باب: جب جنبی کو (غسل کی وجہ سے) مرض بڑھ جانے کا یا موت ہونے کا یا (پانی کے کم ہونے کی وجہ سے) پیاس کا ڈر ہو تو تیمم کر لے۔
)
Sahi-Bukhari:
Rubbing hands and feet with dust (Tayammum)
(Chapter: A Junub can perform Tayammum if he is afraid of disease, death or thirst)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
کہا جاتا ہے کہ حضرت عمرو بن عاص ؓ کو ایک جاڑے کی رات میں غسل کی حاجت ہوئی۔ تو آپ نے تیمم کر لیا اور یہ آیت تلاوت کی “ اپنی جانوں کو ہلاک نہ کرو، بے شک اللہ تعالیٰ تم پر بڑا مہربان ہے۔ ” پھر اس کا ذکر نبی کریمﷺ کی خدمت میں ہوا تو آپ ﷺنے ان کی کوئی ملامت نہیں فرمائی۔آیت کریمہ پھر صحابہ کرام کے عمل سے اسلام میں بڑی بڑی آسانیاں معلوم ہوتی ہیں۔ مگرصدافسوس کہ نام نہاد علماءوفقہاءنے دین کو ایک ہوابناکررکھ دیا ہے۔
345.
حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے کہا: اگر تمہیں (جنابت کی حالت میں) پانی نہ ملے تو کیا تم نماز نہیں پڑھو گے؟ حضرت ابن مسعود ؓ نے جواب دیا: اگر میں اس معاملے میں رخصت دے دوں تو پھر یہ ہو گا کہ جب کبھی کسی کو سردی کا احساس ہو گا تو یہی کرے گا، یعنی تیمم کر کے نماز پڑھ لے گا۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے فرمایا: (اگر یہی بات ہے) تو پھر حضرت عمار ؓ کا وہ قول کہاں جائے گا جو انھوں نے حضرت عمر ؓ سے کہا تھا؟ حضرت ابن مسعود ؓ نے جواب دیا: میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ خود حضرت عمر ؓ کو حضرت عمار ؓ کے قول پر اطمینان نہیں ہوا تھا۔
تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح پانی نہ ملنے کی صورت میں وضو اور غسل کی جگہ تیمم کیا جا سکتا ہے اسی طرح اگر پانی صرف اتنا ہے جس سے پیاس بجھائی جا سکے تو ایسے حالات میں بھی تیمم کیا جا سکتا ہے اور اگر پانی زیادہ ہے جو وضو یا غسل کے لیے کافی ہو سکتا ہے، لیکن اس کے استعمال سے کسی بیماری یا موت کا اندیشہ ہو تو بھی تیمم کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس سلسلے میں آپ نے دو روایات پیش کی ہیں، پہلی روایات مختصر بھی ہے اور اس میں کچھ تقدیم و تاخیر بھی ہے امام بخاری ؒ نے دوسری روایت اس لیے بیان فرمادی تاکہ معلوم ہو جائے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے درمیان مناظرے کی اصل صورت کیا تھی؟ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ جنبی کو تیمم کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ اس پر حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے پہلے تو حضرت عمار اور حضرت عمر ؓ کا قصہ پیش کیا حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے مناظرا نہ اصول کے مطابق اس کا جواب دیا کہ حضرت عمر ؓ نے حضرت عمار ؓ کو کہا تھا کہ تم اس معاملے میں اللہ سے ڈرو۔ مطلب یہ تھا کہ آپ جس واقعے کو بطور استدلال پیش کررہتے ہیں اس کا تو خود صاحب واقعہ منکر ہے، ایسے حالات میں وہ دلیل کے طور پر کیسے پیش کیا جا سکتا ہے؟ اس کے بعد حضرت ابو موسیٰ ؓ نے آیت تیمم بطور دلیل پیش کی تو حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ اس کا جواب نہ دے سکے، بلکہ اصل مصلحت سے پردہ اٹھانے پر مجبور ہو گئے کہ میرا انکار مصلحت شرعیہ کی وجہ سے ہے کہ اس جواز کی آڑ میں ہر شخص ذرا سی سردی میں بھی تیمم کرنے لگے گا جو شریعت کا منشا نہیں۔ اس مصلحت کے پیش نظر میں یہ فتوی نہیں دینا چاہتا۔ حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے جنبی کے تیمم کے متعلق اپنے اس فتوی سے رجوع فرمالیا تھا، جیسا کہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے، لیکن اس کی سند میں انقطاع ہے۔ (فتح الباري:593/1) 2۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے بطور دلیل جو آیت تیمم پیش فرمائی تھی اس میں ﴿ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ﴾ کے الفاظ ہیں اگر اس سے مراد جماع نہ ہوتا تو حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ بطور جواب کہہ سکتے تھے کہ تم جس آیت کو بطور استدلال پیش کررہے ہو۔ اس میں لمس سے مراد جماع نہیں بلکہ لمس بالید مراد ہے، یعنی یہاں تو جنابت کا قصہ ہی نہیں، بلکہ حدث اصغر کی بات ہو رہی ہے، لیکن حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے ایسا نہیں فرمایا، اس سے معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک بھی اس آیت کریمہ میں لمس سے مراد لمس بالید نہیں بلکہ جماع ہے۔ (إعلام الحدیث للخطابي:345/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
343
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
345
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
345
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
345
تمہید کتاب
"یہ ذکر ہم نے آپ کی طرف اس لیے اتارا ہے تاکہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کر بیان کر دیں۔"( النحل16۔44۔) یہ وہی بیان ہے جس کی حفاظت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:(ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ)"پھر اس (قرآن )کا واضح کر دینا ہمارے ذمے ہے۔"( القیامۃ :75۔19۔) یعنی اس کے مشکل مقامات کی تشریح اور حلال و حرام کی توضیح بھی ہمارے ذمے ہے۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے مجملات کی جو تفصیل مبہمات کی توضیح اور اس کے عمومات کی جو تخصیص بیان کی ہے جسے حدیث کہا جا تا ہے یہ سب اللہ کی طرف سے ہے۔ اور اسے تسلیم کرنا گویا قرآن کریم کو ماننا ہے ۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس مبارک تصنیف میں اسی اصول کو پیش نظر رکھا ہے پہلے بنیادی ماخذ قرآنی آیت کاحوالہ دیا۔ پھر اس کی تشریح احادیث و آثار سے فرمائی۔آپ نے کتاب تیمم میں نو چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں دو باب بلا عنوان ہیں۔ باقی سات ابواب میں مندرجہ ذیل مسائل واحکام بیان کیے ہیں۔(فاقد الطهورين) کا کیا حکم ہے؟ جب نماز کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو اور پانی نہ ملے تو حضر میں بھی تیمم کیا جا سکتا ہے۔ تیمم کرنے والا خاک آلود ہاتھوں پر پھونک مار سکتا ہے تیمم چہرے اور ہاتھوں کے مسح سے مکمل ہو جاتا ہے جب پانی نہ ملے تو بندہ مسلم کے لیے پاک مٹی ہی وضو کے پانی کاکام دیتی ہے جب کسی کو پیاس لگی ہو اور وضو کرنے سے پانی ختم ہونے کا اندیشہ ہو یا جنبی آدمی کو پانی استعمال کرنے سے بیماری یا موت کا خطرہ ہو تو پانی کی موجودگی میں بھی تیمم کیا جا سکتا ہے تیمم کرتے وقت صرف ایک مرتبہ زمین پر ہاتھ مارنا کافی ہے۔ اسی طرح بیشتر متعارف و حقائق بیان کیے ہیں جن کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے تیمم سے متعلقہ احکام و مسائل ثابت کرنے کے لیے سترہ(17)مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں دس احادیث مقرر ہیں نیز دو معلق روایات بھی لائے ہیں غیر مقرر احادیث کی تعداد سات ہے جن میں ایک معلق ہے باقی موصول ہیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین کے دس آثار بھی پیش کیے ہیں جن میں تین موصول ہیں یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فتوی جات باسند بیان کیے ہیں۔معلق روایت یا اثر کا مطلب ہے اسے بے سند بیان یا نقل کرنا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ معلق روایات و آثار کی سند یں دیگر کتب احادیث میں موجود ہیں جن کی تفصیل حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اپنی شرح "فتح الباری"میں بیان کردیتے ہیں اس لیے صحیح بخاری میں بے سند (معلق)ہونے کا مطلب بے سروپا اور بے بنیاد ہونا نہیں بلکہ اختصار کے طور پر سند کا حذف کردینا ہے۔قارئین کرام :سے گزارش ہے کہ وہ ہماری پیش کردہ معروضات کو مدنظر رکھتے ہوئے کتاب تیمم کا مطالعہ فرمائیں اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ اور وہ ہمیں کتاب و سنت کے مطابق حیات مستعار کے چند دن گزار نے کی توفیق دے۔
