ترجمة الباب:
فما كان جواب قومه إلا أن قالوا أخرجوا آل لوط من قريتكم إنهم أناس يتطهرون * فأنجيناه وأهله إلا امرأته قدرناها من الغابرين * وأمطرنا عليهم مطرا فساء مطر المنذرين}
باب:اور اللہ تعالیٰ کا سورۃ نمل میں فرمانا کہ ۔ ہم نے لوط کو بھیجا ‘ انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم جانتے ہو ئے بھی کیوں فحش کا م کرتے ہو ۔ تم آخر کیوں عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی شہوت بجھاتے ہو‘ کچھ نہیں تم محض جاہل لوگ ہو ،
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اس پر ان کی قوم کا جواب اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوا کہ انہوں نے کہا ‘ آل لوط کو اپنی بستی سے نکال دو ۔ یہ لوگ بڑے پاک باز بنتے ہیں ۔ پس ہم نے لوط کو اور ان کے تابعداروں کو نجات دی سوا ان کی بیوی کے ۔ ہم نے اس کے متعلق فیصلہ کردیا تھا کہ وہ عذاب والوں میں باقی رہنے والی ہوگی اور ہم نے ان پر پتھروں کی بارش برسائی ۔ پس ڈرائے ہوئے لوگوں پر بارش کا عذاب بڑا ہی سخت تھا ۔
3375.
حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ حضرت لوط ؑ پر رحم فرمائے! وہ ایک مضبوط رکن کی پناہ لینا چاہتے تھے۔‘‘
تشریح:
1۔ رسول اللہ ﷺ کا اشارہ اس آیت کریمہ کی طرف تھا۔ ’’لوط نے کہا: کاش! میں تمھارا مقابلہ اپنی قوت بازو سے کر سکتا یا کسی مضبوط سہارے کی طرف پناہ لے سکتا‘‘ (ھود:80/11)جیسا کہ پہلے بیان ہوا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے انھیں علاقہ سدوم کی طرف دعوت و تبلیغ کے لیے روانہ کیا۔ وہاں آپ غریب الدیار تھے کیونکہ یہ بستی شام علاقے میں تھی اور آپ عراق کے رہائشی تھے نیز وہاں ان کے خاندان کاکوئی فرد نہ تھا صرف ایک بیوی وہ بھی در پردہ قوم کے ساتھ تھی اور حضرت لوط ؑ سے انتہائی بے وفا تھی۔ جب قوم لوط ؑ کے مہمانوں کے ساتھ بدتمیزی کرنے پر اتر آئی تو انھوں نے کہا: کاش!میرے پاس ذاتی قوت ہوتی یا میرا یہاں کوئی خاندان یا قبیلہ ہوتا جو آج میری عزت کا دفاع کرتا۔ اس کے بعد جتنے بھی نبی مبعوث ہوئے ہیں وہ بڑے جتھے اور قبیلے والےتھے۔ غالباً قوم شعیب نے خاندانی اثر و رسوخ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا۔ ’’اگر تمھاری برادری نہ ہوتی تو ہم تمھیں سنگسار کر دیتے۔‘‘ (ھود:91/11) 2۔ امام نووی ؒ فرماتے ہیں: ’’جب حضرت لوط ؑ اپنے مہمانوں کا حال دیکھ کر گھبرائے تو اس وقت فرمایا وہ کسی مضبوط سہارے کی پناہ لینا چاہتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انھوں نے در پردہ اللہ کی پناہ ہی حاصل کی ہو لیکن معذرت خواہی کے طور پر مہمانوں کے سامنے یہ کلام ظاہر کیا ہو۔ اس کے بعد فرشتے بھی خاموش نہ رہ سکے اور کہنے لگے۔ آپ اتنے پریشان نہ ہوں ہم لڑکے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں۔ یہ لوگ ہمیں چھیڑنا تو درکنار تمھارا بھی کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ جب رات کا کچھ حصہ گزر جائے تو آپ اپنے گھر والوں کو لے کر اس بستی سے نکل جائیں اور تم میں سے کوئی بھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھے البتہ تمھاری بیوی پر وہی کچھ گزر نا ہے جو ان پر گزرے گا ان پر عذاب کے لیے صبح کا وقت مقرر ہو چکا ہے چنانچہ پھر انھیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا۔‘‘
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3247
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3375
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3375
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3375
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
تمہید باب
