باب: جب جنبی کو (غسل کی وجہ سے) مرض بڑھ جانے کا یا موت ہونے کا یا (پانی کے کم ہونے کی وجہ سے) پیاس کا ڈر ہو تو تیمم کر لے۔
)
Sahi-Bukhari:
Rubbing hands and feet with dust (Tayammum)
(Chapter: A Junub can perform Tayammum if he is afraid of disease, death or thirst)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
کہا جاتا ہے کہ حضرت عمرو بن عاص ؓ کو ایک جاڑے کی رات میں غسل کی حاجت ہوئی۔ تو آپ نے تیمم کر لیا اور یہ آیت تلاوت کی “ اپنی جانوں کو ہلاک نہ کرو، بے شک اللہ تعالیٰ تم پر بڑا مہربان ہے۔ ” پھر اس کا ذکر نبی کریمﷺ کی خدمت میں ہوا تو آپ ﷺنے ان کی کوئی ملامت نہیں فرمائی۔آیت کریمہ پھر صحابہ کرام کے عمل سے اسلام میں بڑی بڑی آسانیاں معلوم ہوتی ہیں۔ مگرصدافسوس کہ نام نہاد علماءوفقہاءنے دین کو ایک ہوابناکررکھ دیا ہے۔
346.
حضرت شقیق بن سلمہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اور حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کے پاس تھا جب حضرت ابوموسیٰ نے حضرت ابن مسعود سے کہا: اے ابوعبدالرحمٰن! آپ کی کیا رائے ہے، اگر کسی کو جنابت لاحق ہو جائے اور اسے پانی نہ ملے تو وہ کیا کرے؟ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے جواب دیا: جب تک پانی نہ ملے وہ نماز نہ پڑھے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے کہا: آپ حضرت عمار ؓ کے اس قول کی کیا تاویل کریں گے جب نبی ﷺ نے ان سے فرمایا تھا: ’’تمہیں (چہرے اور ہاتھوں کا مسح) کافی تھا‘‘ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے جواب دیا: کیا تم نہیں جانتے کہ حضرت عمر ؓ کو حضرت عمار ؓ کی اس روایت سے اطمینان نہیں ہوا تھا؟ حضرت ابوموسیٰ اشعری نے فرمایا: حضرت عمار ؓ کی روایت کو جانے دیجیے۔ قرآن مجید میں جو آیت تیمم ہے اس کا کیا جواب ہے؟ اس پر حضرت ابن مسعود ؓ لاجواب ہو گئے، فرمانے لگے: اگر ہم نے لوگوں کو اس کے متعلق رعایت دے دی تو عجب نہیں کہ جب کسی کو پانی ٹھنڈا محسوس ہو گا تو وہ اسے استعمال کرنے کے بجائے تیمم کر لیا کرے گا۔ (راوی حدیث حضرت اعمش کہتے ہیں: ) میں نے (اپنے شیخ ابووائل) شقیق بن سلمہ سے کہا: حضرت ابن مسعود ؓ اسی وجہ سے تیمم کی اجازت نہیں دیتے تھے؟ ابووائل نے جواب دیا: ہاں ایسا ہی ہے۔
تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح پانی نہ ملنے کی صورت میں وضو اور غسل کی جگہ تیمم کیا جا سکتا ہے اسی طرح اگر پانی صرف اتنا ہے جس سے پیاس بجھائی جا سکے تو ایسے حالات میں بھی تیمم کیا جا سکتا ہے اور اگر پانی زیادہ ہے جو وضو یا غسل کے لیے کافی ہو سکتا ہے، لیکن اس کے استعمال سے کسی بیماری یا موت کا اندیشہ ہو تو بھی تیمم کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس سلسلے میں آپ نے دو روایات پیش کی ہیں، پہلی روایات مختصر بھی ہے اور اس میں کچھ تقدیم و تاخیر بھی ہے امام بخاری ؒ نے دوسری روایت اس لیے بیان فرمادی تاکہ معلوم ہو جائے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے درمیان مناظرے کی اصل صورت کیا تھی؟ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ جنبی کو تیمم کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ اس پر حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے پہلے تو حضرت عمار اور حضرت عمر ؓ کا قصہ پیش کیا حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے مناظرا نہ اصول کے مطابق اس کا جواب دیا کہ حضرت عمر ؓ نے حضرت عمار ؓ کو کہا تھا کہ تم اس معاملے میں اللہ سے ڈرو۔ مطلب یہ تھا کہ آپ جس واقعے کو بطور استدلال پیش کررہتے ہیں اس کا تو خود صاحب واقعہ منکر ہے، ایسے حالات میں وہ دلیل کے طور پر کیسے پیش کیا جا سکتا ہے؟ اس کے بعد حضرت ابو موسیٰ ؓ نے آیت تیمم بطور دلیل پیش کی تو حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ اس کا جواب نہ دے سکے، بلکہ اصل مصلحت سے پردہ اٹھانے پر مجبور ہو گئے کہ میرا انکار مصلحت شرعیہ کی وجہ سے ہے کہ اس جواز کی آڑ میں ہر شخص ذرا سی سردی میں بھی تیمم کرنے لگے گا جو شریعت کا منشا نہیں۔ اس مصلحت کے پیش نظر میں یہ فتوی نہیں دینا چاہتا۔ حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے جنبی کے تیمم کے متعلق اپنے اس فتوی سے رجوع فرمالیا تھا، جیسا کہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے، لیکن اس کی سند میں انقطاع ہے۔ (فتح الباري:593/1) 2۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے بطور دلیل جو آیت تیمم پیش فرمائی تھی اس میں ﴿ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ﴾ کے الفاظ ہیں اگر اس سے مراد جماع نہ ہوتا تو حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ بطور جواب کہہ سکتے تھے کہ تم جس آیت کو بطور استدلال پیش کررہے ہو۔ اس میں لمس سے مراد جماع نہیں بلکہ لمس بالید مراد ہے، یعنی یہاں تو جنابت کا قصہ ہی نہیں، بلکہ حدث اصغر کی بات ہو رہی ہے، لیکن حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے ایسا نہیں فرمایا، اس سے معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک بھی اس آیت کریمہ میں لمس سے مراد لمس بالید نہیں بلکہ جماع ہے۔ (إعلام الحدیث للخطابي:345/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
344
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
346
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
346
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
346
تمہید کتاب
"یہ ذکر ہم نے آپ کی طرف اس لیے اتارا ہے تاکہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کر بیان کر دیں۔"( النحل16۔44۔) یہ وہی بیان ہے جس کی حفاظت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:(ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ)"پھر اس (قرآن )کا واضح کر دینا ہمارے ذمے ہے۔"( القیامۃ :75۔19۔) یعنی اس کے مشکل مقامات کی تشریح اور حلال و حرام کی توضیح بھی ہمارے ذمے ہے۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے مجملات کی جو تفصیل مبہمات کی توضیح اور اس کے عمومات کی جو تخصیص بیان کی ہے جسے حدیث کہا جا تا ہے یہ سب اللہ کی طرف سے ہے۔ اور اسے تسلیم کرنا گویا قرآن کریم کو ماننا ہے ۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس مبارک تصنیف میں اسی اصول کو پیش نظر رکھا ہے پہلے بنیادی ماخذ قرآنی آیت کاحوالہ دیا۔ پھر اس کی تشریح احادیث و آثار سے فرمائی۔آپ نے کتاب تیمم میں نو چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں دو باب بلا عنوان ہیں۔ باقی سات ابواب میں مندرجہ ذیل مسائل واحکام بیان کیے ہیں۔(فاقد الطهورين) کا کیا حکم ہے؟ جب نماز کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو اور پانی نہ ملے تو حضر میں بھی تیمم کیا جا سکتا ہے۔ تیمم کرنے والا خاک آلود ہاتھوں پر پھونک مار سکتا ہے تیمم چہرے اور ہاتھوں کے مسح سے مکمل ہو جاتا ہے جب پانی نہ ملے تو بندہ مسلم کے لیے پاک مٹی ہی وضو کے پانی کاکام دیتی ہے جب کسی کو پیاس لگی ہو اور وضو کرنے سے پانی ختم ہونے کا اندیشہ ہو یا جنبی آدمی کو پانی استعمال کرنے سے بیماری یا موت کا خطرہ ہو تو پانی کی موجودگی میں بھی تیمم کیا جا سکتا ہے تیمم کرتے وقت صرف ایک مرتبہ زمین پر ہاتھ مارنا کافی ہے۔ اسی طرح بیشتر متعارف و حقائق بیان کیے ہیں جن کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے تیمم سے متعلقہ احکام و مسائل ثابت کرنے کے لیے سترہ(17)مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں دس احادیث مقرر ہیں نیز دو معلق روایات بھی لائے ہیں غیر مقرر احادیث کی تعداد سات ہے جن میں ایک معلق ہے باقی موصول ہیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین کے دس آثار بھی پیش کیے ہیں جن میں تین موصول ہیں یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فتوی جات باسند بیان کیے ہیں۔معلق روایت یا اثر کا مطلب ہے اسے بے سند بیان یا نقل کرنا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ معلق روایات و آثار کی سند یں دیگر کتب احادیث میں موجود ہیں جن کی تفصیل حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اپنی شرح "فتح الباری"میں بیان کردیتے ہیں اس لیے صحیح بخاری میں بے سند (معلق)ہونے کا مطلب بے سروپا اور بے بنیاد ہونا نہیں بلکہ اختصار کے طور پر سند کا حذف کردینا ہے۔قارئین کرام :سے گزارش ہے کہ وہ ہماری پیش کردہ معروضات کو مدنظر رکھتے ہوئے کتاب تیمم کا مطالعہ فرمائیں اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ اور وہ ہمیں کتاب و سنت کے مطابق حیات مستعار کے چند دن گزار نے کی توفیق دے۔
تمہید باب
کچھ لوگ جنبی کے لیے تیمم کرنے کے متعلق یہ شرط لگاتے ہیں کہ اسے پانی کے استعمال سے موت یا کسی عضو تلف ہونے کا اندیشہ ہو یہ محض تشدد ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ جس طرح پیاس کا معاملہ متفقہ ہے، اسی طرح اگر جنبی کو یہ خطرہ ہو کہ پانی استعمال کرنے سے بیمار ہو جائے گا یا بیماری بڑھ جائے گی یا صحت یابی میں دیر ہو جائے گی تو وہ تیمم کر لے یعنی امام صاحب کے نزدیک موت پیاس اور بیماری تینوں صورتوں میں تیمم کی اجازت ہے۔اس سلسلے میں انھوں نے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک اجتہاد کا حوالہ دیا ہے جو انتہائی مختصر ہے تفصیل یہ ہے کہ غزوہ ذات السلالسل کے موقع پر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کونہانے کی ضرورت پیش آگئی لیکن سخت سردی تھی اس لیے انھوں نے تیمم کر کے اپنے رفقاء کو نماز پڑھا دی۔ لوگوں کو یہ بات ناگوار گزری کہ پانی کی موجودگی میں انھوں نے تیمم کیوں کیا؟ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں شکایت کی گئی تو آپ نے باز پرس فرمائی۔