باب:حضرت نوحکے بیان میں۔سورۂ ہود میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد’’ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا۔‘
)
Sahi-Bukhari:
Prophets
(Chapter: The Statement of Allah Aza Wajal: "And indeed We sent Nuh to his people...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3338.
حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ کیا میں تمھیں دجال کے متعلق ایسی خبر نہ دوں جو کسی نبی نے آج تک اپنی قوم کو نہیں بتائی؟ بے شک وہ کانا ہے اور اپنے ساتھ جنت اور دوزخ کی شیبہ بھی لائے گا۔ درحقیقت جسے وہ جنت کہے گا وہ آگ ہوگی اور جس کووہ جہنم کہے گا وہ دراصل جنت ہوگی، نیز میں تمھیں اس سے خبردار کرتا ہوں جس طرح حضرت نوح ؑ نےاپنی قوم کو اس سے ڈرایا تھا۔‘‘
تشریح:
1۔ دجال کا لفظ دجل سے ماخوذ ہے جس کے معنی جھوٹی بات کو خوبصورتی سے پیش کرنا ہیں۔ دجال کانام اس لیے رکھا گیا ہے کہ وہ بہت بڑا مکار، جھوٹ بولنے والا اور فریب کرنے والا ہوگا۔ ان احادیث میں حضرت نوح ؑ کی خصوصیت کی وجہ یہ ذکر ہوئی ہےکہ وہ پہلے نبی ہیں جنھوں نے اپنی قوم کو دجال سے ڈرایاہے۔ ان سے پہلے تمام انبیاء لوگوں کی تربیت کرتے تھے جس طرح باپ اپنی اولاد کی تربیت کرتا ہے۔ 2۔ دجال کے متعلق بہت سے اوصاف دیگر احادیث میں بیان ہوئے ہیں لیکن ان میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ دجال کی ایک آنکھ ختم ہوگی اور دوسری میں عیب ہوگا اسے ہر صورت میں ایک چشم یعنی کانا کہا جاسکتا ہے جبکہ اللہ رب العزت ایسا نہیں ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزمانے کے لیے دجال کو پہلے کچھ کاموں کی طاقت دے گا پھر بعد میں اس کی عاجزی ظاہر کر دے گا۔ ایسی صورت حال خود ظاہر کردے گی کہ وہ رب نہیں۔ چونکہ ان احادیث میں حضرت نوح ؑ کا ذکر ہے اس لیے عنوان سے اتنی سی مطابقت کافی ہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3209
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3338
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3338
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3338
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت آدم علیہ السلام کے ذکر کے بعد حضرت نوح علیہ السلام کا تذکرہ شروع کیا ہے جنھیں قرآن کریم نے عبدشکور کے نام سے یاد کیا ہے۔(بنی اسرائیل:17/3)آپ بہت رقیق القلب تھے ۔اکثر رویا کرتے تھے اس لیے لفظ نوح کے نام سے مشہور ہوئے قرآن مجید نے صراحت کی ہے کہ وہ پچاس برس کم ایک ہزار سال اپنی قوم کے پاس رہے اور انھیں تبلیغ کرتے رہے۔(العنکبوت29۔14)روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو چالیس سال کی عمر میں نبوت عطا ہوئی اور طوفان کے بعد اپ ساٹھ سال تک زندہ رہے اس طرح آپ کی عمر ایک ہزار پچاس برس بنتی ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام اولوالعزم پیغمبروں میں سے ہیں کیونکہ انھوں نے اللہ کے راستے میں سخت ترین آزمائشوں کو برداشت کیا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت مختلف سورتوں کے متعدد الفاظ ذکر کیے ہیں جن کا حضرت نوح علیہ السلام کی زندگی سے تعلق ہے متن میں سورتوں کو آیات کے حوالے سے ذکر کردیا گیا۔ قارئین کرام کسی ترجمے والے قرآن سے ان آیات کا ضرور مطالعہ کریں واللہ المستعان۔
حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ کیا میں تمھیں دجال کے متعلق ایسی خبر نہ دوں جو کسی نبی نے آج تک اپنی قوم کو نہیں بتائی؟ بے شک وہ کانا ہے اور اپنے ساتھ جنت اور دوزخ کی شیبہ بھی لائے گا۔ درحقیقت جسے وہ جنت کہے گا وہ آگ ہوگی اور جس کووہ جہنم کہے گا وہ دراصل جنت ہوگی، نیز میں تمھیں اس سے خبردار کرتا ہوں جس طرح حضرت نوح ؑ نےاپنی قوم کو اس سے ڈرایا تھا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ دجال کا لفظ دجل سے ماخوذ ہے جس کے معنی جھوٹی بات کو خوبصورتی سے پیش کرنا ہیں۔ دجال کانام اس لیے رکھا گیا ہے کہ وہ بہت بڑا مکار، جھوٹ بولنے والا اور فریب کرنے والا ہوگا۔ ان احادیث میں حضرت نوح ؑ کی خصوصیت کی وجہ یہ ذکر ہوئی ہےکہ وہ پہلے نبی ہیں جنھوں نے اپنی قوم کو دجال سے ڈرایاہے۔ ان سے پہلے تمام انبیاء لوگوں کی تربیت کرتے تھے جس طرح باپ اپنی اولاد کی تربیت کرتا ہے۔ 2۔ دجال کے متعلق بہت سے اوصاف دیگر احادیث میں بیان ہوئے ہیں لیکن ان میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ دجال کی ایک آنکھ ختم ہوگی اور دوسری میں عیب ہوگا اسے ہر صورت میں ایک چشم یعنی کانا کہا جاسکتا ہے جبکہ اللہ رب العزت ایسا نہیں ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزمانے کے لیے دجال کو پہلے کچھ کاموں کی طاقت دے گا پھر بعد میں اس کی عاجزی ظاہر کر دے گا۔ ایسی صورت حال خود ظاہر کردے گی کہ وہ رب نہیں۔ چونکہ ان احادیث میں حضرت نوح ؑ کا ذکر ہے اس لیے عنوان سے اتنی سی مطابقت کافی ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا ، ہم سے شیبان نے بیان کیا ، ان سے یحییٰ نے ، ان سے ابوسلمہ نے اور انہوں نے ابوہریرہ ؓ سے سنا ، آپ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ، کیوں نہ میں تمہیں دجال کے متعلق ایک ایسی بات بتادوں جو کسی نبی نے اپنی قوم کو اب تک نہیں بتائی۔ وہ کانا ہوگا اور جنت اور جہنم جیسی چیز لائے گا۔ پس جسے وہ جنت کہے گا درحقیقت وہی دوزخ ہوگی اور میں تمہیں اس کے فتنے سے اسی طرح ڈراتا ہوں، جیسے نوح ؑ نے اپنی قوم کو ڈرایا تھا۔
حدیث حاشیہ:
اللہ پاک اپنے بندوں کو آزمانے کے لیے دجال کو پہلے کچھ کاموں کی طاقت دے دے گا پھر بعد میں اس کی عاجزی ظاہر کردے گا، ایسی صورت خود بتادے گی کہ وہ خدا نہیں ہے۔ احادیث میں نوح ؑ کا ذکر آیا ہے باب سے یہی مناسبت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "Shall I not tell you about the Dajjal a story of which no prophet told his nation? The Dajjall is one-eyed and will bring with him what will resemble Hell and Paradise, and what he will call Paradise will be actually Hell; so I warn you (against him) as Noah warned his nation against him."