تمہید باب
کچھ لوگ جنبی کے لیے تیمم کرنے کے متعلق یہ شرط لگاتے ہیں کہ اسے پانی کے استعمال سے موت یا کسی عضو تلف ہونے کا اندیشہ ہو یہ محض تشدد ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ جس طرح پیاس کا معاملہ متفقہ ہے، اسی طرح اگر جنبی کو یہ خطرہ ہو کہ پانی استعمال کرنے سے بیمار ہو جائے گا یا بیماری بڑھ جائے گی یا صحت یابی میں دیر ہو جائے گی تو وہ تیمم کر لے یعنی امام صاحب کے نزدیک موت پیاس اور بیماری تینوں صورتوں میں تیمم کی اجازت ہے۔اس سلسلے میں انھوں نے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک اجتہاد کا حوالہ دیا ہے جو انتہائی مختصر ہے تفصیل یہ ہے کہ غزوہ ذات السلالسل کے موقع پر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کونہانے کی ضرورت پیش آگئی لیکن سخت سردی تھی اس لیے انھوں نے تیمم کر کے اپنے رفقاء کو نماز پڑھا دی۔ لوگوں کو یہ بات ناگوار گزری کہ پانی کی موجودگی میں انھوں نے تیمم کیوں کیا؟ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں شکایت کی گئی تو آپ نے باز پرس فرمائی۔حضرت عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا عذر پیش کیا کہ سخت سردی تھی خطرہ تھا کہ نہانے سے موت واقع ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد تلاوت کیا کہ خود کو ہلاکت میں مت ڈالو، وہ تمھارے ساتھ بہت مہربان ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان سن کر تبسم فرمایا اور خاموش ہو گئے۔( فتح الباری:1/589۔)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی خاموشی سے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عمل کی توثیق کردی۔ اس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مدعا ثابت ہو گیا کہ اگر موت کا اندیشہ ہو تو جنبی آدمی کو تیمم کی اجازت ہے۔
کہا جاتا ہے کہ حضرت عمرو بن عاص ؓ کو ایک جاڑے کی رات میں غسل کی حاجت ہوئی۔ تو آپ نے تیمم کر لیا اور یہ آیت تلاوت کی “ اپنی جانوں کو ہلاک نہ کرو، بے شک اللہ تعالیٰ تم پر بڑا مہربان ہے۔ ” پھر اس کا ذکر نبی کریمﷺ کی خدمت میں ہوا تو آپ ﷺنے ان کی کوئی ملامت نہیں فرمائی۔آیت کریمہ پھر صحابہ کرام کے عمل سے اسلام میں بڑی بڑی آسانیاں معلوم ہوتی ہیں۔ مگرصدافسوس کہ نام نہاد علماءوفقہاءنے دین کو ایک ہوابناکررکھ دیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے کہا: اگر تمہیں (جنابت کی حالت میں) پانی نہ ملے تو کیا تم نماز نہیں پڑھو گے؟ حضرت ابن مسعود ؓ نے جواب دیا: اگر میں اس معاملے میں رخصت دے دوں تو پھر یہ ہو گا کہ جب کبھی کسی کو سردی کا احساس ہو گا تو یہی کرے گا، یعنی تیمم کر کے نماز پڑھ لے گا۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے فرمایا: (اگر یہی بات ہے) تو پھر حضرت عمار ؓ کا وہ قول کہاں جائے گا جو انھوں نے حضرت عمر ؓ سے کہا تھا؟ حضرت ابن مسعود ؓ نے جواب دیا: میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ خود حضرت عمر ؓ کو حضرت عمار ؓ کے قول پر اطمینان نہیں ہوا تھا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح پانی نہ ملنے کی صورت میں وضو اور غسل کی جگہ تیمم کیا جا سکتا ہے اسی طرح اگر پانی صرف اتنا ہے جس سے پیاس بجھائی جا سکے تو ایسے حالات میں بھی تیمم کیا جا سکتا ہے اور اگر پانی زیادہ ہے جو وضو یا غسل کے لیے کافی ہو سکتا ہے، لیکن اس کے استعمال سے کسی بیماری یا موت کا اندیشہ ہو تو بھی تیمم کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس سلسلے میں آپ نے دو روایات پیش کی ہیں، پہلی روایات مختصر بھی ہے اور اس میں کچھ تقدیم و تاخیر بھی ہے امام بخاری ؒ نے دوسری روایت اس لیے بیان فرمادی تاکہ معلوم ہو جائے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے درمیان مناظرے کی اصل صورت کیا تھی؟ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ جنبی کو تیمم کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ اس پر حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے پہلے تو حضرت عمار اور حضرت عمر ؓ کا قصہ پیش کیا حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے مناظرا نہ اصول کے مطابق اس کا جواب دیا کہ حضرت عمر ؓ نے حضرت عمار ؓ کو کہا تھا کہ تم اس معاملے میں اللہ سے ڈرو۔ مطلب یہ تھا کہ آپ جس واقعے کو بطور استدلال پیش کررہتے ہیں اس کا تو خود صاحب واقعہ منکر ہے، ایسے حالات میں وہ دلیل کے طور پر کیسے پیش کیا جا سکتا ہے؟ اس کے بعد حضرت ابو موسیٰ ؓ نے آیت تیمم بطور دلیل پیش کی تو حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ اس کا جواب نہ دے سکے، بلکہ اصل مصلحت سے پردہ اٹھانے پر مجبور ہو گئے کہ میرا انکار مصلحت شرعیہ کی وجہ سے ہے کہ اس جواز کی آڑ میں ہر شخص ذرا سی سردی میں بھی تیمم کرنے لگے گا جو شریعت کا منشا نہیں۔ اس مصلحت کے پیش نظر میں یہ فتوی نہیں دینا چاہتا۔ حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے جنبی کے تیمم کے متعلق اپنے اس فتوی سے رجوع فرمالیا تھا، جیسا کہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے، لیکن اس کی سند میں انقطاع ہے۔ (فتح الباري:593/1) 2۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے بطور دلیل جو آیت تیمم پیش فرمائی تھی اس میں ﴿ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ﴾ کے الفاظ ہیں اگر اس سے مراد جماع نہ ہوتا تو حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ بطور جواب کہہ سکتے تھے کہ تم جس آیت کو بطور استدلال پیش کررہے ہو۔ اس میں لمس سے مراد جماع نہیں بلکہ لمس بالید مراد ہے، یعنی یہاں تو جنابت کا قصہ ہی نہیں، بلکہ حدث اصغر کی بات ہو رہی ہے، لیکن حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے ایسا نہیں فرمایا، اس سے معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک بھی اس آیت کریمہ میں لمس سے مراد لمس بالید نہیں بلکہ جماع ہے۔ (إعلام الحدیث للخطابي:345/1)
ترجمۃ الباب:
حضرت عمرو بن العاص ؓ کے متعلق مروی ہے کہ انہیں سردی کی رات میں جنابت لاحق ہو گئی تو انہوں نے تیمم کیا اور یہ آیت پرھی: "اپنی جانوروں کو قتل نہ کرو، بلاشبہ اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ بہت مہربان ہے۔" جب نبی ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا گیا تو آپ نے انہیں کوئی سرزنش نہیں فرمائی۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے بشر بن خالد نے بیان کیا، کہا مجھ کو محمد نے خبر دی جو غندر کے نام سے مشہور ہیں، شعبہ کے واسطہ سے، وہ سلیمان سے نقل کرتے ہیں اور وہ ابووائل سے کہ ابوموسیٰ نے عبداللہ بن مسعود سے کہا کہ اگر ( غسل کی حاجت ہو اور ) پانی نہ ملے تو کیا نماز نہ پڑھی جائے۔ عبداللہ نے فرمایا ہاں! اگر مجھے ایک مہینہ تک بھی پانی نہ ملے تو میں نماز نہ پڑھوں گا۔ اگر اس میں لوگوں کو اجازت دے دی جائے تو سردی معلوم کر کے بھی لوگ تیمم سے نماز پڑھ لیں گے۔ ابوموسیٰ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ پھر حضرت عمر ؓ کے سامنے حضرت عمار ؓ کے قول کا کیا جواب ہو گا۔ بولے کہ مجھے تو نہیں معلوم ہے کہ عمر ؓ عمار ؓ کی بات سے مطمئن ہو گئے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Wail (RA): Abu Muisa said to'Abdullah bin Mas'ud (RA), "If one does not find water (for ablution) can he give up the prayer?" Abdullah replied, "If you give the permission to perform Tayammum they will perform Tayammum even if water was available if one of them found it cold." Abu Musa (RA) said, "What about the statement of 'Ammar to 'Umar?" 'Abdullah replied, "Umar was not satisfied by his statement."