Sahi-Bukhari:
Rubbing hands and feet with dust (Tayammum)
(Chapter:)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
348.
حضرت عمران بن حصین خزاعی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا جو الگ کھڑا تھا اور اس نے لوگوں کے ساتھ نماز نہیں پڑھی تھی۔ آپ نے فرمایا: ’’اے فلاں! تجھے لوگوں کے ساتھ نماز ادا کرنے میں کون سا عذر مانع تھا؟‘‘ اس نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے جنابت لاحق ہو گئی ہے اور میرے پاس پانی نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تو مٹی استعمال کر لیتا، وہ تیری ضرورت کے لیے کافی تھی۔‘‘
تشریح:
1۔ صحیح بخاری ؒ کے متعدد نسخوں میں یہاں لفظ باب نہیں ہے۔ چنانچہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ لکھتے ہیں کہ اکثر صحیح نسخوں میں لفظ باب نہیں ہے اور ایسا ہی صحیح معلوم ہو تا ہے، اس بنا پر حدیث کی مناسبت باب سابق سے بایں طور ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کے حق میں فرمایا کہ تو مٹی کو استعمال کر لیتا وہ تیرے لیے کافی تھی۔ جس طرح یہ جملہ مٹی کی تمام انواع کے لیے عام ہے، اسی طرح اس کا عموم تیمم کی کیفیت کے لحاظ سے بھی ہے کہ وہ ایک ضرب کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے اور دو کے ساتھ بھی (شرح تراجم بخاري) لیکن یہ توجیہ امام بخاری ؒ کے عنوان کے خلاف ہے، حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں کہ اگر اسے باب سابق کا تتمہ خیال کیا جائے تو وہ بایں طورہے کہ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے اسے مطلق طور پر مٹی استعمال کرنے کے متعلق فرمایا ہے اور مطلق کا کم ازکم فرد کامل ایک ہوتا ہے، اس سے امام بخاری نے اپنا مدعا ثابت کیا ہے۔ (فتح الباری:593/1) 2۔ امام بخاری ؒ کا باب بلا عنوان کئی ایک اغراض کے پیش نظر ہوتا ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسے پہلے عنوان ہی کی فصل شمار کہا جائے۔ چنانچہ حدیث مذکور میں کسی عدد کا ذکر نہیں ہے، اس لیے ایک بار ہاتھ مار کر مسح کر لینا بھی کافی ہے۔وھوالمقصود باب بلا عنوان کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ اس سے طلباء کا امتحان اور تشخید اذہان (ذہنی آزمائش ) مراد ہو، یعنی قارئین خود اس حدیث پر کوئی عنوان قائم کریں، چنانچہ اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا جا سکتا ہے: (باب الجنب إذا لم يجد الماء تيمم وصلى) یعنی جنبی آدمی کو اگر پانی نہ ملے تو وہ تیمم کرے اور نماز پڑھے۔ 3۔ بعض شارحین نے اس مقام پر ایک عجیب نکتہ بیان کیا ہے، وہ اس طرح کہ امام بخاری ؒ اس حدیث سے ایک اشکال کا جواب دینا چاہتے ہیں، اشکال یہ ہے کہ اگر حضرت عمار ؓ کو آیت تیمم معلوم تھی تو وہ زمین پر لوٹ پوٹ کیوں ہوئے اور اگر معلوم نہ تھی تو انھیں کیسے معلوم ہوا کہ مٹی پانی کے قائم مقام ہے؟ امام بخاریؒ نے اس کا جواب اس طرح دیا کہ حضرت عمار نے رسول اللہ ﷺ سے صرف (عَلَيْكَ بِالصَّعِيدِ) سن رکھا تھا کہ:’’ تجھے مٹی استعمال کرنی چاہیے۔‘‘ اس بنا پر انھوں نے اس کے عموم کو دیکھتے ہوئے تیمم کو غسل پر قیاس کیا اور زمین پر لوٹ پوٹ ہوئے رسول اللہ ﷺ نے ان کی اصلاح فرما دی۔ 4۔حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں امام بخاری ؒ ہر کتاب کے آخر میں کوئی ایسی روایت لاتے ہیں جس کے کسی لفظ سے انتہائے کتاب کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ چنانچہ یہاں لفظ (يَكْفِيكَ) ہے، یعنی تیمم کے متعلق تجھے اتنا ہی کافی ہے۔ (فتح الباری:593/1) 5۔ واعظین حضرات کا کہنا ہے کہ امام بخاریؒ کتاب کے آخر میں کوئی ایسا لفظ لاتے ہیں جس سے انسان کے خاتمے اور فکر آخرت کی طرف واضح اشارہ ہوتا ہے۔ اس مقام پر بھی امام بخاری نے(عَلَيْكَ بِالصَّعِيدِ) کے لفظ سے موت یاد دلائی ہے، یعنی خود پر مٹی کو لازم کر لو۔ اس سے قبر کی طرف بھی اشارہ ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَىٰ﴾’’اسی سے ہم نے تمھیں پیدا کیا اور اسی میں تمھیں لوٹائیں گے اور اسی سے تمھیں دوبارہ نکالیں گے۔‘‘(طٰہ:20۔55)واللہ أعلم وعلمه أتم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
346
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
348
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
