باب : سورۃ مریم میں اللہ تعا لیٰ نے فرمایا ( اس ) کتاب میں مریم کا ذکر کر جب وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر ۔
)
Sahi-Bukhari:
Prophets
(Chapter: The Statement of Allah Taa'la: "And mention in the Book, the story of Maryam...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
ایک پورب رخ مکان میں چلی گئی ۔ لفظ انتبذت نبذ سے نکلا ہے جیسے حصرت یونس کے قصے میں فرمایا نبذناہ یعنی ہم نے ان کو ڈال دیا ۔ شرقیا پورب رخ ( یعنی مسجد سے یا ان کے گھر سے پورب کی طرف ) فاجا ءھا کے معنی اس کو لاچار اور بے قرار کر دیا ۔ تساقط گرے گا ۔ قضیا دور ۔ فریابڑا یا برا ۔ نسیانا چیز ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ایسا ہی کہا ۔ دوسروں نے کہا نسی کہتے ہیں حقیر چیز کو ( یہ سدی سے منقول ہے ) ابو وائل نے کہا کہ مریم یہ سمجھی کہ پرہیزگار وہی ہوتا ہے جو عقل مند ہوتا ہے ۔ جب انہوں نے کہا ( جبریل علیہ السّلام کو ایک جوان مرد کی شکل میں دیکھ کر ) اگر تو پرہیزگار ہے اللہ سے ڈرتا ہے ۔ وکیع نے اسرائیل سے نقل کیا ، انہوں نے ابو اسحاق سے ، انہوں نے براء بن عازب سے سریا سریانی زبان میں چھوٹی نہر کو کہتے ہیں ۔
3436.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’صرف تین بچوں نے گہوارے (پنگوارے، جھولے) میں گفتگو کی ہے: حضرت عیسیٰ ؑ نے۔ دوسرے بنی اسرائیل میں جریج نامی ایک شخص تھا، وہ نماز پڑھ رہا تھا کہ اس کی ماں آئی اور اس نے اسے بلایا۔ جریج نے (دل میں) سوچا کہ نماز پڑھوں یا والدہ کو جواب دوں (آخر اس نے جواب نہ دیا) اس کی والدہ نے بددعا دی اور کہا: اے اللہ! یہ اس وقت تک نہ مرے تا آنکہ تو اسے زنا کارعورتوں کی صورت دکھائے۔ پھر ایسا ہوا کہ جریج اپنے عبادت خانے میں تھا، ایک فاحشہ عورت آئی اور اس نے بدکاری کے متعلق گفتگو کی لیکن جریج نے انکار کردیا۔ پھر وہ ایک چرواہا ہےکے پاس گئی تو اس سے منہ کالا کیا۔ آخر اس نے ایک بچہ جنم دیا اور یہ کہہ دیاکہ بچہ جریج کا ہے، چنانچہ لوگ جریج کے پاس آئے اور اس کے عبادت خانے کو توڑ پھوڑ دیا، اسے نیچے اتارا اور خوب گالیاں دیں۔ جریج نے وضو کیا اور نماز پڑھی، پھر اس بچے کے پاس آکر کہا: اے بچے! تیرا باپ کون ہے؟ اس نے کہا: فلاں چرواہا۔ یہ حال دیکھ کر لوگوں نے کہا: ہم تیرا عبادت خانہ سونے (کی اینٹوں) سے بنا دیتے ہیں۔ اس نے کہا: نہیں، مٹی سے ہی (بنادو)۔ تیسرے یہ کہ بنی اسرائیل کی ایک عورت اپنے بچے کو دودھ پلارہی تھی کہ ادھر سے ایک خوش وضع سوارگزرا تو عورت اسے دیکھ کر کہنے لگی: اے اللہ! تو میرے بچے کو بھی ایسا کردے۔ اس بچے نے ماں کاپستان چھوڑ کر سوار کی طر ف منہ کرکے کہا: اے اللہ! مجھے اس جیسا نہ کرنا۔ پھر وہ اپنی ماں کا پستان چوسنے لگا۔‘‘ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں: گویا میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھ رہا ہوں وہ اپنی انگلی چوس کر دودھ پینے کی کیفیت بیان کررہے ہیں۔ ’’پھر ایک لونڈی ادھر سے گزری تو ماں نے کہا: اے اللہ! میرے بیٹے کواس جیسا نہ کرنا۔ بچے نے پھر پستان چھوڑ کر کہا: اےاللہ!مجھے اس جیساکردے۔ اس کی ماں نے کہا: میرے بچے بات کیاہے؟بچے نے کہا: وہ سوار متکبرین میں سے ایک متکبر اور خود پسند تھا اور یہ لونڈی بے قصور ہے۔ لوگ اسے کہتے ہیں کہ تو نے چوری کی ہے، تو نے زنا کیاہے، حالانکہ اس نے کچھ نہیں کیا۔‘‘
