باب : حضرت موسی ؑ کی وفات اور ان کے بعد کے حالات کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Prophets
(Chapter: The death of Musa (Moses))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3410.
حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ ایک دن ہمارے پاس تشریف لائےاور فرمایا : ’’تمام امتیں میرے سامنے پیش کی گئیں۔ میں نےدیکھا کہ ایک بہت بڑی جماعت آسمان کے کناروں پرچھائی ہوئی ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ اپنی قوم کے ہمراہ حضرت موسیٰ ؑ ہیں۔‘‘
تشریح:
1۔ بہت بڑی جماعت کو سواد سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی امت کے بعد حضرت موسیٰ ؑ کی امت تمام انبیاء ؑ کی امتوں سے زیادہ ہوگی۔ امام بخاری ؒ نے متصل طور پر یہ روایت کتاب الطب میں بیان کی ہے۔ آپ نے فرمایا :’’ایک نبی ایسا بھی سامنے آئے گا۔ جس کے ساتھ کوئی امتی نہیں ہو گا۔‘‘ موسیٰ ؑ کی امت کے بعدآپ اپنی امت کو دیکھیں گے جو تمام امتوں سے زیادہ ہوگی۔(صحیح البخاري، الطب، حدیث:5705) 2۔ اس حدیث میں حضرت موسیٰ ؑ اور ان کی امت کا ذکر ہے جو قیامت کے دن پیش کی جائے گی۔ اس لیے امام بخاری ؒ نے مذکورہ عنوان کے تحت اسے بیان فرمایا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3281
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3410
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3410
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3410
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ ایک دن ہمارے پاس تشریف لائےاور فرمایا : ’’تمام امتیں میرے سامنے پیش کی گئیں۔ میں نےدیکھا کہ ایک بہت بڑی جماعت آسمان کے کناروں پرچھائی ہوئی ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ اپنی قوم کے ہمراہ حضرت موسیٰ ؑ ہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ بہت بڑی جماعت کو سواد سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی امت کے بعد حضرت موسیٰ ؑ کی امت تمام انبیاء ؑ کی امتوں سے زیادہ ہوگی۔ امام بخاری ؒ نے متصل طور پر یہ روایت کتاب الطب میں بیان کی ہے۔ آپ نے فرمایا :’’ایک نبی ایسا بھی سامنے آئے گا۔ جس کے ساتھ کوئی امتی نہیں ہو گا۔‘‘ موسیٰ ؑ کی امت کے بعدآپ اپنی امت کو دیکھیں گے جو تمام امتوں سے زیادہ ہوگی۔(صحیح البخاري، الطب، حدیث:5705) 2۔ اس حدیث میں حضرت موسیٰ ؑ اور ان کی امت کا ذکر ہے جو قیامت کے دن پیش کی جائے گی۔ اس لیے امام بخاری ؒ نے مذکورہ عنوان کے تحت اسے بیان فرمایا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نےبیان کیا، ہم سےخصین بن نمیر نے بیان کیا، ان سے حصین بن عبدالرحمن نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نےبیان کیاکہ ایک دن نبی کریم ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ میرے سامنے تمام امتیں لائی گئیں اور میں نےدیکھا کہ ایک بہت بڑی جماعت آسمان کےکناروں پرچھائی ہوئی ہے۔ پھر بتایا گیا کہ یہ اپنی قوم کے ساتھ حضرت موسیٰ ؑ ہیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA): The Prophet (ﷺ) once came to us and said, "All the nations were displayed in front of me, and I saw a large multitude of people covering the horizon. Somebody said, 'This is Moses (ؑ) and his followers.' "