348
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
348
تمہید کتاب
"یہ ذکر ہم نے آپ کی طرف اس لیے اتارا ہے تاکہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کر بیان کر دیں۔"( النحل16۔44۔) یہ وہی بیان ہے جس کی حفاظت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:(ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ)"پھر اس (قرآن )کا واضح کر دینا ہمارے ذمے ہے۔"( القیامۃ :75۔19۔) یعنی اس کے مشکل مقامات کی تشریح اور حلال و حرام کی توضیح بھی ہمارے ذمے ہے۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے مجملات کی جو تفصیل مبہمات کی توضیح اور اس کے عمومات کی جو تخصیص بیان کی ہے جسے حدیث کہا جا تا ہے یہ سب اللہ کی طرف سے ہے۔ اور اسے تسلیم کرنا گویا قرآن کریم کو ماننا ہے ۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس مبارک تصنیف میں اسی اصول کو پیش نظر رکھا ہے پہلے بنیادی ماخذ قرآنی آیت کاحوالہ دیا۔ پھر اس کی تشریح احادیث و آثار سے فرمائی۔آپ نے کتاب تیمم میں نو چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں دو باب بلا عنوان ہیں۔ باقی سات ابواب میں مندرجہ ذیل مسائل واحکام بیان کیے ہیں۔(فاقد الطهورين) کا کیا حکم ہے؟ جب نماز کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو اور پانی نہ ملے تو حضر میں بھی تیمم کیا جا سکتا ہے۔ تیمم کرنے والا خاک آلود ہاتھوں پر پھونک مار سکتا ہے تیمم چہرے اور ہاتھوں کے مسح سے مکمل ہو جاتا ہے جب پانی نہ ملے تو بندہ مسلم کے لیے پاک مٹی ہی وضو کے پانی کاکام دیتی ہے جب کسی کو پیاس لگی ہو اور وضو کرنے سے پانی ختم ہونے کا اندیشہ ہو یا جنبی آدمی کو پانی استعمال کرنے سے بیماری یا موت کا خطرہ ہو تو پانی کی موجودگی میں بھی تیمم کیا جا سکتا ہے تیمم کرتے وقت صرف ایک مرتبہ زمین پر ہاتھ مارنا کافی ہے۔ اسی طرح بیشتر متعارف و حقائق بیان کیے ہیں جن کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے تیمم سے متعلقہ احکام و مسائل ثابت کرنے کے لیے سترہ(17)مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں دس احادیث مقرر ہیں نیز دو معلق روایات بھی لائے ہیں غیر مقرر احادیث کی تعداد سات ہے جن میں ایک معلق ہے باقی موصول ہیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین کے دس آثار بھی پیش کیے ہیں جن میں تین موصول ہیں یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فتوی جات باسند بیان کیے ہیں۔معلق روایت یا اثر کا مطلب ہے اسے بے سند بیان یا نقل کرنا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ معلق روایات و آثار کی سند یں دیگر کتب احادیث میں موجود ہیں جن کی تفصیل حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اپنی شرح "فتح الباری"میں بیان کردیتے ہیں اس لیے صحیح بخاری میں بے سند (معلق)ہونے کا مطلب بے سروپا اور بے بنیاد ہونا نہیں بلکہ اختصار کے طور پر سند کا حذف کردینا ہے۔قارئین کرام :سے گزارش ہے کہ وہ ہماری پیش کردہ معروضات کو مدنظر رکھتے ہوئے کتاب تیمم کا مطالعہ فرمائیں اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ اور وہ ہمیں کتاب و سنت کے مطابق حیات مستعار کے چند دن گزار نے کی توفیق دے۔
حضرت عمران بن حصین خزاعی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا جو الگ کھڑا تھا اور اس نے لوگوں کے ساتھ نماز نہیں پڑھی تھی۔ آپ نے فرمایا: ’’اے فلاں! تجھے لوگوں کے ساتھ نماز ادا کرنے میں کون سا عذر مانع تھا؟‘‘ اس نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے جنابت لاحق ہو گئی ہے اور میرے پاس پانی نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تو مٹی استعمال کر لیتا، وہ تیری ضرورت کے لیے کافی تھی۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ صحیح بخاری ؒ کے متعدد نسخوں میں یہاں لفظ باب نہیں ہے۔ چنانچہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ لکھتے ہیں کہ اکثر صحیح نسخوں میں لفظ باب نہیں ہے اور ایسا ہی صحیح معلوم ہو تا ہے، اس بنا پر حدیث کی مناسبت باب سابق سے بایں طور ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کے حق میں فرمایا کہ تو مٹی کو استعمال کر لیتا وہ تیرے لیے کافی تھی۔ جس طرح یہ جملہ مٹی کی تمام انواع کے لیے عام ہے، اسی طرح اس کا عموم تیمم کی کیفیت کے لحاظ سے بھی ہے کہ وہ ایک ضرب کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے اور دو کے ساتھ بھی (شرح تراجم بخاري) لیکن یہ توجیہ امام بخاری ؒ کے عنوان کے خلاف ہے، حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں کہ اگر اسے باب سابق کا تتمہ خیال کیا جائے تو وہ بایں طورہے کہ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے اسے مطلق طور پر مٹی استعمال کرنے کے متعلق فرمایا ہے اور مطلق کا کم ازکم فرد کامل ایک ہوتا ہے، اس سے امام بخاری نے اپنا مدعا ثابت کیا ہے۔ (فتح الباری:593/1) 2۔ امام بخاری ؒ کا باب بلا عنوان کئی ایک اغراض کے پیش نظر ہوتا ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسے پہلے عنوان ہی کی فصل شمار کہا جائے۔ چنانچہ حدیث مذکور میں کسی عدد کا ذکر نہیں ہے، اس لیے ایک بار ہاتھ مار کر مسح کر لینا بھی کافی ہے۔وھوالمقصود باب بلا عنوان کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ اس سے طلباء کا امتحان اور تشخید اذہان (ذہنی آزمائش ) مراد ہو، یعنی قارئین خود اس حدیث پر کوئی عنوان قائم کریں، چنانچہ اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا جا سکتا ہے: (باب الجنب إذا لم يجد الماء تيمم وصلى) یعنی جنبی آدمی کو اگر پانی نہ ملے تو وہ تیمم کرے اور نماز پڑھے۔ 3۔ بعض شارحین نے اس مقام پر ایک عجیب نکتہ بیان کیا ہے، وہ اس طرح کہ امام بخاری ؒ اس حدیث سے ایک اشکال کا جواب دینا چاہتے ہیں، اشکال یہ ہے کہ اگر حضرت عمار ؓ کو آیت تیمم معلوم تھی تو وہ زمین پر لوٹ پوٹ کیوں ہوئے اور اگر معلوم نہ تھی تو انھیں کیسے معلوم ہوا کہ مٹی پانی کے قائم مقام ہے؟ امام بخاریؒ نے اس کا جواب اس طرح دیا کہ حضرت عمار نے رسول اللہ ﷺ سے صرف (عَلَيْكَ بِالصَّعِيدِ) سن رکھا تھا کہ:’’ تجھے مٹی استعمال کرنی چاہیے۔‘‘ اس بنا پر انھوں نے اس کے عموم کو دیکھتے ہوئے تیمم کو غسل پر قیاس کیا اور زمین پر لوٹ پوٹ ہوئے رسول اللہ ﷺ نے ان کی اصلاح فرما دی۔ 4۔حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں امام بخاری ؒ ہر کتاب کے آخر میں کوئی ایسی روایت لاتے ہیں جس کے کسی لفظ سے انتہائے کتاب کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ چنانچہ یہاں لفظ (يَكْفِيكَ) ہے، یعنی تیمم کے متعلق تجھے اتنا ہی کافی ہے۔ (فتح الباری:593/1) 5۔ واعظین حضرات کا کہنا ہے کہ امام بخاریؒ کتاب کے آخر میں کوئی ایسا لفظ لاتے ہیں جس سے انسان کے خاتمے اور فکر آخرت کی طرف واضح اشارہ ہوتا ہے۔ اس مقام پر بھی امام بخاری نے(عَلَيْكَ بِالصَّعِيدِ) کے لفظ سے موت یاد دلائی ہے، یعنی خود پر مٹی کو لازم کر لو۔ اس سے قبر کی طرف بھی اشارہ ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَىٰ﴾’’اسی سے ہم نے تمھیں پیدا کیا اور اسی میں تمھیں لوٹائیں گے اور اسی سے تمھیں دوبارہ نکالیں گے۔‘‘(طٰہ:20۔55)واللہ أعلم وعلمه أتم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدان نے حدیث بیان کی، کہا ہمیں عبداللہ نے خبر دی، کہا ہمیں عوف نے ابورجاء سے خبر دی، کہا کہ ہم سے کہا عمران بن حصین خزاعی نے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ الگ کھڑا ہوا ہے اور لوگوں کے ساتھ نماز میں شریک نہیں ہو رہا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے فلاں! تمہیں لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنے سے کس چیز نے روک دیا۔ اس نے عرض کی یا رسول اللہ! مجھے غسل کی ضرورت ہو گئی اور پانی نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: پھر تم کو پاک مٹی سے تیمم کرنا ضروری تھا، بس وہ تمہارے لیے کافی ہوتا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Imran bin Husain Al-Khuza'i (RA): Allah's Apostle (ﷺ) saw a person sitting aloof and not praying with the people. He asked him, "O so and so! What prevented you from offering the prayer with the people?" He replied, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! I am Junub and there is no water." The Prophet (ﷺ) said, "Perform Tayammum with clean earth and that will be sufficient for you."