تشریح:
1۔ حدیث جریج سے معلوم ہوتا ہے کہ ماں کی خدمت میں عظمت ہے اور بچوں کے حق میں اس کی دعا قبول ہوتی ہے اس کی دل آزاری سے پرہیز کرنا چاہیے،نیز وہ لونڈی جسے بلاوجہ ماراپیٹا جارہاتھا وہ اللہ تعالیٰ کی نیک بندی تھی۔ 2۔ان تین بچوں کے علاوہ بھی مختلف احادیث میں بچوں کی گفتگو کاذکر ہے، مثلاً:صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ گہوارے میں اس بچے نے بھی گفتگو کی تھی جس کی ماں کو "اصحاب الاخدود" آگ کے آلاؤ میں ڈالنے لگے تو وہ کچھ سہم گئی۔اس وقت شیر خوار بچے نے کہا:اے میری ماں! صبر کر تو حق پر ہے۔"(صحیح مسلم، الذھد والرقائق، حدیث:7511(3005)3۔ممکن ہے کہ گہوارے میں صرف تین بچوں نے گفتگو کی ہو اور باقی بچوں نے گہوارے کے علاوہ باتیں کی ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس حدیث میں مذکورہ تین بچوں کے کلام کرنے کاتعلق صرف بنی اسرائیل سے ہو اور باقی بچے غیر بنی اسرائیل سے ہوں۔ امام بخاری ؒ نے حضرت عیسیٰ ؑ کے حالات سے آگاہی کے لیے اسے بیان کیا ہے۔ قرآن کریم میں بھی اس کی صراحت ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’پھر وہ(مریم) بچے کو اٹھائے اپنی قوم میں لے آئیں تو وہ کہنے لگے:اے مریم ؑ! یقیناً تو نے بہت بُرا کام کیا ہے۔ اےہارون کی بہن! نہ تو تیرا باپ کوئی بُرا آدمی تھا اور نہ تیری ماں ہی بدکار تھی۔ مریم نے اس بچے کی طرف اشارہ کردیا۔ وہ کہنے لگے:ہم اس سے کیسے کلام کریں جو ابھی گود میں بچہ ہے۔ وہ(بچہ) بول اٹھا:بے شک میں اللہ کابندہ ہوں۔ اس نے مجھے کتاب دی اور مجھے نبی بنایا ہے۔‘‘ (مریم:27-30)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3305
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3436
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3436
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3436
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
تمہید باب
عنوان:44سے عنوان:48 تک تمام ملتے جلتے عنوان قائم کیے گئے ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے:آخری عنوان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے واقعات کے لیے خاص ہے جبکہ باقی عناوین میں ان کی والدہ حضرت مریم علیہ السلام کے حالات بیان ہوئے ہیں۔(فتح الباری 6/584)لیکن ہمارا رجحان یہ ہے کہ پہلے عنوان میں حضرت مریم علیہ السلام کے حالات بتانا مقصود تھا جبکہ دوسرا عنوان بھی حالات مریم پر مشتمل ہے لیکن اس کی نوعیت پہلے سے مختلف ہے۔تیسرے اور چوتھے عنوان میں ولادت عیسیٰ علیہ السلام کاذکر ہے اور اس آخری عنوان میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حالات بیان ہوں گے۔واللہ اعلم۔قارئین سے گزارش ہے کہ وہ ولادت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق سورہ مریم کی آیت :15تا36 کا مطالعہ ضرور کریں۔
