Sahi-Bukhari:
Prophets
(Chapter: The story of Gog and Magog)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اللہ تعالیٰ نے سورۃ کہف میں فرمایا وہ لوگ کہنے لگے یاجوج اور ماجوج لوگ ملک میں بہت فساد مچارہے ہیں ۔تشریح : یہ دونوں قبیلوں کے نام ہیں جو یافث بن نوح کی اولاد میں ہیں، بعض نے کہا کہ یاجوج ترک لوگ ہیں اور ماجوج ایک دوسرا گروہ ہے۔ قیامت کے قریب یہ لوگ بہت غالب ہوں گے اور ہر طرف سے نکل پڑیں گے، ان کا نکلنا قیامت کی ایک نشانی ہے۔ جو لوگ یاجوج ماجوج کے وجود میں شبہ کرتے ہیں وہ احمق ہیں، یاجوج ماجوج آدمی ہیں کوئی عجوبہ نہیں ہیں اور جو روایتیں ان کے قدوقامت کے متعلق منقول ہیں ان کی سندیں صحیح نہیں۔ تورات شریف میں یاجوج ماجوج کا ذکر ہے، بعض نے کہا کہ یاجوج روسی لوگ ہیں اور ماجوج تاتاری۔ بعض نے کہا ماجوج انگریز ہیں۔ ( وحیدی ) صحیح بات یہی ہے کہ حقیقت حال کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اہل ایمان کا کام ارشاد الٰہی اٰمنا و صدقنا کہنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا «ويسألونك عن ذي القرنين قل سأتلو عليكم منه ذكرا * إنا مكنا له في الأرض وآتيناه من كل شىء سببا * فاتبع سببا» ”اور آپ سے (اے رسول) ذوالقرنین (بادشاہ) کے متعلق یہ لوگ پوچھتے ہیں۔ (آپ فرما دیں کہ) ان کا قصہ میں ابھی تمہارے سامنے بیان کرتا ہوں ہم نے اسے زمین کی حکومت دی تھی اور ہم نے اس کو ہر طرح کا سامان عطا فرمایا تھا پھر وہ ایک سمت چل نکلا .“ اللہ تعالیٰ کے ارشاد «ائتوني زبر الحديد» ”تم لوگ میرے پاس لوہے کی چادریں لاؤ، تک۔ «زبر» کا واحد «زبرة» ہے اور «زبرة» ٹکڑے کو کہتے ہیں ”یہاں تک کہ جب اس نے ان دونوں پہاڑوں کے برابر دیوار اٹھا دی۔“ «صدفين» سے پہاڑ مراد ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ( «بين الصدفين» کی تفسیر میں منقول ہے) اور «السدين الصدفين» کی دوسری قرآت بھی «الجبلين» (دو پہاڑ) کے معنی میں ہے۔ «خرجا» بمعنی محصول اجرت، ذوالقرنین نے (عملہ سے) کہا کہ اب اس دیوار کو آگ سے دھونکو یہاں تک کہ جب اسے آگ بنا دیا تو کہا اب میرے پاس پگھلا ہوا سیسہ تانبا لاؤ تو میں اس پر ڈال دوں «أفرغ عليه قطرا» کے معنی ہیں کہ میں اس پر پگھلا ہوا سیسہ ڈال دوں ( «قطر» کے معنی) بعض نے لوہے (پگھلے ہوئے سے) کئے ہیں اور بعض نے پیتل سے، ابن عباسؓ نے اس کا معنی تانبا بتایا ہے۔ پھر قوم یاجوج و ماجوج کے لوگ (اس سد کے بعد) اس پر چڑھ نہ سکے «يظهروه» بمعنی «يعلوه»، «أطعت له» سے استفعال کا صیغہ ہے۔ اسی لیے «أسطاع» «يسطيع» «يستطيع» بھی پڑھتے ہیں اور یاجوج ماجوج اس میں سوراخ بھی نہ کر سکے۔ ذوالقرنین نے کہا کہ یہ میرے پروردگار کی ایک رحمت ہے پھر جب میرے پروردگار کا مقررہ وعدہ آ پہنچے گا تو وہ اس دیوار کو «دكا» یعنی زمین کے ساتھ ملا دے گا، عرب کے لوگ اسی سے بولتے ہیں «ناقة دكاء» جس سے مراد وہ اونٹ ہے جس کی کوہان نہ ہو۔ اور «الدكداك من الأرض» کی مثال وہ زمین جو ہموار ہو کر سخت ہو گئی ہو، اونچی نہ ہو اور میرے رب کا وعدہ برحق ہے اور اس روز ہم ان کو اس طرح چھوڑ دیں گے کہ بعض ان کا بعض سے گڈ مڈ ہو جائے گا۔ یہاں تک کہ جب یاجوج ماجوج کو کھول دیا جائے گا اور وہ ہر بلندی سے دوڑ پڑیں گے۔ قتادہ نے کہا کہ «حدب» کے معنی ٹیلہ کے ہیں۔ ایک صحابی نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ میں نے اس دیوار کو دھاری دار چادر کی طرح دیکھا ہے جس کی ایک دھاری سرخ ہے اور ایک کالی ہے، اس پر آپﷺنے فرمایا واقعی تم نے اس کو دیکھا ہے۔
3346.
