Sahi-Bukhari:
Virtues and Merits of the Prophet (pbuh) and his Companions
(Chapter: Virtues of Quraish)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3501.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’یہ خلافت قریش میں رہے گی، جب تک ان میں دو آدمی بھی(دیندار)باقی رہیں گے۔‘‘
تشریح:
اس حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خلافت قریش کے ساتھ خاص ہے، لیکن یہ استحقاق اقامت ِ دین سے مقید ہے، اس لیے جب خلفاء نے امور دین میں کمزوری ظاہر کی تو حالات تبدیل ہوگئے اور جب تک یہ قریشی حضرات دین کو درست رکھیں گے تو قیادت ان میں باقی رہے گی اگرچہ وہ تعداد میں دو ہی کیوں نہ ہوں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’قیامت قائم نہیں ہوگی حتی کہ قحطان سے ایک شخص نکلے گا جو اپنی لاٹھی سے لوگوں کو ہانگے گا۔‘‘ (صحیح البخاري، الفتن، حدیث:7117) اس پرامام بخاری ؒنے عنوان قائم کیا ہے کہ حالات تبدیل ہوجائیں گے حتی کہ بتوں کی پوجاشروع ہوجائےگی۔ اس تبدیلی سے پہلے پہلے قریش ہی خلافت کے مستحق ہوں گے۔ دورحاضر میں اگرچہ قریش حکمران نہیں ہیں، تاہم ان کےاستحقاق کےمتعلق کسی کو بھی مجالِ انکار نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکور حدیث میں کسی واقعے کی خبر نہیں دی بلکہ حکماً فرمایا کہ ان میں حکومت رهنی چاہیے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3367
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3501
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3501
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3501
تمہید کتاب
(مَنَاقِب،مَنقَبَةُ)کی جمع ہے جس کے معنی اچھی خصلت کے ہیں عربی زبان میں اس کے برعکس صفت کو(مَثلَبَةُ) کہا جاتا ہے جس کی جمع (مَثَالِب) ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے پیش کردہ تاریخی مواد کا یہ تیسرا حصہ ہے قبل ازیں سیرت انبیاء علیہ السلام کے حوالے سے مستند مواد ایک خاص ترتیب سے سپرد قلم کیا تھا اب خاتم الانبیاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو کتاب المناقب کے عنوان سے پیش کیا ہے چونکہ اس عنوان کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے علاوہ حسب و نسب قریش دیگر قبائل اور زمانہ جاہلیت سے تعلق رکھنے والے کچھ حضرات کی منقبت بیان کرنا مقصود تھی۔ اس لیے مناقب کو جمع کےصیغے سے ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کو درج ذیل چار حصوں یں تقسیم کیا ہے1۔حسب و نسب : اس میں نسب کی افادیت و اہمیت قریش کی منقبت اور چند قبائل کا ذکر ہے پھر دور جاہلیت کے ان نعروں کی تردید ہے جو حسب و نسب کے بل بوتے پر لگائے جاتے تھے۔2۔سیرت نبوی: اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کنیت کردار ،وفات اور آخر میں آپ کی خصوصی صفت ختم نبوت کا ذکر ہے۔3۔صورت واخلاق : اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیے مبارک کی جھلک اور آپ کے مکارم اخلاق کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔4۔معجزات : اس میں متعدد ایسے معجزات کا ذکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں جن کے سامنے انسان اپنی عقل کے ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اس عنوان کے آخر میں متفرقات کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ایک صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی کچھ کرامات کا ذکر ہےپھر ان کی مجاہدانہ سر گرمیوں کے بیان پر اس عنوان کو ختم کر دیا گیا ہے۔سیرت نگاری اپنے فن کے اعتبار سے بہت نازک موضوع ہے گویا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے کیونکہ سیرت طیبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور اخلاق کریمانہ کانام ہے جسے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان الفاظ میں یہ بیان کیا ہے ۔"