باب : حضرت موسی ؑ کی وفات اور ان کے بعد کے حالات کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Prophets
(Chapter: The death of Musa (Moses))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3407.
حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کے پاس موت کا فرشتہ بھیجا گیا۔ جب وہ آپ کے ہاں آیا تو آپ نے اسے تھپڑ رسید کیا۔ فرشتہ اپنے رب کے پاس چلا گیا اورعرض کیا: اےاللہ! تو نے مجھے ایک ایسے بندے کی طرف بھیجا ہے جو مرنا نہیں چاہتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تم واپس اس کے پاس جاکر اسے کہو کہ وہ اپنا ہاتھ کسی بیل کی پشت پر رکھیں۔ ان کے ہاتھ کے نیچے جتنے بال آجائیں، ہربال کے بدلے ایک سال عمر انھیں دے دی جائے گی۔ انھوں(موسیٰ ؑ) نے عرض کیا: اے اللہ! پھر کیا ہوگا؟ فرمایا: پھر بھی موت ہوگی۔ عرض کیا: پھر ابھی کیوں نہ آجائے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ موسیٰ ؑ نے اللہ سے سوال کیا کہ انھیں بیت المقدس سے ایک پتھر پھینکنے کے برابر قریب کردے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر میں وہاں موجود ہوتا تو میں تمھیں ان کی قبر دکھاتا جوایک سرخ ٹیلے کے نیچے راستے کے ایک کنارے پر واقع ہے۔‘‘ راوی حدیث معمر نے ہمام سے کہا: ہمیں ابوہریرہ ؓ نے نبی کریم ﷺ سے اسی طرح خبر دی۔
تشریح:
1۔ حضرت موسیٰ ؑ کے پاس موت کا فرشتہ انسانی شکل میں حاضر ہوا تھا۔ انھوں نے یہ خیال کر کے کہ ایک آدمی میرے گھر میں اجازت کے بغیر گھس آیا ہے اسے تھپڑ مارا مسند احمد میں ہے کہ موسیٰ ؑ کے تھپڑ مارنے سے ملک الموت کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی۔ (مسند أحمد:315/2) شریعت نے ایسے آدمی کی آنکھ پھوڑدینے کی اجازت دی ہے جواجازت کے بغیرتانک جھانک کرتا ہے۔ (صحیح ابن حبان (الإحسان )115/14) امام لغوی نے بھی حافظ ابن حبان ؒ کی تائیدکی ہے۔ (شرح السنة:265/5) الغرض موسیٰ ؑ کو یہ معلوم نہ تھا کہ یہ موت کا فرشتہ ہے اور ان کی روح قبض کرنے آیا ہے جب انھیں معلوم ہوا کہ یہ فرشتہ ہے روح قبض کرنا چاہتا ہےتو سر تسلیم خم کردیا۔ 2۔ موسیٰ ؑ نے یہ خواہش ظاہر کی کہ مجھے ارض مقدسہ کے قریب دفن کیا جائے تاکہ ان کی قبر پوشیدہ رہے اور امت کے جاہل لوگ اس کی عبادت شروع نہ کردیں۔ یہ بھی احتمال ہے کہ بنی اسرائیل اپنی شراتوں کی وجہ سے بیت المقدس میں داخلے سے محروم کردیے گئےتھے وہ چالیس سال تک میدان تیہ میں گھومتے رہے حتی کہ ہارون ؑ کی وفات اسی میدان میں ہوئی۔ حضرت موسیٰ ؑ ایک سال بعد جب فوت ہونے لگے تو تمنا کا اظہار کیا: اے اللہ! اگر داخلہ نہیں ہو سکا تو کم ازکم اس کا قرب ہی حاصل ہو جائے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3278
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3407
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3407
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3407
