Sahi-Bukhari:
Prophets
(Chapter: The story of Al-Khidr with Musa (Moses) alayhis-salam)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3400.
حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے کہ ان کا اور حضرت حر بن قیس فزاری کا حضرت موسیٰ ؑ کے ساتھی کے متعلق اختلاف ہوا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ وہ حضرت خضر ؑ ہیں۔ اس دوران میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں سے گزرے تو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں بلایا اور کہا کہ میرا اور میرے ساتھی کا صاحب موسیٰ ؑ کے متعلق اختلاف ہوگیا ہے جس سے ملاقات کا حضرت موسیٰ ؑ نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا تھا۔ کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق کوئی حدیث سنی ہے؟ حضرت ابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: ہاں، میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا: ’’ایک مرتبہ حضرت موسیٰ ؑ بنی اسرائیل کے مجمع میں وعظ کررہے تھے کہ ایک شخص نے ان سے آکر کہا: کیا آپ کسی کو اپنے سے زیادہ عالم جانتے ہیں؟ انھوں نے فرمایا: (مجھ سے زیادہ کوئی عالم) نہیں۔ (اس پر) اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کی طرف وحی کی: کیوں نہیں، ہمارا بندہ خضر ہے۔ موسیٰ ؑ نے ان تک پہنچنے کا راستہ پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے مچھلی کو ان کے لیے ملاقات کی علامت قرار دیا۔ اور ان سے کہہ دیا گیا کہ تم جہاں مچھلی کو گم پاؤ تو واپس آجاؤ، وہیں ان سے ملاقات ہوگی، چنانچہ وہ مچھلی کی نگرانی کرتے ہوئے سمندر کے کنارے سفر کرنے لگے۔ آخر حضرت موسیٰ ؑ کے رفیق سفر نے ان سے کہا: کیا آپ نے خیال نہیں کیا کہ ہم چٹان کے پاس بیٹھے تھے تو میں مچھلی کے متعلق آپ کو بتانا بھول گیا تھا اور مجھے شیطان نے اسے یاد رکھنے سے غافل کردیا۔ حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا: اسی کو تو ہم تلاش کررہے تھے، چنانچہ وہ دونوں بزرگ اپنے قدموں کے نشانات دیکھتے ہوئے واپس پلٹے تو حضرت خضر ؑ سے ملاقات ہوگئی۔ آگے ان دونوں کا وہی قصہ ہے۔ جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے۔‘‘
تشریح:
1۔ حضرت ابن عباس ؓ کا حر بن قیس سے اختلاف یہ تھا کہ وہ صاحب کون ہیں جن سے ملاقات کے لیے حضرت موسیٰ ؑ نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا، پھر اس کے لیے سمندری سفر اختیار کیا۔ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث سے ثابت کیا کہ وہ صاحب حضرت خضر ؑ ہیں۔ پھر اس کا پس منظر بھی ذکر کیا ہے۔ 2۔ درحقیقت قرآن مجید کی سورہ کہف میں حضرت خضر ؑ اور حضرت موسیٰ ؑ کی اس ملاقات کا تفصیلی ذکر ہے۔ وہاں مطالعہ کرنے سے بہت سے ظاہری اور قابل اعتراض امور نظر آتے ہیں مگر ان کی حقیقت کھلنے پر ان کا برحق ہونا تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ ہمیں ان واقعات سے بصیرت حاصل کرنی چاہے۔ اس واقعے میں ہمارے لیے بہت سے اسباق ہیں۔ 3۔ حضرت ابن عباس ؓ کا ایک اختلاف نوف بکالی سے بھی ہوا۔ اس کی نوعیت یہ تھی کہ حضرت خضر ؑ سے جس موسیٰ ؑنے ملاقات کی ہے وہ بنی اسرائیل کے پیغمبر موسیٰ ؑ نہیں بلکہ کوئی اور موسیٰ ؑ ہیں، چنانچہ اس اختلاف کی تفصیل اگلی حدیث میں بیان ہوگی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3271
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3400
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3400
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3400
