مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3403.
حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بنی اسرائیل سے کہا گیا کہ تم سجدہ کرتے ہوئے دروازے سے داخل ہوجاؤ اور حِطَّةٌ کہو، یعنی ہمارے گناہ معاف کردے۔ انھوں نے اسے تبدیل کردیا اور ا پنے سرینوں کو گھسیٹتے ہوئے داخل ہوئے جبکہ زبان سے حبة في شعرة کہہ رہے تھے۔ اس کے معنی ہیں: بالیوں میں دانے خوب ہوں۔
تشریح:
1۔ بنی اسرائل سے کہا گیا تھا کہ جب تم بیت المقدس میں داخل ہو تو سر جھکاتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے اندرجاؤ لیکن انھوں نےسارا پروگرام ہی تبدیل کردیا۔ سرجھکانےکے بجائے اکڑ اکڑ کر داخل ہوئے اور زبان سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کی بجائے مہمل کلام بکنے لگے۔ یہ ان کی نادانی اور سرکشی تھی اور ان کا مقصد اللہ کے حکم کی مخالفت کرنا تھا۔ اس بنا پر وہ اللہ کے غضب میں گرفتار ہوئے۔ ان پر طاعون کی بیماری مسلط کردی گئی چنانچہ ستر ہزار بنی اسرائیل ایک گھڑی میں لقمہ اجل بن گئے۔ 2۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انسان کو ہمیشہ عجز و انکسار اختیار کرتے ہوئےاللہ سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرنی چاہیے ان پر اصرار کرتے ہوئے اکڑنا اللہ کی طرف سے عذاب کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ أعاذنا اللہ منها۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3274
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3403
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3403
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3403
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بنی اسرائیل سے کہا گیا کہ تم سجدہ کرتے ہوئے دروازے سے داخل ہوجاؤ اور حِطَّةٌ کہو، یعنی ہمارے گناہ معاف کردے۔ انھوں نے اسے تبدیل کردیا اور ا پنے سرینوں کو گھسیٹتے ہوئے داخل ہوئے جبکہ زبان سے حبة في شعرة کہہ رہے تھے۔ اس کے معنی ہیں: بالیوں میں دانے خوب ہوں۔
حدیث حاشیہ:
1۔ بنی اسرائل سے کہا گیا تھا کہ جب تم بیت المقدس میں داخل ہو تو سر جھکاتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے اندرجاؤ لیکن انھوں نےسارا پروگرام ہی تبدیل کردیا۔ سرجھکانےکے بجائے اکڑ اکڑ کر داخل ہوئے اور زبان سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کی بجائے مہمل کلام بکنے لگے۔ یہ ان کی نادانی اور سرکشی تھی اور ان کا مقصد اللہ کے حکم کی مخالفت کرنا تھا۔ اس بنا پر وہ اللہ کے غضب میں گرفتار ہوئے۔ ان پر طاعون کی بیماری مسلط کردی گئی چنانچہ ستر ہزار بنی اسرائیل ایک گھڑی میں لقمہ اجل بن گئے۔ 2۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انسان کو ہمیشہ عجز و انکسار اختیار کرتے ہوئےاللہ سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرنی چاہیے ان پر اصرار کرتے ہوئے اکڑنا اللہ کی طرف سے عذاب کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ أعاذنا اللہ منها۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سےاسحاق بن نضر نےبیان کیا، کہاہم سےعبدالرزاق نےبیان کیا، ان سےمعمر نے، ان سے ہمام بن منبہ نے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ سےسنا۔ انہوں نےبیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نےفرمایا، بنی اسرائیل کوحکم ہوا تھا کہ بیت المقدس میں سجدہ ورکوع کرتےہوئے داخل ہوں اوریہ کہتے ہوئے کہ یا اللہ! ہم کو بخش دے۔ لیکن انہوں نے اس کو الٹا کیا اور اپنے چوتڑوں کےبل گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے اوریہ کہتےہوئے ''حبة في شعرة'' (یعنی بالیوں میں دانے خوب ہوں) داخل ہوئے۔
حدیث حاشیہ:
پروردگار سےٹھٹھا کےطور پر یہ کہنا شروع کیا تو خدا کےغضب میں گرفتار ہوئے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "It was said to Bani Israel, Enter the gate (of the town) with humility (prostrating yourselves) and saying: "Repentance", but they changed the word and entered the town crawling on their buttocks and saying: "A wheat grain in the hair."