Sahi-Bukhari:
Virtues and Merits of the Prophet (pbuh) and his Companions
(Chapter: Virtues of Quraish)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3505.
حضرت عروہ بن زبیر ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں نبی کریم ﷺ اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد تمام لوگوں سے زیادہ قابل احترام تھے۔ اور وہ بھی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بڑے خدمت گزار تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عادت تھی کہ ان کے پاس جو رزق اللہ کی طرف سے آتا وہ اس میں سے کچھ نہ رکھتیں بلکہ سارے کا سارا صدقہ کردیتی تھیں۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: انھیں(ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو) اس قدر خرچ کرنے سے روک دینا چاہیے۔ اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ وہ میرے ہاتھ پر پابندی لگانا چاہتا ہے؟ اب اگر میں نے ان سے بات کی تو مجھ پر نذر واجب ہے۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قریش کے چندلوگوں، خاص طور پر رسول اللہ ﷺ کے ماموؤں، سے سفارش کرائی لیکن آپ نے مانیں۔ بنو زہرہ جو نبی کریم ﷺ کے ماموں ہیں ان میں سے عبدالرحمان بن اسود بن عبد یغوث اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ جب ہم ان کی اجازت سے وہاں جا بیٹھیں تو تم فوراً پردہ میں گھس آنا، چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا۔ (جب حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا خوش ہوگئیں) تو عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے پاس دس غلام بھیجے۔ ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انھیں آزاد کردیا۔ پھر آپ مسلسل غلام آزاد کرتی رہیں یہاں تک کہ چالیس غلام آزاد کردیے۔ پھر انھوں نے فرمایا: کاش! میں نے جس وقت قسم اٹھائی تھی تو نذر خاص کردیتی جس کو ادا کرکے میں فارغ ہوجاتی۔
تشریح:
1۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بڑی ہمشیر حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بڑے لڑکے ہیں۔ ان دونوں بہنوں کے باپ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور مائیں مختلف ہیں، یعنی یہ دونوں پدری بہنیں ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں اولاد نہیں تھی، اس لیے انھوں نے اپنے بھانجے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے پاس رکھا اور ان کی تعلیم وتربیت کاخصوص اہتمام کیا۔ آپ ان سے بہت محبت کرتی تھیں۔ ناراضی اور پھر معافی کا واقعہ تو حدیث میں مذکور ہے۔ 2۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مبہم نذر مانی تھی، اس لیے ایک دوغلام آزاد کرنے پر ان کا دل مطمئن نہ تھا، اس لیے انھوں نے چالیس غلام آزاد کیے، البتہ اگرآپ نذر متعین کرلیتیں تو وہی غلام آزادکرنے سے آپ فارغ ہوجاتیں۔ صحیح مسلم میں ہے:’’نذر کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا ہے۔‘‘(صحیح مسلم، النذر، حدیث:4253(1645) شاید انھیں یہ حدیث نہ پہنچی ہو، بصورت دیگر وہ ایسا نہ کرتیں اور نہ چالیس غلام ہی آزاد کرتیں۔ بہرحال آپ نے کسی قسم کی تفصیل کے بغیر مبہم نذر مانی تھی۔ اس لیے احتیاطاً چالیس غلام آزاد کیے۔ 3۔ امام بخاری ؒنے اس حدیث سے قریش کی فضیلت ثابت کی ہے کہ عبداللہ بن زبیر ؓ نے چند قریشیوں کوحضرت عائشہ ؓکے پاس سفارش کے لیے بھیجا، یعنی وہ اس قابل تھے کہ ان سے سفارش کرائی جاتی تھی۔واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3371
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3505
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3505
