باب : اللہ تعالیٰ کا سورۃ بقرہ میں یہ فرمانا ، اے رسول! وہ وقت یاد کر جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا میں زمین میں ایک ( قوم کو ) جانشین بنانے والا ہوں ۔
)
Sahi-Bukhari:
Prophets
(Chapter: )
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
(خلیفہ کے یہ بھی ایک معنی ہیں کہ ان میں سلسلہ وار ایک کے بعد دوسرے ان کے قائم مقام ہوتے رہیں گے) ابن عباس ؓنے کہا سورۃ الطارق میں جو «لما عليها حافظ» کے الفاظ ہیں، یہاں «لما» «إلا» کے معنے میں ہے۔ یعنی کوئی جان نہیں مگر اس پر اللہ کی طرف سے ایک نگہبان مقرر ہے، (سورۃ البلد میں جو) «في كبد» کا لفظ آیا ہے «كبد» کے معنی سختی کے ہیں۔ اور (سورۃ الاعراف میں) جو «ريشا» کا لفظ آیا ہے «رياش» اس کی جمع ہے یعنی مال۔ یہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی تفسیر ہے دوسروں نے کہا، «رياش» اور «ريش» کا ایک ہی معنی ہے۔ یعنی ظاہری لباس اور (سورۃ واقعہ میں) جو «تمنون» کا لفظ آیا ہے اس کے معنی «نطفة» کے ہیں جو تم عورتوں کے رحم میں (جماع کر کے) ڈالتے ہو۔ (اور سورۃ الطارق میں ہے) «إنه على رجعه لقادر» مجاہد نے کہا اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ اللہ منی کو پھر ذکر میں لوٹا سکتا ہے (اس کو فریابی نے وصل کیا، اکثر لوگوں نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ اللہ آدمی کے لوٹانے یعنی قیامت میں پیدا کرنے پر قادر ہے) (اور سورۃ السجدہ میں) «كل شىء خلقه» کا معنی یہ ہے کہ ہر چیز کو اللہ نے جوڑے جوڑے بنایا ہے۔ آسمان زمین کا جوڑ ہے (جن آدمی کا جوڑ ہے، سورج چاند کا جوڑ ہے۔) اور طاق اللہ کی ذات ہے جس کا کوئی جوڑ نہیں ہے۔ سورۃ التین میں ہے «في أحسن تقويم» یعنی اچھی صورت اچھی خلقت میں ہم نے انسان کو پیدا کیا۔ «أسفل سافلين إلا من آمن» یعنی پھر آدمی کو ہم نے پست سے پست تر کر دیا (دوزخی بنا دیا) مگر جو ایمان لایا۔ (سورۃ العصر میں) «في خسر» کا معنی گمراہی میں پھر ایمان والوں کو مستثنیٰ کیا۔ (فرمایا «الا الذين امنوا») سورۃ والصافات میں «لازب» کے معنی لازم (یعنی چمٹتی ہوئی لیس دار) سورۃ الواقعہ میں الفاظ «ننشئكم في ما لا تعلمون» یعنی جونسی صورت میں ہم چاہیں تم کو بنا دیں۔ (سورۃ البقرہ میں) «نسبح بحمدك» یعنی فرشتوں نے کہا کہ ہم تیری بڑائی بیان کرتے ہیں۔ ابوالعالیہ نے کہا اسی سورۃ میں جو ہے «فتلقى آدم من ربه كلمات» » وہ کلمات یہ ہیں «ربنا ظلمنا أنفسنا» اسی سورۃ میں «فأزلهما» کا معنی یعنی ان کو ڈگمگا دیا پھسلا دیا۔ (اسی سورۃ میں ہے) «لم يتسنه» یعنی بگڑا تک نہیں۔ اسی سے (سورۃ محمد میں) «آسن» یعنی بگڑا ہوا (بدبودار پانی) اسی سے سورۃ الحجر میں لفظ «مسنون» ہے یعنی بدلی ہوئی بدبودار۔ (اسی سورۃ میں) «حمإ» کا لفظ ہے جو «حمأة» کی جمع ہے یعنی بدبودار کیچڑ (سورۃ الاعراف میں) لفظ «يخصفان» کے معنی یعنی دونوں آدم اور حواء نے بہشت کے پتوں کو جوڑنا شروع کر دیا۔ ایک پر ایک رکھ کر اپنا ستر چھپانے لگے۔ لفظ «سوآتهما» سے مراد شرمگاہ ہیں۔ لفظ «ومتاع إلى حين» میں «حين» سے قیامت مراد ہے، عرب لوگ ایک گھڑی سے لے کر بے انتہا مدت تک کو «حين» کہتے ہیں۔ «قبيله» سے مراد شیطان کا گروہ جس میں وہ خود ہے۔حضرت مجتہد مطلق امام بخاری اپنی عادت کے مطابق قرآن شریف کی مختلف صورتوں کے مختلف الفاظ کے معنی یہاں واضح فرمائے ہیں۔ان الفاظ کا ذکر ایسے ایسے مقامات پر آیا ہے جہاں کسی نہ کسی طرح سے اس کتاب الانبیاء سے متعلق کسی نہ کسی طرح مضامین بیان ہوئے ہیں یہاں ان اکثر سورتوں کوبریکٹ میں ہم نے بتلا دیا ہے وہاں وہ الفاظ تلاش کر کے آیات سیاق وسباق سے پورے مطالب کو معلوم کیا جاسکتا ہے ان جملہ آیات اور ان کے مذکورہ بالا الفاظ کی پوری تفصیل طوالت کے خوف سے یہاں ترک کر دی گئی ہے۔اللہ پاک خیریت سے اس پارے کو بھی پورا کرائے کہ وہ ہی مالک مختار ہے المرقوم بتاریخ15شوال 1391ھ ترچناپلی برمکان حاجی محمد ابراہیم صاحب اداماللہ اقبالھم آمین۔
3329.
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: جب حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نبی کریم ﷺ کے مدینہ طیبہ تشریف لانے کی خبر ملی تو وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: میں آپ سے تین سوال کرنا چاہتا ہوں، انھیں نبی کریم ﷺ کے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا۔ قیامت کی سب سے پہلی نشانی کیا ہے؟ وہ کونسا کھانا ہے جو اہل جنت کو سب سے پہلے دیا جائے گا؟ کس وجہ سے بچہ اپنے باپ کے مشابہ ہوتا ہے اور کس لیے اپنے ماموؤں کے مشابہ ہوتا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے ابھی ابھی حضرت جبرئیل ؑ نے ان کے متعلق بتایا ہے۔ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: وہ فرشتہ تو قوم یہود کا دشمن ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’قیامت کی پہلی نشانی آگ ہے جولوگوں کو مشرق سے مغرب کی طرف ہانک لے جائے گی۔ سب سے پہلا کھانا جو اہل جنت تناول کریں گے وہ مچھلی کے جگر کے ساتھ کا بڑھا ہوا ٹکڑا ہوگا۔ اور بچے میں مشابہت اس طرح ہوتی ہے کہ مرد، جب بیوی سے جماع کرتا ہے تو اگر اس کا نطفہ عورت کے نطفے سے پہلے رحم میں چلا جائے تو بچہ مرد کے مشابہ ہوتا ہے اور اگر عورت کا نطفہ سبقت لے جائے تو بچہ عورت کے مشابہ ہوتا ہے۔‘‘ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ نے(تسلی کرنے کے بعد) کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ﷺ ہیں۔ پھر انھوں نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ! یہودی بہت بہتان تراز ہیں۔ اگر نھیں میرے مسلمان ہونے کا علم ہوگیا تو آپ کے دریافت کرنے سے پہلے ہی آپ کے سامنے مجھ پر ہر طرح کی تہمت لگائیں گے۔ اس دوران میں یہودی آگئے اور عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کمرے میں روپوش ہوکر بیٹھ گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے دریافت فرمایا: ’’بتاؤ تم میں عبداللہ بن سلام کیسا شخص ہے؟