Sahi-Bukhari:
Virtues and Merits of the Prophet (pbuh) and his Companions
(Chapter: The Qur'an was revealed in the language of Quraish)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3506.
حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ حضرت عثمان ؓ نے حضرت زید بن ثابت، حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت سعید بن عاص اور حضرت عبدالرحمان بن حارث بن ہشام ؓ کو بلایا توانھوں نے قرآن مجیدکو مصاحف میں نقل فرمایا۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تین قریشی صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین سے کہا: جب تمہارا اورحضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قرآن کے کسی مقام کے متعلق اختلاف ہوجائے تو اسے محاورہ قریش کے مطابق لکھیں کیونکہ قرآن کریم انھی کے محاورے کے مطابق نازل ہوا ہے تو انھوں نے ایسا ہی کیا۔
تشریح:
1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود قریشی تھے اورآپ پر قرآن مجید کا نزول اسی مادری زبان کے مطابق ہواتھا تاکہ پہلے آپ خود اسے بخوبی سمجھیں، پھر دوسرے لوگوں کو احسن طریقے سے سمجھا سکیں۔ 2۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےلکھوانے سے پہلے قرآن مجید لکھا ہوا موجودتھا اور اس کانسخہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس موجود تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں پیغام بھیجا کہ وہ قرآنی صحیفے بھیج دیں جو ان کے پاس ہیں، ہم مصاحف لکھنے کے بعد انھین واپس کردیں گے، چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قرآن کریم کی نقلیں تیار کرواکر اطراف عالم میں بھیج دیں۔ قرآن مجید لکھنے کی ہدایت کی اور فرمایا:اگرتمہارا کہیں قرآنی رسم الخط کے متعلق اختلاف ہوجائے تو اسے قریش کے محاورے کے مطابق تحریرکرنا، چنانچہ ان کا لفظ تابوت کے متعلق اختلاف ہوا۔ حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسے تابوۃ لکھنا چاہتے تھے جبکہ قریش کے ہاں اس کا رسم الخط تابوت تھا، تو اسی محاورے کے مطابق لکھا گیا۔ 3۔امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے قریش کی فضیلت ثابت کی ہے۔ انھوں نے کتاب الفضائل القرآن میں بھی اس حدیث پر اسی قسم کا عنوان قائم کیا ہے :قرآن قریش اور عرب کے محاورے کے مطابق نازل ہوا۔ (فتح الباري:659/6) مصاحف لکھنے کے بعد حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا صحیفہ واپس کر دیا گیا اور باقی ذاتی قسم کے صحائف جلادیے گئے۔ (عمدة القاري:257/11)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3372
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3506
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3506
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3506
تمہید کتاب
(مَنَاقِب،مَنقَبَةُ)کی جمع ہے جس کے معنی اچھی خصلت کے ہیں عربی زبان میں اس کے برعکس صفت کو(مَثلَبَةُ) کہا جاتا ہے جس کی جمع (مَثَالِب) ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے پیش کردہ تاریخی مواد کا یہ تیسرا حصہ ہے قبل ازیں سیرت انبیاء علیہ السلام کے حوالے سے مستند مواد ایک خاص ترتیب سے سپرد قلم کیا تھا اب خاتم الانبیاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو کتاب المناقب کے عنوان سے پیش کیا ہے چونکہ اس عنوان کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے علاوہ حسب و نسب قریش دیگر قبائل اور زمانہ جاہلیت سے تعلق رکھنے والے کچھ حضرات کی منقبت بیان کرنا مقصود تھی۔ اس لیے مناقب کو جمع کےصیغے سے ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کو درج ذیل چار حصوں یں تقسیم کیا ہے1۔حسب و نسب : اس میں نسب کی افادیت و اہمیت قریش کی منقبت اور چند قبائل کا ذکر ہے پھر دور جاہلیت کے ان نعروں کی تردید ہے جو حسب و نسب کے بل بوتے پر لگائے جاتے تھے۔2۔سیرت نبوی: اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کنیت کردار ،وفات اور آخر میں آپ کی خصوصی صفت ختم نبوت کا ذکر ہے۔3۔صورت واخلاق : اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیے مبارک کی جھلک اور آپ کے مکارم اخلاق کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔4۔معجزات : اس میں متعدد ایسے معجزات کا ذکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں جن کے سامنے انسان اپنی عقل کے ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اس عنوان کے آخر میں متفرقات کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ایک صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی کچھ کرامات کا ذکر ہےپھر ان کی مجاہدانہ سر گرمیوں کے بیان پر اس عنوان کو ختم کر دیا گیا ہے۔