باب: اللہ تعالیٰ کا فرمان ”اور ہم نے موسیٰ سے تیس رات کا وعدہ کیا پھر اس میں دس راتوں کا اور اضافہ کر دیا اور اس طرح ان کے رب کی میعاد چالیس راتیں پوری کر دیں۔“ اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا کہ میری غیر موجودگی میں میری قوم میں میرے خلیفہ رہو۔ اور ان کے ساتھ نرم رویہ رکھنا اور مفسدوں کے راستے پر مت چلنا۔ پھر جب موسیٰ ہمارے ٹھہرائے ہوئے وقت پر (ایک چلہ کے) بعد آئے اور ان کے رب نے ان سے گفتگو کی تو انہوں نے عرض کیا: میرے پروردگار! مجھے اپنا دیدار کرا کہ میں تجھ کو دیکھ لوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”تم مجھے ہرگز نہ دیکھ سکو گے“ اللہ تعالیٰ کے ارشاد «وأنا أول المؤمنين» تک۔
)
Sahi-Bukhari:
Prophets
(Chapter: The Statement of Allah Taa'la: "And We appointed for Musa thirty nights...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
عرب لوگ بولتے ہیں دكه یعنی اسے ہلا دیا۔ اسی سے ہے (سورۃ الحاقہ میں) فدكتا دكه واحدۃ تثنیہ کا صیغہ اس طرح درست ہوا کہ یہاں پہاڑوں کو ایک چیز فرض کیا اور زمین کو ایک چیز ‘ قاعدے کے موافق یوں ہونا تھا «فدككن» بصیغہ جمع۔ اس کی مثال وہ ہے جو سورۃ انبیاء میں ہے۔ «أن السموات والأرض كانتا رتقا» اور یوں نہیں فرمایا «كن. رتقابه» صیغہ جمع (حالانکہ قیاس یہی چاہتا تھا) «رتقا» کے معنی جڑے ہوئے ملے ہوئے۔ «أشربوا» (جو سورۃ البقرہ میں ہے) اس «شرب» سے نکلا ہے جو رنگنے کے معنوں میں آتا ہے جیسے عرب لوگ کہتے ہیں «ثوب» «مشرب» یعنی رنگا ہوا کپڑا (سورۃ الاعراف میں) «نتقنا» کا معنی ہم سے اٹھا لیا۔
3399.
حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہاکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اگر بنی اسرائیل نہ ہوتے تو گوشت میں سڑاند پیدا نہ ہوتی۔ اوراگر حواء نہ ہوتیں تو کوئی عورت اپنے شوہر کی کبھی (زندگی بھر)خیانت نہ کرتی۔‘‘
تشریح:
گوشت ذخیرہ کرنے کی عادت بنی اسرائیل میں پیدا ہوئی۔ اس وقت گوشت خراب ہوگیا۔ اگر وہ یہ عادت اختیار نہ کرتے تو اس کے خراب ہونے کی نوبت ہی نہ آتی۔ اگرچہ اس میں خراب ہونے کی صلاحیت پہلے بھی موجود تھی لیکن کبھی خراب نہیں ہواتھا۔ اسی طرح اگرحضرت حواء اپنے خاوند حضرت آدم ؑ سے خیانت نہ کرتیں تو ان کی بیٹیوں میں یہ عادت پیدا نہ ہوتی۔ یہاں خیانت کا مطلب بدکاری نہیں بلکہ اس سے مراد انھیں پھل کھانے پر اکسانا ہے۔ منکرین حدیث فہم حدیث کے لیے عقل سلیم سے کام نہیں لیتے۔ صرف اعتراض برائے اعتراض کرتے ہیں جیسا کہ اس حدیث کے متعلق انھوں نے خبث باطن کا اظہار کیا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3270
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3399
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3399
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3399
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
تمہید باب
عنوان میں درج کردہ پوری آیات کا ترجمہ درج ذیل ہے:"اور ہم نے موسیٰ علیہ السلام سے تیس راتوں کا وعدہ کیا،پھر اسے دس مزید راتوں سے پورا کیا تو اس کے رب کی مقررہ مدت چالیس راتیں پوری ہوگئی۔اور(جاتے وقت)موسیٰ علیہ السلام نے اپنے بھائی ہارون علیہ السلام سے کہا:تم میری قوم میں میرے جانشین ہو،اصلاح کرتے رہنا اور فساد کرنے والوں کی راہ پر نہ چلنا اورجب موسیٰ علیہ السلام ہمارے مقررہ وقت اور طے شدہ مقام پر آئے اور ان سے ان کے رب نے کلام کیا تو موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی:میرے رب! مجھے دکھلا کہ میں ایک نظر تجھے دیکھ سکوں۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:تو مجھے نہیں دیکھ سکے گا ،البتہ اس پہاڑ کی طرف دیکھ اگریہ اپنی جگہ پر برقرار رہاتو تو مجھے دیکھ سکے گا،پھر جب اس کے رب کا جلوہ پہاڑ پر ہواتو اسے ریزہ ریزہ کردیا اور موسیٰ علیہ السلام غش کھا کر گرپڑے،پھر جب کچھ افاقہ ہواتو عرض کرنے لگے!تیری ذات پاک ہے،میں تیرےحضور توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلا ایمان لانے والا ہوں۔"(الاعراف 7/142۔143) چونکہ ان آیات میں(دَكًّا) کا لفظ آیاتھا، اسی مناسبت سے سورہ حاقہ کی آیت کی تفسیر فرمادی،پھر ایک فنی نکتے کے لیے سورہ انبیاء کی آیت کا حوالہ دیا۔اس کے بعد جو الفاظ ہیں وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعات ہی سے متعلق ہیں۔
