Sahi-Bukhari:
Prophets
(Chapter: The tale of the Cave)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3465.
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم لوگوں سے پہلے کا واقعہ ہے کہ تین آدمی کہیں جا رہے تھے۔ اچانک انھیں بارش نے آلیا تو وہ ایک غار میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔ اس دوران میں ان پر غار کا منہ بند ہو گیا، تووہ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ اللہ کی قسم! ہمیں اس مصیبت سے صرف سچائی نجات دلائے گی۔ اب ہر شخص اپنے کسی ایسے عمل کو بیان کر کے دعا کرے جسے وہ جانتا ہو کہ اس میں وہ سچا ہے، چنانچہ ان میں سے ایک نے کہا: اے اللہ! تو خوب جانتا ہے کہ میں نے ایک مزدور رکھا تھا، جس نے ایک فَرَق (تین صاع) چاول کے عوض میرا کام کیا، وہ(غصے کی وجہ سے) چلا گیا اور اپنے چاول چھوڑگیا میں نے ان چاولوں کو کاشت کیا اور اس کی پیداوار سے گائے بیل خرید لیے۔ ایک دن وہی شخص میرے پاس آیا اور اپنی مزدوری طلب کی تو میں نے کہا: یہ گائے بیل تیرے ہیں، انھیں ہانک کر لے جاؤ۔ اس نے کہا کہ تمھارے پاس میری اجرت صرف ایک فرق (تین صاع)چاول ہیں۔ میں نے اسے کہا: یہ سب گائے بیل لے جاؤ کیونکہ یہ اسی ایک فَرَق (چاولوں)کی آمدنی ہے۔ آخر وہ گائے بیل لے کر چلا گیا۔ (اے اللہ!) اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ عمل تیرے ڈر سے کیا تھا تو ہم سے یہ پتھر ہٹا دے، چنانچہ اسی وقت وہ پتھر اپنی جگہ سے تھوڑا سا ہٹ گیا۔ پھر دوسرےشخص نے کہا: اے اللہ! تو جانتا ہے کہ میرے ماں باپ بوڑھے تھے۔ میں ہر رات ان کے لیے بکریاں کا دودھ لے کر جاتا تھا۔ ایک رات اتفاق سے مجھے دیر ہو گئی۔ جب میں آیا تو وہ سوچکے تھے۔ ادھرمیرے بیوی بچے بھوک کی وجہ سے بلبلا رہے تھے۔ اور میری عادت تھی کہ میں جب تک والدین کو دودھ نہ پلا لیتا، بیوی بچوں کو نہیں دیتا تھا۔ اب انھیں بیدار کرنا بھی مجھے گوارا نہ تھا اور انھیں اسی طرح چھوڑدینا بھی مجھے پسند نہ تھا کہ وہ دونوں دودھ نہ پینے کی وجہ سے کم زور ہو جاتے، اس لیے میں ان کے بیدار ہونے کا انتظار کرتا رہا یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ کام تیرے خوف کی وجہ سے کیا تھا تو ہماری مشکل دور کردے، چنانچہ اسی وقت پتھر کچھ مزید ہٹ گیا، جس سے انھیں آسمان نظر آنے لگا۔ پھر تیسرے شخص نے کہا: اے اللہ! تو جانتا ہے کہ میری ایک چچا زاد تھی جو مجھے سب سے زیادہ محبوب تھی۔ میں نے ایک دفعہ اس سے اپنی خواہش کو پورا کرنا چاہا مگر اس نے انکار کردیا لیکن اس شرط پر کہ میں اسے سو دینار دوں۔ میں نے مطلوبہ رقم حاصل کرنے کے لیے کو شش کی تو وہ مجھے مل گئی، چنانچہ میں اس کے پاس آیا اور وہ رقم اس کے حوالے کردی۔ اس نے خود کو میرے حوالے کردیا۔ جب میں اس کی دونوں رانوں کے درمیان بیٹھ گیا تو کہنے لگی: اللہ سے ڈر اور اس مہر کو ناحق نہ توڑ۔ میں یہ سنتے ہی اٹھ کھڑا ہوا اور سو دینار بھی واپس نہ لیے۔ اے اللہ! اگر توجانتا ہے کہ میں نے یہ کام تیرے خوف کی وجہ سے کیا تھا تو ہماری مشکل آسان کردے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان سے پتھر ہٹا دیا، اس طرح وہ تینوں باہر نکل آئے۔‘‘
تشریح:
1۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دعا کرتے وقت اپنے نیک اعمال کو بطور وسیلہ پیش کرنا جائز ہے لیکن فوت شدہ کسی بزرگ کا وسیلہ دینا جائز نہیں کتاب وسنت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ ہاں کسی زندہ بزرگ انسان سے دعا کرائی جا سکتی ہے۔ 2۔ حدیث میں مذکورہ تینوں اشخاص اسباب و ذرائع کی موجودگی میں محض اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے بدکاری سے باز رہا وہ قرآن کی نص کے مطابق اہل جنت سے ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا اور بری خواہشات سے خود کو روک لیا تو اس کا ٹھکانا جنت ہے۔(النازعات:40-41)دوسرا اس نے صلہ رحمی کی، احادیث میں اس عمل کی بہت فضیلت آئی ہےتیسرا یہ کہ اس نے ایک حاجت مند کی ضرورت کو پورا کیا۔ ان تینوں اعمال کی برکت سے پتھراپنی جگہ سے ہٹ گیا اور وہ بخیروعافیت باہر آگئے نیز مصیبت کے وقت دعا کرنا۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا۔ ان کی خدمت بجالانا اور حرام کاری سے بچنا بہترین عمل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے اعمال اختیار کرنے کی توفیق دے۔ آمین۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3332
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3465
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3465
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3465
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اصحاب کہف کے بعد حدیث غار کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ اس غار میں درج ذیل واقعہ پیش آیا جنھیں ان کے مخلصانہ اعمال اور اخلاص بھری دعاؤں کے نتیجے میں اس مصیبت سے نجات ملی۔واللہ اعلم۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم لوگوں سے پہلے کا واقعہ ہے کہ تین آدمی کہیں جا رہے تھے۔ اچانک انھیں بارش نے آلیا تو وہ ایک غار میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔ اس دوران میں ان پر غار کا منہ بند ہو گیا، تووہ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ اللہ کی قسم! ہمیں اس مصیبت سے صرف سچائی نجات دلائے گی۔ اب ہر شخص اپنے کسی ایسے عمل کو بیان کر کے دعا کرے جسے وہ جانتا ہو کہ اس میں وہ سچا ہے، چنانچہ ان میں سے ایک نے کہا: اے اللہ! تو خوب جانتا ہے کہ میں نے ایک مزدور رکھا تھا، جس نے ایک فَرَق (تین صاع) چاول کے عوض میرا کام کیا، وہ(غصے کی وجہ سے) چلا گیا اور اپنے چاول چھوڑگیا میں نے ان چاولوں کو کاشت کیا اور اس کی پیداوار سے گائے بیل خرید لیے۔ ایک دن وہی شخص میرے پاس آیا اور اپنی مزدوری طلب کی تو میں نے کہا: یہ گائے بیل تیرے ہیں، انھیں ہانک کر لے جاؤ۔ اس نے کہا کہ تمھارے پاس میری اجرت صرف ایک فرق (تین صاع)چاول ہیں۔ میں نے اسے کہا: یہ سب گائے بیل لے جاؤ کیونکہ یہ اسی ایک فَرَق (چاولوں)کی آمدنی ہے۔ آخر وہ گائے بیل لے کر چلا گیا۔ (اے اللہ!) اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ عمل تیرے ڈر سے کیا تھا تو ہم سے یہ پتھر ہٹا دے، چنانچہ اسی وقت وہ پتھر اپنی جگہ سے تھوڑا سا ہٹ گیا۔ پھر دوسرےشخص نے کہا: اے اللہ! تو جانتا ہے کہ میرے ماں باپ بوڑھے تھے۔ میں ہر رات ان کے لیے بکریاں کا دودھ لے کر جاتا تھا۔ ایک رات اتفاق سے مجھے دیر ہو گئی۔ جب میں آیا تو وہ سوچکے تھے۔ ادھرمیرے بیوی بچے بھوک کی وجہ سے بلبلا رہے تھے۔ اور میری عادت تھی کہ میں جب تک والدین کو دودھ نہ پلا لیتا، بیوی بچوں کو نہیں دیتا تھا۔ اب انھیں بیدار کرنا بھی مجھے گوارا نہ تھا اور انھیں اسی طرح چھوڑدینا بھی مجھے پسند نہ تھا کہ وہ دونوں دودھ نہ پینے کی وجہ سے کم زور ہو جاتے، اس لیے میں ان کے بیدار ہونے کا انتظار کرتا رہا یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ کام تیرے خوف کی وجہ سے کیا تھا تو ہماری مشکل دور کردے، چنانچہ اسی وقت پتھر کچھ مزید ہٹ گیا، جس سے انھیں آسمان نظر آنے لگا۔ پھر تیسرے شخص نے کہا: اے اللہ! تو جانتا ہے کہ میری ایک چچا زاد تھی جو مجھے سب سے زیادہ محبوب تھی۔ میں نے ایک دفعہ اس سے اپنی خواہش کو پورا کرنا چاہا مگر اس نے انکار کردیا لیکن اس شرط پر کہ میں اسے سو دینار دوں۔ میں نے مطلوبہ رقم حاصل کرنے کے لیے کو شش کی تو وہ مجھے مل گئی، چنانچہ میں اس کے پاس آیا اور وہ رقم اس کے حوالے کردی۔ اس نے خود کو میرے حوالے کردیا۔ جب میں اس کی دونوں رانوں کے درمیان بیٹھ گیا تو کہنے لگی: اللہ سے ڈر اور اس مہر کو ناحق نہ توڑ۔ میں یہ سنتے ہی اٹھ کھڑا ہوا اور سو دینار بھی واپس نہ لیے۔ اے اللہ! اگر توجانتا ہے کہ میں نے یہ کام تیرے خوف کی وجہ سے کیا تھا تو ہماری مشکل آسان کردے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان سے پتھر ہٹا دیا، اس طرح وہ تینوں باہر نکل آئے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دعا کرتے وقت اپنے نیک اعمال کو بطور وسیلہ پیش کرنا جائز ہے لیکن فوت شدہ کسی بزرگ کا وسیلہ دینا جائز نہیں کتاب وسنت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ ہاں کسی زندہ بزرگ انسان سے دعا کرائی جا سکتی ہے۔ 2۔ حدیث میں مذکورہ تینوں اشخاص اسباب و ذرائع کی موجودگی میں محض اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے بدکاری سے باز رہا وہ قرآن کی نص کے مطابق اہل جنت سے ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا اور بری خواہشات سے خود کو روک لیا تو اس کا ٹھکانا جنت ہے۔(النازعات:40-41)دوسرا اس نے صلہ رحمی کی، احادیث میں اس عمل کی بہت فضیلت آئی ہےتیسرا یہ کہ اس نے ایک حاجت مند کی ضرورت کو پورا کیا۔ ان تینوں اعمال کی برکت سے پتھراپنی جگہ سے ہٹ گیا اور وہ بخیروعافیت باہر آگئے نیز مصیبت کے وقت دعا کرنا۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا۔ ان کی خدمت بجالانا اور حرام کاری سے بچنا بہترین عمل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے اعمال اختیار کرنے کی توفیق دے۔ آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن خلیل نےبیان کیا، کہا ہم کوعلی بن مسہر نےخبردی، انہیں عبیداللہ بن عمر نے، انہیں نافع نے اور انہیں ابن عمر ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا پچھلے زمانے میں (بنی اسرائیل میں سے) تین آدمی کہیں راستے میں جارہےتھے کہ اچانک بارش نے انہیں آلیا۔ وہ تینوں پہاڑ کےایک کھوہ (غار) میں گھس گئے (جب وہ اندر چلے گئے) توغار کامنہ بند ہوگیا۔ اب تینوں آپس میں یوں کہنے لگے کہ اللہ کی قسم ہمیں اس مصیبت سےاب توصرف سچائی ہی نجات دلائے گی۔ بہتر یہ ہے کہ اب ہر شخص اپنے کسی ایسے عمل کو بیان کرکے دعا کرے جس کے بارے میں اسے یقین ہوکہ وہ خالص اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کےلیے کیا تھا۔ چنانچہ ایک نےاس طرح دعا کی، اے اللہ! تجھ کوخوب معلوم ہےکہ میں نےایک مزدور رکھا تھاجس نےایک فرق (تین صاع) چاول کی مزدوری پرمیرا کام کیا تھا لیکن وہ شخص (غصہ میں آکر) چلا گیا اوراپنے چاول چھوڑ گیا۔ پھر میں نے اس ایک فرق چاول کولیا اور اس کی کاشت کی۔ اس سے اتنا کچھ ہوگیا کہ میں نے پیداوار میں سے گائے بیل خریدلیے۔ اس کےبہت دن بعد وہی شخص مجھ سے اپنی مزدوری مانگنے آیا۔ میں نے کہا کہ یہ گائے بیل کھڑے ہیں، ان کو لے جا۔ اس نے کہا کہ میرا توصرف ایک فرق چاول تم پر ہوناچاہیے تھا۔ میں نے اس سے کہا یہ سب گائے بیل لےجا کیونکہ اسی ایک فرق کی آمدنی ہے۔ آخروہ گائے بیل لے کر چلا گیا۔ پس اے اللہ! اگر توجانتا ہے کہ یہ ایمانداری میں نے صرف تیرے ڈرسے کی تھی تو تو غار کامنہ کھول دے۔ چنانچہ اسی وقت وہ پتھر کچھ ہٹ گیا۔ پھر دوسرے نےاس طرح دعا کی۔ اے اللہ! تجھے خوب معلوم ہےکہ میرے ماں باپ جب بوڑھے ہوگئے تومیں ان کی خدمت میں روزانہ رات میں بکریوں کا دودھ لاکر پلایا کرتا تھا۔ ایک دن اتفاق سےمیں دیر سے آیا تووہ سوچکے تھے۔ ادھر میرے بیوی اوربچے بھوک سے بلبلارہے تھے لیکن میری عادت تھی کہ جب تک والدین کودودھ نہ پلا لوں لو، بیوی بچوں کونہیں دیتا تھامجھے انہیں بیدار کرنابھی پسند نہیں تھا اورچھوڑنا بھی پسند نہ تھا (کیونکہ یہی ان کا شام کا کھنا تھا اور اس کےنہ پینے سےوہ کمزور ہوجاتے) پس میں ان کا وہیں انتظار کرتا رہا یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔ پس اگر تیرے علم میں بھی میں نےیہ کام تیرے خوف کی وجہ سےکیا تھا تو توہماری مشکل دور کردے۔ اس وقت وہ پتھر کچھ اورہٹ گیا اور اب آسمان نظر آنے لگا۔ پھر تیسرے شخص نے یوں دعا کی، میری ایک چچا ذاد بہن تھی جومجھے سب سے زیادہ محبوب تھی۔ میں نےایک بار اس سے صحبت کرنی چاہی، اس نے انکار کیامگر اس شرط پر تیار ہوئی کہ میں اسے سو اشرفی لا کر دے دوں۔ میں نے یہ رقم حاصل کرنے کےلیے کوشش کی۔ آخر وہ مجھے مل گئی تو میں اس کےپاس آیا او ر وہ رقم اس کےحوالے کردی۔ اس نے مجھے اپنے نفس پرقدرت دے دی۔ جب میں اس کےدونوں پاؤں کےدرمیان بیٹھ چکا تواس نےکہا کہ اللہ سےڈر اورمہر کوبغیر حق کےنہ توڑ۔ میں (یہ سنتے ہیں) میں نے یہ عمل تیرے خوف کی وجہ سے کیا تھا تو تو ہماری مشکل آسان کردے۔ اللہ تعالیٰ نےان کی مشکل دور کردی اور وہ تینوں باہر نکل آئے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کے ذیل میں حافظ ابن حجر فرماتےہیں: وَفِيهِ فَضْلُ الْإِخْلَاصِ فِي الْعَمَلِ وَفَضْلُ بِرِّ الْوَالِدَيْنِ وَخِدْمَتِهِمَا وَإِيثَارِهِمَا عَلَى الْوَلَدِ وَالْأَهْلِ وَتَحَمُّلِ الْمَشَقَّةِ لِأَجْلِهِمَا وَقَدِ اسْتُشْكِلَ تَرْكُهُ أَوْلَادَهُ الصِّغَارَ يَبْكُونَ مِنَ الْجُوعِ طُولَ لَيْلَتِهِمَا مَعَ قُدْرَتِهِ عَلَى تَسْكِينِ جُوعِهِمْ فَقِيلَ كَانَ فِي شَرْعِهِمْ تَقْدِيمُ نَفَقَةِ الْأَصْلِ عَلَى غَيْرِهِمْ وَقِيلَ يَحْتَمِلُ أَنَّ بُكَاءَهُمْ لَيْسَ عَنِ الْجُوعِ وَقَدْ تَقَدَّمَ مَا يَرُدُّهُ وَقِيلَ لَعَلَّهُمْ كَانُوا يَطْلُبُونَ زِيَادَةً عَلَى سَدِّ الرَّمَقِ وَهَذَا أَوْلَى وَفِيهِ فَضْلُ الْعِفَّةِ وَالِانْكِفَافِ عَنِ الْحَرَامِ مَعَ الْقُدْرَةِ وَأَنَّ تَرْكَ الْمَعْصِيَةِ يَمْحُو مُقَدِّمَاتِ طَلَبِهَا وَأَنَّ التَّوْبَةَ تَجُبُّ مَا قَبْلَهَا وَفِيهِ جَوَازُ الْإِجَارَةِ بِالطَّعَامِ الْمَعْلُومِ بَيْنَ الْمُتَآجِرَيْنِ وَفَضْلُ أَدَاءِ الْأَمَانَةِ وَإِثْبَاتُ الْكَرَامَةِ لِلصَّالِحِينَ(فتح الباري)یعنی اس حدیث سےعمل میں اخلاص کی فضیلت ثابت ہوئی اورماں باپ کےساتھ نیک سلوک کی اوریہ کہ ماں باپ کی رضا جوئی کےلیے ہرممکن مشقت کوبرداشت کرنا اولاد کافرض ہے۔