ایک پورب رخ مکان میں چلی گئی ۔ لفظ انتبذت نبذ سے نکلا ہے جیسے حصرت یونس کے قصے میں فرمایا نبذناہ یعنی ہم نے ان کو ڈال دیا ۔ شرقیا پورب رخ ( یعنی مسجد سے یا ان کے گھر سے پورب کی طرف ) فاجا ءھا کے معنی اس کو لاچار اور بے قرار کر دیا ۔ تساقط گرے گا ۔ قضیا دور ۔ فریابڑا یا برا ۔ نسیانا چیز ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ایسا ہی کہا ۔ دوسروں نے کہا نسی کہتے ہیں حقیر چیز کو ( یہ سدی سے منقول ہے ) ابو وائل نے کہا کہ مریم یہ سمجھی کہ پرہیزگار وہی ہوتا ہے جو عقل مند ہوتا ہے ۔ جب انہوں نے کہا ( جبریل علیہ السّلام کو ایک جوان مرد کی شکل میں دیکھ کر ) اگر تو پرہیزگار ہے اللہ سے ڈرتا ہے ۔ وکیع نے اسرائیل سے نقل کیا ، انہوں نے ابو اسحاق سے ، انہوں نے براء بن عازب سے سریا سریانی زبان میں چھوٹی نہر کو کہتے ہیں ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’صرف تین بچوں نے گہوارے (پنگوارے، جھولے) میں گفتگو کی ہے: حضرت عیسیٰ ؑ نے۔ دوسرے بنی اسرائیل میں جریج نامی ایک شخص تھا، وہ نماز پڑھ رہا تھا کہ اس کی ماں آئی اور اس نے اسے بلایا۔ جریج نے (دل میں) سوچا کہ نماز پڑھوں یا والدہ کو جواب دوں (آخر اس نے جواب نہ دیا) اس کی والدہ نے بددعا دی اور کہا: اے اللہ! یہ اس وقت تک نہ مرے تا آنکہ تو اسے زنا کارعورتوں کی صورت دکھائے۔ پھر ایسا ہوا کہ جریج اپنے عبادت خانے میں تھا، ایک فاحشہ عورت آئی اور اس نے بدکاری کے متعلق گفتگو کی لیکن جریج نے انکار کردیا۔ پھر وہ ایک چرواہا ہےکے پاس گئی تو اس سے منہ کالا کیا۔ آخر اس نے ایک بچہ جنم دیا اور یہ کہہ دیاکہ بچہ جریج کا ہے، چنانچہ لوگ جریج کے پاس آئے اور اس کے عبادت خانے کو توڑ پھوڑ دیا، اسے نیچے اتارا اور خوب گالیاں دیں۔ جریج نے وضو کیا اور نماز پڑھی، پھر اس بچے کے پاس آکر کہا: اے بچے! تیرا باپ کون ہے؟ اس نے کہا: فلاں چرواہا۔ یہ حال دیکھ کر لوگوں نے کہا: ہم تیرا عبادت خانہ سونے (کی اینٹوں) سے بنا دیتے ہیں۔ اس نے کہا: نہیں، مٹی سے ہی (بنادو)۔ تیسرے یہ کہ بنی اسرائیل کی ایک عورت اپنے بچے کو دودھ پلارہی تھی کہ ادھر سے ایک خوش وضع سوارگزرا تو عورت اسے دیکھ کر کہنے لگی: اے اللہ! تو میرے بچے کو بھی ایسا کردے۔ اس بچے نے ماں کاپستان چھوڑ کر سوار کی طر ف منہ کرکے کہا: اے اللہ! مجھے اس جیسا نہ کرنا۔ پھر وہ اپنی ماں کا پستان چوسنے لگا۔‘‘ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں: گویا میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھ رہا ہوں وہ اپنی انگلی چوس کر دودھ پینے کی کیفیت بیان کررہے ہیں۔ ’’پھر ایک لونڈی ادھر سے گزری تو ماں نے کہا: اے اللہ! میرے بیٹے کواس جیسا نہ کرنا۔ بچے نے پھر پستان چھوڑ کر کہا: اےاللہ!مجھے اس جیساکردے۔ اس کی ماں نے کہا: میرے بچے بات کیاہے؟بچے نے کہا: وہ سوار متکبرین میں سے ایک متکبر اور خود پسند تھا اور یہ لونڈی بے قصور ہے۔ لوگ اسے کہتے ہیں کہ تو نے چوری کی ہے، تو نے زنا کیاہے، حالانکہ اس نے کچھ نہیں کیا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ حدیث جریج سے معلوم ہوتا ہے کہ ماں کی خدمت میں عظمت ہے اور بچوں کے حق میں اس کی دعا قبول ہوتی ہے اس کی دل آزاری سے پرہیز کرنا چاہیے،نیز وہ لونڈی جسے بلاوجہ ماراپیٹا جارہاتھا وہ اللہ تعالیٰ کی نیک بندی تھی۔ 2۔ان تین بچوں کے علاوہ بھی مختلف احادیث میں بچوں کی گفتگو کاذکر ہے، مثلاً:صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ گہوارے میں اس بچے نے بھی گفتگو کی تھی جس کی ماں کو "اصحاب الاخدود" آگ کے آلاؤ میں ڈالنے لگے تو وہ کچھ سہم گئی۔اس وقت شیر خوار بچے نے کہا:اے میری ماں! صبر کر تو حق پر ہے۔"(صحیح مسلم، الذھد والرقائق، حدیث:7511(3005)3۔