Sahi-Bukhari:
Rubbing hands and feet with dust (Tayammum)
(Chapter:)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
334.
نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہم ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے۔ جب ہم بیداء یا ذات الجیش پہنچے تو میرا ہار ٹوٹ کر گر گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی تلاش کے لیے قیام فرمایا تو دوسرے لوگ بھی آپ کے ہمراہ ٹھہر گئے، مگر وہاں کہیں پانی نہ تھا۔ لوگ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پاس آئے اور کہنے لگے: آپ نہیں دیکھتے کہ عائشہ ؓ نے کیا کیا؟ رسول اللہ ﷺ اور سب لوگوں کو ٹھہرا لیا اور یہاں پانی بھی نہیں ملتا اور نہ ان کے پاس پانی ہی ہے۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق ؓ آئے۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ میری ران پر سر رکھے محو استراحت تھے۔ صدیق اکبر ؓ کہنے لگے: تم نے رسول اللہ ﷺ اور سب لوگوں کو یہاں ٹھہرا لیا، حالانکہ یہاں پانی نہیں ہے اور نہ ہی لوگوں کے پاس پانی ہے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: ابوبکر صدیق ؓ مجھ پر ناراض ہوئے اور جو اللہ کو منظور تھا (برا بھلا) کہا، نیز میری کوکھ میں ہاتھ سے کچوکا لگانے لگے، لیکن میں نے حرکت اس لیے نہ کی کہ میری ران پر رسول اللہ ﷺ کا سر مبارک تھا۔ صبح کے وقت اس بے آب مقام پر رسول اللہ ﷺ بیدار ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے آیت تیمم نازل فر دی، چنانچہ لوگوں نے تیمم کر لیا۔ اس وقت حضرت اسید بن حضیر ؓ بولے: اے آل ابوبکر! یہ کوئی تمہاری پہلی برکت نہیں! حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: جس اونٹ پر میں سوار تھی، ہم نے اسے اٹھایا تو اس کے نیچے سے ہار مل گیا۔
تشریح:
1۔ قرآن کریم میں دو آیات تیمم سے متعلق ہیں: ایک سورہ نساء آیت 43 اور دوسری سورہ مائدہ آیت نمبر6۔ اس روایت میں آیت تیمم سے کون سی آیت مراد ہے؟ابن عربی فرماتے ہیں کہ یہ عقدہ بہت پیچیدہ ہے جس کا کوئی حل ہمیں نظر نہیں آتا، کیونکہ اگر سورہ نساء والی آیت اس سے پہلے نازل ہو چکی تھی تو پانی نہ ملنے کی صورت میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو پریشان ہونے کی کیا ضرورت تھی؟ اگر سورہ نساء والی آیت اس سے پہلے نازل نہیں ہوئی تھی تو اس حکم کو سورہ نساء میں دوبارہ نازل کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ جبکہ دونوں کے الفاظ اور سیاق بھی ایک جیسا ہے۔ علامہ ابن بطال نے اس متعلق تردو کا اظہار کیا ہے، جبکہ علامہ قرطبی ؒ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد سورہ نساء کی آیت ہے، کیونکہ سورہ مائدہ کی آیت کو آیت وضو کہتے ہیں اور سورہ نساء میں چونکہ وضو کا ذکر نہیں ہے، اس لیے اس آیت کو آیت تیمم کہا جاتا ہے، لیکن جو بات ان تمام حضرات پر مخفی رہی وہ امام بخاری ؒ كے ليے كسی تردد کے بغیر ظاہر ہو گئی۔ انھوں نے فیصلہ فر مادیا کہ اس موقع پر سورہ مائدہ والی آیت نازل ہوئی ہے،کیوں کہ انھوں نے جو الفاظ نقل کیے ہیں ان میں منہ کا لفظ ہے،یہ لفظ سورہ نساء میں نہیں بلکہ سورہ مائدہ میں ہے۔ پھر امام بخاری سورہ مائدہ کی تفسیر میں جو روایت لائے ہیں۔ اس میں اس آیت تیمم کے آغاز کی صراحت ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد سورہ مائدہ ہی کی آیت ہے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:1608) تنبیہ امام بخاری ؒ نے سورہ نساء میں متعلقہ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے بھی روایت عائشہ ؓ کو بیان کیا ہے، لیکن اس کا مطلب شان نزول کی وضاحت کرنا نہیں اور نہ یہ اس بات ہی کی دلیل ہے کہ خود امام بخاری بھی اس معاملے میں متردو ہیں۔ جیسا کہ بعض شارحین نے لکھا ہے۔ 2۔ مختلف روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ کے ہار کی گمشدگی دو مرتبہ ہوئی۔ اب یہ بات کہ ایک سفر میں دو بار ہار گم ہوا، بعید از قیاس ہے۔ اس لیے یہ ماننا ہوگا کہ دو مختلف سفروں میں دو مرتبہ ہار گم ہوا ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے ایک مرتبہ غزوہ بنی مصطلق سے واپسی پر حضرت عائشہ ؓ کا ہار گم ہوا جو انھوں نے اپنی بہن حضرت اسماء ؓ سے عاریتاً لیا تھا۔ اس مرتبہ انھوں نے خود ہی تلاش کیا اور اس وقت دستیاب ہوا جب لشکر کوچ کر چکا تھا ۔ دوسری مرتبہ غزوہ ذات الرقاع میں آپ کا ہار گم ہوا۔ اس مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو اس کی تلاش کے لیے بھیجا اور دوسرے لوگوں کو تلاش کرنے کے سبب اس میدان میں رکنا پڑا۔ طبرانی کی ایک روایت اس موقف کی مؤید ہے، حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں : جب میرے ہار گم ہو جانے کا واقعہ پیش آیا اور بہتان لگانے والوں نے جو چاہا کہا۔ پھر اس کے بعد میں دوبارہ کسی غزوے میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ گئی، وہاں پھر میرا ہار گم ہو گیا اور لوگوں کو اس کی تلاش کے لیے رکنا پڑا تو اس موقع پر حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے کہا بیٹی !تو ہرسفر میں لوگوں کے لیے مصیبت کھڑی کر دیتی ہے۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے تیمم کی رخصت نازل فرمائی ۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ ؓ کا ہار دوبارہ گم ہوا اور تیمم کی آیت دوسرے سفر سے متعلق ہے۔ اگرچہ اس روایت کی سند میں محمد بن حمید رازی کی وجہ سے کلام کیا گیا ہے، تاہم تائید و شواہد میں اسے پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر قرائن سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ غزوہ ذات الرقاع سے متعلق ہے۔ یہ غزوہ خیبر کے بعد پیش آیا۔ غزوہ خیبر سات ہجری میں ہوا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ جب آیت تیمم نازل ہوئی تو میں نہیں جانتا تھا کہ تیمم کا عمل کیسے کروں؟اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت تیمم کے نزول کے وقت حضرت ابوہریرہ ؓ موجود تھے، کیونکہ آپ خیبر کے موقع پر حاضر ہوئے تھے جبکہ غزوہ بنی مصطلق چھ ہجری میں ہو چکا تھا۔ نیز حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ جو غزوہ خیبر کے موقع پر یمن سے آئے تھے، ان کی غزوہ ذات الرقاع میں شرکت سے بھی اس موقف کی مزید تائید ہوتی ہے۔ (فتح الباري: 1/564) 3۔ جب لوگوں نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے پاس ان کی دختر نیک اختر حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے متعلق شکایت کی کہ ہمیں اس بےآب و گیاہ میدان میں ان کی وجہ سے رکنا پڑا ہے تو حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو اس سے تکلیف ہوئی۔ آپ نے حضرت عائشہ ؓ کو ملامت کرنا شروع کردی کہ تمھاری بے احتیاطی کی وجہ سے لوگوں کو اس لق ودق میدان میں رکنا پڑا اور ان کی نمازیں پانی نہ ملنے کی وجہ سے قضا ہونے والی ہیں۔ آپ نے ہاتھ سے بھی حضرت عائشہ ؓ کو کچو کے لگائے۔ اس انداز سے معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی اجنبی آدمی کسی کو اس کی غلطی پر تنبیہ کر رہا ہو۔ تنبیہ کا یہ انداز شفقت پدری کے خلاف تھا کہ زبان سے بھی ملا مت اور ہاتھ سے بھی طعن ۔ اس بنا پر حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: ابو بکر ؓ مجھ پر عتاب فرمانے لگے۔ اور آپ نے ان کے لیے ’’پدر بزرگوار ‘‘ کے الفاظ استعمال نہیں فرمائے۔ (فتح الباري:562/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