اس شخص نےاپنے بچوں کورونے ہی دیا اوران کودودھ نہیں پلایا ، اس کی کئی وجوہات بیان کی گئی ہیں۔کہا گیا ہےکہ ان کی شریعت کاحکم ہی یہ تھاکہ خرچ ماں باپ کودوسروں پر مقدم رکھا جائے ۔ یہ بھی احتمال ہے کہ ان بچوں کودودھ تھوڑا ہی پلایا گیا اس لیے وہ روتے رہے ، اوراس حدیث سےپاکبازی کی بھی فضیلت ثابت ہوگئی اوریہ بھی معلوم ہوا کہ توبہ کرنے سے پہلی غلطیاں بھی معاف ہوجاتی ہیں اور اس سے یہ بھی جواز نکلا کہ مزدور کوطعام کی اجرت پربھی مزدور رکھاجاسکتا ہےاورامانت کی ادائیگی کی بھی فضیلت ثابت ہوئی او رصالحین کی کرامتوں کا بھی اثبات ہوا کہ اللہ پاک نےان صالح بندوں کی دعاؤں کےنتیجہ میں اس پتھر کوچٹان کےمنہ سےہٹا دیااور یہ لوگ وہاں سے نجات پاگئے۔رحمہم اللہ اجمعین۔ نیز حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ امام بخاری نے واقعہ اصحاب کہف کےبعد حدیث غاز کا ذکر فرمایا جس میں اشارہ ہےکہ آیت قرآنی ﴿ أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنْ آيَاتِنَا عَجَبًا﴾(الکهف:9) رقیم سےیہی غار والے مراد ہیں جیسا کہ طبرانی اور بزار نےسندحسن کےساتھ نعمان بن بشیر ؓ سےروایت کیا ہے کہ انہوں نے رسول کریم ﷺ نےسنا۔رقیم کاذکر فرماتےہوئے آپ نےان تینوں شخصوں کا ذکر فرمانا جو ایک غا رمیں پناہ گزیں ہوگئے تھے اور جن پرپتھر کی چٹان گرگئی تھی اور اس غار کامنہ کردیا تھا۔ تینوں میں مزدوری پر زراعت کاکام کرانے والے کا ذکر ہے۔ امام احمد کی روایت میں اس کاقصہ یوں مذکورہےکہ میں نے کئی مزدور ا س کی مزدوری ٹھہرا کر کام پرلگائے۔ ایک شخص دوپہر کو آیا میں نے اس کوآدھی مزدوری پر رکھا لیکن اس نے اتنا کام کیا جتنا اوروں نےسارے دن میں کیا تھا میں نے کہا کہ میں اس کوبھی سارے دن کی مزدوری دوں گا۔ اس پر پہلے مزدوروں میں سے ایک شخص غصے میں ہوا۔ میں نے کہا بھائی تجھے کیا مطلب ہے۔ تواپنی مزدوری پوری لےلے۔ اس نے غصے میں اپنی مزدوری بھی نہ لی اور چل دیا۔ پھر آگے وہ ہوا جو روایت میں مذکور ہے۔ قسطلانی ﷺنے کہا کہ ان تینوں میں افضل تیسرا شخص تھا۔ امام غزالی نےکہا شہوت آدمی پربہت غلبہ کرتی ہےاور جوشخص سب سامان ہوتے ہوئے محض خوف خدا سے بدکار ی سے باز رہ گیا اس کا درجہ صدیقین میں ہوتا ہے۔ اللہ پاک نےحضرت یوسف کوصدیق اسی لیے فرمایا کہ انہوں نے زلیخا کےاصرار پربھی برا کام کرنامنظور نہیں کیا اوردنیا کی سخت تکلیف برداشت کی۔ایسا شخص بموجب نص قرآنی جنتی ہےجیسا کہ ارشاد ہے۔(وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى (40) فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى) الخ (المائده 35) جوشخص اپنے رب کےسامنے کھڑا ہونے سےڈر گیا اور اپنے نفس کو خواہشات حرام سےر وک لیا تو جنت اس کا ٹھکانا ہے۔ جعلنا اللہ منهم آمین- اس حدیث سےیہ بھی معلوم ہو ا کہ وسیلہ کےلیے اعمال صالحہ کوپیش کرناجائز طریقہ ہے اور دعاؤں میں بطور وسیلہ وفات شدہ بزرگوں کانام لینا یہ درست نہیں ہے۔ اگر درست ہوتا تو یہ غار والے اپنے انبیاء اولیاء کے ناموں سےدعا کرتےمگر انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ اعمال صالحہ کوہی وسیلہ میں پیش کیا۔ اس واقعہ سےنصیحت حاصل کرتے ہوئے ان لوگوں کوجو اپنی دعاؤں میں اپنے ولیوں، پیروں اور بزرگوں کا وسیلہ ڈھونڈتے ہیں غور کرنا چاہیے وہ ایسا عمل کررہےہیں جس کا کوئی ثبوت کتاب وسنت اور بزرگان اسلام سےنہیں ہے۔آیت شریفہ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾(المائدہ:35) میں بھی وسیلہ سےاعمال صالحہ ہی مراد ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "Once three persons (from the previous nations) were traveling, and suddenly it started raining and they took shelter in a cave. The entrance of the cave got closed while they were inside. They said to each other, 'O you! Nothing can save you except the truth, so each of you should ask Allah's Help by referring to such a deed as he thinks he did sincerely (i.e. just for gaining Allah's Pleasure).' So one of them said, 'O Allah! You know that I had a laborer who worked for me for one Faraq (i.e. three Sas) of rice, but he departed, leaving it (i.e. his wages). I sowed that Faraq of rice and with its yield I bought cows (for him). Later on when he came to me asking for his wages, I said (to him), 'Go to those cows and drive them away.' He said to me, 'But you have to pay me only a Faraq of rice,' I said to him, 'Go to those cows and take them, for they are the product of that Faraq (of rice).' So he drove them. O Allah! If you consider that I did that for fear of You, then please remove the rock.' The rock shifted a bit from the mouth of the cave. The second one said, 'O Allah, You know that I had old parents whom I used to provide with the milk of my sheep every night. One night I was delayed and when I came, they had slept, while my wife and children were crying with hunger. I used not to let them (i.e. my family) drink unless my parents had drunk first. So I disliked to wake them up and also disliked that they should sleep without drinking it, I kept on waiting (for them to wake) till it dawned. O Allah! If You consider that I did that for fear of you, then please remove the rock.' So the rock shifted and they could see the sky through it. The (third) one said, 'O Allah! You know that I had a cousin (i.e. my paternal uncle's daughter) who was most beloved to me and I sought to seduce her, but she refused, unless I paid her one-hundred Dinars (i.e. gold pieces). So I collected the amount and brought it to her, and she allowed me to sleep with her. But when I sat between her legs, she said, 'Be afraid of Allah, and do not deflower me but legally. 'I got up and left the hundred Dinars (for her). O Allah! If You consider that I did that for fear of you than please remove the rock. So Allah saved them and they came out (of the cave)." (This Hadith indicates that one can only ask Allah for help directly or through his performed good deeds. But to ask Allah through dead or absent prophets, saints, spirits, holy men, angels etc. is absolutely forbidden in Islam and it is a kind of disbelief.)