ممکن ہے کہ گہوارے میں صرف تین بچوں نے گفتگو کی ہو اور باقی بچوں نے گہوارے کے علاوہ باتیں کی ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس حدیث میں مذکورہ تین بچوں کے کلام کرنے کاتعلق صرف بنی اسرائیل سے ہو اور باقی بچے غیر بنی اسرائیل سے ہوں۔ امام بخاری ؒ نے حضرت عیسیٰ ؑ کے حالات سے آگاہی کے لیے اسے بیان کیا ہے۔ قرآن کریم میں بھی اس کی صراحت ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’پھر وہ(مریم) بچے کو اٹھائے اپنی قوم میں لے آئیں تو وہ کہنے لگے:اے مریم ؑ! یقیناً تو نے بہت بُرا کام کیا ہے۔ اےہارون کی بہن! نہ تو تیرا باپ کوئی بُرا آدمی تھا اور نہ تیری ماں ہی بدکار تھی۔ مریم نے اس بچے کی طرف اشارہ کردیا۔ وہ کہنے لگے:ہم اس سے کیسے کلام کریں جو ابھی گود میں بچہ ہے۔ وہ(بچہ) بول اٹھا:بے شک میں اللہ کابندہ ہوں۔ اس نے مجھے کتاب دی اور مجھے نبی بنایا ہے۔‘‘ (مریم:27-30)
ترجمۃ الباب:
فَنَبَذْنَا "ہم نے اسے پھینک دیا۔ "مریم صدیقہ کے متعلق اس لفظ کےمعنی ہیں: جب وہ گوشتہ نشین ہوگئیں شَرْقِيًّا کے معنی ہیں: وہ جانب جو طرف مشرق سے متصل تھی۔ فَأَجَاءَهَا یہ جئت سے باب افعال ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے معنیالجائها یعنی اسے مجبور کردیا۔ تُسَاقِطْ کے معنی گرائے گی قَصِيًّا کے معنی بہت دوراور فَرِيًّا کے معنی بڑی بات۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا نَسِيَا کے معنی: "میں کوئی چیز نہ ہوتی۔ "ابن عباسؓ کے علاوہ دوسروں نے اس کے معنی"حقیر"کیے ہیں۔ابووائل نےکہا: مریم صدیقہ کو معلوم تھا کہ متقی انسان ہی عقلمند ہوتا ہے جبکہ انھوں نے فرشتے سے کہا تھا: "اگر تو متقی ہے"یعنی اگر تو عقلمند ہے۔ (کسی اجنبی عورت سے چھیڑ چھاڑ نہیں کرے گا۔ )حضرت وکیع اپنے استاد اسرائیل سے، وہ ابو اسحاق سے اور وہ براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ سَرِيًّا سریانی زبان میں چھوٹی نہر کو کہتے ہیں (جبکہ عربی زبان میں سريا کے معنی"سردار" ہیں۔ )
حدیث ترجمہ:
ہم سےمسلم بن ابراہیم نےبیان کیا، کہاہم سے جریربن حازم نے بیان کیا، ان سے محمدبن سیرین نے اور ان سے ابوہریرہ نےکہ نبی کریم ﷺ نےفرمایا گود میں تین بچوں کےسوااورکسی نےبات نہیں کی ۔اول عیسیٰ ؑ (دوسرے کاواقعہ یہ ہےکہ) بنی اسرائیل میں ایک بزرگ تھے، نام جریج تھا۔ وہ نماز پڑھ رہےتھے کہ ان کی ماں نےانہیں پکارا۔ انہوں نے (اپنے دل میں) کہا میں والدہ کا جواب دوں یا نماز پڑھتا رہوں ؟ اس پر ان کی والدہ نے(غصہ ہوکر) بددعا کی، اےاللہ ! اس وقت تک اسے موت نہ آئے جب تک یہ زانیہ عورتوں کامنہ نہ دیکھ لے ۔جریج اپنے عبادت خانےمیں رہا کرتےتھے۔ ایک مرتبہ ان کےسامنے ایک فاحشہ عورت آئی اوران سےبدکاری چاہی لیکن انہوں نے (اس کی خواہش پوری کرنے سے) انکار کیا۔ پھرایک چرواہے کےپاس آئی اوراسے اپنے اوپر قابودے دیا۔ اس سے ایک بچہ پیداہوا اور اس نے ان پریہ تہمت دھری کہ یہ جریج کابچہ ہے۔ ان کی قوم کےلوگ آئے اور ان کا عبادت خانہ توڑ دیا، انہیں نیچے اتار کرلائے اورانہیں گالیان دیں۔پھر انہوں نے وضو کرکے نماز پڑھی ،اس کےبعد بچے کےپاس آئے اور اس سے پوچھا کہ تیرا باب کون ہے؟ بچہ (اللہ تعالی کے حکم سے)بول پڑا کہ چرواہا ہے اس پر (ان کی قوم شرمندہ ہوئی اور ) کہاکہ ہم آپ کا عبادت خانہ سونے کا بنائیں گے۔ لیکن انہوں نے کہا ہرگز نہیں ، مٹی ہی کابنےگا (تیسرا واقعہ) اور ایک بنی اسرائیل کی عورت تھی ، اپنے بچے کو دودھ پلا رہی تھی ۔