Sahi-Bukhari:
Prophets
(Chapter: The story of Gog and Magog)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اللہ تعالیٰ نے سورۃ کہف میں فرمایا وہ لوگ کہنے لگے یاجوج اور ماجوج لوگ ملک میں بہت فساد مچارہے ہیں ۔تشریح : یہ دونوں قبیلوں کے نام ہیں جو یافث بن نوح کی اولاد میں ہیں، بعض نے کہا کہ یاجوج ترک لوگ ہیں اور ماجوج ایک دوسرا گروہ ہے۔ قیامت کے قریب یہ لوگ بہت غالب ہوں گے اور ہر طرف سے نکل پڑیں گے، ان کا نکلنا قیامت کی ایک نشانی ہے۔ جو لوگ یاجوج ماجوج کے وجود میں شبہ کرتے ہیں وہ احمق ہیں، یاجوج ماجوج آدمی ہیں کوئی عجوبہ نہیں ہیں اور جو روایتیں ان کے قدوقامت کے متعلق منقول ہیں ان کی سندیں صحیح نہیں۔ تورات شریف میں یاجوج ماجوج کا ذکر ہے، بعض نے کہا کہ یاجوج روسی لوگ ہیں اور ماجوج تاتاری۔ بعض نے کہا ماجوج انگریز ہیں۔ ( وحیدی ) صحیح بات یہی ہے کہ حقیقت حال کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اہل ایمان کا کام ارشاد الٰہی اٰمنا و صدقنا کہنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا «ويسألونك عن ذي القرنين قل سأتلو عليكم منه ذكرا * إنا مكنا له في الأرض وآتيناه من كل شىء سببا * فاتبع سببا» ”اور آپ سے (اے رسول) ذوالقرنین (بادشاہ) کے متعلق یہ لوگ پوچھتے ہیں۔ (آپ فرما دیں کہ) ان کا قصہ میں ابھی تمہارے سامنے بیان کرتا ہوں ہم نے اسے زمین کی حکومت دی تھی اور ہم نے اس کو ہر طرح کا سامان عطا فرمایا تھا پھر وہ ایک سمت چل نکلا .“ اللہ تعالیٰ کے ارشاد «ائتوني زبر الحديد» ”تم لوگ میرے پاس لوہے کی چادریں لاؤ، تک۔ «زبر» کا واحد «زبرة» ہے اور «زبرة» ٹکڑے کو کہتے ہیں ”یہاں تک کہ جب اس نے ان دونوں پہاڑوں کے برابر دیوار اٹھا دی۔“ «صدفين» سے پہاڑ مراد ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ( «بين الصدفين» کی تفسیر میں منقول ہے) اور «السدين الصدفين» کی دوسری قرآت بھی «الجبلين» (دو پہاڑ) کے معنی میں ہے۔ «خرجا» بمعنی محصول اجرت، ذوالقرنین نے (عملہ سے) کہا کہ اب اس دیوار کو آگ سے دھونکو یہاں تک کہ جب اسے آگ بنا دیا تو کہا اب میرے پاس پگھلا ہوا سیسہ تانبا لاؤ تو میں اس پر ڈال دوں «أفرغ عليه قطرا» کے معنی ہیں کہ میں اس پر پگھلا ہوا سیسہ ڈال دوں ( «قطر» کے معنی) بعض نے لوہے (پگھلے ہوئے سے) کئے ہیں اور بعض نے پیتل سے، ابن عباسؓ نے اس کا معنی تانبا بتایا ہے۔ پھر قوم یاجوج و ماجوج کے لوگ (اس سد کے بعد) اس پر چڑھ نہ سکے «يظهروه» بمعنی «يعلوه»، «أطعت له» سے استفعال کا صیغہ ہے۔ اسی لیے «أسطاع» «يسطيع» «يستطيع» بھی پڑھتے ہیں اور یاجوج ماجوج اس میں سوراخ بھی نہ کر سکے۔ ذوالقرنین نے کہا کہ یہ میرے پروردگار کی ایک رحمت ہے پھر جب میرے پروردگار کا مقررہ وعدہ آ پہنچے گا تو وہ اس دیوار کو «دكا» یعنی زمین کے ساتھ ملا دے گا، عرب کے لوگ اسی سے بولتے ہیں «ناقة دكاء» جس سے مراد وہ اونٹ ہے جس کی کوہان نہ ہو۔ اور «الدكداك من الأرض» کی مثال وہ زمین جو ہموار ہو کر سخت ہو گئی ہو، اونچی نہ ہو اور میرے رب کا وعدہ برحق ہے اور اس روز ہم ان کو اس طرح چھوڑ دیں گے کہ بعض ان کا بعض سے گڈ مڈ ہو جائے گا۔ یہاں تک کہ جب یاجوج ماجوج کو کھول دیا جائے گا اور وہ ہر بلندی سے دوڑ پڑیں گے۔ قتادہ نے کہا کہ «حدب» کے معنی ٹیلہ کے ہیں۔ ایک صحابی نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ میں نے اس دیوار کو دھاری دار چادر کی طرح دیکھا ہے جس کی ایک دھاری سرخ ہے اور ایک کالی ہے، اس پر آپﷺنے فرمایا واقعی تم نے اس کو دیکھا ہے۔
3348.