عرب لوگ بولتے ہیں دكه یعنی اسے ہلا دیا۔ اسی سے ہے (سورۃ الحاقہ میں) فدكتا دكه واحدۃ تثنیہ کا صیغہ اس طرح درست ہوا کہ یہاں پہاڑوں کو ایک چیز فرض کیا اور زمین کو ایک چیز ‘ قاعدے کے موافق یوں ہونا تھا «فدككن» بصیغہ جمع۔ اس کی مثال وہ ہے جو سورۃ انبیاء میں ہے۔ «أن السموات والأرض كانتا رتقا» اور یوں نہیں فرمایا «كن. رتقابه» صیغہ جمع (حالانکہ قیاس یہی چاہتا تھا) «رتقا» کے معنی جڑے ہوئے ملے ہوئے۔ «أشربوا» (جو سورۃ البقرہ میں ہے) اس «شرب» سے نکلا ہے جو رنگنے کے معنوں میں آتا ہے جیسے عرب لوگ کہتے ہیں «ثوب» «مشرب» یعنی رنگا ہوا کپڑا (سورۃ الاعراف میں) «نتقنا» کا معنی ہم سے اٹھا لیا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہاکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اگر بنی اسرائیل نہ ہوتے تو گوشت میں سڑاند پیدا نہ ہوتی۔ اوراگر حواء نہ ہوتیں تو کوئی عورت اپنے شوہر کی کبھی (زندگی بھر)خیانت نہ کرتی۔‘‘
حدیث حاشیہ:
گوشت ذخیرہ کرنے کی عادت بنی اسرائیل میں پیدا ہوئی۔ اس وقت گوشت خراب ہوگیا۔ اگر وہ یہ عادت اختیار نہ کرتے تو اس کے خراب ہونے کی نوبت ہی نہ آتی۔ اگرچہ اس میں خراب ہونے کی صلاحیت پہلے بھی موجود تھی لیکن کبھی خراب نہیں ہواتھا۔ اسی طرح اگرحضرت حواء اپنے خاوند حضرت آدم ؑ سے خیانت نہ کرتیں تو ان کی بیٹیوں میں یہ عادت پیدا نہ ہوتی۔ یہاں خیانت کا مطلب بدکاری نہیں بلکہ اس سے مراد انھیں پھل کھانے پر اکسانا ہے۔ منکرین حدیث فہم حدیث کے لیے عقل سلیم سے کام نہیں لیتے۔ صرف اعتراض برائے اعتراض کرتے ہیں جیسا کہ اس حدیث کے متعلق انھوں نے خبث باطن کا اظہار کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
کہاجاتا ہے : دكه اسے ہلادیا فَدُكَّتَا کے معنی ہیں: دككن (یعنی جمع مونث غائب والا)۔ لیکن تثنیہ کا صیغہ اس طرح درست ہوا کہ یہاں پہاڑوں کوایک چیز (اورزمین کو دوسری چیز) قرار دیاگیاہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:"بےشک آسمان اورزمین دونوں ملے ہوئے تھے ۔ "وہاںكن رتقا نہیں کہا بلکہ تثنیہ کا صیغہ استعمال ہواہے رَتْقًا کے معنی ہے: دونوں ملے ہوئے تھے۔ اشْرَبُوا ان کے دلوں میں رچ گئی، جیسے کہاجاتا ہے: ثوب مشرب"رنگا ہواکپڑا۔ "حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: فَانبَجَسَتْ کے معنی ہیں : پھٹ جانا۔ وَإِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ کے معنی ہیں: جب ہم ن ان پر پہاڑ اٹھایا۔
حدیث ترجمہ:
مجھ سے عبداللہ بن محمد جعفی نے بیان کیا‘ کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا‘ کہا ہم کو معمر نے خبردی‘ انہیں ہمام نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اگر بنی اسرائیل نہ ہوتے (سلویٰ کا گوشت جمع کرکے نہ رکھتے) توگوشت کبھی نہ سڑتا۔ اور اگر حوانہ ہوتیں (یعنی حضرت آدم ؑ سے دغا نہ کرتیں) تو کوئی عورت اپنے شوہر کی خیانت کبھی نہ کرتی۔
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ ہے کہ گوشت جمع کرنے کی عادت بنی اسرائیل میں پید ا ہوئی۔ پس گوشت سڑنا شروع ہوگیا۔ اگر یہ عادت اختیار نہ کی جاتی اور گوشت کو بروقت کھالیا جاتا تو اس کے سڑنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا۔ اسی طرح حضرت حواءحضرت آدم ؑ سے دغا نہ کرتیں تو ان کی بیٹیوں میں بھی یہ خوپیدانہ ہوتی۔ اللہ پاک منکرین حدیث کو سمجھ دے کہ فہم حدیث کے لئے وہ عقل سلیم سے کام لیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "Were it not for Bani Israel, meat would not decay; and were it not for Eve, no woman would ever betray her husband."