‘‘ انھوں نے کہا: وہ ہم میں سب سے بڑے عالم اور سب سے بڑے عالم کے صاحبزادے ہیں، نیز وہ ہم سب سے زیادہ بہتر اور سب سے زیادہ بہتر کے بیٹے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے بتاؤ اگر عبداللہ بن سلام مسلمان ہوجائے (تو تمہارا کیا خیال ہوگا؟)‘‘ انھوں نے کہا: اللہ تعالیٰ اسے اسلام سے محفوظ رکھے۔ اتنے میں عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے سامنے آکر کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سو ا کوئی معبود برحق نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اب(یہودی بیک زبان ہوکر ان کے متعلق) کہنے لگے: یہ ہم میں سب سے بدتر اور سب سے بدتر کا بیٹا ہے اور وہیں انھیں برا بھلا کہنا شروع کردیا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3200
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3329
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3329
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3329
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
(خلیفہ کے یہ بھی ایک معنی ہیں کہ ان میں سلسلہ وار ایک کے بعد دوسرے ان کے قائم مقام ہوتے رہیں گے) ابن عباس ؓنے کہا سورۃ الطارق میں جو «لما عليها حافظ» کے الفاظ ہیں، یہاں «لما» «إلا» کے معنے میں ہے۔ یعنی کوئی جان نہیں مگر اس پر اللہ کی طرف سے ایک نگہبان مقرر ہے، (سورۃ البلد میں جو) «في كبد» کا لفظ آیا ہے «كبد» کے معنی سختی کے ہیں۔ اور (سورۃ الاعراف میں) جو «ريشا» کا لفظ آیا ہے «رياش» اس کی جمع ہے یعنی مال۔ یہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی تفسیر ہے دوسروں نے کہا، «رياش» اور «ريش» کا ایک ہی معنی ہے۔ یعنی ظاہری لباس اور (سورۃ واقعہ میں) جو «تمنون» کا لفظ آیا ہے اس کے معنی «نطفة» کے ہیں جو تم عورتوں کے رحم میں (جماع کر کے) ڈالتے ہو۔ (اور سورۃ الطارق میں ہے) «إنه على رجعه لقادر» مجاہد نے کہا اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ اللہ منی کو پھر ذکر میں لوٹا سکتا ہے (اس کو فریابی نے وصل کیا، اکثر لوگوں نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ اللہ آدمی کے لوٹانے یعنی قیامت میں پیدا کرنے پر قادر ہے) (اور سورۃ السجدہ میں) «كل شىء خلقه» کا معنی یہ ہے کہ ہر چیز کو اللہ نے جوڑے جوڑے بنایا ہے۔ آسمان زمین کا جوڑ ہے (جن آدمی کا جوڑ ہے، سورج چاند کا جوڑ ہے۔) اور طاق اللہ کی ذات ہے جس کا کوئی جوڑ نہیں ہے۔ سورۃ التین میں ہے «في أحسن تقويم» یعنی اچھی صورت اچھی خلقت میں ہم نے انسان کو پیدا کیا۔ «أسفل سافلين إلا من آمن» یعنی پھر آدمی کو ہم نے پست سے پست تر کر دیا (دوزخی بنا دیا) مگر جو ایمان لایا۔ (سورۃ العصر میں) «في خسر» کا معنی گمراہی میں پھر ایمان والوں کو مستثنیٰ کیا۔ (فرمایا «الا الذين امنوا») سورۃ والصافات میں «لازب» کے معنی لازم (یعنی چمٹتی ہوئی لیس دار) سورۃ الواقعہ میں الفاظ «ننشئكم في ما لا تعلمون» یعنی جونسی صورت میں ہم چاہیں تم کو بنا دیں۔ (سورۃ البقرہ میں) «نسبح بحمدك» یعنی فرشتوں نے کہا کہ ہم تیری بڑائی بیان کرتے ہیں۔ ابوالعالیہ نے کہا اسی سورۃ میں جو ہے «فتلقى آدم من ربه كلمات» » وہ کلمات یہ ہیں «ربنا ظلمنا أنفسنا» اسی سورۃ میں «فأزلهما» کا معنی یعنی ان کو ڈگمگا دیا پھسلا دیا۔ (اسی سورۃ میں ہے) «لم يتسنه» یعنی بگڑا تک نہیں۔ اسی سے (سورۃ محمد میں) «آسن» یعنی بگڑا ہوا (بدبودار پانی) اسی سے سورۃ الحجر میں لفظ «مسنون» ہے یعنی بدلی ہوئی بدبودار۔ (اسی سورۃ میں) «حمإ» کا لفظ ہے جو «حمأة» کی جمع ہے یعنی بدبودار کیچڑ (سورۃ الاعراف میں) لفظ «يخصفان» کے معنی یعنی دونوں آدم اور حواء نے بہشت کے پتوں کو جوڑنا شروع کر دیا۔ ایک پر ایک رکھ کر اپنا ستر چھپانے لگے۔ لفظ «سوآتهما» سے مراد شرمگاہ ہیں۔ لفظ «ومتاع إلى حين» میں «حين» سے قیامت مراد ہے، عرب لوگ ایک گھڑی سے لے کر بے انتہا مدت تک کو «حين» کہتے ہیں۔ «قبيله» سے مراد شیطان کا گروہ جس میں وہ خود ہے۔حضرت مجتہد مطلق امام بخاری اپنی عادت کے مطابق قرآن شریف کی مختلف صورتوں کے مختلف الفاظ کے معنی یہاں واضح فرمائے ہیں۔ان الفاظ کا ذکر ایسے ایسے مقامات پر آیا ہے جہاں کسی نہ کسی طرح سے اس کتاب الانبیاء سے متعلق کسی نہ کسی طرح مضامین بیان ہوئے ہیں یہاں ان اکثر سورتوں کوبریکٹ میں ہم نے بتلا دیا ہے وہاں وہ الفاظ تلاش کر کے آیات سیاق وسباق سے پورے مطالب کو معلوم کیا جاسکتا ہے ان جملہ آیات اور ان کے مذکورہ بالا الفاظ کی پوری تفصیل طوالت کے خوف سے یہاں ترک کر دی گئی ہے۔اللہ پاک خیریت سے اس پارے کو بھی پورا کرائے کہ وہ ہی مالک مختار ہے المرقوم بتاریخ15شوال 1391ھ ترچناپلی برمکان حاجی محمد ابراہیم صاحب اداماللہ اقبالھم آمین۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: جب حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نبی کریم ﷺ کے مدینہ طیبہ تشریف لانے کی خبر ملی تو وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: میں آپ سے تین سوال کرنا چاہتا ہوں، انھیں نبی کریم ﷺ کے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا۔ قیامت کی سب سے پہلی نشانی کیا ہے؟ وہ کونسا کھانا ہے جو اہل جنت کو سب سے پہلے دیا جائے گا؟ کس وجہ سے بچہ اپنے باپ کے مشابہ ہوتا ہے اور کس لیے اپنے ماموؤں کے مشابہ ہوتا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے ابھی ابھی حضرت جبرئیل ؑ نے ان کے متعلق بتایا ہے۔ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: وہ فرشتہ تو قوم یہود کا دشمن ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’قیامت کی پہلی نشانی آگ ہے جولوگوں کو مشرق سے مغرب کی طرف ہانک لے جائے گی۔ سب سے پہلا کھانا جو اہل جنت تناول کریں گے وہ مچھلی کے جگر کے ساتھ کا بڑھا ہوا ٹکڑا ہوگا۔ اور بچے میں مشابہت اس طرح ہوتی ہے کہ مرد، جب بیوی سے جماع کرتا ہے تو اگر اس کا نطفہ عورت کے نطفے سے پہلے رحم میں چلا جائے تو بچہ مرد کے مشابہ ہوتا ہے اور اگر عورت کا نطفہ سبقت لے جائے تو بچہ عورت کے مشابہ ہوتا ہے۔