حضرت ابو سعید خدری ؓسے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا۔ اے آدم ؑ!وہ عرض کریں گے۔ میں حاضر ہوں اور اس حاضری میں میری سعادت ہے۔ ہر قسم کی بھلائی تیرے ہاتھ میں ہے۔ ارشاد ہو گا : دوزخ کا لشکر کتنا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ ہر ہزار میں سے نوسو ننانوے۔ اس وقت مارے خوف کے بچے بوڑھے ہو جائیں گے۔ ’’اور ہر حاملہ عورت اپنا حمل گرادے گی اور تم لوگوں کو بے ہوش ہوتے دیکھو گے۔ حالانکہ وہ بےہوش نہ ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب سخت ہو گا۔‘‘ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! وہ ایک آدمی ہم میں سے کون ہوگا؟ آپ نے فرمایا: ’’تم خوش ہو جاؤ کیونکہ وہ ایک شخص تم میں سے ہوگااور ایک ہزار یا جوج و ماجوج کے ہوں گے۔‘‘ پھر آپ نے فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ اہل جنت میں ایک چوتھائی تم ہوگے۔‘‘ ہم نے اس پر نعرہ تکبیربلند کیا۔ آپ نے فرمایا: ’’میں امید کرتا ہوں کہ تم اہل جنت کا تیسرا حصہ ہو گے۔‘‘ پھر ہم نے اللہ أکبر کہا تو آپ نے فرمایا: ’’میں امید کرتا ہوں کہ تم اہل جنت کا نصف ہو گے۔‘‘ یہ سن کر ہم نے پھراللہ أکبر کہا تو آپ نے فرمایا: ’’لوگوں میں تم ایسے ہو جیسےایک سیاہ بال، سفید بیل کی کھال پر، یا ایک سفید بال، سیاہ بیل کی کھال پر۔‘‘
تشریح:
1۔ معلوم ہوتاہے کہ یاجوج وماجوج اس کثرت سے ہوں گے کہ امت محمدیہ ان کے مقابلے میں ہزارواں حصہ ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان کی کثرت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:﴿حَتَّىٰ إِذَا فُتِحَتْ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَهُم مِّن كُلِّ حَدَبٍ يَنسِلُونَ ﴾ ’’حتی کہ جب یاجوج وماجوج کو کھول دیا جائےگا تو وہ ہر بلندی سے نیچے دوڑتے آئیں گے۔‘‘ (الانبیاء:96/21) اس کا مطلب یہ ہے کہ جب سد ذوالقرنین ٹوٹے گا تو یاجوج وماجوج اس طرح حملہ آور ہوں گے جیسے کوئی شکاری جانور اپنے پنجرے سے آزاد ہوکر شکار پر جھپٹتا ہے۔ یہ لوگ اپنی کثرت کی وجہ سے ہربلندی وپستی پر چھا جائیں گے۔ جدھر دیکھو انھی کا ہجوم نظر آئے گا۔ ان کا بے پناہ سیلاب ایسی شدت اور تیز رفتاری سے آئے گا کہ کوئی انسانی طاقت اسے روک نہ سکے گی۔ یوں معلوم ہوگا کہ ان کی فوجیں پہاڑوں اور ٹیلوں سے پھیلتی لڑھکتی چلی آرہی ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ دونوں قومیں آپس ہی میں بھڑ جائیں۔ پھر ان کی لڑائی ایک عالمگیر فساد کا موجب بن جائے۔ یاجوج وماجوج کے حملے کے بعد جلدی قیامت آجائے گی اور قیامت سے پہلے نیک لوگوں کو اٹھا لیا جائےگا جیسا کہ احادیث میں ہے کہ قیامت گندے اور بدترین لوگوں پر قائم ہوگی۔ (صحیح مسلم، الأمارة، حدیث:4957(1924) بہرحال یاجوج وماجوج کی اقوام تعداد کے لحاظ سے بہت زیادہ افراد پر مشتمل ہوں گی، البتہ ان کے متعلق جو بے سروپا حکایات مشہور ہیں واعظین کو انھیں بیان کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ 2۔ ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت آدم ؑ سے فرمائے گا:اے آدم ؑ! اپنی اولاد میں سے جہنم کا لشکر الگ کردو۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث :4741) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یاجوج و ماجوج حضرت آدم ؑ کی اولاد سے ہوں گے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3219