حضرت عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا عذر پیش کیا کہ سخت سردی تھی خطرہ تھا کہ نہانے سے موت واقع ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد تلاوت کیا کہ خود کو ہلاکت میں مت ڈالو، وہ تمھارے ساتھ بہت مہربان ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان سن کر تبسم فرمایا اور خاموش ہو گئے۔( فتح الباری:1/589۔)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی خاموشی سے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عمل کی توثیق کردی۔ اس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مدعا ثابت ہو گیا کہ اگر موت کا اندیشہ ہو تو جنبی آدمی کو تیمم کی اجازت ہے۔
کہا جاتا ہے کہ حضرت عمرو بن عاص ؓ کو ایک جاڑے کی رات میں غسل کی حاجت ہوئی۔ تو آپ نے تیمم کر لیا اور یہ آیت تلاوت کی “ اپنی جانوں کو ہلاک نہ کرو، بے شک اللہ تعالیٰ تم پر بڑا مہربان ہے۔ ” پھر اس کا ذکر نبی کریمﷺ کی خدمت میں ہوا تو آپ ﷺنے ان کی کوئی ملامت نہیں فرمائی۔آیت کریمہ پھر صحابہ کرام کے عمل سے اسلام میں بڑی بڑی آسانیاں معلوم ہوتی ہیں۔ مگرصدافسوس کہ نام نہاد علماءوفقہاءنے دین کو ایک ہوابناکررکھ دیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت شقیق بن سلمہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اور حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کے پاس تھا جب حضرت ابوموسیٰ نے حضرت ابن مسعود سے کہا: اے ابوعبدالرحمٰن! آپ کی کیا رائے ہے، اگر کسی کو جنابت لاحق ہو جائے اور اسے پانی نہ ملے تو وہ کیا کرے؟ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے جواب دیا: جب تک پانی نہ ملے وہ نماز نہ پڑھے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے کہا: آپ حضرت عمار ؓ کے اس قول کی کیا تاویل کریں گے جب نبی ﷺ نے ان سے فرمایا تھا: ’’تمہیں (چہرے اور ہاتھوں کا مسح) کافی تھا‘‘ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے جواب دیا: کیا تم نہیں جانتے کہ حضرت عمر ؓ کو حضرت عمار ؓ کی اس روایت سے اطمینان نہیں ہوا تھا؟ حضرت ابوموسیٰ اشعری نے فرمایا: حضرت عمار ؓ کی روایت کو جانے دیجیے۔ قرآن مجید میں جو آیت تیمم ہے اس کا کیا جواب ہے؟ اس پر حضرت ابن مسعود ؓ لاجواب ہو گئے، فرمانے لگے: اگر ہم نے لوگوں کو اس کے متعلق رعایت دے دی تو عجب نہیں کہ جب کسی کو پانی ٹھنڈا محسوس ہو گا تو وہ اسے استعمال کرنے کے بجائے تیمم کر لیا کرے گا۔ (راوی حدیث حضرت اعمش کہتے ہیں: ) میں نے (اپنے شیخ ابووائل) شقیق بن سلمہ سے کہا: حضرت ابن مسعود ؓ اسی وجہ سے تیمم کی اجازت نہیں دیتے تھے؟ ابووائل نے جواب دیا: ہاں ایسا ہی ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح پانی نہ ملنے کی صورت میں وضو اور غسل کی جگہ تیمم کیا جا سکتا ہے اسی طرح اگر پانی صرف اتنا ہے جس سے پیاس بجھائی جا سکے تو ایسے حالات میں بھی تیمم کیا جا سکتا ہے اور اگر پانی زیادہ ہے جو وضو یا غسل کے لیے کافی ہو سکتا ہے، لیکن اس کے استعمال سے کسی بیماری یا موت کا اندیشہ ہو تو بھی تیمم کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس سلسلے میں آپ نے دو روایات پیش کی ہیں، پہلی روایات مختصر بھی ہے اور اس میں کچھ تقدیم و تاخیر بھی ہے امام بخاری ؒ نے دوسری روایت اس لیے بیان فرمادی تاکہ معلوم ہو جائے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے درمیان مناظرے کی اصل صورت کیا تھی؟ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ جنبی کو تیمم کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ اس پر حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے پہلے تو حضرت عمار اور حضرت عمر ؓ کا قصہ پیش کیا حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے مناظرا نہ اصول کے مطابق اس کا جواب دیا کہ حضرت عمر ؓ نے حضرت عمار ؓ کو کہا تھا کہ تم اس معاملے میں اللہ سے ڈرو۔ مطلب یہ تھا کہ آپ جس واقعے کو بطور استدلال پیش کررہتے ہیں اس کا تو خود صاحب واقعہ منکر ہے، ایسے حالات میں وہ دلیل کے طور پر کیسے پیش کیا جا سکتا ہے؟ اس کے بعد حضرت ابو موسیٰ ؓ نے آیت تیمم بطور دلیل پیش کی تو حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ اس کا جواب نہ دے سکے، بلکہ اصل مصلحت سے پردہ اٹھانے پر مجبور ہو گئے کہ میرا انکار مصلحت شرعیہ کی وجہ سے ہے کہ اس جواز کی آڑ میں ہر شخص ذرا سی سردی میں بھی تیمم کرنے لگے گا جو شریعت کا منشا نہیں۔ اس مصلحت کے پیش نظر میں یہ فتوی نہیں دینا چاہتا۔ حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے جنبی کے تیمم کے متعلق اپنے اس فتوی سے رجوع فرمالیا تھا، جیسا کہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے، لیکن اس کی سند میں انقطاع ہے۔ (فتح الباري:593/1) 2۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے بطور دلیل جو آیت تیمم پیش فرمائی تھی اس میں ﴿ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ﴾ کے الفاظ ہیں اگر اس سے مراد جماع نہ ہوتا تو حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ بطور جواب کہہ سکتے تھے کہ تم جس آیت کو بطور استدلال پیش کررہے ہو۔ اس میں لمس سے مراد جماع نہیں بلکہ لمس بالید مراد ہے، یعنی یہاں تو جنابت کا قصہ ہی نہیں، بلکہ حدث اصغر کی بات ہو رہی ہے، لیکن حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے ایسا نہیں فرمایا، اس سے معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک بھی اس آیت کریمہ میں لمس سے مراد لمس بالید نہیں بلکہ جماع ہے۔ (إعلام الحدیث للخطابي:345/1)
ترجمۃ الباب:
حضرت عمرو بن العاص ؓ کے متعلق مروی ہے کہ انہیں سردی کی رات میں جنابت لاحق ہو گئی تو انہوں نے تیمم کیا اور یہ آیت پرھی: "اپنی جانوروں کو قتل نہ کرو، بلاشبہ اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ بہت مہربان ہے۔" جب نبی ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا گیا تو آپ نے انہیں کوئی سرزنش نہیں فرمائی۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا کہ کہا ہم سے میرے والد حفص بن غیاث نے، کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ میں نے شقیق بن سلمہ سے سنا، انھوں نے کہا کہ میں عبداللہ ( بن مسعود ) اور ابوموسیٰ اشعری کی خدمت میں تھا، ابوموسیٰ نے پوچھا کہ ابوعبدالرحمن! آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر کسی کو غسل کی حاجت ہو اور پانی نہ ملے تو وہ کیا کرے۔ عبداللہ نے فرمایا کہ اسے نماز نہ پڑھنی چاہیے۔ جب تک اسے پانی نہ مل جائے۔ ابوموسیٰ نے کہا کہ پھر عمار کی اس روایت کا کیا ہو گا جب کہ نبی کریم ﷺ نے ان سے کہا تھا کہ تمہیں صرف ( ہاتھ اور منہ کا تیمم ) کافی تھا۔ ابن مسعود نے فرمایا کہ تم عمر کو نہیں دیکھتے کہ وہ عمار کی اس بات پر مطمئن نہیں ہوئے تھے۔ پھر ابوموسیٰ نے کہا کہ اچھا عمار کی بات کو چھوڑو لیکن اس آیت کا کیا جواب دو گے ( جس میں جنابت میں تیمم کرنے کی واضح اجازت موجود ہے ) عبداللہ بن مسعود اس کا کوئی جواب نہ دے سکے۔ صرف یہ کہا کہ اگر ہم اس کی بھی لوگوں کو اجازت دے دیں تو ان کا حال یہ ہو جائے گا کہ اگر کسی کو پانی ٹھنڈا معلوم ہوا تو اسے چھوڑ دیا کرے گا۔ اور تیمم کر لیا کرے گا۔ ( اعمش کہتے ہیں کہ ) میں نے شقیق سے کہا کہ گویا عبداللہ نے اس وجہ سے یہ صورت ناپسند کی تھی۔ تو انھوں نے جواب دیا کہ ہاں۔
حدیث حاشیہ:
قرآنی آیت: ﴿أولامستم النساء﴾(المائدة: 6) سے صاف طور پر جنبی کے لیے تیمم کا ثبوت ملتا ہے، کیونکہ یہاں لمس سے جماع مراد ہے۔ عبداللہ بن مسعود ؓ یہ آیت سن کر کوئی جواب نہ دے سکے۔ ہاں ایک مصلحت کا ذکر فرمایا۔ مسندابن ابی شیبہ میں ہے کہ بعد میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے اپنے اس خیال سے رجوع فرمالیاتھا اور امام نووی ؒ نے کہا کہ حضرت عمر ؓ نے بھی اپنے قول سے رجوع فرمالیاتھا۔ امام نووی ؓ فرماتے ہیں کہ اس پر تمام امت کا اجماع ہے کہ جنبی اور حائضہ اور نفاس والی سب کے لیے تیمم درست ہے، جب وہ پانی نہ پائیں یا بیمارہوں کہ پانی کے استعمال سے بیماری بڑھنے کا خطرہ ہو یا وہ حالات سفر میں ہوں اور پانی نہ پائیں توتیمم کریں۔ حضر ت عمرؓ کو یہ عمار ؓ والا واقعہ یاد نہیں رہاتھا۔ حالانکہ وہ سفرمیں عمار کے ساتھ تھے۔ مگر ان کو شک رہا۔ مگرعمار کا بیان درست تھا، اس لیے ان کی روایت پر سارے علماء نے فتویٰ دیا کہ جنبی کے لیے تیمم جائز ہے۔ حضرت عمرؓ اور حضرت ابن مسعود ؓ کے خیالوں کو چھوڑدیاگیا۔ جب صحیح حدیث کے خلاف ایسے جلیل القدر صحابہ کرام کا قول چھوڑا جا سکتا ہے توامام یا مجتہد کا قول خلاف حدیث کیوں کر قابل تسلیم ہوگا۔ اسی لیے ہمارے امام اعظم ابوحنیفہ ؒ نے خود فرمادیاکہ ''إذا صح الحدیث فهومذهبي''’’صحیح حدیث ہی میرا مذہب ہے۔‘‘ پس میرا جو قول صحیح حدیث کے خلاف پاؤ اسے چھوڑدینا اور حدیث صحیح پر عمل کرنا۔ رحمه اللہ تعالیٰ، آمین!
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Shaqiq bin Salama (RA): I was with 'Abdullah and Abu Musa (RA); the latter asked the former, "O Abu AbdurRahman! What is your opinion if somebody becomes Junub and no water is available?" 'Abdullah replied, "Do not pray till water is found." Abu Musa (RA) said, "What do you say about the statement of 'Ammar (who was ordered by the Prophet (ﷺ) to perform Tayammum). The Prophet (ﷺ) said to him: "Perform Tayammum and that would be sufficient." 'Abdullah replied, "Don't you see that 'Umar was not satisfied by 'Ammar's statement?" Abu- Musa said, "All right, leave 'Ammalr's statement, but what will you say about this verse (of Tayammum)?" 'Abqiullah kept quiet and then said, "If we allowed it, then they would probably perform Tayammum even if water was available, if one of them found it (water) cold." The narrator added, "I said to Shaqrq, "Then did 'Abdullah dislike to perform Tayammum because of this?" He replied, "Yes."