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے کہ ان کا اور حضرت حر بن قیس فزاری کا حضرت موسیٰ ؑ کے ساتھی کے متعلق اختلاف ہوا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ وہ حضرت خضر ؑ ہیں۔ اس دوران میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں سے گزرے تو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں بلایا اور کہا کہ میرا اور میرے ساتھی کا صاحب موسیٰ ؑ کے متعلق اختلاف ہوگیا ہے جس سے ملاقات کا حضرت موسیٰ ؑ نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا تھا۔ کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق کوئی حدیث سنی ہے؟ حضرت ابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: ہاں، میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا: ’’ایک مرتبہ حضرت موسیٰ ؑ بنی اسرائیل کے مجمع میں وعظ کررہے تھے کہ ایک شخص نے ان سے آکر کہا: کیا آپ کسی کو اپنے سے زیادہ عالم جانتے ہیں؟ انھوں نے فرمایا: (مجھ سے زیادہ کوئی عالم) نہیں۔ (اس پر) اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کی طرف وحی کی: کیوں نہیں، ہمارا بندہ خضر ہے۔ موسیٰ ؑ نے ان تک پہنچنے کا راستہ پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے مچھلی کو ان کے لیے ملاقات کی علامت قرار دیا۔ اور ان سے کہہ دیا گیا کہ تم جہاں مچھلی کو گم پاؤ تو واپس آجاؤ، وہیں ان سے ملاقات ہوگی، چنانچہ وہ مچھلی کی نگرانی کرتے ہوئے سمندر کے کنارے سفر کرنے لگے۔ آخر حضرت موسیٰ ؑ کے رفیق سفر نے ان سے کہا: کیا آپ نے خیال نہیں کیا کہ ہم چٹان کے پاس بیٹھے تھے تو میں مچھلی کے متعلق آپ کو بتانا بھول گیا تھا اور مجھے شیطان نے اسے یاد رکھنے سے غافل کردیا۔ حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا: اسی کو تو ہم تلاش کررہے تھے، چنانچہ وہ دونوں بزرگ اپنے قدموں کے نشانات دیکھتے ہوئے واپس پلٹے تو حضرت خضر ؑ سے ملاقات ہوگئی۔ آگے ان دونوں کا وہی قصہ ہے۔ جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ حضرت ابن عباس ؓ کا حر بن قیس سے اختلاف یہ تھا کہ وہ صاحب کون ہیں جن سے ملاقات کے لیے حضرت موسیٰ ؑ نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا، پھر اس کے لیے سمندری سفر اختیار کیا۔ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث سے ثابت کیا کہ وہ صاحب حضرت خضر ؑ ہیں۔ پھر اس کا پس منظر بھی ذکر کیا ہے۔ 2۔ درحقیقت قرآن مجید کی سورہ کہف میں حضرت خضر ؑ اور حضرت موسیٰ ؑ کی اس ملاقات کا تفصیلی ذکر ہے۔ وہاں مطالعہ کرنے سے بہت سے ظاہری اور قابل اعتراض امور نظر آتے ہیں مگر ان کی حقیقت کھلنے پر ان کا برحق ہونا تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ ہمیں ان واقعات سے بصیرت حاصل کرنی چاہے۔ اس واقعے میں ہمارے لیے بہت سے اسباق ہیں۔ 3۔ حضرت ابن عباس ؓ کا ایک اختلاف نوف بکالی سے بھی ہوا۔ اس کی نوعیت یہ تھی کہ حضرت خضر ؑ سے جس موسیٰ ؑنے ملاقات کی ہے وہ بنی اسرائیل کے پیغمبر موسیٰ ؑ نہیں بلکہ کوئی اور موسیٰ ؑ ہیں، چنانچہ اس اختلاف کی تفصیل اگلی حدیث میں بیان ہوگی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمروبن محمد نے بیان کیا، ہم سے یعقوب بن ابراہیم بیان کیا، کہاکہ مجھ سے میرے والد نےبیان کیا، ان سے صالح نے، ان سےابن شہاب نے، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نےخبر دی اور انہیں حضرت ابن عباس ؓ نے کہ حر بن قیس فزاری سےصاحب موسیٰ ؑ کےبارےمیں ان کا اختلاف ہوا۔ پھر حضرت ابی بن کعب وہاں سے گزرے تو عبداللہ بن عباس ؓ نے انہیں بلایا اورکہا کہ میرا اپنے ان ساتھی سے صاحب موسیٰ ؑ کے بارےمیں اختلاف ہوگیا ہے جن سےملاقات کےلیے موسی ؑ نے راستہ پوچھا تھا، کیا رسول اللہ ﷺ سے آپ نے ان کےبارے میں کچھ سنا ہے؟ انہوں نےفرمایا کہ جی ہاں، میں نے حضورﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ موسیٰ ؑ بنی اسرائیل کی ایک جماعت میں تشریف رکھتے تھے کہ ایک شخص نےان سےپوچھا، کیا آپ کسی ایسے شخص کوجانتے ہیں جواس تمام زمین پر آپ سے زیادہ علم رکھنے والا ہو؟ انہوں نے فرمایا کہ نہیں۔ اس پر اللہ تعالی نےموسیٰ پر وحی نازل کی کہ کیوں نہیں، ہمارا بندہ خضر ہے۔ موسیٰ نے ان تک پہنچے کاراستہ پوچھا تو انہیں مچھلی کو اس کی نشانی کی طور بتایا گیا اورکہا گیا کہ جب مچھلی گمن ہوجائے (توجہاں گم ہوئی ہووہاں) واپس آجانا وہیں ان سے ملاقات ہوگی ۔چنانچہ موسیٰ دریا میں (سفر کےدوران ) مچھلی کی برابر نگرانی کرتے رہے۔ پھر ان سےان کےرفیق سفرنےکہاکہ آپ نےخیال نہیں کیا جب ہم چٹان کےپاس ٹھہرے تو میں نے مچھلی کےمتعلق آپ کوبتانا بھول گیا تھا اور مجھے شیطان نے اسے یاد رکھنے سے غافل رکھا۔ موسیٰ نےفرمایا کہ اسی کی توہمیں تلاش ہے چنانچہ یہ بزرگ اسی راستے سے پیچھے کی طرف لوٹے اور حضرت خضر سے ملاقات ہوئی ان دونوں کے ہی وہ حالات ہیں جنہیں اللہ تعالی نےاپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے۔
حدیث حاشیہ:
قرآن مجید کی سورہ کہف میں حضرت خضر اور حضرت موسیٰ کی اس ملاقات کا ذکر تفصیل سے آیا ہے۔ وہاں مطالعہ کرنے سے معلوم ہوگا کہ بہت سےظاہری امور قابل اعتراض نظر آجاتے ہیں مگر ان کی حقیقت کھلنے پران کا حق ہونا تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے فتویٰ دینے میں ہرہر پہلو پرغور کرناضروری ہوتاہے۔ اللہ پاک علماء و فقہاء سب کونیک سمجھ عطا کرے کہ وہ حضر ت خضر اورحضرت موسیٰ کےواقعہ سےبصیرت حاصل کریں۔ آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA): That he differed with Al-Hur bin Qais Al-Fazari regarding the companion of Moses (ؑ). Ibn 'Abbas (RA) said that he was Al-Khadir. Meanwhile Ubai bin Ka'b (RA) passed by them and Ibn 'Abbas (RA) called him saying, "My friend and I have differed regarding Moses (ؑ)' companion whom Moses (ؑ) asked the way to meet. Have you heard Allah's Apostle (ﷺ) mentioning something about him?" He said, "Yes, I heard Allah's Apostle (ﷺ) saying, 'While Moses (ؑ) was sitting in the company of some Israelites, a man came and asked (him), 'Do you know anyone who is more learned than you?' Moses (ؑ) replied, 'No.' So, Allah sent the Divine Inspiration to Moses (ؑ): 'Yes, Our slave, Khadir (is more learned than you).' Moses (ؑ) asked how to meet him (i.e. Khadir). So, the fish, was made, as a sign for him, and he was told that when the fish was lost, he should return and there he would meet him. So, Moses (ؑ) went on looking for the sign of the fish in the sea. The servant boy of Moses (ؑ) said to him, 'Do you know that when we were sitting by the side of the rock, I forgot the fish, and t was only Satan who made me forget to tell (you) about it.' Moses (ؑ) said, That was what we were seeking after,' and both of them returned, following their footmarks and found Khadir; and what happened further to them, is mentioned in Allah's Book."