قریب سےایک سوار نہایت عزت والا اور خوش پوش گزرا، اس عورت نےدعا کی ،اے اللہ !میرے بچے کوبھی اسی جیسا بنادے لیکن بچہ (اللہ کےحکم سے)بو ل پڑا کہ اےاللہ ! مجھےاس جیسا نہ بنانا۔پھر اس کےسینے سےلگ کردودھ پینےلگا۔ابوہریرہ نےبیان کیا کہ جیسے میں اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں کہ نبی کریمﷺ اپنی انگلی چوس رہےہیں (بچے کےدودھ پینے لگنے کی کیفیت بتلاتے وقت) پھر ایک باندی اس کےقریب سےلےجائی گئی (جسے اس کے مالک ماررہے تھے) تواس عورت نے دعاکی کہ اے اللہ !میرے بچے کواس جیسانہ بنانا۔بچے نےپھر اس کا پستان چھوڑ دیا اور کہا کہ اے اللہ !مجھے اسی جیسا بنادے ۔اس عورت نےپوچھا ۔ایسا تو کیوں کہ رہا ہے؟ بچے نےکہا کہ وہ سوار ظالموں میں سے ایک ظالم شخص تھا اور اس باندی سےلوگ کہہ رہے تھے کہ تم نےچوری کی اور زنا کیا حالانکہ اس نے کچھ بھی نہیں کیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
وہ پاک دامن خدا کی نیک بندی تھی۔ ان تینوں بچوں کےکلام کرنے کا تعلق صرف بنی اسرائیل سےہے۔ ان کےعلاوہ بعض دوسرے بچوں نےبھی بچپن میں کلام کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "None spoke in cradle but three: (The first was) Jesus, (the second was), there a man from Bani Israel called Juraij. While he was offering his prayers, his mother came and called him. He said (to himself), 'Shall I answer her or keep on praying?" (He went on praying) and did not answer her, his mother said, "O Allah! Do not let him die till he sees the faces of prostitutes." So while he was in his hermitage, a lady came and sought to seduce him, but he refused. So she went to a shepherd and presented herself to him to commit illegal sexual intercourse with her and then later she gave birth to a child and claimed that it belonged to Juraij. The people, therefore, came to him and dismantled his hermitage and expelled him out of it and abused him. Juraij performed the ablution and offered prayer, and then came to the child and said, 'O child! Who is your father?' The child replied, 'The shepherd.' (After hearing this) the people said, 'We shall rebuild your hermitage of gold,' but he said, 'No, of nothing but mud.'(The third was the hero of the following story) A lady from Bani Israel was nursing her child at her breast when a handsome rider passed by her. She said, 'O Allah ! Make my child like him.' On that the child left her breast, and facing the rider said, 'O Allah! Do not make me like him.' The child then started to suck her breast again. ( Abu Hurairah (RA) further said, "As if I were now looking at the Prophet (ﷺ) sucking his finger (in way of demonstration.") After a while the people passed by, with a lady slave and she (i.e. the child's mother) said, 'O Allah! Do not make my child like this (slave girl)!, On that the child left her breast and said, 'O Allah! Make me like her.' When she asked why, the child replied, 'The rider is one of the tyrants while this slave girl is falsely accused of theft and illegal sexual intercourse."