قرآن کریم ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق تھا۔" اسے بیان کرنے کے لیے بہت سے لوازمات کو پیش نظر رکھنا چاہیے جنھیں عام طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ کہ قرآن کریم اور سیرت نبوی ہی وہ واحد منبع ہے جس سے ایک مسلمان کی زندگی سنورتی ہے اور اسلامی معاشرہ تشکیل پاتا ہے اس کے مطالعے سےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار و اخلاق ، طرز زندگی ، عادات و اطوار، انداز تربیت اور دعوتی طریق کار کا پتہ چلتا ہے۔ دین کی سر بلندی کے لیے آپ کی کاوشیں مصائب وآلام برداشت کرنا، پھر جاں فشانی سے اس شجر کی آبیاری کرنا جسے رہتی دنیا تک قائم رہنا ہے۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کوکون سی نعمتوں سے نوازا؟بے شمار معجزات آپ کے ہاتھوں ظاہر کر کے کس قدر عظیم الشان نصرت و تائید سے آپ کو ہمکنار کیا؟ یہ تمام چیزیں سیرت طیبہ ہی کے مطالعے سے معلوم ہو سکتی ہیں لیکن افسوس کہ اس نازک موضوع پر قلم اٹھانے والے حضرات نے اس کی نزاکت کا خیال نہیں رکھا اور نہ صحت و صداقت ہی کا وہ معیار قائم رکھا جس کا یہ فن تقاضا کرتا ہے بلکہ افکار وخیالات اور جذبات واحساسات کے ہاں جو چیز پسند آگئی اسے سیرت طیبہ کے موضوع میں داخل کردیا گیا یہاں تک کہ بعض ایسی چیزیں بھی کتب سیرت میں داخل کردی گئیں جوفطرت اورعقل سلیم کے خلاف اور اصول دین سے ٹکراتی ہیں۔ اس لیے ضرورت تھی کہ اس موضوع پر صاف ستھرا مواد مہیا کیا جائے جس میں راویوں کی چھان پھٹک کا اہتمام کیا گیا ہو اور معیار محدثین کے مطابق اسے پیش کرتے وقت صحت و ثقاہت کا التزام کیا گیا ہو کیونکہ سیرت کے حوالے سے چند واقعات حوادث کا ذکر کردینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کی روشنی میں ایک ایسا نظام مرتب کرنے کی ضرورت ہے جس کے سانچے میں ڈھل کر مسلمانوں کی رفتاروگفتار اور کردار واطوار کو نکھرنا چاہیے اور اپنے پروردگار سے ان کا تعلق درج ذیل آیت کے عین مطابق ہونا چاہیے ۔" یقیناً تمھارے ہراس شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہو۔"(الاحزاب:33۔21)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحتیوں کو بروئے کار لا کر اس موضوع کو اختیار کیا اور اس کا حق ادا کیا ہے۔ آپ نے اس حوالے سے ایک کم دو صد احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سترہ معلق اور ایک سو بیاسی احادیث متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں اٹھہتر(78)مکرراور ایک سواکیس خالص ہیں۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اٹھائیس احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے مروی تقریباً سات آثار بھی پیش کیے ہیں آپ نے ان احادیث و آثار پر اٹھائیس چھوٹے چھوٹےعنوان قائم کر کے اس موضوع کی تکمیل کی ہے۔واضح رہے کہ سیرت طیبہ ایک فکری متاع ہی نہیں بلکہ اللہ کی طرف رجوع کرنے کا واحد راستہ بھی ہے اس کے مطابق زندگی بسر کرنے ہی میں لوگوں کی فلاح و اصلاح پوشیدہ ہے کیونکہ اخلاق و عمل کے میدان میں اللہ کی کتاب ترجمانی کا علمی اور عملی اسلوب یہی سیرت طیبہ ہے۔ اس پر عمل کرنے کے نتیجے میں انسان اللہ کا تابع فرمان اور زندگی کے تمام معاملات اس کے سپرد کرنے کا عادی بن جاتا ہے چنانچہ اس عالم رنگ و بو میں انسان سے اسی بات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطابق اپنے اعمال و کردار اور قول و گفتار کو ڈھالنے کی توفیق دے آمین۔