332
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
334
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
334
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
334
تمہید کتاب
"یہ ذکر ہم نے آپ کی طرف اس لیے اتارا ہے تاکہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کر بیان کر دیں۔"( النحل16۔44۔) یہ وہی بیان ہے جس کی حفاظت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:(ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ)"پھر اس (قرآن )کا واضح کر دینا ہمارے ذمے ہے۔"( القیامۃ :75۔19۔) یعنی اس کے مشکل مقامات کی تشریح اور حلال و حرام کی توضیح بھی ہمارے ذمے ہے۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے مجملات کی جو تفصیل مبہمات کی توضیح اور اس کے عمومات کی جو تخصیص بیان کی ہے جسے حدیث کہا جا تا ہے یہ سب اللہ کی طرف سے ہے۔ اور اسے تسلیم کرنا گویا قرآن کریم کو ماننا ہے ۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس مبارک تصنیف میں اسی اصول کو پیش نظر رکھا ہے پہلے بنیادی ماخذ قرآنی آیت کاحوالہ دیا۔ پھر اس کی تشریح احادیث و آثار سے فرمائی۔آپ نے کتاب تیمم میں نو چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں دو باب بلا عنوان ہیں۔ باقی سات ابواب میں مندرجہ ذیل مسائل واحکام بیان کیے ہیں۔(فاقد الطهورين) کا کیا حکم ہے؟ جب نماز کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو اور پانی نہ ملے تو حضر میں بھی تیمم کیا جا سکتا ہے۔ تیمم کرنے والا خاک آلود ہاتھوں پر پھونک مار سکتا ہے تیمم چہرے اور ہاتھوں کے مسح سے مکمل ہو جاتا ہے جب پانی نہ ملے تو بندہ مسلم کے لیے پاک مٹی ہی وضو کے پانی کاکام دیتی ہے جب کسی کو پیاس لگی ہو اور وضو کرنے سے پانی ختم ہونے کا اندیشہ ہو یا جنبی آدمی کو پانی استعمال کرنے سے بیماری یا موت کا خطرہ ہو تو پانی کی موجودگی میں بھی تیمم کیا جا سکتا ہے تیمم کرتے وقت صرف ایک مرتبہ زمین پر ہاتھ مارنا کافی ہے۔ اسی طرح بیشتر متعارف و حقائق بیان کیے ہیں جن کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے تیمم سے متعلقہ احکام و مسائل ثابت کرنے کے لیے سترہ(17)مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں دس احادیث مقرر ہیں نیز دو معلق روایات بھی لائے ہیں غیر مقرر احادیث کی تعداد سات ہے جن میں ایک معلق ہے باقی موصول ہیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین کے دس آثار بھی پیش کیے ہیں جن میں تین موصول ہیں یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فتوی جات باسند بیان کیے ہیں۔معلق روایت یا اثر کا مطلب ہے اسے بے سند بیان یا نقل کرنا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ معلق روایات و آثار کی سند یں دیگر کتب احادیث میں موجود ہیں جن کی تفصیل حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اپنی شرح "فتح الباری"میں بیان کردیتے ہیں اس لیے صحیح بخاری میں بے سند (معلق)ہونے کا مطلب بے سروپا اور بے بنیاد ہونا نہیں بلکہ اختصار کے طور پر سند کا حذف کردینا ہے۔قارئین کرام :سے گزارش ہے کہ وہ ہماری پیش کردہ معروضات کو مدنظر رکھتے ہوئے کتاب تیمم کا مطالعہ فرمائیں اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ اور وہ ہمیں کتاب و سنت کے مطابق حیات مستعار کے چند دن گزار نے کی توفیق دے۔
نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہم ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے۔ جب ہم بیداء یا ذات الجیش پہنچے تو میرا ہار ٹوٹ کر گر گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی تلاش کے لیے قیام فرمایا تو دوسرے لوگ بھی آپ کے ہمراہ ٹھہر گئے، مگر وہاں کہیں پانی نہ تھا۔ لوگ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پاس آئے اور کہنے لگے: آپ نہیں دیکھتے کہ عائشہ ؓ نے کیا کیا؟ رسول اللہ ﷺ اور سب لوگوں کو ٹھہرا لیا اور یہاں پانی بھی نہیں ملتا اور نہ ان کے پاس پانی ہی ہے۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق ؓ آئے۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ میری ران پر سر رکھے محو استراحت تھے۔ صدیق اکبر ؓ کہنے لگے: تم نے رسول اللہ ﷺ اور سب لوگوں کو یہاں ٹھہرا لیا، حالانکہ یہاں پانی نہیں ہے اور نہ ہی لوگوں کے پاس پانی ہے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: ابوبکر صدیق ؓ مجھ پر ناراض ہوئے اور جو اللہ کو منظور تھا (برا بھلا) کہا، نیز میری کوکھ میں ہاتھ سے کچوکا لگانے لگے، لیکن میں نے حرکت اس لیے نہ کی کہ میری ران پر رسول اللہ ﷺ کا سر مبارک تھا۔ صبح کے وقت اس بے آب مقام پر رسول اللہ ﷺ بیدار ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے آیت تیمم نازل فر دی، چنانچہ لوگوں نے تیمم کر لیا۔ اس وقت حضرت اسید بن حضیر ؓ بولے: اے آل ابوبکر! یہ کوئی تمہاری پہلی برکت نہیں! حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: جس اونٹ پر میں سوار تھی، ہم نے اسے اٹھایا تو اس کے نیچے سے ہار مل گیا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ قرآن کریم میں دو آیات تیمم سے متعلق ہیں: ایک سورہ نساء آیت 43 اور دوسری سورہ مائدہ آیت نمبر6۔ اس روایت میں آیت تیمم سے کون سی آیت مراد ہے؟ابن عربی فرماتے ہیں کہ یہ عقدہ بہت پیچیدہ ہے جس کا کوئی حل ہمیں نظر نہیں آتا، کیونکہ اگر سورہ نساء والی آیت اس سے پہلے نازل ہو چکی تھی تو پانی نہ ملنے کی صورت میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو پریشان ہونے کی کیا ضرورت تھی؟ اگر سورہ نساء والی آیت اس سے پہلے نازل نہیں ہوئی تھی تو اس حکم کو سورہ نساء میں دوبارہ نازل کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ جبکہ دونوں کے الفاظ اور سیاق بھی ایک جیسا ہے۔ علامہ ابن بطال نے اس متعلق تردو کا اظہار کیا ہے، جبکہ علامہ قرطبی ؒ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد سورہ نساء کی آیت ہے، کیونکہ سورہ مائدہ کی آیت کو آیت وضو کہتے ہیں اور سورہ نساء میں چونکہ وضو کا ذکر نہیں ہے، اس لیے اس آیت کو آیت تیمم کہا جاتا ہے، لیکن جو بات ان تمام حضرات پر مخفی رہی وہ امام بخاری ؒ كے ليے كسی تردد کے بغیر ظاہر ہو گئی۔ انھوں نے فیصلہ فر مادیا کہ اس موقع پر سورہ مائدہ والی آیت نازل ہوئی ہے،کیوں کہ انھوں نے جو الفاظ نقل کیے ہیں ان میں منہ کا لفظ ہے،یہ لفظ سورہ نساء میں نہیں بلکہ سورہ مائدہ میں ہے۔ پھر امام بخاری سورہ مائدہ کی تفسیر میں جو روایت لائے ہیں۔ اس میں اس آیت تیمم کے آغاز کی صراحت ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد سورہ مائدہ ہی کی آیت ہے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:1608) تنبیہ امام بخاری ؒ نے سورہ نساء میں متعلقہ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے بھی روایت عائشہ ؓ کو بیان کیا ہے، لیکن اس کا مطلب شان نزول کی وضاحت کرنا نہیں اور نہ یہ اس بات ہی کی دلیل ہے کہ خود امام بخاری بھی اس معاملے میں متردو ہیں۔ جیسا کہ بعض شارحین نے لکھا ہے۔ 2۔ مختلف روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ کے ہار کی گمشدگی دو مرتبہ ہوئی۔ اب یہ بات کہ ایک سفر میں دو بار ہار گم ہوا، بعید از قیاس ہے۔ اس لیے یہ ماننا ہوگا کہ دو مختلف سفروں میں دو مرتبہ ہار گم ہوا ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے ایک مرتبہ غزوہ بنی مصطلق سے واپسی پر حضرت عائشہ ؓ کا ہار گم ہوا جو انھوں نے اپنی بہن حضرت اسماء ؓ سے عاریتاً لیا تھا۔ اس مرتبہ انھوں نے خود ہی تلاش کیا اور اس وقت دستیاب ہوا جب لشکر کوچ کر چکا تھا ۔ دوسری مرتبہ غزوہ ذات الرقاع میں آپ کا ہار گم ہوا۔ اس مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو اس کی تلاش کے لیے بھیجا اور دوسرے لوگوں کو تلاش کرنے کے سبب اس میدان میں رکنا پڑا۔ طبرانی کی ایک روایت اس موقف کی مؤید ہے، حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں : جب میرے ہار گم ہو جانے کا واقعہ پیش آیا اور بہتان لگانے والوں نے جو چاہا کہا۔ پھر اس کے بعد میں دوبارہ کسی غزوے میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ گئی، وہاں پھر میرا ہار گم ہو گیا اور لوگوں کو اس کی تلاش کے لیے رکنا پڑا تو اس موقع پر حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے کہا بیٹی !تو ہرسفر میں لوگوں کے لیے مصیبت کھڑی کر دیتی ہے۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے تیمم کی رخصت نازل فرمائی ۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ ؓ کا ہار دوبارہ گم ہوا اور تیمم کی آیت دوسرے سفر سے متعلق ہے۔ اگرچہ اس روایت کی سند میں محمد بن حمید رازی کی وجہ سے کلام کیا گیا ہے، تاہم تائید و شواہد میں اسے پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر قرائن سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ غزوہ ذات الرقاع سے متعلق ہے۔ یہ غزوہ خیبر کے بعد پیش آیا۔ غزوہ خیبر سات ہجری میں ہوا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ جب آیت تیمم نازل ہوئی تو میں نہیں جانتا تھا کہ تیمم کا عمل کیسے کروں؟اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت تیمم کے نزول کے وقت حضرت ابوہریرہ ؓ موجود تھے، کیونکہ آپ خیبر کے موقع پر حاضر ہوئے تھے جبکہ غزوہ بنی مصطلق چھ ہجری میں ہو چکا تھا۔ نیز حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ جو غزوہ خیبر کے موقع پر یمن سے آئے تھے، ان کی غزوہ ذات الرقاع میں شرکت سے بھی اس موقف کی مزید تائید ہوتی ہے۔ (فتح الباري: 1/564) 3۔ جب لوگوں نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے پاس ان کی دختر نیک اختر حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے متعلق شکایت کی کہ ہمیں اس بےآب و گیاہ میدان میں ان کی وجہ سے رکنا پڑا ہے تو حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو اس سے تکلیف ہوئی۔ آپ نے حضرت عائشہ ؓ کو ملامت کرنا شروع کردی کہ تمھاری بے احتیاطی کی وجہ سے لوگوں کو اس لق ودق میدان میں رکنا پڑا اور ان کی نمازیں پانی نہ ملنے کی وجہ سے قضا ہونے والی ہیں۔ آپ نے ہاتھ سے بھی حضرت عائشہ ؓ کو کچو کے لگائے۔ اس انداز سے معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی اجنبی آدمی کسی کو اس کی غلطی پر تنبیہ کر رہا ہو۔ تنبیہ کا یہ انداز شفقت پدری کے خلاف تھا کہ زبان سے بھی ملا مت اور ہاتھ سے بھی طعن ۔ اس بنا پر حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: ابو بکر ؓ مجھ پر عتاب فرمانے لگے۔ اور آپ نے ان کے لیے ’’پدر بزرگوار ‘‘ کے الفاظ استعمال نہیں فرمائے۔ (فتح الباري:562/1)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں مالک نے عبدالرحمن بن قاسم سے خبر دی، انھوں نے اپنے والد سے، انھوں نے نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ سے، آپ نے بتلایا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بعض سفر ( غزوئہ بنی المصطلق ) میں تھے۔ جب ہم مقام بیداء یا ذات الجیش پر پہنچے تو میرا ایک ہار کھو گیا۔ رسول اللہ ﷺ اس کی تلاش میں وہیں ٹھہر گئے اور لوگ بھی آپ ﷺ کے ساتھ ٹھہر گئے۔ لیکن وہاں پانی کہیں قریب میں نہ تھا۔ لوگ حضرت ابوبکر ؓ کے پاس آئے اور کہا “ حضرت عائشہ ؓ نے کیا کام کیا؟ کہ رسول اللہ ﷺ اور تمام لوگوں کو ٹھہرا دیا ہے اور پانی بھی کہیں قریب میں نہیں ہے اور نہ لوگوں ہی کے ساتھ ہے۔ ” پھر ابوبکر صدیق ؓ تشریف لائے، رسول اللہ ﷺ اپنا سر مبارک میری ران پر رکھے ہوئے سو رہے تھے۔ فرمانے لگے کہ تم نے رسول اللہ ﷺ اور تمام لوگوں کو روک لیا۔ حالانکہ قریب میں کہیں پانی بھی نہیں ہے اور نہ لوگوں کے پاس ہے۔ حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ والد ماجد ( ؓ ) مجھ پر بہت خفا ہوئے اور اللہ نے جو چاہا انھوں نے مجھے کہا اور اپنے ہاتھ سے میری کوکھ میں کچوکے لگائے۔ رسول اللہ ﷺ کا سر مبارک میری ران پر تھا۔ اس وجہ سے میں حرکت بھی نہیں کر سکتی تھی۔ رسول اللہ ﷺ جب صبح کے وقت اٹھے تو پانی کا پتہ تک نہ تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت اتاری اور لوگوں نے تیمم کیا۔ اس پر اسید بن حضیر ؓ نے کہا “ اے آل ابی بکر! یہ تمہاری کوئی پہلی برکت نہیں ہے۔ عائشہ ؓ نے فرمایا۔ پھر ہم نے اس اونٹ کو ہٹایا جس پر میں سوار تھی تو ہار اسی کے نیچے مل گیا۔
حدیث حاشیہ:
لغت میں تیمم کے معنی قصد وارادہ کرنے کے ہیں۔ شرع میں تیمم یہ کہ پاک مٹی سے منہ اور ہاتھ کا مسح کرنا حدث یا جنابت دورکرنے کی نیت سے۔ حضرت عائشہ ؓ کا ہار گلے میں سے ٹوٹ کرزمین پر گر گیا تھا۔ پھر اس پر اونٹ بیٹھ گیا۔ لوگ ادھر ادھر ہار کو ڈھونڈتے رہے اسی حالت میں نماز کا وقت آگیا اور وہاں پانی نہ تھا جس پر تیمم کی آیت نازل ہوئی، بعد میں اونٹ کے نیچے سے ہار بھی مل گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): (The wife of the Prophet (ﷺ)) we set out with Allah’s Apostle (ﷺ) on one of his journeys till we reached Al-Baida' or Dhatul-Jaish, a necklace of mine was broken (and lost). Allah's Apostle (ﷺ) stayed there to search for it, and so did the people along with him. There was no water at that place, so the people went to Abu- Bakr As-Siddiq and said, "Don't you see what 'Aisha (RA) has done? She has made Allah's Apostle (ﷺ) and the people stay where there is no water and they have no water with them." Abu Bakr (RA) came while Allah's Apostle (ﷺ) was sleeping with his head on my thigh, He said, to me: "You have detained Allah's Apostle (ﷺ) and the people where there is no water and they have no water with them. So he admonished me and said what Allah wished him to say and hit me on my flank with his hand. Nothing prevented me from moving (because of pain) but the position of Allah's Apostle (ﷺ) on my thigh. Allah's Apostle (ﷺ) got up when dawn broke and there was no water. So Allah revealed the Divine Verses of Tayammum. So they all performed Tayammum. Usaid bin Hudair said, "O the family of Abu Bakr! This is not the first blessing of yours." Then the camel on which I was riding was caused to move from its place and the necklace was found beneath it.