Sahi-Bukhari:
Virtues and Merits of the Prophet (pbuh) and his Companions
(Chapter: The names of Allah's Messenger (saws))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ کا سورۃ احزاب میں ارشاد کہ ” محمد ﷺ تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ہیں اور اللہ تعالیٰ کا سورۃ فتح میں ارشاد کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار کے مقابلہ میں انتہائی سخت ہوتے ہیں اور سورہ ¿ صف میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴾من بعد اسمہ احمدُ﴿یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قول ہے کہ میرے بعد آنے والے رسول کا نام احمد ہوگا۔ باب کا مطلب یوں ثابت ہوا کہ یہاں آیتوں میں آپ کے نام محمد اور احمد مذکور ہوئے ﷺ۔ کفار سے حربی کا فر جو باضابطہ اسلام اور مسلمانوں کے استیصال کے لیے جارحانہ حملہ آور ہوں مراد ہیں کہ ایسے لوگوں کے حملے کا مدافعانہ جواب دینا اور سختی کے ساتھ فساد کو مٹا کر امن قائم کرنا یہ سچے محمدیوں کی خاص علامت ہے۔
3533.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تم تعجب نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ قریش کی گالیوں اور ان کے لعن و طعن کو مجھ سے کیسے دور کرتا ہے؟ وہ مذمم کو گالیاں دیتے اور مذمم پر لعنت کرتے ہیں جبکہ میں تو محمد ہوں۔‘‘
تشریح:
1۔کفار قریش شدت عداوت کی بنا پر آپ کو محمد کے نام سے یاد نہ کرتے تھے کیونکہ اس نام سے آپ کی تعریف اور مدح کا پہلو نمایاں ہوتا تھا۔اس کے معنی ہیں بہت اچھی خصلتوں والا۔یہ بات انھیں بہت ناگوارتھی،اس لیے وہ آپ کو محمد کے بجائےمذمم کہتے تھے،حالانکہ آپ کانام مذمم نہیں اور نہ لوگ ہی اس نام سے آپ کو جانتے تھے تو جو کچھ وہ اس نام کے حوالے سے آپ کے متعلق کہتے تھے اللہ تعالیٰ اس کو آپ سے پھیر دیتا تھا،چنانچہ ابولہب کی بیوی کہا کرتی تھی:ہم مذمم سے بغض رکھتے ہیں۔اس کے دین سے انکارکرتے ہیں۔اور اس کے حکم کی نافرمانی کرتے ہیں۔2۔حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں:امام نسائی ؒنے اس حدیث سے استنباط کیا ہے کہ جو شخص ایسا کلام کرے جو طلاق یا فراق کے منافی ہو اور اس سے طلاق کا ارادہ کرے تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔ جیسے کسی نے اپنی بیوی سے کہا تو کھا اور اس سے مراد وہ طلاق لیتا ہے تو عورت مطلقہ نہیں ہوگی کیونکہ کھانے کی تفسیر طلاق سے نہیں کی جاسکتی۔ اسی طرح محمد کی تفسیر کسی نے مذمم سے نہیں کی اس بنا پر مذمم کو بُرا بھلا کہنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی حرف نہیں آئے گا۔ (فتح الباري:682/6)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3400
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3533
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3533
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3533
تمہید کتاب
(مَنَاقِب،مَنقَبَةُ)کی جمع ہے جس کے معنی اچھی خصلت کے ہیں عربی زبان میں اس کے برعکس صفت کو(مَثلَبَةُ) کہا جاتا ہے جس کی جمع (مَثَالِب) ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے پیش کردہ تاریخی مواد کا یہ تیسرا حصہ ہے قبل ازیں سیرت انبیاء علیہ السلام کے حوالے سے مستند مواد ایک خاص ترتیب سے سپرد قلم کیا تھا اب خاتم الانبیاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو کتاب المناقب کے عنوان سے پیش کیا ہے چونکہ اس عنوان کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے علاوہ حسب و نسب قریش دیگر قبائل اور زمانہ جاہلیت سے تعلق رکھنے والے کچھ حضرات کی منقبت بیان کرنا مقصود تھی۔ اس لیے مناقب کو جمع کےصیغے سے ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کو درج ذیل چار حصوں یں تقسیم کیا ہے1۔حسب و نسب : اس میں نسب کی افادیت و اہمیت قریش کی منقبت اور چند قبائل کا ذکر ہے پھر دور جاہلیت کے ان نعروں کی تردید ہے جو حسب و نسب کے بل بوتے پر لگائے جاتے تھے۔2۔سیرت نبوی: اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کنیت کردار ،وفات اور آخر میں آپ کی خصوصی صفت ختم نبوت کا ذکر ہے۔3۔صورت واخلاق : اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیے مبارک کی جھلک اور آپ کے مکارم اخلاق کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔4۔معجزات : اس میں متعدد ایسے معجزات کا ذکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں جن کے سامنے انسان اپنی عقل کے ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اس عنوان کے آخر میں متفرقات کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ایک صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی کچھ کرامات کا ذکر ہےپھر ان کی مجاہدانہ سر گرمیوں کے بیان پر اس عنوان کو ختم کر دیا گیا ہے۔سیرت نگاری اپنے فن کے اعتبار سے بہت نازک موضوع ہے گویا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے کیونکہ سیرت طیبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور اخلاق کریمانہ کانام ہے جسے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان الفاظ میں یہ بیان کیا ہے ۔"قرآن کریم ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق تھا۔" اسے بیان کرنے کے لیے بہت سے لوازمات کو پیش نظر رکھنا چاہیے جنھیں عام طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ کہ قرآن کریم اور سیرت نبوی ہی وہ واحد منبع ہے جس سے ایک مسلمان کی زندگی سنورتی ہے اور اسلامی معاشرہ تشکیل پاتا ہے اس کے مطالعے سےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار و اخلاق ، طرز زندگی ، عادات و اطوار، انداز تربیت اور دعوتی طریق کار کا پتہ چلتا ہے۔ دین کی سر بلندی کے لیے آپ کی کاوشیں مصائب وآلام برداشت کرنا، پھر جاں فشانی سے اس شجر کی آبیاری کرنا جسے رہتی دنیا تک قائم رہنا ہے۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کوکون سی نعمتوں سے نوازا؟بے شمار معجزات آپ کے ہاتھوں ظاہر کر کے کس قدر عظیم الشان نصرت و تائید سے آپ کو ہمکنار کیا؟ یہ تمام چیزیں سیرت طیبہ ہی کے مطالعے سے معلوم ہو سکتی ہیں لیکن افسوس کہ اس نازک موضوع پر قلم اٹھانے والے حضرات نے اس کی نزاکت کا خیال نہیں رکھا اور نہ صحت و صداقت ہی کا وہ معیار قائم رکھا جس کا یہ فن تقاضا کرتا ہے بلکہ افکار وخیالات اور جذبات واحساسات کے ہاں جو چیز پسند آگئی اسے سیرت طیبہ کے موضوع میں داخل کردیا گیا یہاں تک کہ بعض ایسی چیزیں بھی کتب سیرت میں داخل کردی گئیں جوفطرت اورعقل سلیم کے خلاف اور اصول دین سے ٹکراتی ہیں۔ اس لیے ضرورت تھی کہ اس موضوع پر صاف ستھرا مواد مہیا کیا جائے جس میں راویوں کی چھان پھٹک کا اہتمام کیا گیا ہو اور معیار محدثین کے مطابق اسے پیش کرتے وقت صحت و ثقاہت کا التزام کیا گیا ہو کیونکہ سیرت کے حوالے سے چند واقعات حوادث کا ذکر کردینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کی روشنی میں ایک ایسا نظام مرتب کرنے کی ضرورت ہے جس کے سانچے میں ڈھل کر مسلمانوں کی رفتاروگفتار اور کردار واطوار کو نکھرنا چاہیے اور اپنے پروردگار سے ان کا تعلق درج ذیل آیت کے عین مطابق ہونا چاہیے ۔" یقیناً تمھارے ہراس شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہو۔"