔ اسے آگ سے پیدا کیا گیا اور یہ جنوں اور شیاطین کا باپ ہے جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام انسانوں کے باپ ہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان سے ان ملحدوں کا رد کیا ہے جو شیطان کے وجود کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارا نفس ہی شیطان ہے اس کے علاوہ ابلیس کا کوئی وجود نہیں۔ مذکورہ الفاظ ان آیات کا حصہ ہیں جن میں ابلیس کی بری صفات اور اس کے گندے کردار کا بیان ہے۔
اور مجاہد نے کہا ( سورۃ والصافات میں ) لفظ یقذفون کا معنی پھینکے جاتے ہیں ( اسی سورۃ میں ) دحورا کے معنی دھتکارے ہوئے کے ہیں ۔ اسی سورۃ میں لفظ واصب کا معنی ہمیشہ کا ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ( سورۃ اعراف میں ) لفظ مدحورا کا معنی دھتکارا ہوا ، مردود ( اور سورۃ نساءمیں ) مریدا کا معنی متمرد و شریر کے ہیں ۔ اسی سورۃ میں فلیبتکن بتک سے نکلا ہے ۔ یعنی چیرا ، کاٹا ۔ ( سورۃ بنی اسرائیل میں ) واستفزز کا معنی ان کو ہلکا کردے ۔ اسی سورۃ میں خیل کا معنی سوار اور رجل یعنی پیادے ۔ یعنی رجالہ اس کا مفرد راجل جیسے صحب کا مفرد صاحب اور تجر کا مفرد تاجر اسی سورۃ میں لفظ لاحتنکن کا معنی جڑ سے اکھاڑدوں گا ۔ سورۃ والصافات میں لفظ قرین کے معنی شیطان کے ہیں ۔ تشریح : یہ باب لاکر حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان ملاحدہ کا رد کیا جو شیطان کے وجود کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا نفس ہی شیطان ہے باقی ابلیس کا علےٰحدہ کوئی وجود نہیں ہے۔ قسطلانی نے کہا ابلیس ایک شخص ہے روحانی جو آگ سے پیدا ہوا ہے اور وہ جنوں اور شیطانوں کا باپ ہے۔ جیسے آدم آدمیوں کے باپ تھے۔ بعض نے کہا وہ فرشتوں میں سے تھا۔ خدا کی نافرمانی سے مردود ہوگیا اور جنوں کی فہرست میں داخل کیاگیا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: جب غزوہ احد میں مشرکین شکست خوردہ ہوئے تو ابلیس نے چلا کر کہا: اللہ کے بندو! اپنے پیچھے والوں کی خبر لو۔ آگے والے پچھلوں پر ٹوٹ پڑے اور آپس میں الجھ گئے۔ اس دوران میں حضرت حذیفہ ؓنے دیکھاکہ ان کے والد حضرت یمان ؓبھی پیچھے تھے۔ انھوں نے کہا: اللہ کے بندو!یہ میرے والد ہیں، یہ میرے والد ہیں، لیکن اللہ کی قسم! مسلمان نہ رکے حتیٰ کہ انھوں نے ان کو قتل کردیا۔ حضرت حذیفہ ؓنے صرف اتنا کہا: اللہ تمھیں معاف کرے (یہ تم نے کیاکیا ہے؟) حضرت عروہ فرماتے ہیں: پھر حضرت حذیفہ ہمیشہ (آخری دم تک اپنے والد کے قاتلوں کے لیے) دعائے خیر کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ سے جاملے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ ابلیس لعین کا یہ مقصد تھا کہ مسلمانوں کو غلط فہمی میں مبتلا کرکے انھیں آپس میں لڑادے، چنانچہ اگلے لوگوں نے پچھلوں کو مشرک سمجھتے ہوئے ان پر حملہ کردیا اور وہ آپس میں الجھ کررہ گئے۔ اس بھگدڑ کے نتیجے میں حضرت یمان ؓقتل کردیے گئے۔ 2۔ بہرحال یہ ابلیس کا ایک فریب تھا، جس میں وہ کامیاب ہوا جو کہ شدت کی جنگ تھی۔ مسلمان غلط فہمی کا شکار ہوگئے تھے، اس لیے اس غلطی میں حضرت حذیفہ ؓ کے والد گرامی قتل ہوگئے۔ حضرت حذیفہ ؓ نے اپنے باپ کے قاتلوں کو معاف کردیا اور ہمیشہ ان کے لیے دعا اور استغفار کرتے رہے۔ اگرہمارے جیسا کوئی ہوتا تو ایسے موقع پر ہنگامہ کھڑا کردیتا لیکن یہ صحابہ کرام ؓ کی عظمت تھی کہ وہ مشکل حالات میں بھی آپے سے باہر نہیں ہوتے تھے۔۔۔ رضوان اللہ عنھم أجمعین ۔۔۔