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3505
تمہید کتاب
(مَنَاقِب،مَنقَبَةُ)کی جمع ہے جس کے معنی اچھی خصلت کے ہیں عربی زبان میں اس کے برعکس صفت کو(مَثلَبَةُ) کہا جاتا ہے جس کی جمع (مَثَالِب) ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے پیش کردہ تاریخی مواد کا یہ تیسرا حصہ ہے قبل ازیں سیرت انبیاء علیہ السلام کے حوالے سے مستند مواد ایک خاص ترتیب سے سپرد قلم کیا تھا اب خاتم الانبیاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو کتاب المناقب کے عنوان سے پیش کیا ہے چونکہ اس عنوان کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے علاوہ حسب و نسب قریش دیگر قبائل اور زمانہ جاہلیت سے تعلق رکھنے والے کچھ حضرات کی منقبت بیان کرنا مقصود تھی۔ اس لیے مناقب کو جمع کےصیغے سے ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کو درج ذیل چار حصوں یں تقسیم کیا ہے1۔حسب و نسب : اس میں نسب کی افادیت و اہمیت قریش کی منقبت اور چند قبائل کا ذکر ہے پھر دور جاہلیت کے ان نعروں کی تردید ہے جو حسب و نسب کے بل بوتے پر لگائے جاتے تھے۔2۔سیرت نبوی: اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کنیت کردار ،وفات اور آخر میں آپ کی خصوصی صفت ختم نبوت کا ذکر ہے۔3۔صورت واخلاق : اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیے مبارک کی جھلک اور آپ کے مکارم اخلاق کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔4۔معجزات : اس میں متعدد ایسے معجزات کا ذکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں جن کے سامنے انسان اپنی عقل کے ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اس عنوان کے آخر میں متفرقات کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ایک صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی کچھ کرامات کا ذکر ہےپھر ان کی مجاہدانہ سر گرمیوں کے بیان پر اس عنوان کو ختم کر دیا گیا ہے۔سیرت نگاری اپنے فن کے اعتبار سے بہت نازک موضوع ہے گویا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے کیونکہ سیرت طیبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور اخلاق کریمانہ کانام ہے جسے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان الفاظ میں یہ بیان کیا ہے ۔"قرآن کریم ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق تھا۔" اسے بیان کرنے کے لیے بہت سے لوازمات کو پیش نظر رکھنا چاہیے جنھیں عام طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ کہ قرآن کریم اور سیرت نبوی ہی وہ واحد منبع ہے جس سے ایک مسلمان کی زندگی سنورتی ہے اور اسلامی معاشرہ تشکیل پاتا ہے اس کے مطالعے سےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار و اخلاق ، طرز زندگی ، عادات و اطوار، انداز تربیت اور دعوتی طریق کار کا پتہ چلتا ہے۔ دین کی سر بلندی کے لیے آپ کی کاوشیں مصائب وآلام برداشت کرنا، پھر جاں فشانی سے اس شجر کی آبیاری کرنا جسے رہتی دنیا تک قائم رہنا ہے۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کوکون سی نعمتوں سے نوازا؟بے شمار معجزات آپ کے ہاتھوں ظاہر کر کے کس قدر عظیم الشان نصرت و تائید سے آپ کو ہمکنار کیا؟ یہ تمام چیزیں سیرت طیبہ ہی کے مطالعے سے معلوم ہو سکتی ہیں لیکن افسوس کہ اس نازک موضوع پر قلم اٹھانے والے حضرات نے اس کی نزاکت کا خیال نہیں رکھا اور نہ صحت و صداقت ہی کا وہ معیار قائم رکھا جس کا یہ فن تقاضا کرتا ہے بلکہ افکار وخیالات اور جذبات واحساسات کے ہاں جو چیز پسند آگئی اسے سیرت طیبہ کے موضوع میں داخل کردیا گیا یہاں تک کہ بعض ایسی چیزیں بھی کتب سیرت میں داخل کردی گئیں جوفطرت اورعقل سلیم کے خلاف اور اصول دین سے ٹکراتی ہیں۔ اس لیے ضرورت تھی کہ اس موضوع پر صاف ستھرا مواد مہیا کیا جائے جس میں راویوں کی چھان پھٹک کا اہتمام کیا گیا ہو اور معیار محدثین کے مطابق اسے پیش کرتے وقت صحت و ثقاہت کا التزام کیا گیا ہو کیونکہ سیرت کے حوالے سے چند واقعات حوادث کا ذکر کردینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کی روشنی میں ایک ایسا نظام مرتب کرنے کی ضرورت ہے جس کے سانچے میں ڈھل کر مسلمانوں کی رفتاروگفتار اور کردار واطوار کو نکھرنا چاہیے اور اپنے پروردگار سے ان کا تعلق درج ذیل آیت کے عین مطابق ہونا چاہیے ۔" یقیناً تمھارے ہراس شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہو۔"(الاحزاب:33۔21)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحتیوں کو بروئے کار لا کر اس موضوع کو اختیار کیا اور اس کا حق ادا کیا ہے۔ آپ نے اس حوالے سے ایک کم دو صد احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سترہ معلق اور ایک سو بیاسی احادیث متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں اٹھہتر(78)مکرراور ایک سواکیس خالص ہیں۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اٹھائیس احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے مروی تقریباً سات آثار بھی پیش کیے ہیں آپ نے ان احادیث و آثار پر اٹھائیس چھوٹے چھوٹےعنوان قائم کر کے اس موضوع کی تکمیل کی ہے۔واضح رہے کہ سیرت طیبہ ایک فکری متاع ہی نہیں بلکہ اللہ کی طرف رجوع کرنے کا واحد راستہ بھی ہے اس کے مطابق زندگی بسر کرنے ہی میں لوگوں کی فلاح و اصلاح پوشیدہ ہے کیونکہ اخلاق و عمل کے میدان میں اللہ کی کتاب ترجمانی کا علمی اور عملی اسلوب یہی سیرت طیبہ ہے۔ اس پر عمل کرنے کے نتیجے میں انسان اللہ کا تابع فرمان اور زندگی کے تمام معاملات اس کے سپرد کرنے کا عادی بن جاتا ہے چنانچہ اس عالم رنگ و بو میں انسان سے اسی بات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطابق اپنے اعمال و کردار اور قول و گفتار کو ڈھالنے کی توفیق دے آمین۔
قریش نضر بن کنانہ کی اولاد کو کہتے ہیں اور کلبی سے منقول ہے کہ مکہ کے رہنے والے اپنے آپ کو قریش سمجھتے اور نضر کی باقی اولاد کو قریش نہ جانتے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: نضر بن کنانہ کی اولاد بھی قریش میں سے ہے، اکثر علماءکا یہی قول ہے ۔ کہتے ہیں قریش ایک دریائی جانور کا نام ہے جو دریا کے دوسرے سب جانوروں کو کھالیتا ہے۔ یہ ان سب کا سردار ہے ۔ اسی طرح قریش بھی عرب کے سب قبیلوں کے سردار تھے۔ اس لیے ان کانام قریش ہوا۔ بعض نے کہا کہ جب قصی نے خزاعہ کے لوگوں کو حرم سے باہر کیا تو باقی لوگ سب ان کے پاس جمع ہوئے اس لیے ان کانام قریش ہوا جو تقرش سے نکلا ہے، جس کے معنی جمع ہونے کے ہیں، قریش کی وجہ تسمیہ سے متعلق کچھ اور بھی اقوال ہیں جن کو علامہ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں بیان فرمایا ہے ، مگر زیادہ مستند قول وہی ہے جو اوپر مذکور ہوا، دور حاضر میں ہندوستان میں قریش برادری نے اپنی عظیم تنظیم کے تحت مسلمانان ہند میں ایک بہترین مقام پیدا کرلیا ہے۔ جنوبی ہند میں یہ کافی تعداد میں آباد ہیں۔ شمالی ہند میں بھی کم نہیں ہیں۔ ان کے ڈیل ڈول حلیہ وغیرہ سے قریش عرب کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ جہاں تک تاریخی حقائق کا تعلق ہے قریش کے کچھ لوگ شروع زمانہ اسلام میں اسلامی قوتوں کے ساتھ ہندوستان آئے اور یہیں ان لوگوں نے اپنا وطن بنالیا اور بیشتر نے یہاں کے حالات کے تحت حلال چوپایوں کا تجارتی دھندا اختیار کرلیا نیز ایسے ہی حلال جانوروں کا ذبیحہ کرکے ان کے گوشت کی تجارت کو اپنا لیا ۔ اسلامی نقطہ نظر سے یہ کوئی مذموم پیشہ نہ تھا بلکہ مسلمانان ہند کی ایک شدید ضرروت تھی جسے خدا نے ان لوگوں کے ہاتھوں انجام دلایا اور الحمد للہ آج تک یہ لوگ اسی خدمت کے ساتھ ملک میں ملی حیثیت سے بہترین اسلامی خدمات انجام د ے رہے ہیں۔ اللہم زد فزد آمین۔