سیرت نگاری اپنے فن کے اعتبار سے بہت نازک موضوع ہے گویا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے کیونکہ سیرت طیبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور اخلاق کریمانہ کانام ہے جسے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان الفاظ میں یہ بیان کیا ہے ۔"قرآن کریم ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق تھا۔" اسے بیان کرنے کے لیے بہت سے لوازمات کو پیش نظر رکھنا چاہیے جنھیں عام طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ کہ قرآن کریم اور سیرت نبوی ہی وہ واحد منبع ہے جس سے ایک مسلمان کی زندگی سنورتی ہے اور اسلامی معاشرہ تشکیل پاتا ہے اس کے مطالعے سےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار و اخلاق ، طرز زندگی ، عادات و اطوار، انداز تربیت اور دعوتی طریق کار کا پتہ چلتا ہے۔ دین کی سر بلندی کے لیے آپ کی کاوشیں مصائب وآلام برداشت کرنا، پھر جاں فشانی سے اس شجر کی آبیاری کرنا جسے رہتی دنیا تک قائم رہنا ہے۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کوکون سی نعمتوں سے نوازا؟بے شمار معجزات آپ کے ہاتھوں ظاہر کر کے کس قدر عظیم الشان نصرت و تائید سے آپ کو ہمکنار کیا؟ یہ تمام چیزیں سیرت طیبہ ہی کے مطالعے سے معلوم ہو سکتی ہیں لیکن افسوس کہ اس نازک موضوع پر قلم اٹھانے والے حضرات نے اس کی نزاکت کا خیال نہیں رکھا اور نہ صحت و صداقت ہی کا وہ معیار قائم رکھا جس کا یہ فن تقاضا کرتا ہے بلکہ افکار وخیالات اور جذبات واحساسات کے ہاں جو چیز پسند آگئی اسے سیرت طیبہ کے موضوع میں داخل کردیا گیا یہاں تک کہ بعض ایسی چیزیں بھی کتب سیرت میں داخل کردی گئیں جوفطرت اورعقل سلیم کے خلاف اور اصول دین سے ٹکراتی ہیں۔ اس لیے ضرورت تھی کہ اس موضوع پر صاف ستھرا مواد مہیا کیا جائے جس میں راویوں کی چھان پھٹک کا اہتمام کیا گیا ہو اور معیار محدثین کے مطابق اسے پیش کرتے وقت صحت و ثقاہت کا التزام کیا گیا ہو کیونکہ سیرت کے حوالے سے چند واقعات حوادث کا ذکر کردینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کی روشنی میں ایک ایسا نظام مرتب کرنے کی ضرورت ہے جس کے سانچے میں ڈھل کر مسلمانوں کی رفتاروگفتار اور کردار واطوار کو نکھرنا چاہیے اور اپنے پروردگار سے ان کا تعلق درج ذیل آیت کے عین مطابق ہونا چاہیے ۔" یقیناً تمھارے ہراس شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہو۔"(الاحزاب:33۔21)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحتیوں کو بروئے کار لا کر اس موضوع کو اختیار کیا اور اس کا حق ادا کیا ہے۔ آپ نے اس حوالے سے ایک کم دو صد احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سترہ معلق اور ایک سو بیاسی احادیث متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں اٹھہتر(78)مکرراور ایک سواکیس خالص ہیں۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اٹھائیس احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے مروی تقریباً سات آثار بھی پیش کیے ہیں آپ نے ان احادیث و آثار پر اٹھائیس چھوٹے چھوٹےعنوان قائم کر کے اس موضوع کی تکمیل کی ہے۔واضح رہے کہ سیرت طیبہ ایک فکری متاع ہی نہیں بلکہ اللہ کی طرف رجوع کرنے کا واحد راستہ بھی ہے اس کے مطابق زندگی بسر کرنے ہی میں لوگوں کی فلاح و اصلاح پوشیدہ ہے کیونکہ اخلاق و عمل کے میدان میں اللہ کی کتاب ترجمانی کا علمی اور عملی اسلوب یہی سیرت طیبہ ہے۔ اس پر عمل کرنے کے نتیجے میں انسان اللہ کا تابع فرمان اور زندگی کے تمام معاملات اس کے سپرد کرنے کا عادی بن جاتا ہے چنانچہ اس عالم رنگ و بو میں انسان سے اسی بات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطابق اپنے اعمال و کردار اور قول و گفتار کو ڈھالنے کی توفیق دے آمین۔
تمہید باب
یعنی قریش جو عربی مادری طورپر جس محاورہ اور جس لب ولہجہ کے ساتھ بولتے ہیں اسی طرز پر قرآن شریف نازل ہوا، یہ اس لیے بھی کہ خود رسول اللہ ﷺ عربی قریشی ہیں، لہذا ضروری ہواکہ رسول اللہ ﷺ پر خود ان کی مادری زبان میں کلام الٰہی نازل کیا جائے تاکہ پہلے وہ خود اسے بخوبی سمجھیں پھر ساری دنیا کو احسن طریق پر سمجھا سکیں، ایسا ہی ہوا جیسا کہ حیات نبوی کو بطور شہادت پیش کیا جا سکتا ہے۔
حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ حضرت عثمان ؓ نے حضرت زید بن ثابت، حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت سعید بن عاص اور حضرت عبدالرحمان بن حارث بن ہشام ؓ کو بلایا توانھوں نے قرآن مجیدکو مصاحف میں نقل فرمایا۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تین قریشی صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین سے کہا: جب تمہارا اورحضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قرآن کے کسی مقام کے متعلق اختلاف ہوجائے تو اسے محاورہ قریش کے مطابق لکھیں کیونکہ قرآن کریم انھی کے محاورے کے مطابق نازل ہوا ہے تو انھوں نے ایسا ہی کیا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود قریشی تھے اورآپ پر قرآن مجید کا نزول اسی مادری زبان کے مطابق ہواتھا تاکہ پہلے آپ خود اسے بخوبی سمجھیں، پھر دوسرے لوگوں کو احسن طریقے سے سمجھا سکیں۔ 2۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےلکھوانے سے پہلے قرآن مجید لکھا ہوا موجودتھا اور اس کانسخہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس موجود تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں پیغام بھیجا کہ وہ قرآنی صحیفے بھیج دیں جو ان کے پاس ہیں، ہم مصاحف لکھنے کے بعد انھین واپس کردیں گے، چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قرآن کریم کی نقلیں تیار کرواکر اطراف عالم میں بھیج دیں۔ قرآن مجید لکھنے کی ہدایت کی اور فرمایا:اگرتمہارا کہیں قرآنی رسم الخط کے متعلق اختلاف ہوجائے تو اسے قریش کے محاورے کے مطابق تحریرکرنا، چنانچہ ان کا لفظ تابوت کے متعلق اختلاف ہوا۔ حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسے تابوۃ لکھنا چاہتے تھے جبکہ قریش کے ہاں اس کا رسم الخط تابوت تھا، تو اسی محاورے کے مطابق لکھا گیا۔ 3۔امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے قریش کی فضیلت ثابت کی ہے۔ انھوں نے کتاب الفضائل القرآن میں بھی اس حدیث پر اسی قسم کا عنوان قائم کیا ہے :قرآن قریش اور عرب کے محاورے کے مطابق نازل ہوا۔ (فتح الباري:659/6) مصاحف لکھنے کے بعد حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا صحیفہ واپس کر دیا گیا اور باقی ذاتی قسم کے صحائف جلادیے گئے۔ (عمدة القاري:257/11)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے اور ان سے انس ؓ نے کہ حضرت عثمان ؓ نے زید بن ثابت، عبداللہ بن زبیر، سعید بن عاص اور عبدالرحمن بن حارث بن ہشام ؓ کو بلایا (اور ان کو قرآن مجید کی کتابت پر مقرر فرمایا، چنانچہ ان حضرات نے) قرآن مجید کوکئی مصحفوں میں نقل فرمایا اور حضرت عثمان ؓ نے (ان چاروں میں سے) تین قریشی صحابہ سے فرمایا تھا کہ جب آپ لوگوں کا زید بن ثابت ؓ سے (جو مدینہ منورہ کے رہنے والے تھے) قرآن کے کسی مقام پر (اس کے کسی محاورے میں) اختلاف ہوجائے تو اس کو قریش کے محاورے کے مطابق لکھنا، کیوں کہ قرآن شریف قریش کے محاورہ میں نازل ہوا ہے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔
حدیث حاشیہ:
ہوا یہ کہ قرآن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت میں تمام صحابہ کے اتفاق سے جمع ہوچکا تھا، وہی قرآن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ان کے پاس رہا جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے وہی قرآن حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ سے منگوا کر اس کی نقلیں مذکورہ بالا لوگوں سے لکھوائیں اور ایک ایک نقل عراق، مصر، شام اور ایران وغیرہ ملکوں میں روانہ کردیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو جو جامع قرآن کہتے ہیں وہ اسی وجہ سے کہ انہوں نے قرآن کی نقلیں صاف خطوں سے لکھوا کر ملکوں میں روانہ کیں، یہ نہیں کہ قرآن ان کے وقت میں جمع ہوا، قرآن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہی جمع ہوچکا تھا جو کچھ متفرق رہ گیا تھا وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت میں سب ایک جگہ جمع کردیا گیا۔ یہاں باب کا مقصد قریش کی فضیلت بیان کرنا ہے کہ قرآن مجید ان کے محاورے کے مطابق نازل ہوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): Uthman called Zaid bin Thabit, Abdullah bin Az-Zubair, Said bin Al-'As and 'AbdurRahman bin Al-Harith bin Hisham (RA) , and then they wrote the manuscripts of the Holy Qur'an in the form of book in several copies. 'Uthman said to the three Quraishi persons. " If you differ with Zaid bin Thabit on any point of the Qur'an, then write it in the language of Quraish, as the Qur'an was revealed in their language." So they acted accordingly. (Said bin Thabit was an Ansari and not from Quraish ).