قریش نضر بن کنانہ کی اولاد کو کہتے ہیں اور کلبی سے منقول ہے کہ مکہ کے رہنے والے اپنے آپ کو قریش سمجھتے اور نضر کی باقی اولاد کو قریش نہ جانتے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: نضر بن کنانہ کی اولاد بھی قریش میں سے ہے، اکثر علماءکا یہی قول ہے ۔ کہتے ہیں قریش ایک دریائی جانور کا نام ہے جو دریا کے دوسرے سب جانوروں کو کھالیتا ہے۔ یہ ان سب کا سردار ہے ۔ اسی طرح قریش بھی عرب کے سب قبیلوں کے سردار تھے۔ اس لیے ان کانام قریش ہوا۔ بعض نے کہا کہ جب قصی نے خزاعہ کے لوگوں کو حرم سے باہر کیا تو باقی لوگ سب ان کے پاس جمع ہوئے اس لیے ان کانام قریش ہوا جو تقرش سے نکلا ہے، جس کے معنی جمع ہونے کے ہیں، قریش کی وجہ تسمیہ سے متعلق کچھ اور بھی اقوال ہیں جن کو علامہ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں بیان فرمایا ہے ، مگر زیادہ مستند قول وہی ہے جو اوپر مذکور ہوا، دور حاضر میں ہندوستان میں قریش برادری نے اپنی عظیم تنظیم کے تحت مسلمانان ہند میں ایک بہترین مقام پیدا کرلیا ہے۔ جنوبی ہند میں یہ کافی تعداد میں آباد ہیں۔ شمالی ہند میں بھی کم نہیں ہیں۔ ان کے ڈیل ڈول حلیہ وغیرہ سے قریش عرب کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ جہاں تک تاریخی حقائق کا تعلق ہے قریش کے کچھ لوگ شروع زمانہ اسلام میں اسلامی قوتوں کے ساتھ ہندوستان آئے اور یہیں ان لوگوں نے اپنا وطن بنالیا اور بیشتر نے یہاں کے حالات کے تحت حلال چوپایوں کا تجارتی دھندا اختیار کرلیا نیز ایسے ہی حلال جانوروں کا ذبیحہ کرکے ان کے گوشت کی تجارت کو اپنا لیا ۔ اسلامی نقطہ نظر سے یہ کوئی مذموم پیشہ نہ تھا بلکہ مسلمانان ہند کی ایک شدید ضرروت تھی جسے خدا نے ان لوگوں کے ہاتھوں انجام دلایا اور الحمد للہ آج تک یہ لوگ اسی خدمت کے ساتھ ملک میں ملی حیثیت سے بہترین اسلامی خدمات انجام د ے رہے ہیں۔ اللہم زد فزد آمین۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’یہ خلافت قریش میں رہے گی، جب تک ان میں دو آدمی بھی(دیندار)باقی رہیں گے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خلافت قریش کے ساتھ خاص ہے، لیکن یہ استحقاق اقامت ِ دین سے مقید ہے، اس لیے جب خلفاء نے امور دین میں کمزوری ظاہر کی تو حالات تبدیل ہوگئے اور جب تک یہ قریشی حضرات دین کو درست رکھیں گے تو قیادت ان میں باقی رہے گی اگرچہ وہ تعداد میں دو ہی کیوں نہ ہوں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’قیامت قائم نہیں ہوگی حتی کہ قحطان سے ایک شخص نکلے گا جو اپنی لاٹھی سے لوگوں کو ہانگے گا۔‘‘ (صحیح البخاري، الفتن، حدیث:7117) اس پرامام بخاری ؒنے عنوان قائم کیا ہے کہ حالات تبدیل ہوجائیں گے حتی کہ بتوں کی پوجاشروع ہوجائےگی۔ اس تبدیلی سے پہلے پہلے قریش ہی خلافت کے مستحق ہوں گے۔ دورحاضر میں اگرچہ قریش حکمران نہیں ہیں، تاہم ان کےاستحقاق کےمتعلق کسی کو بھی مجالِ انکار نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکور حدیث میں کسی واقعے کی خبر نہیں دی بلکہ حکماً فرمایا کہ ان میں حکومت رهنی چاہیے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہاہم سے عاصم بن محمد نے بیان کیا، کہا کہ میں نے اپنے والد سے سنا اور انہوں نے ابن عمر ؓ سے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: یہ خلافت اس وقت تک قریش کے ہاتھوں میں باقی رہے گی جب تک کہ ان میں دو آدمی بھی باقی رہیں۔
حدیث حاشیہ:
امام نووی ؒنے کہا ہے کہ اس حدیث سے صاف نکلتا ہے کہ خلافت قریش سے خاص ہے اور قیامت تک سوا قریشی کے غیر قریشی سے خلافت کی بیعت کرنا درست نہیں اور صحابہ کے زمانہ میں اس پر اجماع ہوچکا ہے اور اگر کسی زمانہ میں قریشی کے سوا اور کسی قوم کا شخص بادشاہ بن بیٹھا ہے تو ا س نے قریشی خلیفہ سے اجازت لی ہے اور اس کا نائب بن کر رہا ہے۔ (وحیدی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): The Prophet (ﷺ) said, "Authority of ruling will remain with Quraish, even if only two of them remained."