Sahi-Bukhari
60. Prophets
37. Chapter: The most beloved Salat to Allah was the Salat of (the Prophet) Dawud, and the most beloved Saum was the Saum of Dawud
Sahi-Bukhari:
Prophets
(Chapter: The most beloved Salat to Allah was the Salat of (the Prophet) Dawud, and the most beloved Saum was the Saum of Dawud)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
سورۃ بنی اسرائیل میں اللہ نے فرمایا کہ اس کی بارگاہ میں سب سے پسندیدہ نماز داؤد ؑ کی نماز ہے اور سب سے پسندیدہ روزہ حضرت داؤد ؑ کا روزہ ہے ۔ وہ ( ابتدائی ) آدھی رات میں سویا کرتے اور ایک تہائی رات میں عبادت کیا کرتے تھے ۔ پھر جب رات کا چھٹا حصہ باقی رہ جاتا تو سویا کرتے ۔ اسی طرح ایک دن روزہ رکھا کرتے اور ایک دن بغیر روزے کے رہا کرتے ۔ حضرت علیؓ نے کہا کہ حضرت عائشہ ؓ نے بھی اسی کے متعلق کہا تھا کہ جب بھی سحر کے وقت میرے یہاں نبی کریم ﷺ موجودرہے تو سوئے ہوئے ہوتے تھے ۔
3420.
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’اللہ کے ہاں پسندیدہ روزے حضرت داود ؑ کے ر وزے ہیں۔ وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن چھوڑتے تھے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ نماز حضرت داود ؑ کی نماز ہے۔ وہ آدھی رات تک سوتے تھے اور پھر ایک تہائی رات کی عبادت کرتے اور آخری چھٹا حصہ پھر سو جاتے تھے۔‘‘
تشریح:
1۔ حضرت داؤد ؒ کا روزہ، ہمیشہ روزہ رکھنے سے افضل ہے کیونکہ ہمیشہ روزہ رکھنے میں نفس کو روزے کی عادت ہوجاتی ہے اور عادت کی وجہ سے عبادت کے لیے جو مشقت ہونی چاہیے وہ باقی نہیں رہتی، نیز ایسا کرنے سے کمزوری ہوجاتی ہے جو میدان جنگ میں جم کرمقابلہ کرے میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ 2۔ حضرت داؤد ؑ کی نماز اس طرح ہوتی کہ آپ آدھی رات کے بعد اٹھ کرتہجد پڑھتے پھر سوجاتے، اس کے بعد نمازفجر کے لیے بیدار ہوتے ایسا کرنا زیادہ مشکل اور نفس پرشاق ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کو حضرت داؤد ؑ کا روزہ اور آپ کی نماز پسند تھی جیسا کہ اس حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3290
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3420
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3420
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3420
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
تمہید باب
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں علی سے مراد امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے استاد علی بن مدینی ہیں۔وہ حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق ان کے اس عمل کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ آپ رات کا چھٹا حصہ سوتے تھے۔اس سے رات کا آخری چھٹا حصہ مراد ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے اس کی تائیدبھی پیش کی ہے جسے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی سحری کے وقت میرے ہاں موجود ہوتے تو سوئے ہوتے تھے۔(فتح الباری:6/555)
سورۃ بنی اسرائیل میں اللہ نے فرمایا کہ اس کی بارگاہ میں سب سے پسندیدہ نماز داؤد ؑ کی نماز ہے اور سب سے پسندیدہ روزہ حضرت داؤد ؑ کا روزہ ہے ۔ وہ ( ابتدائی ) آدھی رات میں سویا کرتے اور ایک تہائی رات میں عبادت کیا کرتے تھے ۔ پھر جب رات کا چھٹا حصہ باقی رہ جاتا تو سویا کرتے ۔ اسی طرح ایک دن روزہ رکھا کرتے اور ایک دن بغیر روزے کے رہا کرتے ۔ حضرت علیؓ نے کہا کہ حضرت عائشہ ؓ نے بھی اسی کے متعلق کہا تھا کہ جب بھی سحر کے وقت میرے یہاں نبی کریم ﷺ موجودرہے تو سوئے ہوئے ہوتے تھے ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’اللہ کے ہاں پسندیدہ روزے حضرت داود ؑ کے ر وزے ہیں۔ وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن چھوڑتے تھے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ نماز حضرت داود ؑ کی نماز ہے۔ وہ آدھی رات تک سوتے تھے اور پھر ایک تہائی رات کی عبادت کرتے اور آخری چھٹا حصہ پھر سو جاتے تھے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ حضرت داؤد ؒ کا روزہ، ہمیشہ روزہ رکھنے سے افضل ہے کیونکہ ہمیشہ روزہ رکھنے میں نفس کو روزے کی عادت ہوجاتی ہے اور عادت کی وجہ سے عبادت کے لیے جو مشقت ہونی چاہیے وہ باقی نہیں رہتی، نیز ایسا کرنے سے کمزوری ہوجاتی ہے جو میدان جنگ میں جم کرمقابلہ کرے میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ 2۔ حضرت داؤد ؑ کی نماز اس طرح ہوتی کہ آپ آدھی رات کے بعد اٹھ کرتہجد پڑھتے پھر سوجاتے، اس کے بعد نمازفجر کے لیے بیدار ہوتے ایسا کرنا زیادہ مشکل اور نفس پرشاق ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کو حضرت داؤد ؑ کا روزہ اور آپ کی نماز پسند تھی جیسا کہ اس حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حضرت علی ؓ نے کہا: حضرت عائشہ ؓ کا(رسول اللہ ﷺ کے متعلق بھی یہی) فرمان ہے کہ آپ ﷺ جب بھی سحری کے وقت میرے ہاں موجود ہوتے تو سوئے ہوتے تھے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہاہم سے سفیان بن عیینہ نے، ان سےعمرو بن دینار نے، ان سےعمرو بن اوس ثقفی نے، انہوں نے عبداللہ بن عمرو ؓ سےسنا۔ انہوں نے بیان کیا کہ مجھ سےرسول اللہ ﷺ نےفرمایا تھا، اللہ تعالی کے نزدیک روزے کا سب سے پسندیدہ طریقہ داؤد کاطریقہ تھا۔ آپ ایک دن روزہ رکھتے اورایک دن بغیر روزے کےرہتے تھے۔ اسی طرح اللہ تعالی کے نزدیک نماز کا سب سےزیادہ پسندیدہ طریقہ حضرت داؤد کی نماز کا طریقہ تھا، آپ آدھی رات تک سوتے اور ایک تہائی حصے میں عبادت کیاکرتے تھے، پھر بقیہ چھٹے حصے بھی سوتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت داؤد کا روزہ ہمیشہ روزہ رکھنے سےافضل ہے۔ کیونکہ ہمیشہ روزہ رکھنے میں نفس کو روزے کی عادت ہوجاتی ہے اور عادت کی وجہ سےعبادت کےلیے جومشقت ہونی چاہئے وہ باقی نہیں رہتی۔ حضرت داؤد آدھی رات کےبعد اٹھ کر تہجد پڑھتے، پھر سوجاتے، پھر صبح کی نماز کےلیے اٹھتے۔ یہ اور زیادہ مشکل اورنفس پر زیادہ شاق ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abdullah bin Amr (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said to me, "The most beloved fasting to Allah was the fasting of (the Prophet) David who used to fast on alternate days. And the most beloved prayer to Allah was the prayer of David who used to sleep for (the first) half of the night and pray for 1/3 of it and (again) sleep for a sixth of it."