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3348
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3348
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3348
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ کہف میں فرمایا وہ لوگ کہنے لگے یاجوج اور ماجوج لوگ ملک میں بہت فساد مچارہے ہیں ۔تشریح : یہ دونوں قبیلوں کے نام ہیں جو یافث بن نوح کی اولاد میں ہیں، بعض نے کہا کہ یاجوج ترک لوگ ہیں اور ماجوج ایک دوسرا گروہ ہے۔ قیامت کے قریب یہ لوگ بہت غالب ہوں گے اور ہر طرف سے نکل پڑیں گے، ان کا نکلنا قیامت کی ایک نشانی ہے۔ جو لوگ یاجوج ماجوج کے وجود میں شبہ کرتے ہیں وہ احمق ہیں، یاجوج ماجوج آدمی ہیں کوئی عجوبہ نہیں ہیں اور جو روایتیں ان کے قدوقامت کے متعلق منقول ہیں ان کی سندیں صحیح نہیں۔ تورات شریف میں یاجوج ماجوج کا ذکر ہے، بعض نے کہا کہ یاجوج روسی لوگ ہیں اور ماجوج تاتاری۔ بعض نے کہا ماجوج انگریز ہیں۔ ( وحیدی ) صحیح بات یہی ہے کہ حقیقت حال کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اہل ایمان کا کام ارشاد الٰہی اٰمنا و صدقنا کہنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا «ويسألونك عن ذي القرنين قل سأتلو عليكم منه ذكرا * إنا مكنا له في الأرض وآتيناه من كل شىء سببا * فاتبع سببا» ”اور آپ سے (اے رسول) ذوالقرنین (بادشاہ) کے متعلق یہ لوگ پوچھتے ہیں۔ (آپ فرما دیں کہ) ان کا قصہ میں ابھی تمہارے سامنے بیان کرتا ہوں ہم نے اسے زمین کی حکومت دی تھی اور ہم نے اس کو ہر طرح کا سامان عطا فرمایا تھا پھر وہ ایک سمت چل نکلا .“ اللہ تعالیٰ کے ارشاد «ائتوني زبر الحديد» ”تم لوگ میرے پاس لوہے کی چادریں لاؤ، تک۔ «زبر» کا واحد «زبرة» ہے اور «زبرة» ٹکڑے کو کہتے ہیں ”یہاں تک کہ جب اس نے ان دونوں پہاڑوں کے برابر دیوار اٹھا دی۔“ «صدفين» سے پہاڑ مراد ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ( «بين الصدفين» کی تفسیر میں منقول ہے) اور «السدين الصدفين» کی دوسری قرآت بھی «الجبلين» (دو پہاڑ) کے معنی میں ہے۔ «خرجا» بمعنی محصول اجرت، ذوالقرنین نے (عملہ سے) کہا کہ اب اس دیوار کو آگ سے دھونکو یہاں تک کہ جب اسے آگ بنا دیا تو کہا اب میرے پاس پگھلا ہوا سیسہ تانبا لاؤ تو میں اس پر ڈال دوں «أفرغ عليه قطرا» کے معنی ہیں کہ میں اس پر پگھلا ہوا سیسہ ڈال دوں ( «قطر» کے معنی) بعض نے لوہے (پگھلے ہوئے سے) کئے ہیں اور بعض نے پیتل سے، ابن عباسؓ نے اس کا معنی تانبا بتایا ہے۔ پھر قوم یاجوج و ماجوج کے لوگ (اس سد کے بعد) اس پر چڑھ نہ سکے «يظهروه» بمعنی «يعلوه»، «أطعت له» سے استفعال کا صیغہ ہے۔ اسی لیے «أسطاع» «يسطيع» «يستطيع» بھی پڑھتے ہیں اور یاجوج ماجوج اس میں سوراخ بھی نہ کر سکے۔ ذوالقرنین نے کہا کہ یہ میرے پروردگار کی ایک رحمت ہے پھر جب میرے پروردگار کا مقررہ وعدہ آ پہنچے گا تو وہ اس دیوار کو «دكا» یعنی زمین کے ساتھ ملا دے گا، عرب کے لوگ اسی سے بولتے ہیں «ناقة دكاء» جس سے مراد وہ اونٹ ہے جس کی کوہان نہ ہو۔ اور «الدكداك من الأرض» کی مثال وہ زمین جو ہموار ہو کر سخت ہو گئی ہو، اونچی نہ ہو اور میرے رب کا وعدہ برحق ہے اور اس روز ہم ان کو اس طرح چھوڑ دیں گے کہ بعض ان کا بعض سے گڈ مڈ ہو جائے گا۔ یہاں تک کہ جب یاجوج ماجوج کو کھول دیا جائے گا اور وہ ہر بلندی سے دوڑ پڑیں گے۔ قتادہ نے کہا کہ «حدب» کے معنی ٹیلہ کے ہیں۔ ایک صحابی نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ میں نے اس دیوار کو دھاری دار چادر کی طرح دیکھا ہے جس کی ایک دھاری سرخ ہے اور ایک کالی ہے، اس پر آپﷺنے فرمایا واقعی تم نے اس کو دیکھا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو سعید خدری ؓسے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا۔ اے آدم ؑ!وہ عرض کریں گے۔ میں حاضر ہوں اور اس حاضری میں میری سعادت ہے۔ ہر قسم کی بھلائی تیرے ہاتھ میں ہے۔ ارشاد ہو گا : دوزخ کا لشکر کتنا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ ہر ہزار میں سے نوسو ننانوے۔ اس وقت مارے خوف کے بچے بوڑھے ہو جائیں گے۔ ’’اور ہر حاملہ عورت اپنا حمل گرادے گی اور تم لوگوں کو بے ہوش ہوتے دیکھو گے۔ حالانکہ وہ بےہوش نہ ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب سخت ہو گا۔‘‘ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! وہ ایک آدمی ہم میں سے کون ہوگا؟ آپ نے فرمایا: ’’تم خوش ہو جاؤ کیونکہ وہ ایک شخص تم میں سے ہوگااور ایک ہزار یا جوج و ماجوج کے ہوں گے۔‘‘ پھر آپ نے فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ اہل جنت میں ایک چوتھائی تم ہوگے۔‘‘ ہم نے اس پر نعرہ تکبیربلند کیا۔ آپ نے فرمایا: ’’میں امید کرتا ہوں کہ تم اہل جنت کا تیسرا حصہ ہو گے۔‘‘ پھر ہم نے اللہ أکبر کہا تو آپ نے فرمایا: ’’میں امید کرتا ہوں کہ تم اہل جنت کا نصف ہو گے۔‘‘ یہ سن کر ہم نے پھراللہ أکبر کہا تو آپ نے فرمایا: ’’لوگوں میں تم ایسے ہو جیسےایک سیاہ بال، سفید بیل کی کھال پر، یا ایک سفید بال، سیاہ بیل کی کھال پر۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ معلوم ہوتاہے کہ یاجوج وماجوج اس کثرت سے ہوں گے کہ امت محمدیہ ان کے مقابلے میں ہزارواں حصہ ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان کی کثرت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:﴿حَتَّىٰ إِذَا فُتِحَتْ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَهُم مِّن كُلِّ حَدَبٍ يَنسِلُونَ ﴾ ’’حتی کہ جب یاجوج وماجوج کو کھول دیا جائےگا تو وہ ہر بلندی سے نیچے دوڑتے آئیں گے۔‘‘ (الانبیاء:96/21) اس کا مطلب یہ ہے کہ جب سد ذوالقرنین ٹوٹے گا تو یاجوج وماجوج اس طرح حملہ آور ہوں گے جیسے کوئی شکاری جانور اپنے پنجرے سے آزاد ہوکر شکار پر جھپٹتا ہے۔ یہ لوگ اپنی کثرت کی وجہ سے ہربلندی وپستی پر چھا جائیں گے۔ جدھر دیکھو انھی کا ہجوم نظر آئے گا۔ ان کا بے پناہ سیلاب ایسی شدت اور تیز رفتاری سے آئے گا کہ کوئی انسانی طاقت اسے روک نہ سکے گی۔ یوں معلوم ہوگا کہ ان کی فوجیں پہاڑوں اور ٹیلوں سے پھیلتی لڑھکتی چلی آرہی ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ دونوں قومیں آپس ہی میں بھڑ جائیں۔ پھر ان کی لڑائی ایک عالمگیر فساد کا موجب بن جائے۔ یاجوج وماجوج کے حملے کے بعد جلدی قیامت آجائے گی اور قیامت سے پہلے نیک لوگوں کو اٹھا لیا جائےگا جیسا کہ احادیث میں ہے کہ قیامت گندے اور بدترین لوگوں پر قائم ہوگی۔ (صحیح مسلم، الأمارة، حدیث:4957(1924) بہرحال یاجوج وماجوج کی اقوام تعداد کے لحاظ سے بہت زیادہ افراد پر مشتمل ہوں گی، البتہ ان کے متعلق جو بے سروپا حکایات مشہور ہیں واعظین کو انھیں بیان کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ 2۔ ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت آدم ؑ سے فرمائے گا:اے آدم ؑ! اپنی اولاد میں سے جہنم کا لشکر الگ کردو۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث :4741) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یاجوج و ماجوج حضرت آدم ؑ کی اولاد سے ہوں گے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "انھوں نےکہا: اے ذوالقرنین! یاجوج و ماجوج زمین میں فساد کرتے ہیں۔ "نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "اور آپ سے ذوالقرنین کے متعلق پوچھتے ہیں مجھے لوہے کی چادریں لادو"تکزبرکا واحدزبرةہے۔ اس کے معنی ہیں: لوہے کے ٹکڑے۔"یہاں تک کہ جب اس نے دونوں پہاڑوں کے خلا کو برابر کردیا۔ " حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ الصَّدَفَيْنِ سے مراد دو پہاڑہیں السَّدَّيْنِ سے مراد بھی دوپہاڑہیں خَرْجًاکے معنی اجرت کے ہیں۔ ذوالقرنین نے کہا: "دھونکو(دہکاؤ) حتیٰ کہ جب اس نے اسے آگ بنا دیا تو کہا کہ میرے پاس پگھلا ہوا تانبا لاؤ میں اس پر ڈال (کر پیوست)کردوں۔ "اس پررصاص ڈال دوں۔ رصاص لوہے اور تانبے کو کہا جا تا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ نے کہا: اس سے مراد پیتل ہے۔ "وہ (یاجوج وماجوج )اس پر نہیں چڑھ سکیں گے۔ "اسطاعباب استفعال سے ہے۔ یہ طعت له سے ماخوذ ہے۔ اسی لیے مفتوح پڑھا گیا ہے اور اسطاع يسطيع ہے اور بعض نے کہا کہ استطاع يستطيع کے باب سے ہے۔ "وہ اس پر چڑھ نہیں سکیں گے۔ اور نہ اس میں سوراخ ہی کر سکیں گے۔ اس(ذوالقرنین )نے کہا: یہ میرے رب کی رحمت ہے مگر جب میرے رب کا وعدہ آجائے گا تو وہ اسے پیوند خاک کردے گا۔ "اس کے معنی ہیں کہ اللہ اسے زمین کے ساتھ ملا دے گا۔ جس اونٹنی کی کوہان نہ ہو اسے ناقة‘ دكاء کہا جا تا ہے۔ اسی طرح دكداك وہ صاف زمین ہے جو سخت ہوگئی ہو اور اس میں اونچائی نہ رہے۔ "اور میرے رب کا وعدہ بر حق ہے اور اس دن ہم انھیں چھوڑدیں گے، وہ ایک دوسرےسے گتھم گتھا ہو جائیں گے۔ "حتی کہ جب یاجوج و ماجوج کو کھول دیا جائے گا اور وہ ہر بلندی سے نیچے کو دوڑتے آئیں گے۔ "حضرت قتادہ نے کہاحدب سے مراد ٹیلہ ہے۔ ایک شخص نے نبیﷺسے عرض کیا: میں نے ایک دیوار دیکھی ہے جو منقش چادر کی طرح ہے تو آپ نے فرمایا: " یقیناً تو نے اسے دیکھ لیا ہے۔ "