حضرت زینب بنت حجش ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ گھبرائے ہوئے ان کے پاس آئے اور فرمایا: ’’اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں۔ عرب کی تباہی اس آفت کی وجہ سے ہونے والی ہے جو بالکل قریب آلگی ہے۔ آج یا جوج و ماجوج کی دیوار میں اتنا سوراخ ہو گیا ہے۔‘‘ آپ ﷺ نے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے سوراخ بنا کر اس کی مقدار بتائی۔ حضرت زینب بنت حجش ؓ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! کیا ہم نیک لوگوں کی موجودگی میں ہلاک ہو جائیں گے؟ آپ نے فرمایا : ’’ہاں جب برائی زیادہ پھیل جائے گی۔‘‘
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3217
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3346
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3346
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3346
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ کہف میں فرمایا وہ لوگ کہنے لگے یاجوج اور ماجوج لوگ ملک میں بہت فساد مچارہے ہیں ۔تشریح : یہ دونوں قبیلوں کے نام ہیں جو یافث بن نوح کی اولاد میں ہیں، بعض نے کہا کہ یاجوج ترک لوگ ہیں اور ماجوج ایک دوسرا گروہ ہے۔ قیامت کے قریب یہ لوگ بہت غالب ہوں گے اور ہر طرف سے نکل پڑیں گے، ان کا نکلنا قیامت کی ایک نشانی ہے۔ جو لوگ یاجوج ماجوج کے وجود میں شبہ کرتے ہیں وہ احمق ہیں، یاجوج ماجوج آدمی ہیں کوئی عجوبہ نہیں ہیں اور جو روایتیں ان کے قدوقامت کے متعلق منقول ہیں ان کی سندیں صحیح نہیں۔ تورات شریف میں یاجوج ماجوج کا ذکر ہے، بعض نے کہا کہ یاجوج روسی لوگ ہیں اور ماجوج تاتاری۔ بعض نے کہا ماجوج انگریز ہیں۔ ( وحیدی ) صحیح بات یہی ہے کہ حقیقت حال کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اہل ایمان کا کام ارشاد الٰہی اٰمنا و صدقنا کہنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا «ويسألونك عن ذي القرنين قل سأتلو عليكم منه ذكرا * إنا مكنا له في الأرض وآتيناه من كل شىء سببا * فاتبع سببا» ”اور آپ سے (اے رسول) ذوالقرنین (بادشاہ) کے متعلق یہ لوگ پوچھتے ہیں۔ (آپ فرما دیں کہ) ان کا قصہ میں ابھی تمہارے سامنے بیان کرتا ہوں ہم نے اسے زمین کی حکومت دی تھی اور ہم نے اس کو ہر طرح کا سامان عطا فرمایا تھا پھر وہ ایک سمت چل نکلا .“ اللہ تعالیٰ کے ارشاد «ائتوني زبر الحديد» ”تم لوگ میرے پاس لوہے کی چادریں لاؤ، تک۔ «زبر» کا واحد «زبرة» ہے اور «زبرة» ٹکڑے کو کہتے ہیں ”یہاں تک کہ جب اس نے ان دونوں پہاڑوں کے برابر دیوار اٹھا دی۔“ «صدفين» سے پہاڑ مراد ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ( «بين الصدفين» کی تفسیر میں منقول ہے) اور «السدين الصدفين» کی دوسری قرآت بھی «الجبلين» (دو پہاڑ) کے معنی میں ہے۔ «خرجا» بمعنی محصول اجرت، ذوالقرنین نے (عملہ سے) کہا کہ اب اس دیوار کو آگ سے دھونکو یہاں تک کہ جب اسے آگ بنا دیا تو کہا اب میرے پاس پگھلا ہوا سیسہ تانبا لاؤ تو میں اس پر ڈال دوں «أفرغ عليه قطرا» کے معنی ہیں کہ میں اس پر پگھلا ہوا سیسہ ڈال دوں ( «قطر» کے معنی) بعض نے لوہے (پگھلے ہوئے سے) کئے ہیں اور بعض نے پیتل سے، ابن عباسؓ نے اس کا معنی تانبا بتایا ہے۔ پھر قوم یاجوج و ماجوج کے لوگ (اس سد کے بعد) اس پر چڑھ نہ سکے «يظهروه» بمعنی «يعلوه»، «أطعت له» سے استفعال کا صیغہ ہے۔ اسی لیے «أسطاع» «يسطيع» «يستطيع» بھی پڑھتے ہیں اور یاجوج ماجوج اس میں سوراخ بھی نہ کر سکے۔ ذوالقرنین نے کہا کہ یہ میرے پروردگار کی ایک رحمت ہے پھر جب میرے پروردگار کا مقررہ وعدہ آ پہنچے گا تو وہ اس دیوار کو «دكا» یعنی زمین کے ساتھ ملا دے گا، عرب کے لوگ اسی سے بولتے ہیں «ناقة دكاء» جس سے مراد وہ اونٹ ہے جس کی کوہان نہ ہو۔ اور «الدكداك من الأرض» کی مثال وہ زمین جو ہموار ہو کر سخت ہو گئی ہو، اونچی نہ ہو اور میرے رب کا وعدہ برحق ہے اور اس روز ہم ان کو اس طرح چھوڑ دیں گے کہ بعض ان کا بعض سے گڈ مڈ ہو جائے گا۔ یہاں تک کہ جب یاجوج ماجوج کو کھول دیا جائے گا اور وہ ہر بلندی سے دوڑ پڑیں گے۔ قتادہ نے کہا کہ «حدب» کے معنی ٹیلہ کے ہیں۔ ایک صحابی نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ میں نے اس دیوار کو دھاری دار چادر کی طرح دیکھا ہے جس کی ایک دھاری سرخ ہے اور ایک کالی ہے، اس پر آپﷺنے فرمایا واقعی تم نے اس کو دیکھا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت زینب بنت حجش ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ گھبرائے ہوئے ان کے پاس آئے اور فرمایا: ’’اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں۔ عرب کی تباہی اس آفت کی وجہ سے ہونے والی ہے جو بالکل قریب آلگی ہے۔ آج یا جوج و ماجوج کی دیوار میں اتنا سوراخ ہو گیا ہے۔‘‘ آپ ﷺ نے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے سوراخ بنا کر اس کی مقدار بتائی۔ حضرت زینب بنت حجش ؓ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! کیا ہم نیک لوگوں کی موجودگی میں ہلاک ہو جائیں گے؟ آپ نے فرمایا : ’’ہاں جب برائی زیادہ پھیل جائے گی۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "انھوں نےکہا: اے ذوالقرنین! یاجوج و ماجوج زمین میں فساد کرتے ہیں۔ "نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "اور آپ سے ذوالقرنین کے متعلق پوچھتے ہیں مجھے لوہے کی چادریں لادو"تکزبرکا واحدزبرةہے۔ اس کے معنی ہیں: لوہے کے ٹکڑے۔"یہاں تک کہ جب اس نے دونوں پہاڑوں کے خلا کو برابر کردیا۔ " حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ الصَّدَفَيْنِ سے مراد دو پہاڑہیں السَّدَّيْنِ سے مراد بھی دوپہاڑہیں خَرْجًاکے معنی اجرت کے ہیں۔ ذوالقرنین نے کہا: "دھونکو(دہکاؤ) حتیٰ کہ جب اس نے اسے آگ بنا دیا تو کہا کہ میرے پاس پگھلا ہوا تانبا لاؤ میں اس پر ڈال (کر پیوست)کردوں۔ "اس پررصاص ڈال دوں۔ رصاص لوہے اور تانبے کو کہا جا تا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ نے کہا: اس سے مراد پیتل ہے۔ "وہ (یاجوج وماجوج )اس پر نہیں چڑھ سکیں گے۔ "اسطاعباب استفعال سے ہے۔ یہ طعت له سے ماخوذ ہے۔ اسی لیے مفتوح پڑھا گیا ہے اور اسطاع يسطيع ہے اور بعض نے کہا کہ استطاع يستطيع کے باب سے ہے۔ "وہ اس پر چڑھ نہیں سکیں گے۔ اور نہ اس میں سوراخ ہی کر سکیں گے۔ اس(ذوالقرنین )نے کہا: یہ میرے رب کی رحمت ہے مگر جب میرے رب کا وعدہ آجائے گا تو وہ اسے پیوند خاک کردے گا۔ "اس کے معنی ہیں کہ اللہ اسے زمین کے ساتھ ملا دے گا۔ جس اونٹنی کی کوہان نہ ہو اسے ناقة‘ دكاء کہا جا تا ہے۔ اسی طرح دكداك وہ صاف زمین ہے جو سخت ہوگئی ہو اور اس میں اونچائی نہ رہے۔ "اور میرے رب کا وعدہ بر حق ہے اور اس دن ہم انھیں چھوڑدیں گے، وہ ایک دوسرےسے گتھم گتھا ہو جائیں گے۔ "حتی کہ جب یاجوج و ماجوج کو کھول دیا جائے گا اور وہ ہر بلندی سے نیچے کو دوڑتے آئیں گے۔ "حضرت قتادہ نے کہاحدب سے مراد ٹیلہ ہے۔ ایک شخص نے نبیﷺسے عرض کیا: میں نے ایک دیوار دیکھی ہے جو منقش چادر کی طرح ہے تو آپ نے فرمایا: " یقیناً تو نے اسے دیکھ لیا ہے۔ "
