باب: اس بارے میں کہ جب نہ پانی ملے اور نہ مٹی تو کیا کرے؟
)
Sahi-Bukhari:
Rubbing hands and feet with dust (Tayammum)
(Chapter: What to do if neither water nor earth is available)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
336.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے ایک ہار حضرت اسماء ؓ سے مستعار لیا جو گم ہو گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو اس کی تلاش کے لیے روانہ کیا۔ وہ اسے مل گیا لیکن ان لوگوں کو نماز کا وقت ایسی حالت میں آیا کہ ان کے پاس پانی نہیں تھا، چنانچہ انھوں نے (ویسے ہی) نماز ادا کر لی۔ جب انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں شکایت کی تو اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت نازل فر دی۔ حضرت اسید بن حضیر ؓ نے حضرت عائشہ ؓ سے کہا: اللہ تمہیں جزائے خیر دے، اللہ کی قسم! جب بھی تم پر کوئی ایسی بات آ پڑی جسے تم ناگوار خیال کرتی تھیں تو اللہ تعالیٰ نے اس میں تمہارے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے خیروبرکت عطا فر دی۔
تشریح:
(فاقد الطهورين) (پانی اور مٹی دونوں چیزیں نہ پانے والے ) کے متعلق امام احمد بن حنبل ؒ کا یہ موقف ہے کہ وہ ایسی حالت میں وضو اور تیمم کے بغیر نماز ادا کرلے، اس کی نماز صحیح ہوگی اور اس کے ذمے کوئی قضا وغیرہ نہیں، کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ﴾’’جہاں تک ہو سکے اللہ سے ڈرتے رہو۔‘‘ (التغابن:64 ۔ 16) نیز قرآن مجید میں ہے:﴿ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ﴾’’اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔‘‘(البقرة:2/286) رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:’’جب میں تمھیں کسی کام کے متعلق حکم دوں تو حسب استطاعت بجا لاؤاور جب تمھیں کسی چیز سے منع کروں تو وہ چھوڑدو۔‘‘ (صحیح البخاري، الاعتصام، حدیث:7288) گویا تکلیف بقدر طاقت ہے اور ایسا شخص جسے نماز تو ادا کرنی ہے۔ لیکن پانی یا مٹی جس سے طہارت حاصل کر سکے میسر نہیں تو اپنی استطاعت کے مطابق یہی کچھ کر سکتا ہے کہ اسی حالت میں نماز پڑھے اور اللہ سے توبہ و استغفار کرے۔ امام بخاری ؒ نے بھی اسی موقف کو اختیار کیا ہے۔ کیونکہ حضرت اسید بن حضیر ؓ اور ان کے رفقاء جب ہار کی تلاش میں نکلے تو ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں آلہ طہارت (پانی اور مٹی ) موجود نہیں تھا۔ پانی کے متعلق تو حدیث میں وضاحت ہے کہ وہ تھا ہی نہیں اور مٹی اس طرح موجود نہ تھی کہ اس وقت تیمم کا حکم ہی نہ اترا تھا۔ اس بنا پر انھوں نے یوں ہی نماز پڑھ لی، چنانچہ حدیث کے بعض طرق میں صراحت ہے کہ انھوں نے وضو کے بغیر نماز ادا کی۔ (صحیح البخاري، الفضائل، حدیث:3773) استدلال کا مدار اس بات پر ہے کہ حضرت اسید بن حضیر ؓ اور ان کے ساتھیوں نے نماز وضو کے بغیر پڑھی تھی، اسے برقرار رکھا گیا ۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم نہیں دیا۔ اگر ایسا ہوتا تو راوی حدیث ضرور اس کا ذکر کرتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان حضرات کی وہی بلا طہارت نماز صحیح قراردی گئی، کیونکہ اگر نماز کا اعادہ ضروری ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اسے ضرور بیان کرتے اور ضرورت کے وقت بیان کو مؤخر کرنا جائز نہیں، اگرچہ حافظ ابن حجر ؒ نے اس موقف پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اس نماز کا اعادہ فوراً واجب نہیں تھا۔ اس لیے ضرورت کے وقت بیان مؤخر نہیں ہوا۔ (فتح الباري:570/1) لیکن یہ اعتراض اس لیے صحیح نہیں کہ جب نماز کے ادا کرنے کا تقاضا موجود تھا تو اس کا اعادہ بھی فوری طور پر واجب تھا، لیکن رسول اللہ ﷺ نے انھیں اعادے کا حکم نہیں دیا۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ وہ نماز کے متعلق اپنی ذمے داری سے فارغ ہو چکے تھے۔ علامہ خطابی ؒ نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے، لیکن انھوں نے اسے بایں طور مشروط کیا ہے کہ جب حالات ساز گارہوں، یعنی پانی یا مٹی میسر ہو تو نماز از سر نو ادا کرنی ہو گی۔ (إعلام الحدیث:339/1) لیکن اس کے لیے انھوں نے کوئی دلیل ذکر نہیں کی۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں:’’مولف نے اس کو ظاہر حدیث سے ثابت کیا ہے، اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس جب لوگوں نے اس تکلیف کا اظہار کیا تو آپ نے انھیں نماز دہرانے کا حکم نہیں دیا، مگر فرق یہ ہے کہ ان لوگوں کے لیے فقدان تراب یعنی مٹی کا نہ ملنا حکمی تھا۔ اس لیے تیمم بھی ان کے لیے مشروع و مقرر نہ کیا گیا ۔اور آج کل اگر ایسی صورت بن جائے تو یہاں فقدان حقیقی ہوگا اور اسے بھی حکمی کے دائرے میں شمار کیا جائے گا، یعنی اس حالت میں ادا کی ہوئی نماز جائز ہو جائے گی۔ اس کا دوبارہ پڑھنا لازم نہیں ہو گا۔ ‘‘ واللہ أعلم ۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
334
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
336
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
336
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
336
تمہید کتاب
"یہ ذکر ہم نے آپ کی طرف اس لیے اتارا ہے تاکہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کر بیان کر دیں۔"( النحل16۔44۔) یہ وہی بیان ہے جس کی حفاظت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:(ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ)"پھر اس (قرآن )کا واضح کر دینا ہمارے ذمے ہے۔"( القیامۃ :75۔19۔) یعنی اس کے مشکل مقامات کی تشریح اور حلال و حرام کی توضیح بھی ہمارے ذمے ہے۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے مجملات کی جو تفصیل مبہمات کی توضیح اور اس کے عمومات کی جو تخصیص بیان کی ہے جسے حدیث کہا جا تا ہے یہ سب اللہ کی طرف سے ہے۔ اور اسے تسلیم کرنا گویا قرآن کریم کو ماننا ہے ۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس مبارک تصنیف میں اسی اصول کو پیش نظر رکھا ہے پہلے بنیادی ماخذ قرآنی آیت کاحوالہ دیا۔ پھر اس کی تشریح احادیث و آثار سے فرمائی۔آپ نے کتاب تیمم میں نو چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں دو باب بلا عنوان ہیں۔ باقی سات ابواب میں مندرجہ ذیل مسائل واحکام بیان کیے ہیں۔(فاقد الطهورين) کا کیا حکم ہے؟ جب نماز کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو اور پانی نہ ملے تو حضر میں بھی تیمم کیا جا سکتا ہے۔ تیمم کرنے والا خاک آلود ہاتھوں پر پھونک مار سکتا ہے تیمم چہرے اور ہاتھوں کے مسح سے مکمل ہو جاتا ہے جب پانی نہ ملے تو بندہ مسلم کے لیے پاک مٹی ہی وضو کے پانی کاکام دیتی ہے جب کسی کو پیاس لگی ہو اور وضو کرنے سے پانی ختم ہونے کا اندیشہ ہو یا جنبی آدمی کو پانی استعمال کرنے سے بیماری یا موت کا خطرہ ہو تو پانی کی موجودگی میں بھی تیمم کیا جا سکتا ہے تیمم کرتے وقت صرف ایک مرتبہ زمین پر ہاتھ مارنا کافی ہے۔ اسی طرح بیشتر متعارف و حقائق بیان کیے ہیں جن کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے تیمم سے متعلقہ احکام و مسائل ثابت کرنے کے لیے سترہ(17)مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں دس احادیث مقرر ہیں نیز دو معلق روایات بھی لائے ہیں غیر مقرر احادیث کی تعداد سات ہے جن میں ایک معلق ہے باقی موصول ہیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین کے دس آثار بھی پیش کیے ہیں جن میں تین موصول ہیں یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فتوی جات باسند بیان کیے ہیں۔معلق روایت یا اثر کا مطلب ہے اسے بے سند بیان یا نقل کرنا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ معلق روایات و آثار کی سند یں دیگر کتب احادیث میں موجود ہیں جن کی تفصیل حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اپنی شرح "فتح الباری"میں بیان کردیتے ہیں اس لیے صحیح بخاری میں بے سند (معلق)ہونے کا مطلب بے سروپا اور بے بنیاد ہونا نہیں بلکہ اختصار کے طور پر سند کا حذف کردینا ہے۔قارئین کرام :سے گزارش ہے کہ وہ ہماری پیش کردہ معروضات کو مدنظر رکھتے ہوئے کتاب تیمم کا مطالعہ فرمائیں اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ اور وہ ہمیں کتاب و سنت کے مطابق حیات مستعار کے چند دن گزار نے کی توفیق دے۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے ایک ہار حضرت اسماء ؓ سے مستعار لیا جو گم ہو گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو اس کی تلاش کے لیے روانہ کیا۔ وہ اسے مل گیا لیکن ان لوگوں کو نماز کا وقت ایسی حالت میں آیا کہ ان کے پاس پانی نہیں تھا، چنانچہ انھوں نے (ویسے ہی) نماز ادا کر لی۔ جب انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں شکایت کی تو اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت نازل فر دی۔ حضرت اسید بن حضیر ؓ نے حضرت عائشہ ؓ سے کہا: اللہ تمہیں جزائے خیر دے، اللہ کی قسم! جب بھی تم پر کوئی ایسی بات آ پڑی جسے تم ناگوار خیال کرتی تھیں تو اللہ تعالیٰ نے اس میں تمہارے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے خیروبرکت عطا فر دی۔
حدیث حاشیہ:
(فاقد الطهورين) (پانی اور مٹی دونوں چیزیں نہ پانے والے ) کے متعلق امام احمد بن حنبل ؒ کا یہ موقف ہے کہ وہ ایسی حالت میں وضو اور تیمم کے بغیر نماز ادا کرلے، اس کی نماز صحیح ہوگی اور اس کے ذمے کوئی قضا وغیرہ نہیں، کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ﴾’’جہاں تک ہو سکے اللہ سے ڈرتے رہو۔‘‘ (التغابن:64 ۔ 16) نیز قرآن مجید میں ہے:﴿ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ﴾’’اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔‘‘(البقرة:2/286) رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:’’جب میں تمھیں کسی کام کے متعلق حکم دوں تو حسب استطاعت بجا لاؤاور جب تمھیں کسی چیز سے منع کروں تو وہ چھوڑدو۔