فائدہ:یاجوج و ماجوج کے متعلق صحیح موقف یہ ہے کہ ان کی حقیقت حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے، اہل ایمان کا کام یہ ہے کہ جو کچھ قرآن و حدیث میں ہے اسے تسلیم کر لیا جائے اور مزید کرید سے گریز کیا جائے۔ قرآن و حدیث کے مطابق ان کے متعلق دوٹوک حقائق مندرجہ ذیل ہیں(1)ان کا تعلق آدم کی اولاد سے ہے۔ ، آدم کے علاوہ وہ کسی اور سے پیدا شدہ نہیں ہیں۔ (2)وہ اس قدر کثرت سے ہیں کہ ملت اسلامیہ ان کافروں کا ہزارواں حصہ ہو گی۔ (3)دنگا فساد ان کی سرشت ہے۔ ذوالقرنین نے ان کے حملوں سے بچاؤ کے لیے ان دروں کولوہے سے بند کردیا تھا جن کے ذریعے سے وہ دوسروں پر حملہ آور ہوتے تھے۔ (4)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک شخص نے اس سد سکندری کو دیکھا تھا جو منقش چادر کی طرح تھی۔ (5) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں وہ دیوار کچھ کمزور ہو چکی تھی کہ اس میں معمولی سا سوراخ ہوگیا تھا۔ (6)قیامت کے نزدیک وہ دیوار پیوند زمین ہو جائے گی اور یاجوج و ماجوج سمندر کی موجوں کی طرح ٹھاٹھیں مارتے ہوئے نکلیں گے۔ (7)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی۔ جب تک نشانیاں ظاہر نہ ہو جائیں۔ ان میں ایک یاجوج و ماجوج کا حملہ آور ہونا ہے۔ ان کی یورش کے بعد جلد ہی قیامت بپا ہو جائے گی۔ جو روایات ان قدو قامت کے متعلق منقول ہیں وہ محدثین کے معیار صحت پر پوری نہیں اترتیں۔
حدیث ترجمہ:
مجھ سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابوصالح نے اور ان سے حضرت ابوسعید خدری ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) فرمائے گا، اے آدم! آدم ؑ عرض کریں گے میں اطاعت کے لیے حاضر ہوں، مستعد ہوں، ساری بھلائیاں صرف تیرے ہی ہاتھ میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا، جہنم میں جانے والوں کو (لوگوں میں سے الگ) نکال لو۔ حضرت آدم ؑ عرض کریں گے۔ اے اللہ! جہنمیوں کی تعداد کتنی ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ہر ایک ہزار میں سے نو سو ننانوے۔ اس وقت (کی ہولناکی اور وحشت سے) بچے بوڑھے ہوجائیں گے اور ہرحاملہ عورت اپنا حمل گرادے گی۔ اس وقت تم (خوف و دہشت سے) لوگوں کو مدہوشی کے عالم میں دیکھو گے، حالانکہ وہ بے ہوش نہ ہوں گے۔ لیکن اللہ کا عذاب بڑا ہی سخت ہوگا۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! وہ ایک شخص ہم میں سے کون ہوگا؟ حضور ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں بشارت ہو، وہ ایک آدمی تم میں سے ہوگا اور ایک ہزار دوزخی یاجوج ماجوج کی قوم سے ہوں گے۔ پھر حضور ﷺ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، مجھے امید ہے کہ تم (امت مسلمہ) تمام جنت والوں کے ایک تہائی ہوگے۔ پھر ہم نے اللہ أکبر کہا تو آپ نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ تم تمام جنت والوں کے آدھے ہوگے پھر ہم نے اللہ أکبر کہا، پھر آپ نے فرمایا کہ (محشرمیں) تم لوگ تمام انسانوں کے مقابلے میں اتنے ہوگے جتنے کسی سفید بیل کے جسم پر ایک سیاہ بال، یا جتنے کسی سیاہ بیل کے جسم پر ایک سفید بال ہوتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب اس فقرے سے نکلتا ہے کہ تم میں سے ایک آدمی کے مقابل یا جوج ما جوج میں سے ہزار آدمی پڑتے ہیں۔ کیو ں کہ اس سے یاجوج ماجوج کی ایسی کثرت نسل معلوم ہوتی ہے کہ امت اسلامیہ ان کافروں کا ہزاروں حصہ ہوگی۔ یاجوج ماجوج دو قبیلوں کے نام ہیں۔ جو یافث بن نوح کی اولاد میں سے ہیں۔ قیامت کے قریب یہ لوگ بہت غالب ہوں گے اور ہر طرف سے نکل پڑیں گے۔ ان کا نکلنا قیامت کی ایک نشانی ہے جو لوگ یاجوج ماجوج کے وجود میں شبہ کرتے ہیں وہ خود احمق ہیں۔ حدیث سے امت محمدیہ کا بکثرت جنتی ہونا بھی ثابت ہوا مگر جو لوگ کلمہ اسلام پڑھنے کے باوجود قبروں، تعزیوں، جھنڈوں کی پوجا پاٹ میں مشغول ہیں وہ کبھی بھی جنت میں نہیں جائیں گے۔ اس لئے کہ وہ مشرک ہیں اور مشرکوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے جنت کو قطعاً حرام کردیا ہے۔ جیسا کہ آیت شریفہ ﴿إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ﴾ (النساء:48) سے ظاہر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Sa'id Al-Khudri(RA): The Prophet (ﷺ) said, "Allah will say (on the Day of Resurrection), 'O Adam.' Adam will reply, 'Labbaik wa Sa'daik', and all the good is in Your Hand.' Allah will say: 'Bring out the people of the fire.' Adam will say: 'O Allah! How many are the people of the Fire?' Allah will reply: 'From every one thousand, take out nine-hundred-and ninety-nine.' At that time children will become hoary headed, every pregnant female will have a miscarriage, and one will see mankind as drunken, yet they will not be drunken, but dreadful will be the Wrath of Allah." The companions of the Prophet (ﷺ) asked, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Who is that (excepted) one?" He said, "Rejoice with glad tidings; one person will be from you and one-thousand will be from Gog and Magog." The Prophet (ﷺ) further said, "By Him in Whose Hands my life is, hope that you will be one-fourth of the people of Paradise." We shouted, "Allahu Akbar!" He added, "I hope that you will be one-third of the people of Paradise." We shouted, "Allahu Akbar!" He said, "I hope that you will be half of the people of Paradise." We shouted, "Allahu Akbar!" He further said, "You (Muslims) (compared with non Muslims) are like a black hair in the skin of a white ox or like a white hair in the skin of a black ox (i.e. your number is very small as compared with theirs)."