(الاحزاب:33۔21)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحتیوں کو بروئے کار لا کر اس موضوع کو اختیار کیا اور اس کا حق ادا کیا ہے۔ آپ نے اس حوالے سے ایک کم دو صد احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سترہ معلق اور ایک سو بیاسی احادیث متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں اٹھہتر(78)مکرراور ایک سواکیس خالص ہیں۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اٹھائیس احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے مروی تقریباً سات آثار بھی پیش کیے ہیں آپ نے ان احادیث و آثار پر اٹھائیس چھوٹے چھوٹےعنوان قائم کر کے اس موضوع کی تکمیل کی ہے۔واضح رہے کہ سیرت طیبہ ایک فکری متاع ہی نہیں بلکہ اللہ کی طرف رجوع کرنے کا واحد راستہ بھی ہے اس کے مطابق زندگی بسر کرنے ہی میں لوگوں کی فلاح و اصلاح پوشیدہ ہے کیونکہ اخلاق و عمل کے میدان میں اللہ کی کتاب ترجمانی کا علمی اور عملی اسلوب یہی سیرت طیبہ ہے۔ اس پر عمل کرنے کے نتیجے میں انسان اللہ کا تابع فرمان اور زندگی کے تمام معاملات اس کے سپرد کرنے کا عادی بن جاتا ہے چنانچہ اس عالم رنگ و بو میں انسان سے اسی بات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطابق اپنے اعمال و کردار اور قول و گفتار کو ڈھالنے کی توفیق دے آمین۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حسب ونسب سے فراغت کے بعد اب اس عنوان کا دوسراحصہ،یعنی سیرت نبویہ کو شروع کیا ہے جس میں نام سرفہرست ہے۔ان دونوں آیات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوناموں کا بیان ہے:محمد باب تفعیل سے مبالغے کا صیغہ ہے جبکہ احمد اسم تفضیل کا صیغہ ہے۔آپ کاپہلا نام احمد ہے کیونکہ یہ پہلی کتابوں میں مذکور ہے اور دوسرا نام محمد ہے جو قرآن کریم میں آیا ہے۔قیامت کے دن سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی تعریف کریں گے اور اللہ تعالیٰ آپ کی سفارش قبول کرے گا،پھر لوگ آپ کی تعریف کریں گے۔
اور اللہ تعالیٰ کا سورۃ احزاب میں ارشاد کہ ” محمد ﷺ تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ہیں اور اللہ تعالیٰ کا سورۃ فتح میں ارشاد کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار کے مقابلہ میں انتہائی سخت ہوتے ہیں اور سورہ ¿ صف میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴾من بعد اسمہ احمدُ﴿یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قول ہے کہ میرے بعد آنے والے رسول کا نام احمد ہوگا۔ باب کا مطلب یوں ثابت ہوا کہ یہاں آیتوں میں آپ کے نام محمد اور احمد مذکور ہوئے ﷺ۔ کفار سے حربی کا فر جو باضابطہ اسلام اور مسلمانوں کے استیصال کے لیے جارحانہ حملہ آور ہوں مراد ہیں کہ ایسے لوگوں کے حملے کا مدافعانہ جواب دینا اور سختی کے ساتھ فساد کو مٹا کر امن قائم کرنا یہ سچے محمدیوں کی خاص علامت ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تم تعجب نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ قریش کی گالیوں اور ان کے لعن و طعن کو مجھ سے کیسے دور کرتا ہے؟ وہ مذمم کو گالیاں دیتے اور مذمم پر لعنت کرتے ہیں جبکہ میں تو محمد ہوں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔کفار قریش شدت عداوت کی بنا پر آپ کو محمد کے نام سے یاد نہ کرتے تھے کیونکہ اس نام سے آپ کی تعریف اور مدح کا پہلو نمایاں ہوتا تھا۔اس کے معنی ہیں بہت اچھی خصلتوں والا۔