پوری آیات کا ترجمہ یہ ہے۔"اور حضرت لوط علیہ السلام نے جب اپنی قوم سے کہا: کیا تم سمجھ رکھنے کے باوجود بد کاری کرتے ہو؟ کیا تم شہوت رانی کے لیے عورتوں کو چھوڑکر مردوں کے پاس جاتے ہو؟ بلکہ تم تو جہالت کے کام کرتے ہو چنانچہ ان کی قوم سے کوئی جواب نہ بن پایا ۔ماسوائے،اس کے کہ انھوں نے یہ کہہ دیا۔لوط اور اس کے ساتھیوں کو اپنے شہر سے نکال دو۔ یہ بڑے پاکباز بنتے ہیں چنانچہ ہم نے لوط اور اس کے گھر والوں کو بچالیا۔ ماسوائے ان کی بیوی کے جس کے لیے پیچھے رہ جانا ہم نے مقدر کردیا تھا۔ہم نے ان پر پتھروں کی بارش برسائی کیسی بری بارش ان پر ہوئی جنھیں ڈرایا گیا تھا۔"(النمل:27۔54۔58)حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے۔ آپ کی قوم میں سے صرف لوط علیہ السلام ہی ایمان لائے تھے۔ آپ نے انھیں سدوم کے علاقے میں دعوت و تبلیغ کے لیے بھیج دیا۔ قوم لوط میں دیگر برائیوں کے علاوہ ہم جنس پرستی (لونڈےبازی)کا مرض بھی تھا بلکہ وہ اس کے موجود تھے۔ قرآن کریم میں میں حضرت لوط علیہ السلام کا تفصیل سے ذکر آیا ہے چنانچہ سورہ اعراف ،ہود، شعراء نمل اور صافات میں اس قوم کی سر گز شت موجود ہے۔ اس قوم پر اللہ تعالیٰ کے چار عذاب آئے۔ پہلے انھیں اندھا کردیا گیا۔ پھر سخت چنگھاڑ سے ان کے دل پھٹے بالآخر انھیں زمین سے اٹھا کر الٹا کر کے زمین پر پٹخ دیا گیا اوپر سے پتھروں کی بارش برسائی گئی آج وہاں بحر مردار ہے جس کا پانی بدبودار ہے جس سے کسی قسم کا فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا بلکہ اس کے ارد گرد تمام اشیاء بھی بے کار اور بے سود ہیں۔
اس پر ان کی قوم کا جواب اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوا کہ انہوں نے کہا ‘ آل لوط کو اپنی بستی سے نکال دو ۔ یہ لوگ بڑے پاک باز بنتے ہیں ۔ پس ہم نے لوط کو اور ان کے تابعداروں کو نجات دی سوا ان کی بیوی کے ۔ ہم نے اس کے متعلق فیصلہ کردیا تھا کہ وہ عذاب والوں میں باقی رہنے والی ہوگی اور ہم نے ان پر پتھروں کی بارش برسائی ۔ پس ڈرائے ہوئے لوگوں پر بارش کا عذاب بڑا ہی سخت تھا ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ حضرت لوط ؑ پر رحم فرمائے! وہ ایک مضبوط رکن کی پناہ لینا چاہتے تھے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ رسول اللہ ﷺ کا اشارہ اس آیت کریمہ کی طرف تھا۔ ’’لوط نے کہا: کاش! میں تمھارا مقابلہ اپنی قوت بازو سے کر سکتا یا کسی مضبوط سہارے کی طرف پناہ لے سکتا‘‘ (ھود:80/11)جیسا کہ پہلے بیان ہوا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے انھیں علاقہ سدوم کی طرف دعوت و تبلیغ کے لیے روانہ کیا۔ وہاں آپ غریب الدیار تھے کیونکہ یہ بستی شام علاقے میں تھی اور آپ عراق کے رہائشی تھے نیز وہاں ان کے خاندان کاکوئی فرد نہ تھا صرف ایک بیوی وہ بھی در پردہ قوم کے ساتھ تھی اور حضرت لوط ؑ سے انتہائی بے وفا تھی۔ جب قوم لوط ؑ کے مہمانوں کے ساتھ بدتمیزی کرنے پر اتر آئی تو انھوں نے کہا: کاش!میرے پاس ذاتی قوت ہوتی یا میرا یہاں کوئی خاندان یا قبیلہ ہوتا جو آج میری عزت کا دفاع کرتا۔ اس کے بعد جتنے بھی نبی مبعوث ہوئے ہیں وہ بڑے جتھے اور قبیلے والےتھے۔ غالباً قوم شعیب نے خاندانی اثر و رسوخ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا۔ ’’اگر تمھاری برادری نہ ہوتی تو ہم تمھیں سنگسار کر دیتے۔‘‘ (ھود:91/11) 2۔ امام نووی ؒ فرماتے ہیں: ’’جب حضرت لوط ؑ اپنے مہمانوں کا حال دیکھ کر گھبرائے تو اس وقت فرمایا وہ کسی مضبوط سہارے کی پناہ لینا چاہتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انھوں نے در پردہ اللہ کی پناہ ہی حاصل کی ہو لیکن معذرت خواہی کے طور پر مہمانوں کے سامنے یہ کلام ظاہر کیا ہو۔ اس کے بعد فرشتے بھی خاموش نہ رہ سکے اور کہنے لگے۔ آپ اتنے پریشان نہ ہوں ہم لڑکے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں۔ یہ لوگ ہمیں چھیڑنا تو درکنار تمھارا بھی کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ جب رات کا کچھ حصہ گزر جائے تو آپ اپنے گھر والوں کو لے کر اس بستی سے نکل جائیں اور تم میں سے کوئی بھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھے البتہ تمھاری بیوی پر وہی کچھ گزر نا ہے جو ان پر گزرے گا ان پر عذاب کے لیے صبح کا وقت مقرر ہو چکا ہے چنانچہ پھر انھیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا۔‘‘