‘‘ (صحیح البخاري، الاعتصام، حدیث:7288) گویا تکلیف بقدر طاقت ہے اور ایسا شخص جسے نماز تو ادا کرنی ہے۔ لیکن پانی یا مٹی جس سے طہارت حاصل کر سکے میسر نہیں تو اپنی استطاعت کے مطابق یہی کچھ کر سکتا ہے کہ اسی حالت میں نماز پڑھے اور اللہ سے توبہ و استغفار کرے۔ امام بخاری ؒ نے بھی اسی موقف کو اختیار کیا ہے۔ کیونکہ حضرت اسید بن حضیر ؓ اور ان کے رفقاء جب ہار کی تلاش میں نکلے تو ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں آلہ طہارت (پانی اور مٹی ) موجود نہیں تھا۔ پانی کے متعلق تو حدیث میں وضاحت ہے کہ وہ تھا ہی نہیں اور مٹی اس طرح موجود نہ تھی کہ اس وقت تیمم کا حکم ہی نہ اترا تھا۔ اس بنا پر انھوں نے یوں ہی نماز پڑھ لی، چنانچہ حدیث کے بعض طرق میں صراحت ہے کہ انھوں نے وضو کے بغیر نماز ادا کی۔ (صحیح البخاري، الفضائل، حدیث:3773) استدلال کا مدار اس بات پر ہے کہ حضرت اسید بن حضیر ؓ اور ان کے ساتھیوں نے نماز وضو کے بغیر پڑھی تھی، اسے برقرار رکھا گیا ۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم نہیں دیا۔ اگر ایسا ہوتا تو راوی حدیث ضرور اس کا ذکر کرتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان حضرات کی وہی بلا طہارت نماز صحیح قراردی گئی، کیونکہ اگر نماز کا اعادہ ضروری ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اسے ضرور بیان کرتے اور ضرورت کے وقت بیان کو مؤخر کرنا جائز نہیں، اگرچہ حافظ ابن حجر ؒ نے اس موقف پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اس نماز کا اعادہ فوراً واجب نہیں تھا۔ اس لیے ضرورت کے وقت بیان مؤخر نہیں ہوا۔ (فتح الباري:570/1) لیکن یہ اعتراض اس لیے صحیح نہیں کہ جب نماز کے ادا کرنے کا تقاضا موجود تھا تو اس کا اعادہ بھی فوری طور پر واجب تھا، لیکن رسول اللہ ﷺ نے انھیں اعادے کا حکم نہیں دیا۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ وہ نماز کے متعلق اپنی ذمے داری سے فارغ ہو چکے تھے۔ علامہ خطابی ؒ نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے، لیکن انھوں نے اسے بایں طور مشروط کیا ہے کہ جب حالات ساز گارہوں، یعنی پانی یا مٹی میسر ہو تو نماز از سر نو ادا کرنی ہو گی۔ (إعلام الحدیث:339/1) لیکن اس کے لیے انھوں نے کوئی دلیل ذکر نہیں کی۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں:’’مولف نے اس کو ظاہر حدیث سے ثابت کیا ہے، اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس جب لوگوں نے اس تکلیف کا اظہار کیا تو آپ نے انھیں نماز دہرانے کا حکم نہیں دیا، مگر فرق یہ ہے کہ ان لوگوں کے لیے فقدان تراب یعنی مٹی کا نہ ملنا حکمی تھا۔ اس لیے تیمم بھی ان کے لیے مشروع و مقرر نہ کیا گیا ۔اور آج کل اگر ایسی صورت بن جائے تو یہاں فقدان حقیقی ہوگا اور اسے بھی حکمی کے دائرے میں شمار کیا جائے گا، یعنی اس حالت میں ادا کی ہوئی نماز جائز ہو جائے گی۔ اس کا دوبارہ پڑھنا لازم نہیں ہو گا۔ ‘‘ واللہ أعلم ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے سے زکریا بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن نمیر نے، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے، وہ اپنے والد سے، وہ حضرت عائشہ ؓ سے کہ انھوں نے حضرت اسماء سے ہار مانگ کر پہن لیا تھا، وہ گم ہو گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو اس کی تلاش کے لیے بھیجا، جسے وہ مل گیا۔ پھر نماز کا وقت آ پہنچا اور لوگوں کے پاس ( جو ہار کی تلاش میں گئے تھے ) پانی نہیں تھا۔ لوگوں نے نماز پڑھ لی اور رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق شکایت کی۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے تیمم کی آیت اتاری جسے سن کر اسید بن حضیر ؒ نے حضرت عائشہ ؓ سے کہا: آپ کو اللہ بہترین بدلہ دے۔ واللہ جب بھی آپ کے ساتھ کوئی ایسی بات پیش آئی جس سے آپ کو تکلیف ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے اس میں خیر پیدا فر دی۔
حدیث حاشیہ:
حضرت امام شوکانی ؒ فرماتے ہیں: ''اسْتَدَلَّ بِذَلِكَ جَمَاعَةٌ مِنْ الْمُحَقِّقِينَ مِنْهُمْ الْمُصَنِّفُ عَلَى وُجُوبِ الصَّلَاةِ عِنْد عَدَمِ الْمُطَهِّرَيْنِ: الْمَاءِ، وَالتُّرَابِ، وَلَيْسَ فِي الْحَدِيثِ أَنَّهُمْ فَقَدُوا التُّرَابَ، وَإِنَّمَا فِيهِ أَنَّهُمْ فَقَدُوا الْمَاءَ فَقَطْ، وَلَكِنَّ عَدَمَ الْمَاءِ فِي ذَلِكَ الْوَقْتِ كَعَدَمِ الْمَاءِ وَالتُّرَابِ؛ لِأَنَّهُ لَا مُطَهِّرَ سِوَاهُ وَوَجْهُ الِاسْتِدْلَالِ بِهِ أَنَّهُمْ صَلَّوْا مُعْتَقِدِينَ وُجُوبَ ذَلِكَ وَلَوْ كَانَتْ الصَّلَاةُ حِينَئِذٍ مَمْنُوعَةً لَأَنْكَرَ عَلَيْهِمْ النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -، وَبِهَذَا قَالَ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَجُمْهُورُ الْمُحَدِّثِينَ۔''(نیل الأوطار،جزءأول، ص: 267) ’’یعنی اہل تحقیق نے اس حدیث سے دلیل پکڑی ہے کہ اگرکہیں پانی اور مٹی ہردو نہ ہوں تب بھی نماز واجب ہے۔ حدیث میں جن لوگوں کا ذکر ہے انھوں نے پانی نہیں پایا تھا۔ پھر بھی نماز کوواجب جان کر ادا کیا، اگران کا یہ نماز پڑھنا منع ہوتا توآنحضرت ﷺ ضرور ان پر انکار فرماتے۔ پس یہی حکم اس کے لیے ہے جو نہ پانی پائے نہ مٹی، اس لیے کہ طہارت صرف ان ہی دوچیزوں سے حاصل کی جاتی ہے۔ تو اس کو نماز ادا کرنا ضروری ہوگا۔ جمہور محدثین کا یہی فتویٰ ہے۔'' علامہ قسطلانی ؒ فرماتے ہیں:''واستدل به على أن فاقد الطهورين يصلي على حاله وهو وجه المطابقة بين الترجمة والحديث الخ''’’یعنی حدیث مذکورہ دلالت کررہی ہے کہ جوشخص پانی پائے نہ مٹی، وہ اسی حالت میں نماز پڑھ لے۔ حدیث اور ترجمہ میں یہی مطابقت ہے۔‘‘ (شرح القسطلاني:368/1)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Urwa's father: Aisha (RA) said, "I borrowed a necklace from Asma' and it was lost. So Allah's Apostle (ﷺ) sent a man to search for it and he found it. Then the time of the prayer became due and there was no water. They prayed (without ablution) and informed Allah's Apostle (ﷺ) about it, so the verse of Tayammum was revealed." Usaid bin Hudair said to 'Aisha (RA), "May Allah reward you. By Allah, whenever anything happened which you did not like, Allah brought good for you and for the Muslims in that."