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کے پاس موت کا فرشتہ بھیجا گیا۔ جب وہ آپ کے ہاں آیا تو آپ نے اسے تھپڑ رسید کیا۔ فرشتہ اپنے رب کے پاس چلا گیا اورعرض کیا: اےاللہ! تو نے مجھے ایک ایسے بندے کی طرف بھیجا ہے جو مرنا نہیں چاہتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تم واپس اس کے پاس جاکر اسے کہو کہ وہ اپنا ہاتھ کسی بیل کی پشت پر رکھیں۔ ان کے ہاتھ کے نیچے جتنے بال آجائیں، ہربال کے بدلے ایک سال عمر انھیں دے دی جائے گی۔ انھوں(موسیٰ ؑ) نے عرض کیا: اے اللہ! پھر کیا ہوگا؟ فرمایا: پھر بھی موت ہوگی۔ عرض کیا: پھر ابھی کیوں نہ آجائے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ موسیٰ ؑ نے اللہ سے سوال کیا کہ انھیں بیت المقدس سے ایک پتھر پھینکنے کے برابر قریب کردے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر میں وہاں موجود ہوتا تو میں تمھیں ان کی قبر دکھاتا جوایک سرخ ٹیلے کے نیچے راستے کے ایک کنارے پر واقع ہے۔‘‘ راوی حدیث معمر نے ہمام سے کہا: ہمیں ابوہریرہ ؓ نے نبی کریم ﷺ سے اسی طرح خبر دی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ حضرت موسیٰ ؑ کے پاس موت کا فرشتہ انسانی شکل میں حاضر ہوا تھا۔ انھوں نے یہ خیال کر کے کہ ایک آدمی میرے گھر میں اجازت کے بغیر گھس آیا ہے اسے تھپڑ مارا مسند احمد میں ہے کہ موسیٰ ؑ کے تھپڑ مارنے سے ملک الموت کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی۔ (مسند أحمد:315/2) شریعت نے ایسے آدمی کی آنکھ پھوڑدینے کی اجازت دی ہے جواجازت کے بغیرتانک جھانک کرتا ہے۔ (صحیح ابن حبان (الإحسان )115/14) امام لغوی نے بھی حافظ ابن حبان ؒ کی تائیدکی ہے۔ (شرح السنة:265/5) الغرض موسیٰ ؑ کو یہ معلوم نہ تھا کہ یہ موت کا فرشتہ ہے اور ان کی روح قبض کرنے آیا ہے جب انھیں معلوم ہوا کہ یہ فرشتہ ہے روح قبض کرنا چاہتا ہےتو سر تسلیم خم کردیا۔ 2۔ موسیٰ ؑ نے یہ خواہش ظاہر کی کہ مجھے ارض مقدسہ کے قریب دفن کیا جائے تاکہ ان کی قبر پوشیدہ رہے اور امت کے جاہل لوگ اس کی عبادت شروع نہ کردیں۔ یہ بھی احتمال ہے کہ بنی اسرائیل اپنی شراتوں کی وجہ سے بیت المقدس میں داخلے سے محروم کردیے گئےتھے وہ چالیس سال تک میدان تیہ میں گھومتے رہے حتی کہ ہارون ؑ کی وفات اسی میدان میں ہوئی۔ حضرت موسیٰ ؑ ایک سال بعد جب فوت ہونے لگے تو تمنا کا اظہار کیا: اے اللہ! اگر داخلہ نہیں ہو سکا تو کم ازکم اس کا قرب ہی حاصل ہو جائے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحیی بن موسیٰ نےبیان کیا، کہاہم سے عبدالرزاق نےبیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبردی، انہیں عبداللہ بن طاؤس نے اور ان سے حضرت ابوہریرہ نےبیان کیاکہ اللہ تعالی نےحضرت موسیٰ کے پاس آئے توانہوں نے انہیں چانٹا مارا (کیونکہ وہ انسان کوصورت میں آیاتھا) ملک الموت، اللہ رب العزت کی بارگاہ میں واپس ہوئے اورعرض کیاکہ تونے اپنے ایک ایسے بندے کےپاس مجھے بھیجا جوموت کےلیے تیار نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا کہ دوبارہ ان سے پاس جاؤ اور کہو کہ اپنا ہاتھ کسی بیل کے پیٹھ پررکھیں، ان کے ہاتھ میں جتنے بال اس کے آجائیں ان میں سے ہربال کےبدلے ایک سال کی عمر انہیں دی جائے گی(ملک الموت دوبارہ آئے اوراللہ تعالی کافیصلہ سنایا) حضرت موسیٰ بولے اےرب! پھر اس کےبعد کیاہوگا؟ اللہ تعالی نےفرمایا پھر موت ہے۔ حضرت موسیٰ نےعرض کیاکہ پھر ابھی کیوں نہ آجائے۔ حضرت ابوہریرہ نےبیان کیا کہ پھر موسی نے اللہ تعالی سے دعا کی کہ بیت المقدس سےمجھے اتنا قریب کردیا جائے کہ (جہاں ان کی قبر ہووہاں سے) اگر کوئی پتھر پھیکنے والا پتھر پھینکے تووہ بیت اللہ تک پہنچ سکے۔ حضرت ابوہریرہ ؓنےبیان کیاکہ رسول اللہ ﷺنےفریایا اگر میں وہاں موجود ہوتا بیت المقدس میں، میں تمہیں ان کی قبر دکھاتا جوراستے کےکنارے پر ہے، ریت کےسرخ ٹیلے سےنیچے۔ عبدالرزاق بن ہمام نےبیان کہ ہمیں معمر نےخبردی، انہیں ہمام نےاور ان کو ابوہریرہ ؓنےنبی کریم ﷺ سےاسی طرح بیان کیا۔
حدیث حاشیہ:
ملک الموت حضرت موسی ؑ کےپاس انسانی صورت میں آئے تھے۔ لہذا آ دمی جان کر آپ نے ان کوطمانچہ مارا، یہ چیز عقل سےبعید نہیں ہے۔ مگر منکرین حدیث کوبہانہ چاہیے۔ انہوں نے اس حدیث کوبھی تختہ مشق بنایا ہےجوسرا سران کی جہالت ہے۔ حضرت موسی ؑ کو حقیقت معلوم ہوئی تو انہوں نے اللہ تعالی کی ملاقات کےشوق میں موت ہی کو پسند کیا۔ ہمارے حضور ﷺ سے بھی آخر ت میں یہی کہاگیا تھا آپ نے بھی رفیق اعلی سےالحاق کےلیے دعا فرمائی جوقبول ہوئی۔ کہا گیا ہےکہ حضرت موسی ؑ نے خود بیت المقدس میں دفن ہونے کی دعا اس لیے نہیں فرمائی کہ آپ کوبنی اسرائیل کی طرف سےخطرہ تھاکہ وہ آپ کی قبر کوپوجنے لگ جائیں گےجیسا کہ مشرکین کاحال ہےکہ اپنے ابنیاء صلحاء کےمزارات کوعبادت گاہ بناتے چلے آرہے ہیں۔ ہمارے حضور ﷺ کوبھی کعبہ شریف سےڈھائی سومیل دورمدینہ طیبہ میں اللہ نے آرام گاہ نصیب فرمائی۔ اگر حضور ﷺ مکۃ المکرمہ میں دفن ہوتے توامت اسلامیہ کےجہال کی طرف سےبھی یہی خطرہ تھا۔ پھر بھی آنحضرت ﷺ نےدعا فرمائی کہ یااللہ! میری قبر کو وثن (بت) نہ بنایو کہ لوگ یہاں آکر پوجا پاٹ شروع کردیں۔ الحمداللہ حضور ﷺ کی یہ دعا قبو ل ہوئی اور آج تک مسلمان نما مشرکوں کو وہاں آپ کی قبر کو پوجا کرنے کی ہمت نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Angel of Death was sent to Moses (ؑ) when he came to Moses (ؑ), Moses (ؑ) slapped him on the eye. The angel returned to his Lord and said, "You have sent me to a Slave who does not want to die." Allah said, "Return to him and tell him to put his hand on the back of an ox and for every hair that will come under it, he will be granted one year of life." Moses (ؑ) said, "O Lord! What will happen after that?" Allah replied, "Then death." Moses (ؑ) said, "Let it come now." Moses (ؑ) then requested Allah to let him die close to the Sacred Land so much so that he would be at a distance of a stone's throw from it." Abu Hurairah (RA) added, "Allah's Apostle (ﷺ) said, 'If I were there, I would show you his grave below the red sand hill on the side of the road."