‘‘ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ نے(تسلی کرنے کے بعد) کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ﷺ ہیں۔ پھر انھوں نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ! یہودی بہت بہتان تراز ہیں۔ اگر نھیں میرے مسلمان ہونے کا علم ہوگیا تو آپ کے دریافت کرنے سے پہلے ہی آپ کے سامنے مجھ پر ہر طرح کی تہمت لگائیں گے۔ اس دوران میں یہودی آگئے اور عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کمرے میں روپوش ہوکر بیٹھ گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے دریافت فرمایا: ’’بتاؤ تم میں عبداللہ بن سلام کیسا شخص ہے؟‘‘ انھوں نے کہا: وہ ہم میں سب سے بڑے عالم اور سب سے بڑے عالم کے صاحبزادے ہیں، نیز وہ ہم سب سے زیادہ بہتر اور سب سے زیادہ بہتر کے بیٹے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے بتاؤ اگر عبداللہ بن سلام مسلمان ہوجائے (تو تمہارا کیا خیال ہوگا؟)‘‘ انھوں نے کہا: اللہ تعالیٰ اسے اسلام سے محفوظ رکھے۔ اتنے میں عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے سامنے آکر کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سو ا کوئی معبود برحق نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اب(یہودی بیک زبان ہوکر ان کے متعلق) کہنے لگے: یہ ہم میں سب سے بدتر اور سب سے بدتر کا بیٹا ہے اور وہیں انھیں برا بھلا کہنا شروع کردیا۔
صَلْصَـٰلٍ کے معنی ایسی مٹی کے ہیں جس میں ریت ملی ہوئی ہو اور وہ اس طرح بجنے لگے جیسے پختہ مٹی بجتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی ہیں خمیر کی ہوئی بدبودار مٹی۔ اصل میں یہ لفظ صل سے ماخوذ ہے، جیسےصر صر‘صر سے بناہے۔ کہاجاتا ہے: صر الباب و صر صر عند الاغلاق دروازے نے بند ہوتے وقت آواز دی"یعنی صل اور صلصل اور ہم معنی ہیں جیسا کہ كبكبته اور كببته کے ایک معنی ہیں، یعنی میں نے اسے اوندھا کردیا فَمَرَّتْ بِهِ کےمعنی ہیں: چلتی پھرتی رہی اورحمل کی مدت پوری کی، نیز لَا تَسْجُدُوا۟ کے معنیان تسجد ہیں۔ یعنی تجھے آدم کو سجدہ کرنے سے کس بات نے روکا؟(لا کالفظ یہاں زائد ہے) اورارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور جب آپ کے رب نے فرشتوں سے کہا: میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ "حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا لَّمَّا عَلَيْهَا حَافِظٌ میں لما‘الا کے معنی میں ہے، یعنی کوئی جان نہیں مگر اس پر اللہ کی طرف سے ایک نگہبان مقررہے۔ فِى كَبَدٍ اس کے معنی ہیں: شدت خلق۔ رياشاابن عباسؓ کے نزدیک اس کے معنی مال کے ہیں۔ دوسروں نے کہا ہے: رياش اور ريش کے ایک ہی معنی ہیں۔ یعنی ظاہری لباس مَّا تُمْنُونَ اس کے معنی ہیں: وہ نطفہ جو تم(جماع کرکے) عورتوں کے رحم میں ڈالتے ہو۔ عَلَىٰ رَجْعِهِۦ لَقَادِرٌمجاہد نے کہا: اللہ تعالیٰ نطفے کوآلہ تناسل میں واپس کرنے پر قادر ہے۔ (دوسرے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انسان کو دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہے۔ وَٱلشَّفْعِ ہر چیز کواللہ تعالیٰ نے جوڑا جوڑا پیداکیاہے جیسا کہ آسمان جوڑا ہے زمین کے لیے اور وَٱلْوَتْرِ وتر صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے فِىٓ أَحْسَنِ تَقْوِيم ٍاس سے مراد اچھی خلقت ہے أَسْفَلَ سَـٰفِلِينَ پھر انسان کو ہم نے پست سے پست تر بنادیا، یعنی دوزخ میں دھکیل دیا مگر جو ایمان لایا۔ خُسْرٍتمام انسان خسارے میں ہیں، پھر ایمان والوں کو مستثنیٰ کیا لَّازِبٍ چمٹی ہوئی لیس دار مٹی نُنشِئَكُمْ جونسی صورت میں ہم چاہیں تم کوبنادیں نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ ہم تیری تعظیم اور بڑائی بجالاتے ہیں۔
ابوالعالیہ نے کہا: فَتَلَقَّىٰٓ ءَادَمُ مِن رَّبِّهِۦ كَلِمَـٰتٍ حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھے، وہ کلمات یہ ہیں رَبَّنَا ظَلَمْنَآ أَنفُسَنَا ‘فَأَزَلَّهُمَاکے معنی ہیں: اسْتَزَلَّهُمُیعنی انھیں پھسلا دیا لَمْ يَتَسَنَّهْ وہ بدبودار نہیں ہوا۔ ءَاسِنٍ اس کے معنی تغیر ہیں۔ مَّسْنُونٍ بدبودار مٹی حَمَإٍ یہ حماة کی جمع ہے۔ اس کے معنی ہیں متغیر مٹی يَخْصِفَانِ وہ چپکانے لگے مِن وَرَقِ ٱلْجَنَّةِ ۚ دونوں نے جنت کے پتوں کو جوڑنا شروع کردیا اور ایک پردوسرا رکھ کر اپنا ستر چھپانے لگے۔ سَوْءَٰتُهُمَا یہ شرمگاہ سے کنایہ ہے وَمَتَـٰعٌ إِلَىٰ حِينٍ حِينٍ سے مرد یہاں قیامت تک ہے اور عرب لوگ لفظ حِينٍ کو ایک گھڑی اور لمحے سے لے کر بے انتہا مدت تک استعمال کرتے ہیں۔ وَقَبِيلُهُۥ سے مراد اس کی جماعت ہے جس میں وہ خود شامل ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو مروان فزاری نے خبر دی۔ انہیں حمید نے اور ان سے حضرت انس ؓ نے بیان کیا کہ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ کو جب رسول کریم ﷺ کے مدینہ تشریف لانے کی خبرملی تو وہ آپ کی خدمت میں آئے اور کہا کہ میں آپ سے تین چیزوں کے بارے میں پوچھوں گا۔ جنہیں نبی کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ قیامت کی سب سے پہلی علامت کیا ہے؟ وہ کون سا کھانا ہے جو سب سے پہلے جنتیوں کو کھانے کے لیے دیا جائے گا؟ اور کس چیز کی وجہ سے بچہ اپنے باپ کے مشابہ ہوتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جبریل ؑ نے ابھی ابھی مجھے آکر اس کی خبردی ہے۔ اس پر حضرت عبداللہ ؓ نے کہا کہ ملائکہ میں تو یہی تو یہودیوں کے دشمن ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا، قیامت کی سب سے پہلی علامت ایک آگ کی صورت میں ظاہر ہوگی جو لوگوں کو مشرق سے مغرب کی طرف ہانک لے جائے گی، سب سے پہلا کھانا جو اہل جنت کی دعوت کے لیے پیش کیا جائے گا، وہ مچھلی کی کلیجی پرجو ٹکڑا لٹکا رہتا ہے وہ ہوگا اور بچے کی مشابہت کا جہاں تک تعلق ہے تو جب مرد عورت کے قریب جاتا ہے اس وقت اگر مرد کی منی پہل کرجاتی ہے تو بچہ اسی کی شکل و صورت پر ہوتا ہے۔ اگر عورت کی منی پہل کرجاتی ہے تو پھر بچہ عورت کی شکل و صورت پر ہوتا ہے (یہ سن کر) حضرت عبداللہ بن سلام ؓ بول اٹھے ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔‘‘ پھر عرض کیا یا رسول اللہ! یہود انتہا کی جھوٹی قوم ہے۔ اگر آپ کے دریافت کرنے سے پہلے میرے اسلام قبول کرنے کے بارے میں انہیں علم ہوگیا تو آپ ﷺ کے سامنے مجھ پر ہر طرح کی تہمتیں دھرنی شروع کردیں گے۔ چنانچہ کچھ یہودی آئے اور حضرت عبداللہ ؓ کے گھر کے اندر چھپ کر بیٹھ گئے۔ آنحضرت ﷺ نے ان سے پوچھا تم لوگوں میں عبداللہ بن سلام کون صاحب ہیں؟ سارے یہودی کہنے لگے وہ ہم میں سب سے بڑے عالم اور سب سے بڑے عالم کے صاحب زادے ہیں۔ ہم میں سب سے زیادہ بہتر اور ہم میں سب سے بہتر کے صاحب زادے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے ان سے فرمایا، اگر عبداللہ مسلمان ہوجائیں تو پھر تمہارا کیا خیال ہوگا؟ انہوں نے کہا، اللہ تعالیٰ انہیں اس سے محفوظ رکھے۔ اتنے میں حضرت عبداللہ ؓ باہر تشریف لائے اور کہا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے سچے رسول ہیں۔ اب وہ سب ان کے متعلق کہنے لگے کہ ہم میں سب سے بدترین اور سب سے بدترین کا بیٹا ہے، وہیں وہ ان کی برائی کرنے لگے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت عبداللہ بن سلام ؓ یہود کے بڑے عالم تھے جو آنحضرت ﷺ کو دیکھ کر فوراً ہی صداقت محمدی کے قائل ہوگئے اور اسلام قبول کرلیا تھا۔ رضي اللہ عنه و أرضاہ۔ یہ جو بعض لوگ نقل کرتے ہیں کہ عبداللہ بن سلام نے آنحضرت ﷺ سے ہزار سوال کئے تھے، یہ غلط ہے اسی طرح ہزار مسئلہ کا رسالہ بھی مصنوعی ہے۔ تعجب ہے کہ مسلمان ایسے جھوٹے رسالوں کو پڑھیں اورحدیث کی صحیح کتابیں نہ دیکھیں۔ اسی طرح صبح کا ستارہ، وقائق الاخبار اور منبہات اور دلائل الخیرات کی اکثر روایتیں موضوع ہیں۔ آگ سے متعلق ایک روایت یوں ہے کہ قیامت اس وقت تک نہ آئے گی جب تک حجاز میں ایک ایسی آگ نہ نکلے جس کی روشنی بصریٰ کے اونٹوں کی گردنوں کو روشن نہ کرے۔ یہ روایت صحیح مسلم اور حاکم میں ہے۔ امام نووی ؒ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ یہ آگ ہمارے زمانے 654ھ میں مدینہ میں ظاہر ہوئی اور آگ اس قدر بڑی تھی کہ مدینہ کے مشرقی پہلو سے لے کر پہاڑی تک پھیلی ہوئی تھی، اس کا حال شام اور تمام شہروں میں بتواتر معلوم ہوا اور ہم سے اس شخص نے بیان کیا جو اس وقت مدینہ میں موجود تھا۔ ابوشامہ ایک معاصر مصنف کا بیان ہے کہ ہمارے پاس مدینہ سے خطوط آئے جن میں لکھا تھا کہ چہار شنبہ کی رات کو 3جمادی الثانی میں مدینہ میں ایک سخت دھماکہ ہوا، پھر بڑا زلزلہ آیا جو ساعت بہ ساعت بڑھتا رہا۔ یہاں تک کہ پانچویں تاریخ کو بہت بڑی آگ پہاڑی میں قريظہ کے محلہ کے قریب نمودار ہوئی، جس کو ہم مدینہ کے اندر اپنے گھروں سے اس طرح دیکھتے تھے کہ گویا وہ ہمارے قریب ہی ہے۔ ہم اسے دیکھنے کو چڑھے تو دیکھا کہ پہاڑ آگ بن کر بہہ رہے ہیں اور ادھر ادھر شعلے بن کر جارہے ہیں۔ آگ کے شعلے پہاڑ معلوم ہورہے تھے۔ محلوں کے برابر چنگاریاں اڑرہی تھیں۔ یہاں تک کہ یہ آگ مکہ مکرمہ اور صحرا سے بھی نظرآتی تھی، یہ حالت ایک ماہ سے زیادہ رہی (تاریخ الخلفاءبحوالہ ابوشامہ واقعات654ھ) علامہ ذہبی ؒ نے بھی اس آگ کا ذکر کیا ہے (مختصر تاریخ الإسلام ذہبي، جلد: 2ص: 121، حیدرآباد) حافظ سیوطی لکھتے ہیں کہ بہت سے لوگوں سے جو بصریٰ میں اس وقت موجود تھے یہ شہادت منقول ہے کہ انہوں نے رات کو اس کی روشنی میں بصریٰ کے اونٹوں کی گردنیں دیکھیں۔ (تاریخ الخلفاءسیوطی، 654، خلاصہ از سیرت النبی، جلد:3، ص:712)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): When 'Abdullah bin Salam heard the arrival of the Prophet (ﷺ) at Medina, he came to him and said, "I am going to ask you about three things which nobody knows except a prophet: What is the first portent of the Hour? What will be the first meal taken by the people of Paradise? Why does a child resemble its father, and why does it resemble its maternal uncle" Allah's Apostle (ﷺ) said, " Gabriel (ؑ) has just now told me of their answers." 'Abdullah said, "He (i.e. Gabriel (ؑ)), from amongst all the angels, is the enemy of the Jews." Allah's Apostle (ﷺ) said, "The first portent of the Hour will be a fire that will bring together the people from the east to the west; the first meal of the people of Paradise will be Extra-lobe (caudate lobe) of fish-liver. As for the resemblance of the child to its parents: If a man has sexual intercourse with his wife and gets discharge first, the child will resemble the father, and if the woman gets discharge first, the child will resemble her." On that 'Abdullah bin Salam said, "I testify that you are the Apostle of Allah (ﷺ) ." 'Abdullah bin Salam further said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! The Jews are liars, and if they should come to know about my conversion to Islam before you ask them (about me), they would tell a lie about me." The Jews came to Allah's Apostle (ﷺ) and 'Abdullah went inside the house. Allah's Apostle (ﷺ) asked (the Jews), "What kind of man is 'Abdullah bin Salam amongst you?" They replied, "He is the most learned person amongst us, and the best amongst us, and the son of the best amongst us." Allah's Apostle (ﷺ) said, "What do you think if he embraces Islam (will you do as he does)?" The Jews said, "May Allah save him from it." Then 'Abdullah bin Salam came out in front of them saying, "I testify that None has the right to be worshipped but Allah and that Muhammad is the Apostle of Allah (ﷺ) ." Thereupon they said, "He is the evilest among us, and the son of the evilest amongst us," and continued talking badly of him.