ترجمۃ الباب:
مجاہد نے کہا: وَيُقْذَفُونَ اور انھیں پھینکا جاتا ہے۔ دُحُورًا کے معنی ہیں: دھتکارے ہوئے۔ وَاصِبٌ ہمیشہ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: مَّدْحُورًا کے معنی ہیں راندہ ہوا، مردود۔ مَّرِيدًا کے معنی سرکش اور شریر کے ہیں۔ بتكه کے معنی ہیں: اس کو کاٹ ڈالا۔ وَٱسْتَفْزِزْ ہلکا کردے۔ بِخَيْلِكَ اپنے سواروں کو۔ اوررجل کے معنی ہیں پیادے۔ الرجل کا واحد راجل ہے جیسا کہ صحب کا مفرد صاحب ہے اور تجر کا واحد تاجر ہے لَأَحْتَنِكَنَّ میں جڑسے اکھاڑدوں گا۔ قَرِينٌ شیطان۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے زکریا بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، کہا کہ ہشام نے ہمیں اپنے والد عروہ سے خبردی اور ان سے عائشہ ؓ نے بیان کیا، کہا کہ احد کی لڑائی میں جب مشرکین کو شکست ہوگئی تو ابلیس نے چلاکر کہا کہ اے اللہ کے بندو! (یعنی مسلمانو) اپنے پیچھے والوں سے بچو، چنانچہ آگے کے مسلمان پیچھے کی طرف پل پڑے اور پیچھے والوں کو (جو مسلمان ہی تھے) انہوں نے مارنا شروع کردیا۔ حذیفہ ؓ نے دیکھا تو ان کے والد یمان ؓ بھی پیچھے تھے۔ انہوں نے بہتیرا کہا کہ اے اللہ کے بندو! یہ میرے والد ہیں، یہ میرے والد ہیں۔ لیکن خدا گواہ ہے کہ لوگوں نے جب تک انہیں قتل نہ کرلیا نہ چھوڑا۔ بعد میں حذیفہ ؓ نے صرف اتنا کہا کہ خیر۔ اللہ تمہیں معاف کرے (کہ تم نے غلط فہمی سے ایک مسلمان کو مارڈالا) عروہ نے بیان کیا کہ پھر حذیفہ ؓ اپنے والد کے قاتلوں کے لیے برابر مغفرت کی دعا کرتے رہے۔ تا آنکہ اللہ سے جاملے۔
حدیث حاشیہ:
آنحضرت ﷺ کو معلوم ہوا تو حذیفہ ؓ کو ان کے باپ کی دیت آپ دلانے گئے۔ لیکن حذیفہ ؓ نے وہ بھی مسلمانوں کو معاف کردیا، سبحان اللہ! صحابہ ؓکی ایک ایک نیکی ہماری عمر بھر کی عبادت سے زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): On the day (of the battle) of Uhud when the pagans were defeated, Satan shouted, "O slaves of Allah! Beware of the forces at your back," and on that the Muslims of the front files fought with the Muslims of the back files (thinking they were pagans). Hudhaifa looked back to see his father "Al-Yaman," (being attacked by the Muslims). He shouted, "O Allah's Slaves! My father! My father!" By Allah, they did not stop till they killed him. Hudhaifa said, "May Allah forgive you." 'Urwa said that Hudhaifa continued to do good (invoking Allah to forgive the killer of his father till he met Allah (i.e. died).