حضرت عروہ بن زبیر ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں نبی کریم ﷺ اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد تمام لوگوں سے زیادہ قابل احترام تھے۔ اور وہ بھی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بڑے خدمت گزار تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عادت تھی کہ ان کے پاس جو رزق اللہ کی طرف سے آتا وہ اس میں سے کچھ نہ رکھتیں بلکہ سارے کا سارا صدقہ کردیتی تھیں۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: انھیں(ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو) اس قدر خرچ کرنے سے روک دینا چاہیے۔ اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ وہ میرے ہاتھ پر پابندی لگانا چاہتا ہے؟ اب اگر میں نے ان سے بات کی تو مجھ پر نذر واجب ہے۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قریش کے چندلوگوں، خاص طور پر رسول اللہ ﷺ کے ماموؤں، سے سفارش کرائی لیکن آپ نے مانیں۔ بنو زہرہ جو نبی کریم ﷺ کے ماموں ہیں ان میں سے عبدالرحمان بن اسود بن عبد یغوث اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ جب ہم ان کی اجازت سے وہاں جا بیٹھیں تو تم فوراً پردہ میں گھس آنا، چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا۔ (جب حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا خوش ہوگئیں) تو عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے پاس دس غلام بھیجے۔ ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انھیں آزاد کردیا۔ پھر آپ مسلسل غلام آزاد کرتی رہیں یہاں تک کہ چالیس غلام آزاد کردیے۔ پھر انھوں نے فرمایا: کاش! میں نے جس وقت قسم اٹھائی تھی تو نذر خاص کردیتی جس کو ادا کرکے میں فارغ ہوجاتی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بڑی ہمشیر حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بڑے لڑکے ہیں۔ ان دونوں بہنوں کے باپ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور مائیں مختلف ہیں، یعنی یہ دونوں پدری بہنیں ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں اولاد نہیں تھی، اس لیے انھوں نے اپنے بھانجے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے پاس رکھا اور ان کی تعلیم وتربیت کاخصوص اہتمام کیا۔ آپ ان سے بہت محبت کرتی تھیں۔ ناراضی اور پھر معافی کا واقعہ تو حدیث میں مذکور ہے۔ 2۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مبہم نذر مانی تھی، اس لیے ایک دوغلام آزاد کرنے پر ان کا دل مطمئن نہ تھا، اس لیے انھوں نے چالیس غلام آزاد کیے، البتہ اگرآپ نذر متعین کرلیتیں تو وہی غلام آزادکرنے سے آپ فارغ ہوجاتیں۔ صحیح مسلم میں ہے:’’نذر کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا ہے۔‘‘(صحیح مسلم، النذر، حدیث:4253(1645) شاید انھیں یہ حدیث نہ پہنچی ہو، بصورت دیگر وہ ایسا نہ کرتیں اور نہ چالیس غلام ہی آزاد کرتیں۔ بہرحال آپ نے کسی قسم کی تفصیل کے بغیر مبہم نذر مانی تھی۔ اس لیے احتیاطاً چالیس غلام آزاد کیے۔ 3۔ امام بخاری ؒنے اس حدیث سے قریش کی فضیلت ثابت کی ہے کہ عبداللہ بن زبیر ؓ نے چند قریشیوں کوحضرت عائشہ ؓکے پاس سفارش کے لیے بھیجا، یعنی وہ اس قابل تھے کہ ان سے سفارش کرائی جاتی تھی۔واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہاہم سے لیث بن سعد نے، کہا کہ مجھ سے ابوالاسود نے، ان سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ اور ابوبکر ؓ کے بعد عبداللہ بن زبیر ؓ سے عائشہ ؓ کو سب سے زیادہ محبت تھی۔ حضرت عائشہ ؓ کی عادت تھی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو رزق بھی ان کو ملتا وہ اسے صدقہ کر دیا کرتی تھیں، عبداللہ بن زبیر ؓ نے (کسی سے) کہا ام المومنین کو اس سے روکنا چاہیے (جب حضرت عائشہ ؓ کو ان کی بات پہنچی) تو انہوں نے کہا، کیا اب میرے ہاتھوں کو روکا جائے گا، اب اگرمیں نے عبداللہ سے بات کی تو مجھ پر نذر واجب ہے۔ عبداللہ بن زبیر ؓ نے (حضرت عائشہ ؓ کو راضی کرنے کے لیے) قریش کے چند لوگوں اور خاص طور سے رسول اللہ ﷺ کے نانہالی رشتہ داروں (بنوزہرہ) کو ان کی خدمت میں معافی کی سفارش کے لیے بھیجا لیکن حضرت عائشہ ؓ پھر بھی نہ مانیں۔ اس پر بنو زہرہ نے جو رسول اللہ ﷺ کے ماموں ہوتے تھے اور ان میں عبدالرحمن بن اسود بن عبدیغوث اور مسور بن مخرمہ ؓ بھی تھے، عبداللہ بن زبیر ؓ سے کہا کہ جب ہم ان کی اجازت سے وہاں جابیٹھیں تو تم ایک دفعہ آن کر پردہ میں گھس جاو۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا (جب حضرت عائشہ ؓ خوش ہوگئیں تو) انہوں نے ان کی خدمت میں دس غلام (آزاد کرانے کے لیے بطور کفارہ قسم) بھیجے اور ام المومنین نے انہیں آزاد کردیا۔ پھر آپ برابر غلام آزاد کرتی رہیں۔ یہاں تک کہ چالیس غلام آزاد کردیئے پھر انہوں نے کہا کاش میں نے جس وقت قسم کھائی تھی (منت مانی تھی) تو میں کوئی خاص چیز بیان کردیتی جس کو کرکے میں فارغ ہوجاتی۔
حدیث حاشیہ:
یعنی صاف یوں نذر مانتی کہ ایک غلام آزاد کروں گی اتنے مسکینوں کو کھانا کھلاؤں گی تو دل میں تردد نہ رہتا۔ حضرت عائشہ ؓنے مبہم منت مانی اور کوئی تفصیل بیان نہیں کی، اس لیے احتیاطاً چالیس غلام آزاد کئے۔ اس سے بعض علماءنے دلیل لی ہے کہ مجہول نذر درست ہے مگر وہ اس میں ایک قسم کا کفارہ کافی سمجھتے ہیں۔ یہ عبداللہ بن زبیر ؓ، حضرت عائشہ ؓ کی بڑی بہن حضرت اسماءبنت ابی بکر ؓ کے بیٹے ہیں، لیکن ان کی تعلیم و تربیت بچپن ہی سے ان کی سگی خالہ حضرت عائشہ ؓنے کی تھی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Urwa bin Az-Zubair (RA): 'Abdullah bin Az-Zubair was the most beloved person to 'Aisha (RA) excluding the Prophet (ﷺ) and Abu Bakr, and he in his turn, was the most devoted to her, 'Aisha (RA) used not to withhold the money given to her by Allah, but she used to spend it in charity. ('Abdullah) bin AzZubair said, " 'Aisha (RA) should be stopped from doing so." (When 'Aisha (RA) heard this), she said protestingly, "Shall I be stopped from doing so? I vow that I will never talk to 'Abdullah bin Az-Zubair." On that, Ibn Az-Zubair asked some people from Quraish and particularly the two uncles of Allah's Apostle (ﷺ) to intercede with her, but she refused (to talk to him). Az-Zuhriyun, the uncles of the Prophet, including 'Abdur-Rahman bin Al-Aswad bin 'Abd Yaghuth and Al-Miswar bin Makhrama said to him, "When we ask for the permission to visit her, enter her house along with us (without taking her leave)." He did accordingly (and she accepted their intercession). He sent her ten slaves whom she manumitted as an expiation for (not keeping) her vow. 'Aisha (RA) manumitted more slaves for the same purpose till she manumitted forty slaves. She said, "I wish I had specified what I would have done in case of not fulfilling my vow when I made the vow, so that I might have done it easily."