یہ بات انھیں بہت ناگوارتھی،اس لیے وہ آپ کو محمد کے بجائےمذمم کہتے تھے،حالانکہ آپ کانام مذمم نہیں اور نہ لوگ ہی اس نام سے آپ کو جانتے تھے تو جو کچھ وہ اس نام کے حوالے سے آپ کے متعلق کہتے تھے اللہ تعالیٰ اس کو آپ سے پھیر دیتا تھا،چنانچہ ابولہب کی بیوی کہا کرتی تھی:ہم مذمم سے بغض رکھتے ہیں۔اس کے دین سے انکارکرتے ہیں۔اور اس کے حکم کی نافرمانی کرتے ہیں۔2۔حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں:امام نسائی ؒنے اس حدیث سے استنباط کیا ہے کہ جو شخص ایسا کلام کرے جو طلاق یا فراق کے منافی ہو اور اس سے طلاق کا ارادہ کرے تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔ جیسے کسی نے اپنی بیوی سے کہا تو کھا اور اس سے مراد وہ طلاق لیتا ہے تو عورت مطلقہ نہیں ہوگی کیونکہ کھانے کی تفسیر طلاق سے نہیں کی جاسکتی۔ اسی طرح محمد کی تفسیر کسی نے مذمم سے نہیں کی اس بنا پر مذمم کو بُرا بھلا کہنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی حرف نہیں آئے گا۔ (فتح الباري:682/6)
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "محمد(ﷺ) اللہ کے رسول ہیں اور جولوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفارکے مقابلے میں انتہائی سخت ہیں۔ "اللہ تعالیٰ نے(حضرت عیسیٰ ؑ کی بات نقل کرتےہوئے)فرمایا: "میرے بعد آنے والے رسول کا نام احمد ہو گا۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ، ان سے ابوالزناد نے ، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہیں تعجب نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے قریش کی گالیوں اور لعنت ملامت کو کس طرح دور کرتاہے ۔ مجھے وہ مذمم کہہ کر براکہتے ، اس پر لعنت کرتے ہیں ۔ حالانکہ میں تومحمد ہوں ۔ ( ﷺ )
حدیث حاشیہ:
عرب کے کافر دشمنی سے آپ کو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نہ کہتے بلکہ اس کی ضد میں مذمم نام سے آپ کو پکارتے یعنی مذمت کیا ہوا برا۔ آپ نے فرمایا کہ مذمم میرا نام ہی نہیں ہے، جو مذمم ہوگا اسی پر ان کی گالیاں پڑیں گی۔ حافظ ؒنے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اور بھی نام وارد ہیں جیسے رؤف، رحیم، شاہد، بشیر، نذیر، مبین، داعی الی اللہ، سراج منیر، مذکر، رحمت، نعمت، ہادی، شہید، امین، مزمل، مدثر، متوکل، مختار، مصطفی ، شفیع، مشفع، صادق، مصدوق وغیرہ وغیرہ ۔ بعض نے کہا کہ آنحضرت ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے نام بھی اسماءحسنیٰ کی طرح ننانوے تک پہنچتے ہیں، اگر مزید تلاش کئے جائیں تو سوتک مل سکیں گے ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ۔ مبارک نام محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے بارے میں حافظ صاحب ؒ فرماتے ہیں: أي الذي حمد مرة بعد مرة أو الذي تکاملت فیه الخصائل المحمودة قال عیاض: کان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم أحمد قبل أن یکون محمد کما وقع في الوجود لأن تسمیة أحمد وقعت في الکتب السابقة وتسمیة محمد وقعت في القرآن العظیم و ذلك أنه حمد ربه قبل أن یحمدہ الناس وکذلك في الآخرة بحمدربه فیشفعه فیحمدہ الناس وقد خص بسورة المحمد وبلواءالحمد و بالمقام المحمود و شرع له الحمد بعد الأکل والشرب و بعد الدعاء وبعد القدوم من السفر و سمیت أمته الحمادین فجمعت له معاني الحمد وأنواعه (صلی اللہ علیه وسلم)(فتح الباري) ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "Doesn't it astonish you how Allah protects me from the Quraish's abusing and cursing? They abuse Mudhammam and curse Mudhammam while I am Muhammad (and not Mudhammam)"