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا‘ کہا ہم کو شعیب نے خبر دی‘ ان سے ابوالزناد نے بیان کیا‘ ان سے اعرج نے اور ان سے حضرت ابو ہریرہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا‘ اللہ تعالیٰ حضرت لوط ؑ کی مغفرت فرمائے کہ وہ زبردست رکن (یعنی اللہ) کی پناہ میں گئے تھے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کے ذیل حافظ ابن حجر ؒفرماتے ہیں: قَوْلُهُ يَغْفِرُ اللَّهُ لِلُوطٍ إِنْ كَانَ لَيَأْوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيد أَي إِلَى الله سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى يُشِيرُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى قَوْلِهِ تَعَالَى لَوْ أَنَّ لِي بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوي إِلَى ركن شَدِيد وَيُقَالُ إِنَّ قَوْمَ لُوطٍ لَمْ يَكُنْ فِيهِمْ أَحَدٌ يَجْتَمِعُ مَعَهُ فِي نَسَبِهِ لِأَنَّهُمْ مِنْ سَدُومَ وَهِيَ مِنَ الشَّامِ وَكَانَ أَصْلُ إِبْرَاهِيمَ وَلُوطٍ مِنَ الْعِرَاقِ فَلَمَّا هَاجَرَ إِبْرَاهِيمُ إِلَى الشَّامِ هَاجَرَ مَعَهُ لُوطٌ فَبَعَثَ اللَّهُ لُوطًا إِلَى أَهْلِ سَدُومَ فَقَالَ لَوْ أَنَّ لِي مَنَعَةً وَأَقَارِبَ وَعَشِيرَةً لَكُنْتُ أَسْتَنْصِرُ بِهِمْ عَلَيْكُمْ لِيَدْفَعُوا عَنْ ضِيفَانِي وَلِهَذَا جَاءَ فِي بَعْضِ طرق هَذَا الحَدِيث كَمَا أخرجه أحمدمن طَرِيقِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَالَ لُوطٌ لَوْ أَنَّ لِي بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيد قَالَ فَإِنَّهُ كَانَ يَأْوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيدٍ وَلَكِنَّهُ عَنَى عَشِيرَتَهُ فَمَا بَعَثَ اللَّهُ نَبِيًّا الافِي ذرْوَة من قومه زَاد بن مَرْدُوَيْهِ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ أَلَمْ تَرَ إِلَى قَول قوم شُعَيْب وَلَوْلَا رهطك لرجمناك وَقِيلَ مَعْنَى قَوْلِهِ لَقَدْ كَانَ يَأْوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيدٍ أَيْ إِلَى عَشِيرَتِهِ لَكِنَّهُ لَمْ يَأْوِ إِلَيْهِمْ وَأَوَى إِلَى اللَّهِ(پارہ13، فتح الباری، ص:244)یعنی اللہ پاک لوط ؑ کی مغفرت فرمائے۔ ان کا سہارا تو بہت ہی مضبوط تھا یعنی اللہ پاک ان کا سہارا تھا‘ گویا آنحضرت ﷺ نے ارشاد باری تعالیٰ لو ان لی بکم قوۃ الایۃ کی طرف اشارہ فرمایاہے۔ کہا جاتا ہے کہ قوم لوط میں کوئی بھی نسبی آدمی لوط سے متعلق نہیں تھا اس لئے کہ اس بستی والے سدوم سے تھے جو شام سے ہے اور ابراہیم ؑ اور لوط ؑ کی اصل نسل عراق والوں سے تھی جب حضرت ابراہیم ؑ نے شام کی طرف ہجرت کی تو حضرت لوط علیہ السلام نے بھی ان کے ساتھ ہجرت کی۔ پھر اللہ نے حضرت لوط ؑ کو سدوم والوں کی طرف مبعوث فرمایا۔ اسی لئے انہوں نے یہ جملہ کہا کہ اگر میرے بھی مددگار ‘ اقارب و اعزہ اور خاندان والے ہوتے تو میں ان سے تمہارے مقابلے پر مدد حاصل کرتا تاکہ وہ میرے مہمانوں سے تم کو دفع کرتے۔ اسی لئے بعض روایات میں مروی ہے کہ بلاشک حضرت لوط اپنی مدد کے لئے ایک اپناخاندان رکھتے تھے لیکن انہوں نے ان کی پناہ نہیں لی بلکہ اللہ پاک کی طرف پناہ حاصل کی۔ قوم لوط اور ان کی بدکرداریوں کا تذکرہ قرآن مجید میں کئی جگہ ہوا ہے۔ بد اخلاقی اور بے ایمانی میں یہ قوم بڑھ گئی تھی۔ اللہ پاک نے ان کی بستیوں کو نیست ونابود کردیا۔ کہا جاتا ہے کہ جہاں آج بحیرئہ مردار واقع ہے اسی جگہ اس قوم کی بستیاں تھیں۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "May Allah forgive Lot: He wanted to have a powerful support."