فائدہ:یاجوج و ماجوج کے متعلق صحیح موقف یہ ہے کہ ان کی حقیقت حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے، اہل ایمان کا کام یہ ہے کہ جو کچھ قرآن و حدیث میں ہے اسے تسلیم کر لیا جائے اور مزید کرید سے گریز کیا جائے۔ قرآن و حدیث کے مطابق ان کے متعلق دوٹوک حقائق مندرجہ ذیل ہیں(1)ان کا تعلق آدم کی اولاد سے ہے۔ ، آدم کے علاوہ وہ کسی اور سے پیدا شدہ نہیں ہیں۔ (2)وہ اس قدر کثرت سے ہیں کہ ملت اسلامیہ ان کافروں کا ہزارواں حصہ ہو گی۔ (3)دنگا فساد ان کی سرشت ہے۔ ذوالقرنین نے ان کے حملوں سے بچاؤ کے لیے ان دروں کولوہے سے بند کردیا تھا جن کے ذریعے سے وہ دوسروں پر حملہ آور ہوتے تھے۔ (4)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک شخص نے اس سد سکندری کو دیکھا تھا جو منقش چادر کی طرح تھی۔ (5) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں وہ دیوار کچھ کمزور ہو چکی تھی کہ اس میں معمولی سا سوراخ ہوگیا تھا۔ (6)قیامت کے نزدیک وہ دیوار پیوند زمین ہو جائے گی اور یاجوج و ماجوج سمندر کی موجوں کی طرح ٹھاٹھیں مارتے ہوئے نکلیں گے۔ (7)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی۔ جب تک نشانیاں ظاہر نہ ہو جائیں۔ ان میں ایک یاجوج و ماجوج کا حملہ آور ہونا ہے۔ ان کی یورش کے بعد جلد ہی قیامت بپا ہو جائے گی۔ جو روایات ان قدو قامت کے متعلق منقول ہیں وہ محدثین کے معیار صحت پر پوری نہیں اترتیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے حضرت زینب بنت ابی سلمہ ؓ نے، ان سے ام حبیبہ بنت ابی سفیان نے، ان سے زینب بنت جحش ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ ان کے یہاں تشریف لائے آپ کچھ گھبرائے ہوئے تھے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں، ملک عرب میں اس برائی کی وجہ سے بربادی آجائے گی جس کے دن قریب آنے کو ہیں، آج یاجوج ماجوج نے دیوار میں اتنا سوراخ کردیا ہے پھر آنحضرت ﷺ نے انگوٹھے اور اس کے قریب کی انگلی سے حلقہ بناکر بتلایا۔ ام المؤمنین حضرت زینب بنت جحش ؓ نے بیان کیا کہ میں نے سوال کیا یارسول اللہ! کیا ہم اس کے باوجود ہلاک کردئیے جائیں گے کہ ہم میں نیک لوگ بھی موجود ہوں گے؟ آپ نے فرمایا کہ جب فسق و فجور بڑھ جائے گا۔ (تو یقینا بربای ہوگی)
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Zainab bint Jahsh (RA): That the Prophet (ﷺ) once came to her in a state of fear and said, "None has the right to be worshipped but Allah. Woe unto the Arabs from a danger that has come near. An opening has been made in the wall of Gog and Magog like this," making a circle with his thumb and index finger. Zainab bint Jahsh said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Shall we be destroyed even though there are pious persons among us?" He said, "Yes, when the evil person will increase."